ہمہ زمانہ حق وباطل کی معرکہ
آرائی جاری ہوتی ہے ۔ باطل پرستوں کی ریشہ دوانیاں ہمیشہ حق کو مغلوب کرنے
کی کوشش کرتی رہتی ہیں ۔ از آدم تاایں دم یہ سلسلہ جاری ہے ۔
ستیزہ کاررہا ہے ازل سے تاامروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
تاریخ شاہد اور مشاہدات و تجربات گواہ ہیں کہ فتح کا پرچم ہمیشہ حق پسندوں
نے ہی لہرایا ہے ، وہی فتحمندی اور ظفرمندی سے ہمکنا رہوئے ہیں ، تاہم وقتی
کامیابی باطل پرستوں اوربدطینتوں کو بھی نصیب ہوئی ہے ، ان کی ظاہر ی
کامیابی بلکہ چار دن کی چاندنی سے بہت سی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں اوربے
شمار افراد ڈھلمل یقین ہو کر اپنی عاقبت تک برباد کردیتے ہیں ۔ حق دراصل
اسلام ہی ہے ، وہ لافانی اورلاثانی ہے ، اسی کی آفاقیت دودوچار کی طرح عیاں
ہے ،مگر اس کے خلاف بدعقیدوں اورفاسد ذہنوں نے ہردور میں پروپیگنڈہ کیا ہے
، اس کے دامن عفت کو تارتارکرنے کی ناپاک سازشیں کی ہے ، اسلامی تعلیمات و
مقدسات کی پامالی کے لئے فی زمانہ سرگرم عمل رہے ہیں ، آج بھی ہرمحاذ پر
اسے نیچا دکھانے کی تدبیریں ہورہی ہیں ، اہل اسلام کو ہدف ملامت بنایاجارہا
ہے ، اس کے شیدائیوں کو شکوک و شبہات میںمبتلاءکرنے کے منصوبے بن رہے ہیں ۔
لیکن معاندینِ اسلام کی بنی بنائی ہر اسکیم ناکام ہوجاتی ہے، ان کے ہر
منصوبے عملی جامہ پہننے سے پہلے ہی دم توڑ نے لگتے ہیں ، ان کی تمام تر
تدبیریں الٹی پڑنے لگتی ہیں ، لہذا بے ساختہ یہ شعر زبان زد ہو جاتا ہے
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی ابھرے گا جتناکہ دباؤ گے
یورپ و امریکہ بلکہ پوری دنیا نے اسلامی عقائد اورمعاشرت کے خلاف متحدہ علم
بلندکردیا ہے ، اسلام کی شبیہ مسخ کرکے اسلام سے متنفر کرنے کے لئے لائحہ
عمل تیار کرلیا ہے ،مگر اسلام ہے کہ سدا پھیلتا ہی جارہاہے ، ان کی ہزار
کوشش بھی کارگر ثابت نہیں ہورہی ہے ۔ امریکہ سے جاری ایک رپورٹ سے بھی عیاں
ہوتا ہے کہ دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کے باوجود بھی دائرہ اسلام وسیع تر
ہوتا جارہاہے ، سرمایہ کارانہ نظام فیل ہوگیا ہے ، مسلمانوں کے خلاف وہاں
کی حکومت کی ڈپلومیسی ثمر آور نہیں ہورہی ہے۔ امریکہ کے مذہبی اداروں کی
شماریاتی تنظیم کے مطابق 2010 میں مسلمانوں کی تعداد بڑھ کر 26لاکھ ہوگئی
ہے ، جبکہ 2000میں یہ تعداد امریکہ میں صرف 10لاکھ ہی تھی ، پورپ وامریکہ
کے مادیت پسندانہ ماحول میں شبانہ روز اسلام کی نشر واشاعت ہورہی ہے ،
اسلامی کی طرف سکون قلبی کی خاطر کشا ں کشاں بے شمار افراد کھنچتے چلے آرہے
ہیں ، اس طرح امریکہ کا بنا بنا یا کھیل ناکام ہوتا جارہا ہے ، یہی وجہ ہے
کہ امریکہ کے مغربی اور جنوبی علاقوں میں پہلی مرتبہ یہودیوں کی تعداد میں
کمی آئی ہے ، اسی طرح عیسائی پیروکاروں میں بھی عیسائیت بیزاری کا عنصر
پایا جارہا ہے ۔
فی الواقع یہ رپورٹ مخالف اسلام کے لئے دردِ سر ہے اور یہ سبق بھی کہ باطل
خواہ کسی وقت کتنا ہی زور آور ہوجائے ، اس کے لئے یقینا زوال ہی زوال ہے ۔
حق ،حق ہے ۔باطل ، باطل ہے ۔ دونوں کی معرکہ آرائی ہر ایک کے لئے درس عبرت
ہے ۔ اس رپورٹ کے تنا ظر میں معاندین اسلام اور خود اسلام بیزار مسلمانوں
کے لئے غور وفکر کا سامان ہے ، اگر سچے دل سے غور وفکر کیا جائے تو سکون
قلبی کی بے شمار باتیں سامنے آئےں گی اورباطل پرستوں کے لاتعدادسوالات کے
جوابات بھی از خود مل جائیں گے ۔
فاسد ذہنیت اور باطل پرستوں میں بالعموم یہ بات جم گئی ہے کہ فروغ ِ اسلام
میں تلوار کا ہی اہم کردار رہا ہے ،اس کی نشر واشاعت میں جنگ وجدل اور جبر
واکراہ کی ہی کرشمہ سازی رہی ہے ۔ ایسے افراد سچے دل سے سوچیں کہ کیا
امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد میں جواضافہ ہوا ہے ، ا س میں بھی قتل و قتال
کا کردار ہے ؟کیا شیدائے حرم نے امریکیوں کو قبولِ اسلام پر مجبور کیا ہے ؟کیاتلوار
کے زور پر امریکہ میں اسلام کی اشاعت ہوئی ہے ؟یا خود نیک نفوس میں سچائی
قبول کرنے کا داعیہ پید اہوا؟فرانس ، جرمن اور امریکہ وغیرہ میں تواسلامی
تہذیب وتمدن اپنا نے پر حکومت کی جانب سے بندش عائد کی گئی ،اسلامی تعلیمات
کی پامالی کی گئی ،مگر دائرہ اسلام وسیع تر ہوتاگیا ، اسلامی شعائر کو سینے
سے لگانے کی پاداش میں نہ جانے کتنے مسلمانوں کو اذیتیں دی گئیں ،مگر ان
اذیتوں اور تکلیفوں سے حوصلے پست نہیں بلکہ اسلام کے گوشہ عافیت میں پناہ
لینے کے لئے لو گ آگے بڑھتے رہیں ۔
چند دنوں قبل الشیربینی نامی مصری خاتون کو جرمن کی عدالت نے اسکارف اوڑھنے
کی وجہ سے جرمانہ عائد کردیاتھا ، مذہبی شعار اپنا نے پر ایکسل نامی فرد
اسے نشانہ تنقیدبناتا تھا ، اس کی زندگی قیامت بن گئی تھی یہ قضیہ عدالت
پہونچاکہ الشیربینی پر جرمانہ عائد کردیا گیا ،مگر یہ مصری خاتون اسلام پر
جمی رہی ، جرمنی باشندوں کی بھپتیوں سے اسلام ترک نہیں کیا ، بلکہ یہ سبق
دیا کہ اسلام کی حکمرانی دل پر ہوتی ہے ، دنیا کی تما م چیزیں اس کے سامنے
ہیچ ہیں ، ایک دن جرمن کی بھری عدالت میں ایکسل نامی اسی فرد نے چھری سے
کئی ایک وار کرکے اسے قتل کردیا ، جب اس کے شوہر نے مزاحمت کی تو اس پر بھی
حملہ کیا گیا ۔
اس طرح کساس شہر میں حالیہ دنوں ایک نومسلم خاتون کے ساتھ بہیمانہ سلوک
کیاگیا ، تعصب اور بے عزتی کی شکاراس خاتون کو جیوری نے 50لاکھ ڈالر ہرجانہ
دئے جا نے کا فیصلہ سنایا ہے ۔ 41سالہ سوسن شہر کا کہنا ہے کہ اس کے مسلمان
ہونے کے بعد اس کے سپر وائزروں نے جارحانہ اور متعصبانہ برتاؤ کرنا شروع
کردیا تھا ، حتٰی کہ ایک دن اس کے سر سے اسکارف نوچ کر بے عزتی کی گئی ۔
کہنے کا دراصل مقصد یہ ہے کہ ایسی ایسی نازیبا ںحرکتوں اور تکلیفوں کے
باوجود بھی نازک اندام عورتیں بھی اسلام سے ٹس سے مس نہیں ہوتی ہیں ، تمام
تر کلفتوں کے باوجود بھی غیر مسلموں میں اسلام قبول کرنے کا داعیہ پیدا
ہوتا ہے ، وہ اسلام کے گوشہ عافیت میں پنا ہ لیتے ہیں،یہ تما م باتیں اسلام
کی حقانیت کی دلیل ہی تو ہے ۔ یہ تو معدودے چند واقعات ہیں ، ورنہ تو بے
شمار مثالیں ہیں ۔ ان تمام باتوں سے جب یہ واضح ہوتا ہے کہ حالیہ دنوں کے
قبول اسلام میں تلوار کا کردار نہیں ہے تو عہد رسالت اور صحابہ میں کیسے
تلوار سے اسلام کی اشاعت ہوئی ہوگی ، حالانکہ ان کے اخلاق زبردست تھے ۔
اسلام بیزار مسلمانوں کے لئے مذکورہ رپور ٹ میں سبق کچھ یوں ہے کہ اہل پورپ
و امریکہ سکون قلبی کی خاطر اسلام کے گوشہ عافیت میں پناہ لیتے ہیں ،
اسلامی شعائر کو اپنا کر خوشی ومسرت کا اظہاکرتے ہیں تو ان کو یہ کیسے زیب
دیتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیں اور مغرب کے دلدادہ ہوجائیں ۔
اسلام حق ہے ،ہمیشہ حق رہے گا ، کسی کا اسلام قبول کرنا یا نہ کرنا اس کی
حقانیت کی دلیل نہیں ہے ، البتہ اتنی بات تو بلا خوف وتردید کہی جاسکتی ہے
کہ اسلام بیزار افراد کم از کم شبانہ اسلام کی نشرواشاعت پر ہی غور وفکر
کریں کہ غیرمسلم اسلام آخر کیوں قبول کررہے ہیں ،کم سے کم وہ اسلام کے
ماننے والوں کی بڑھتی تعداد سے ہی کوئی سبق لیں کہ جب اسلام کے مقد س
آشیانہ میں انہیں سکون ملتا ہے تو مسلمانوں کو مغربیت کے دلدادہ ہونے میں
کہا ں مسرت نصیب ہوگی ۔
بلاشبہ یہ خوشی ومسرت کی بات ہے کہ مخالف ماحول میںبھی قبول ِاسلام کا
سلسلہ جاری ہے ، تاہم یہ سوال بھی انتہائی توجہ طلب ہے کہ آج کیا
مسلمانوںکی موجودہ تہذیب وتمدن اوررہن سہن سے متاثر ہوکر کوئی قبول اسلام
کے لئے پیش قدمی کرتا ہے ؟مسلمانوں کے اخلاق سے متاثر ہوکر کتنے افراد
اسلام اپنانے پرمجبور ہوتے ہیں ؟کتنے غیر مسلم مسلمانوں کے معاملات اوربہتر
سلوک کے مدنظر اسلام کے قائل ہوتے ہیں ؟یہ ایک المیہ ہے ، مسلمانوں کے لئے
فکر کا موضوع ہے، اپنے گریبان میں منہ ڈال کر سوچنے کا موضوع ہے ۔ حقائق پر
نگاہ ڈالنے سے یہ سامنے آتا ہے کہ آج کلی طور پر کوئی بھی مسلمانوں کے
اخلاق سے متاثر نہیں ہوتا ہے ، مسلم معاشرہ سے کسی کو کوئی سبق نہیں ملتا
ہے ، مسلمانوں کے معاملات اور آپسی لین دین سے کوئی بھی مسلمان ہونے کی پیش
رفت نہیں کرتاہے ، بلکہ ان کے اخلاق و معاملات اس قدر روبہ زوال ہے کہ ہر
ایک متنفر ہوتاہے ۔ مخالف ماحول میں قبول اسلا م کی دراصل وجہ سکون قلبی کی
تلاش میں سرگرداں افراد خود اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں ، نبوی تعلیمات
کاجائزہ لیتے ہیں ، چنانچہ انہیں اسلام میں گوشہ عافیت نظر آتاہے اور مشرف
بہ اسلام ہوجاتے ہیں ۔ اس اخلاقی زوال کے ماحول میں اسلا م کے تعارف کے لئے
مسلمانوں کو حسن اخلاق کاپیکر بننا بہت ضروری ہے ۔
مسلم معاشرہ میں اصلاح کی خاطر اس صفت کا پایا جانابھی ضروری ہے کہ اگر کسی
کے مشرف بہ اسلام ہونے سے جتنی خوشی ہوتی ہے ، اتنی کفت اس وقت بھی ہوجب کہ
کوئی مسلمان اسلامی تعلیما ت سے بے اعتنائی برتے ، اسلامی شعائر کا مذاق
اڑائے ۔ اس صفت سے متصف ہونے کا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ہمارے معاشرہ کی
اصلاح ہوگی اور غیرووں میں اسلام کا اچھا پیغام جائے گا ، چنانچہ مخالف
اسلام کے نہ چاہنے کے باوجود بھی قبول اسلام کے واقعات میں زیادتی ہوگی ۔
یہ بات بھی توجہ کی طالب ہے کہ امریکہ وپورپ وغیرہ میں اسلام کے ماننے
والوں کو بنیا د پرست کہاجاتا تھا ، مسلمانوں کو دہشت گرد گر دانا جاتا تھا
، بے شمار امریکی مسلمانوں کو ترچھی نگاہوں سے دیکھتے تھے ، مگر امریکی
وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کویہ کہنے پر کہ امریکہ اسلام مخالف ہے ، ا ظہار
افسوس کرنا پڑتاہے ۔ حالیہ دنوں بنگلہ دیش کے دورے پر آئیں محترمہ کلنٹن کا
کہنا ہے کہ مجھے یہ سن کر تکلیف ہوتی ہے امریکہ اسلام مخالف ہے ۔ یہ بات جگ
ظاہر ہے کہ امریکہ اسلام مخالف ہے ، مگر سوچنے کی بات ہے کہ مسلمانو ں کے
تئیں امریکیوں کی جو ذہنیت تھی ، وہ صاف ہورہی ہے ، اس میں ذرا تبدیلی آرہی
ہے۔ یعنی اس حق وباطل کے معرکہ میں اب امریکہ الٹے قدم واپس ہونے لگا ہے ،
اسلام کو دبا نے کی اس کی ہر کوشش ناکام ہورہی ہے ۔ واقعی کہنے والوں نے صد
فیصد سچ کہا ہے
اسلام وہ پودا ہے کاٹو تو ہرا ہوگا |