اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام
نے مسلسل جمہوری حکومتوں کے ادوار سے سبق سیکھ لیا ہے کہ جب جب موجودہ نظام
میں جمہوری حکومتیں بر سر اقتدار میں آئیں گی وہ عوام کیلئے اندھی آنکھیں
اور گونگی زبان ثابت ہوئیں ،انہیں ہر بار اپنی ڈات اور پارٹی کے مفادات کے
علاوہ کچھ بھی سجائی نہیں دیتا رہا ہے۔یہ پاکستان کا المیہ ہے کہ پاکستان
کے وجود میں آنے کے بعد یکے بعد دیگرے مخلص، سچے، ہمدرد سیاستدان ہمیشہ
کیلئے اس قوم کو تنہا چھوڑ گئے۔ خود غرض، لالچی، مفاد پرست، ظالم و جابر
سیاستدان تو بیٹھے ہی تھے کہ کب یہ اصولوں پر پابند سیاستدان ان کے راستوں
سے ہٹھیں اور کب یہ پاکستان کے نظام اقتدار میں داخل ہوں ۔ قائد اعظم محمد
علی جناح ، لیاقت علی خان کے بعد سے پاکستان میں سیاسی انتشار پیدا ہوگیا
اور اندرونی و بیرونی طاقتوں نے اپنے سیاسی پنجے گاڑنے شروع کردیئے۔ سقوط
ڈھاکہ کا واقعہ مخالفین اور دشمنوں کے وار کی ناقابل فراموش تاریخ ہے جس نے
پاکستان کے ٹکرے کرکے اس وطن عزیز کو کمزور کرنے کی کوشش کی ۔سیاسی انارکی
کے بد نما اثرات ایسے نمودار ہوئے کہ پے در پے فوجی حکومتوں نے اقتدار
سنبھالا۔ یہ حقیقت ہے کہ افواج کا کام ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے نا کہ
اقتدار میں رہ کر قوم کو مغلوب بنا ڈالنا۔ میں کہتا ہوں کہ اس کے اصل قصور
وار یہی سیاستدان ہیں کیونکہ جب تک تمام سیاستدان ذاتیات، مفادات سے بالاتر
ہوکر خالصتا ً ملک و قوم کی بھلائی کا عزم ٹھان نہیں لیتے اُس وقت تک یہ
قوم پستی رہے گی۔ نعرﺅں اور جلسوں سے مسائل ہرگز ختم نہیں ہوتے ، ترقی و
خوشحالی کیلئے عملی جامع اختیار کرنا پڑتا ہے وزارت کے اعلیٰ منصب سے لیکر
ادنیٰ شہری تک ۔۔پاکستان اس وقت حالت جنگ سے گزر رہا ہے جو کئی اطراف سے
جاری ہیں۔۔۔۔اقتصادی و معیشت، پیداوار، توانائی، داخلی و خارجی، بیروز گاری،
عدم تحافظ، لا قانونیت اور دینا کی بڑی حکومتوں کے سیاسی جنگ و جدل ۔۔۔۔
پاکستان کا المیہ رہا ہے کہ اسکا نظام ریاست انتہائی بے سود، فرسودہ اور
ناکارہ ہے جسے مکمل طور پر تبدیل کرنا نا گزیر بن چکا ہے ہماری ترقی کی
بندش بھی اسی نظام کی وجہ ہے۔ موجودہ نظام ریاست سے سب سے زیادہ سیاستدانوں
کو فائدہ حاصل رہا ہے اسی بابت ان کی گرفت ممکن نہیں ہوسکی ہے۔ حقیقت تو یہ
ہے کہ نظام کی تبدیلی میں سب سے اہم پہلو الیکشن کے طریقہ کار کے عمل کو
درست کرنا ہے تاکہ عوام الناس کے وہ امیدوار جنھیں منتخب کرنا چاہیں بغیر
کسی دباﺅ اور دھاندلی کے حصول ممکن بن سکے ،اس کے لیئے نادرا سے منسلک کرکے
ڈیٹا اور ساتھ ساتھ انگوٹھے اور آنکھ کا اسکینگ بھی لازم قرار دیا جائے
تاکہ دھاندلی کا ناممکن کی حد تک پہنچا دیں اور خالصتاً عوامی منتخب کردہ
نمائندے ہی کامیاب ہوسکیں ۔۔ عدلیہ اور انتظامیہ کی انتہائی مخدوش حالت کا
سدھار لازم بن چکا ہے کیونکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ اور ان کے تمام جسٹس
صاحبان اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان بھر کے تمام سیشن کورٹ، سٹی کورٹ ،
ہائی کورٹ میں پیش کار اور دیگر ملازمین اپنی تنخواہ سے کہیں زیادہ رشوت کی
مد میں کماتے ہیں اسی وجہ سے تاریخ پر تاریخیں عائد کرنے کا لا منتاہی
سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب انتظامیہ اور پولیس نے تمام حدود پار کرلی ہیں
جو قانونی تقاضوں سے مبرا ہیں ، افسران بالا کی بے جا عیش و تعائش کے حصول
کو ہر ممکن بنانا چاہے اس کیلئے قانون شکنی ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ اپنے
اختیارات کو کمزور اور شرفاءلوگوں کی ہتک عزت پر اختیار کرنا، معاشرے میں
پر گندگی پھیلانا گو کہ ہر پہلو سے مال و دولت کو جمع کرنا ان کی سرزش کا
حصہ بن چکا ہے ۔ ۔۔تعلیم ہو یا صحت دونوں اداروں کا دنیا میں اگر بگاڑ
دیکھنا ہو تو پاکستان چلے آﺅ۔یہ مقدس ادارے کسی جابر و ظالم ڈاکو اور
لٹیروں سے کم نہیں نظر آئیں گے بلکہ دیکھنے والے ان کے ستم پر اپنی آنکھوں
پر سیاہ پٹی باندھ لیں گے کیونکہ تعلیم اور صحت یہاں امرا کیلئے موجود ہے ،
عام شہری اچھی صحت اور تعلیم کیلئے ترستا اور ٹھوکریں کھاتا نظر آئیگا۔۔۔۔۔
سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں کی حالت پر کیا بات کیا جائے یہ تو نمونہ
بنادیئے گئے ہیں بیرونی امداد کے حصول کیلئے۔۔ پاکستان میں نجی اسکولوں کی
من مانیاں عروج پر ہیں کیونکہ ان کی تنظیمیں وزیر تعلیم کو بھاری رشورت
عنایت کرکے خاموش اور نظر انداز پر پانبد کردیا گیا ہے ہونا تو یہ چاہئے
تھا کہ وزارت تعلیم کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے نجی تعلیمی ادارے ،اپنے
ادروں کو قوم میں بہتر تعلیم و شعور بیدار کرنے کا مرکز بناتے لیکن دکھ کی
بات تو یہ ہے کہ اب یہاں اس سے بہتر کاروبار کوئی نہیں، پاکستان میں تعلیم
انتہائی مہنگی اور خراب ہے۔ جب تک سرکاری تعلیمی اداروں کا سدھار بہتر نہ
کیا جائیگا اس وقت تک عام شہری اپنے بچوں کو سرکاری اداروں میں نہیں بھیجے
گا۔ 1970ءکی دہائی سے پہلے سرکاری تعلیمی ادارے ہی تھے جہاں بے مثال ، اعلیٰ
ترین، قابل ، ذہین اساتذہ کرام سے تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلم اس ملک
کیلئے انتہائی سود مند ثابت ہوتے تھے ۔آج بھی ہمارے ہاں بہترین سائنسدان،
انجینئرز، ڈاکٹرز ، اسکالرز، فلسفی، مصور، اداکار، صداکارگو کہ ہر شعبہ
ہائے زندگی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے سر کاری
مدارس سے تعلیم حاصل کی تھیں ۔پاکستان میں نجی تعلیمی اداروں کو اخلاقی
پابندیوں میں عائد کرنے کی ضرورت ہے جس میں ماڈرن سسٹم کی آڑ میں اسلامی
تہذیب اور اخلاقیات سے سور کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ فیسوں کی مد میں بیش
بہا اضافہ کی روک تھام بنانے کی ضرورت ہے اور درس تعلیم کے نظام کو بہتر
اور آسان انداز میں اپنانے کی ضرورت ہے۔ اگر نجی ہسپتالوں کی بات کی جائے
تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ وہ اسپتالوں کے نام پر انسانی لاشوں کی گنتی کا
مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں اس کے کئی محرکات ہیں جن میں داخلے اور آپریشن کی
بر وقت فیس ادا نہ کرنا، نا اہل ڈکٹروں کی بھرتی ہونا، جا بجا معمولی مرض
کیلئے بے شمار ٹیسٹ کا لاگو کرنا گو کہ اسپتال کی انتظامیہ کی کوشش ہوتی ہے
کہ مریض سے جس قدر ہوسکے لوٹ لیا جائے اگر موت واقع ہوجائے تو مردہ کی بے
حرمتی کی حد تک چلا جائے تاکہ لواحقین کسی نہ کسی طرح مطلوبہ رقم جمع
کرائیں ۔ حکومت پاکستان نے کبھی بھی نجی اداروں کو اخلاقی پابندیوں میں
نہیں رکھا اسی بابت نجی ادارے انتہائی آزادانہ ماحول کو غیر اخلاقی آخری
حدود تک چلے جاتے ہیں۔موجودہ دور حاضر کے بگڑتی معاشی و اقتصادی صورت حال
کے پیش نظر صحت اور تعلیم کے نجی اداروں پر پابندی با گزیر بن چکی ہے ۔۔ ان
اداروں کی درستگی کیئے بغیر پاکستان اور پاکستانی قوم ہر گز ترقی کی راہ پر
گامزن نہیں ہوسکے گی ،کسی بھی ملک اور قوم کی خوشحالی کی بنیاد اچھی اور
اعلیٰ صحت و تعلیم ہوتی ہے جو بہتر ماحول اور معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی پر
مبنی ہوتی ہے اگر بنیاد ہی کمزور اور لاغر ہو تو عمارت کا کیا حال ہوگا؟ ۔۔پاکستان
بالخصوص کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور ، کوئٹہ، حیدرآباد، ملتان، سکھر،
فیصل آباد، سیالکوٹ، میرپورخاص، بدین، بہاولپور، گجرانوالہ، گجرات، رائےونڈ،
خیرپور، نواب شاہ،شہداد پور، ٹنڈو آدم، ٹھٹھہ، لاڑکانہ، جیکب آباد اور دیگر
شہروں میں درمیانے طبقے کے لوگوں کا سر چھپانا محال ہوگیا ہے ، درمیانے
طبقے یعنی مڈل کلاس کے لوگ ایک تحقیق اور سروے کے مطابق انکم ٹیکس ،
یوٹیلیٹی ٹیکس اور دیگر ٹیکس با قائدگی سے ادا کرتے ہیں اور ان میں اکثر
تعداد سرکاری ملازمین کی ہوتی ہے اور باقی کثیر نجی اداروں سے تعلق رکھتے
ہیں، شب و روز محنت و مشقت کے باوجود بنیادی ضرورتوں کا حصول مشکل ہوگیا ہے
جبکہ اسی طبقے کے گھرانے کے تمام افراد کام کرتے ہیں۔ گزشتہ دس سالوں میں
زمین اور رہائش اس قدر بڑھ گئی کہ خرید تو کجا کرایہ بھی محال بن گیا۔
کراچی شہر جو پاکستان کا دل بھی مانا جاتا ہے یہاں آئے روز لینڈ مافیہ کی
پشت پناہی میں سرکاری و نجی زمینیں قابض کی جاتی ہیں خاص کر وہ لوگ انتہائی
مشکل میں گر جاتے ہیں جو باقائدگی کے ساتھ اپنی محنت کی رقم جمع کراتے ہیں
اس خواب و خیال کے ساتھ کہ اپنے کنبہ کیلئے ایک آشیانہ بناسکیں یا لے سکیں
لیکن دیکھا جارہا ہے کہ لینڈ مافیا سیاسی پشت پناہی کے سبب انتہائی نہ صرف
طاقتور ہوگیا ہے بلکہ قتل و غارت گری کے بازار میں لاشوں کا سماں باندھ تا
جارہا ہے ۔ یوں تو کراچی کے منتخب نمائندے میڈیا میں لینڈ مافیا کے خلاف
بیانات دیتے نظر آتے ہیں مگر عملی نتیجہ نظر نہیں آتا اور دوسری طرف اے این
پی ا ن گروہ کی پشت پناہی کرتی نظر آتی ہے جو جرائم اور لوٹ مار کو اپنا
شیوہ سمجھتے ہیں اگر یہ دونوں جماعتیں خالصتاً ایمانداری کے ساتھ لینڈ
مافیا کے خلاف حقیقی آپریشن کریں تو ممکن ہے مڈل کلاس کا طبقہ سنبھل جائے
اور انہیں مناسب قیمت پر زمین، مکان اور کرایہ حاصل ہو سکے گا۔موجودہ دور
حاضر میں بلڈرز صوبائی حکومتوں کی تمام شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے این او سی
حاصل تو کرلیتے ہیں مگر آج تک ان پر کاربند ہوتے نظر نہیں آئے، اگر کوئی
صارف انتہائی مجبوری کے باعث کسی بھی بلڈرز کے خلاف عدالت میں رجوع کرتا ہے
تو وہ تمام زندگی فیصلے کے انتظار میں گزار دیتا ہے کیونکہ ہمارے عدلیہ کے
نظام میں اس قدر پیچیدگیاں ہیں کہ ہر قدم پر رشوت کی خون آلودہ تیز دھارے
کی مانند سلاخیں سائل کے قدموں کو لہو لہان کر ڈالتی ہیں اور سائل فریاد در
فریاد کرتا ہے مگر بغیر رشوت اس کی سنائی نہیں ہوتی پھر کس طرح اس اسلامی
جمہوریہ پاکستان میں ممکن ہوسکتا ہے انصاف کا بہم ہونا۔ ہماری تجارت کا بھی
کوئی بہتر حال نہیں کیونکہ منافع کی دوڑ نے انہیں اوندھا کرڈالا ہے ، ایسا
صرف کی قیمتوں میں اس قدر ہوشربا اضافہ کردیا گیا ہے کہ صارف کی پہنچ نہ
ممکن ہوگئی ہے، مانا کہ حکومت کی جانب سے کبھی پیٹرول تو کبھی کوئی ٹیکس
عائد ہوجاتا ہے اور ساتھ ساتھ رشوت کی مد میں حملہ کیا جاتا ہے مگر ہمارے
تاجر اس کا بدلہ سود کے ساتھ صارف یعنی عوام سے لیتے ہیں جس میں چند روپے
یا پیسے کے اضافے کے باعث یہ عوام سے کئی سو یا پھر ہزاروں پر مبنی قیمتوں
میں اضافہ کرکے وصول کرتے ہیں اور پھر بھی رونا روتے ہیں کسی کو بھی عوام
کی پریشانی اور تکلیف کا احساس نہیں۔۔۔
زمیندار اپنی زمینوں میں محکمہ انہار سے جو پانی وصول کرتا ہے اس کی نہ
قیمت ادا کرتا ہے اور نہ ٹیکس دیتا ہے ، خالصتاً فصل پر منافع حاصل کرتا
ہے، یہاں اس بات کو بھی رد نہیں کرسکتے کہ پاکستان کے صوبوں میں محکمہ
انہار کی جانب سے پانی کی تقسیم انتہائی غیر مناسب اور جانبدارانہ ہے ۔
تمام زمیندار اپنی اعلیٰ اجناس کو بیرونی مارکیٹ میں فروخت کردیتے ہیں اور
پاکستان میں مصنوعی بحران پیدا کرکے مزید مہنگا فروخت کرتے ہیں اس سلسلے
میں حکومتی ذمہ داران کی جیبیں بھر کر خاموشی کی کنڈی لگا دیتے ہیں اور
عوام سڑکوں ، شاہراہوں اور میڈیا میں صرف احتجاج کرتی نظر آتی ہے جس سے
کوئی خاطر خواہ نتیجہ بر آمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ بیشتر غربت کے باعث کہیں
بچوں کو فروخت کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں خود سوزی تو کہیں بے راہ روی کی
راہ پر چل پڑتے ہیں تو کہیں جرائم میں ملوث ۔ موجودہ دور میں پورا پاکستان
عدم تحفظ ، مہنگائی، ظلم و ستم، ناانصافی، اقربہ پروری، دھوکا دہی، فریب ،
جھوٹ اور دین اسلام کی اصل روح سے کوسوں دور نظر آتا ہے ۔ یاد رکھیئے ایسے
حالات اللہ اور اس کے حبیب کو ناراضگی کا باعث بن سکتے ہیں ، ڈر ہے کہ کہیں
بھونچال نہ آجائے اگر آگیا تو پھر کوئی نہ بچ پائے گا ۔ اللہ پاکستان کا
حامی و ناظر رہے آمین - |