مصری صدارتی انتخابات: اخلاقی قدریں اور جھوٹی تشہیر
(Ishteyaque Alam Falahi, )
ڈاکٹر صلاح الدين سلطان
ترجمہ:اشتیاق عالم فلاحی
ہم ایک ایسے مرحلے میں ہیں جہاں ایک مشکل امتحان میں ہمارے اسلامی،عربی اور
انسانی اخلاق کا اظہار ہوگا۔ اس موقع پر لوگ منقسم ہوجائیں گے جیسا کہ ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے:
"لوگ سونے اور چاندی کے کان کی طرح ہوتے ہیں، ان میں جو جاہلیت میں بہتر
ہوتے ہیں وہ اگر تفقہ والے ہوں تو اسلام میں بھی بہتر ہوتے ہیں" چنانچہ میں
مصر کے صدارتی انتخابات یا کسی اور انتخاب میں تشہیر کے بجائے تنویر کا
راستہ اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہوں کیونکہ نفس تو اس پر اکساتا ہے کہ
دوسروں کی تحقیر اور اپنی تشہیر کی جائے، دوسروں کی لاش پر اپنی عظمت کا
جھنڈا گاڑے۔ اللہ کے راستے میں ہم اگر پر عزم جد و جہد کر رہے ہیں تو منزل
مقصود کے حصول کے لیے ہر وسیلہ ہم اخیار کریں یہ جائز نہیں ہے۔ حرام کے بطن
سے خیر نہیں جنم لے سکتا۔ ابتدائی مرحلے کی خرابی انجام کو بگاڑتی ہے۔
صداتی انتخابات کی دوڑ میں ہونے والا نقصان کبھی بھی اس نقصان کے برابر
نہیں ہو سکتا کہ ہم اس اخلاقی عمارت کو ڈھا دیں جس کے بارے حضرت ابو ہریرہ
رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق ہمارے نبی صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے:
"إنما بعثت لأتمم مكارم الأخلاق" ﴿مجھے اسے لیے بھیجا گیا ہے کہ میں مکارم
اخلاق کی تکمیل کروں﴾۔
ہر امیدوار کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی مہم کے دوران مصر کی تعمیر و ترقی کے
لیے اس کے پاس جو منصوبہ اور لائحہٴ عمل ہے اس پر پوری روشنی ڈالے۔ مصر کو
خوف و دہشت کے ماحول سے امن و امان کی طرف، صارفیت سے پیداواریت کی طرف،
درآمدات سے برآمدات کی طرف، محتاجی سے دوسروں کی خبر گیری کی طرف، بے
پروائی سے ذمہ دارانہ روش کی طرف، پسپائی سے پیش قدمی کی طرف، کینہ پروری
سے نرم خوئی کی طرف، طبقہ واریت سے عوام دوستی کی طرف، بدعنوانی سے شفافیت
کی طرف، ناخواندگی اور جہالت سے منصوبہ بند علم کی طرف، انتشار و اختلاف سے
اتحاد و الفت کی طرف، مذموم عصبیت سے پرجوش بھائی چارہ کی طرف، سماجی بگاڑ
سے مثالی اسلامی خاندان کی طرف، فقر و مسکنت سے مالداری و غمگساری کی طرف
اور بے جا رد عمل سے دور رس منصوبوں کی طرف لے جانے کےلیے اس کے پاس کیا
منصوبہ ہے اس کی وہ وضاحت کرے۔ یہ ترقی کے وہ نکات ہیں کہ ان میں سے ہر
پہلو پر کیا اقدامات ہونے ہیں، ان کی اگر وضاحت کی جائے تو مہم کے تمام
ایّام بھی ناکافی ہوں گے، خاص طور پر اس صورت حال میں جب کہ پبلسٹی کی مہم
تین ہفتوں سے زائد نہیں ہوگی۔ اس عرصہ میں ایک ایسے وسیع و عریض علاقہ میں
مہم چلانی ہے جس کا رقبہ ہزاروں کیلومیٹر سے زائد ہے، جو 27 اضلاع پر مشتمل
ہے، جہاں نو کروڑ انسان بستے ہیں، ان میں سے تقریباً پانچ کروڑ رائے دہندے
ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تنویر کو چھوڑ کر اگر کوئی دن و رات میں ایک پل
کے لیے بھی تشہیر کا راستہ اختیار کرتا ہے تو گویا وہ اپنی دنیا اور آخرت
دونوں تباہ کر رہا ہے کیونکہ تشہیر کا مطلب ہے کہ انسان صدق روی کی قدروں
کو چھوڑ کر کذب و بہتان نصیحت کو چھوڑ کر فضیحت اوررضا اور غضب ہر حال میں
عدل کے بجائے ہر دو حالتوں میں ظلم کا راستہ اختیار کرے گا۔ اور ظلم قیامت
کے دن تاریکی ہے۔
قرآن کریم نے ہمیں اس بات کی تعلیم دی ہے کہ فریق مخالف خواہ غیر مسلم ہو
اس کے ساتھ ہم انصاف کریں۔ جب ایک یہودی اور ایک مسلم میں اختلاف ہوا اور
مسلم نے نبی صلى الله عليه وسلم کے پاس جا کر یہودی سے اپنے اختلاف کے
سلسلہ میں صحیح،غلط باتیں بیان کی اور قریب تھا کہ نبی صلى الله عليه وسلم
یہودی کے بجائے مسلم کے ساتھ ہمدردی کا معاملہ کریں کہ سورہٴ نساء کی سات
آیات نازل ہوئیں: "إنا أنزلنا إليك الكتاب بالحق لتحكم بين الناس بما أراك
الله ولا تكن للخائنين خصيما واستغفر الله" سے شروع ہو کر "وكان فضل الله
عليك عظيما" تک ﴿ اے نبیؐ! ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمہاری طرف نازل کی ہے
تاکہ جو راہ راست اللہ نے تمہیں دکھائی ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان
فیصلہ کرو تم بد دیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے والے نہ بنو، اور اللہ سے در
گزر کی درخواست کرو، وہ بڑا درگزر فرمانے والا اور رحیم ہے، جو لو گ اپنے
نفس سے خیانت کرتے ہیں تم اُن کی حمایت نہ کرو اللہ کو ایسا شخص پسند نہیں
ہے جو خیانت کار اور معصیت پیشہ ہو، یہ لو گ انسانوں سے اپنی حرکات چھپا
سکتے ہیں مگر خدا سے نہیں چھپا سکتے وہ تواُس وقت بھی اُن کے ساتھ ہوتا ہے
جب یہ راتوں کو چھپ کر اُس کی مرضی کے خلاف مشورے کرتے ہیں اِن کے سارے
اعمال پر اللہ محیط ہے، ہاں! تم لوگوں نے اِن مجرموں کی طرف سے دنیا کی
زندگی میں تو جھگڑا کر لیا، مگر قیامت کے روز ان کی طرف سے کون جھگڑا کرے
گا؟آخر وہاں کون اِن کا وکیل ہوگا؟ اگر کوئی شخص برا فعل کر گزرے یا اپنے
نفس پر ظلم کر جائے اور اس کے بعد اللہ سے درگزر کی درخواست کرے تو اللہ کو
درگزر کرنے والا اور رحیم پائے گا مگر جو برائی کما لے تو اس کی یہ کمائی
اُسی کے لیے وبال ہوگی، اللہ کو سب باتوں کی خبر ہے اور وہ حکیم و دانا ہے،
پھر جس نے کوئی خطا یا گناہ کر کے اس کا الزام کسی بے گناہ پر تھوپ دیا اُس
نے تو بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بار سمیٹ لیا، اے نبیؐ! اگر اللہ کا فضل
تم پر نہ ہوتا اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو ان میں سے ایک
گروہ نے تو تمہیں غلط فہمی میں مبتلا کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا، حالاں
کہ در حقیقت وہ خود اپنے سوا کسی کو غلط فہمی میں مبتلا نہیں کر رہے تھے
اور تمہارا کوئی نقصان نہ کرسکتے تھے اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی
ہے اور تم کو وہ کچھ بتایا ہے جو تمہیں معلوم نہ تھا اور اس کا فضل تم پر
بہت ہے ﴾ (النساء آیات 105 تا 113) ، جن میں حبیب محمد صلى الله عليه وسلم
پر عتاب تھا۔ یہ وہ منظر ہے جس کا مطالعہ ہمیں اپنے بیٹوں، بیٹیوں، بھائیوں
اور بہنوں کے ساتھ کرنا چاہیے کیونکہ ہر کوئی امیر اور مامور ہے، انتخابی
مہم کا سرخیل یا اخلاقی قدروں کا مبلغ ہے۔ کوئی بھی اسلامی بلکہ انسانی
امید وار یہ پسند نہیں کرسکتا کہ دوسروں کے کردار کو مسخ کر کے، اس کے
ناموس پر حملہ کرکے اور اس کی تاریخ کو دہرا کر اپنا نام اونچا کرنے کی
کوشش کرے۔ کیا ہی خوب ہوتا اگر ہر امید وار اپنی انتخابی مہم کے سلسلہ میں
وہ جن قدروں کا پاس و لحاظ رکھے گا اس کا اعلان کرتا اور ہر اس قائد یا
پیروکار سے اعلان براءت کرتا جو رضا و غضب کی کسی بھی حالت میں ان قدروں کی
خلاف ورزی کرتا۔ اس موقع پر ہمیں وہ حدیث یاد رکھنی چاہئے جس کی روایت جابر
بن سلیم رضی اللہ عنہ نے کی ہے : اگر کوئی شخص تمہارے بارے میں کوئی بات
جانتا ہے اور اس کی بنیاد پر تمہیں گالم گلوج کرتا اور عار دلاتا ہے تو تم
اس کی بات جانتے ہوئے بھی اسے عار نہ دلاؤ، اس کا تمہیں اجر ملے اور تم
ہرگز کسی کو گالی نہ دو (ألباني نے السلسلة الصحيحة میں اس کی رویات کی ہے،
نمبر:770)۔
اسی طرح کل کے سلسلہ میں ہمیں یہ بھی اندازہ رہنا چاہیے کہ مخالفین میں سے
اگر کوئی شخص کل کامیاب ہو جاتا ہے تو مصر کی تعمیر کی صلاحیت رکھنے والے
ہر صاحب صلاحیت اور تجربہ کار فرد کے درمیان تعاون کا امکان ختم ہو جائے
گا، ملک اپنے مخلص فرزندوں کے دستِ تعاون سے محروم ہو جائےگا۔ اور حکمت یہ
ہے کہ"أحبب حبيبك هونًا ما عسى أن يكون بغيضك يوما ما، وأبغض بغيضك هونًا
ما عسي أن يكون حبيبك يوما ما" ﴿دوست سے محبت رکھو پر کم کیونکہ کسی دن وہ
تمہارے نزید ناپسندیدہ فرد ہو سکتا ہے، اپنے دشمن سے نفرت کرو پر کم کیونکہ
وہ کسی دن تمہارا دوست ہو سکتا ہے﴾۔ ہمیں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا
قول یاد رکھنا چاہیے۔ سعد بن ابی وقاص کے پاس ایک شخص آیا جو اصحاب رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان جنگ کی آگ بھڑکانا چاہتا تھا، اس نے کہا:
"ہمارے سامنے ایک لاکھ شہسوار ہیں، ان میں سے ہر ایک کی رائے یہ ہے کہ آپ
دوسروں ﴿یعنی علی و معاویہ رضی اللہ عنھما﴾ کے مقابلہ میں خلافت کے زیادہ
اہل ہیں"۔ انہوں نے انتہائی بلند اخلاقی زبان، اور سیاسی بصیرت کے ساتھ کہا
: "ان ایک لاکھ شہسواروں سے ایک ایسی تلوار مجھے دے دو کہ اگر اس سے کسی
مسلم کو مارا جائے تو وہ نہ کاٹے اور اگر کسی غیر مسلم کو مارا جائے تو وہ
کاٹ دے"۔ یہ وہ شعور اور بصیرت ہے جو ہمارے ہر بھائی کے اندر ہونی چاہیے۔
ان کے سامنے ایسی سمجھ ہونی چاہیے اور انتخابات میں اس کا نفاذ ہونا چاہیے،
انتخابات میں فاسد نظام کے باقیات سے مقابلہ کرنے کے لیے ہم تنویر کے بجائے
ان کے تشہیری ہتھیار کو اختیار کریں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ اُن کے پاس 22
حکومتی اور نجی چینل ایسے ہیں جن کا کام تشہیر کے سوا اور کچھ نہیں کیونکہ
سیدھی سی بات یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جو تنویر ہو۔ کیا ہم
میں سے ہر فرد ایک قدم پیچھے ہٹ کر انتخابی مہم میں قطب نما کی سوئی کو
صحیح جگہ پر لانے کی اس طرح کوشش کرے گا کہ یہ ہم اخلاقی حدود سے کہیں بھی
تجاوز نہ کرے، خواہ اس کی وجہ سے ہم تمام مواقع کھو دیں۔ جن کی تربیت حق کے
طریقے پر ہوئی ہے ان کے سر موقف کی پختگی سے بلند رہیں، غضب و برانگیختگی
کے وقت بھی ہمارا کردار یہی رہتاہے کہ ہم بردبار، متقی، اور صافت ستھرے لوگ
ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے " ولا يستخفنك الذين لايوقنون"
(الروم:60) ﴿ اور ہرگز ہلکا نہ پائیں تم کو وہ لوگ جو یقین نہیں لاتے ﴾. |
|