پاکستان میں تقریباً ہر سطح پر
بحرانی کیفیت ہے ،جس کی وجہ سے عوام سخت بے صبری اور غم وغصے میں مبتلا ہےں۔
8 مئی 2012ءکو وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی برطانوی دورے کے لیے روانہ
ہوئے، ان کے جہاز میں سوار ہوتے ہی ایک طرف عدالت نے ان کی نااہلی کا
تفصیلی فیصلہ جاری کیا تو دوسری طرف ملک کے عوام بدترین لوڈشیڈنگ کے عذاب
میں مبتلا ہونے کی وجہ سے سراپا احتجاج بن گئے۔بجلی کے بحران کی ایک بڑی
وجہ مختلف اداروں کو بروقت ادائیگیاں نہ کرنا بھی ہے۔ پیپکو کے مطابق کراچی
الیکٹرک سپلائی کمپنی(KESC)، واپڈا ، دیگر سرکاری ونجی اداروں اور بااثر
افراد کے ذمے تقریباً چار کھرب روپے واجب الادا ہیں۔جن کی فوری طور پر
ادائیگیاں کرکے بحران میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
ایسے موقع پر جب رقم نہ ہونے کی وجہ سے قوم لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہے،
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی 90رکنی وفد کے ہمراہ لندن یاترا پر روانہ ہو
ئے اور لندن میںان کی رہائش کے لیے سب سے مہنگی جگہ کا انتخاب کیا گیا ۔ان
کے اس دورے کے اخراجات کا اندازہ 12سے15کروڑ روپے بتایا جارہا ہے ۔بعض
مبصرین ان کے اس دورے کو آخری غیر ملکی دورہ بھی قرار دے رہے ہیں،کیوں کہ
سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کے بعد وزیراعظم کے پاس بچنے کا امکان بہت کم ہے
۔موصوف سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی اپنی”میں نہ مانوں “پر قائم ہیں ۔اب
تو وہ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے وعدہ وفا کوپوراکرنے کے لیے بھی تیار
نہیں ہیں ۔ مختصر فیصلے کے بعد انہوں نے کہاتھا کہ تفصیلی فیصلے کو آنے دو
اور اب کہہ رہے ہیں کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کے فیصلے کو ہی تسلیم کروں گا۔
مگر” شاہ جی “کو سپریم کورٹ کا فیصلہ تو مانناہی پڑے گا،چاہے اس کے لیے وہ
کتنے ہی تاخیری حربے استعمال کرلیں ۔ جب ان کا جانا ہی ٹھہرگیا ہے تو باعزت
طریقے سے جاتے ،مگر لگتا ہے کہ وہ اس کے لیے تیار نہیں۔سپریم کورٹ کے
تفصیلی فیصلے میں جسٹس آصف سعیدکھوسہ کے اضافی نوٹ پر بعض افراد بالخصوص
حکومت کے حامیوں کو سخت پریشانی اور تشویش کا سامنا ہے ۔حالاں کہ جسٹس
کھوسہ نے اپنے اضافی نوٹ میں درست نشاندہی کی ہے ۔انہوں نے پوری قوم
کوحکمرانوں اور بااختیار طبقے کی منفی سوچ سے آگاہ کیاہے۔ اور سب کو ”اپنے
آپ کو درست کرو ! ورنہ؟“ کا پیغام بھی دیاہے۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ باخبر حلقے کہہ ر ہے ہیںکہ ان حالات میں حکمرانوں اور
سیاسی قوتوں نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو تیسری قوت کی مداخلت یقینی
ہے۔پیپلز پارٹی 2012-13ءکے بجٹ میں ریلیف کے نام پر قوم کو مزید بحرانوں
میں دھکیلنے کی کوشش کرنے کی بجائے، اپنی معیشت اور اس کے حجم کو مدنظر
رکھتے ہوئے ملک کو بحرانوں سے نکالنے کی فکر کرے ۔ورنہ بجلی کے ”کڑکے “کے
ساتھ ہی ان کے تمام دعوے راکھ ہوجائیں گے۔ کیوں کہ عوام حکمرانوں کی
عیاشیوں ،وعدہ خلافیوں اور بڑھتے ہوئے لوڈشیڈنگ کے عذاب کو دیکھ کر نہ صرف
سراپا احتجاج بن چکے ہیںبلکہ قانون کو ہاتھ میں لینے پر بھی مجبور ہوچکے
ہیں۔آئے روز کے نت نئے بحرانوں نے عوام کو ویسے بھی ذہنی مریض بنادیا ہے ۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں حکومت کی غفلت اور سنگین معاشی مسائل کی وجہ
سے مایوسی اور ذہنی امراض میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر
بے صبری اب روز کا معمول بن چکی ہے۔ بجلی کی عدم فراہمی کے نتیجے میں
پرتشدد واقعات اورتوڑ پھوڑ ہو یا پھر نقل کی اجازت نہ دینے پر اساتذہ پر
تشدد،یہ سب کچھ اس کا واضح ثبوت ہے۔واضح رہے کہ عصری تعلیمی اداروں کے طلبا
کے متشدد بننے کی بڑی وجہ میں طلبا تنظیموں کی غیر نصابی ،منفی اورمتعصبانہ
سوچ سمیت تعلیم و تربیت کو صرف ڈگری کا حصول بناناشامل ہے۔طلبا تنظیموں کے
قیام کا مقصد ،تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبا وطالبات کی تربیت تھا، لیکن بدقسمتی
سے پاکستان میں طلبا تنظیمیں مافیا کی شکل اختیار کرگئیں ہیں۔ آئے روز کے
تصادم کی وجہ سے سینکڑوں نوجوان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اور
بیشتر عصری تعلیمی ادارے مختلف گروپوں کے کنٹرول میں ہونے کی وجہ سے ہمیشہ
کشیدگی برقرار رہتی ہے۔ اسی وجہ سے نقل کی لعنت انتہائی خطرناک شکل اختیار
کرگئی ہے۔ 9 مئی کو نیشنل کالج کراچی میں نقل سے روکنے پر اساتذہ اور
پرنسپل پر تشدد، طلبا کی توڑ پھوڑ اور احتجاج ہماری پوری قوم کے لیے سوالیہ
نشان ہے۔ دوسری جانب مذہبی ادارے ہیں ۔ ملک کے طول و عرض میں مجموعی طور پر
40 ہزار سے زائد چھوٹے بڑے تعلیمی اداروں میں 60لاکھ سے زائد طلباو طالبات
زیر تعلیم ہونے کے باوجود ،اس طرح کا کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ ریکارڈ میں
نہیں آیا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مذہبی تعلیمی اداروں میں توجہ صرف تعلیم
پر ہی نہیں بلکہ تربیت پر بھی مرکوز ہے جو کہ اصل ہے۔
اس وقت پورا ملک بدترین لوڈشیڈنگ کا شکار ہے۔ملک کے مختلف علاقوں میں
لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 8 سے18 گھنٹے کے درمیان ہے،جس کی وجہ سے عوام شدید
پریشانی کا شکار ہیں۔ ملک کا سب سے بڑا بحران بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ ہی
ہے ،جس نے ملکی صنعت و حرفت کو تقریباً تباہ کردیا ہے۔ پاکستان میں 44.2 فی
صد گھریلو، 31.1 فی صد صنعتی، 14.3 فی صد زرعی، 7.4 فی صد مختلف شعبوں، 5.5
فی صد تجارتی مقاصد، 0.7 فی صد اسٹریٹ لائٹس اور 2.3 فی صد دیگر بجلی
صارفین ہیں۔ مئی میں بجلی کی مجموعی طلب تقریباً15سے17 ہزار میگا واٹ ہے،
جب کہ پیداوار کی گنجائش 16سے18ہزارمیگاواٹ ہے ۔طلب کے مقابلے میں پیداوار
میں اضافے کے باوجود بدترین لوڈشیڈنگ سوالیہ نشان ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بحران کی اصل وجہ کیا ہے؟ اس کے لیے یہ سمجھنا
ضروری ہے کہ پاکستان میں بجلی کی کل پیداوار33 فی صد پانی، 65 فی صد فرنس
آئل و گیس اور 2 فی صد ایٹمی بجلی گھر سے ہوتی ہے۔پیپکو کے اعداد وشمار کے
مطابق 10 مئی 2012ءکو مجموعی طور پر 11267میگا واٹ پیداوار رہی اور طلب
16767میگاواٹ تھی۔ جب کہ پیداوار کی گنجائش 16000میگاواٹ تھی ،لیکن طلب کے
مقابلے میں پیداوار 5500 میگا واٹ کم رہی ،جس کا نتیجہ بدترین لوڈشیڈنگ کی
شکل میں سامنے آیا۔
ذرائع کے مطابق حکومتی اور نجی ادارے پانی اورگیس کے ذریعے پیداوا ر پوری
کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاہم دریاﺅں میں پانی اورگیس کی کمی بیشی کی وجہ سے
پیداوار میں کمی بیشی رہتی ہے ۔مگر یہ ادارے فرنس آئل کے ذریعے کم سے کم
بجلی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں،کیوں کہ یہ بجلی مہنگی پڑتی ہے اور مزید
یہ کہ اداروں کے پاس فرنس آئل خرید نے کے لیے رقم نہیں۔اس طرح یہ ادارے
14000سے15000میگاواٹ کی پیداوار کی گنجائش کے مقابلے میںصرف
7000سے9000میگاواٹ بجلی پیدا کرتے ہیں۔اوراس پیداوار میں6000سے 7000میگاواٹ
کاشارٹ فال آجاتاہے، جب کہ پانی کی کمی کی وجہ سے پیداوار میں
500سے1500میگاواٹ کی کمی آتی ہے ۔اس طرح مجموعی پیداوار میں 7000سے
8500میگاواٹ تک کمی واقع ہوجاتی ہے ۔ یوں ملک جہاں شدید اندھیروں میں ڈوب
جاتا ہے، وہیں پر صنعتیں تباہی کا نشانہ بن جاتی ہیں۔ پیپکو کے ذرائع کے
مطابق اس وقت حکومت ،نجی اداروں اور بااثر افراد کے ذمے تقریباً 4 کھرب
روپے واجب الادا ہیں۔ اگر یہ رقم ادا کردی جائے تو ملک میں بجلی کے بحران
پر کسی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے ،کیوں کہ فوری حل صرف فرنس آئل کے ذریعے
پیداوار میں اضافہ کرنا ہی ہے ۔
مجموعی حالات کو مد نظر رکھا جائے تو بد ترین لوڈشیڈنگ موجودہ حکومت کی
ناکامی اور نااہلی کا واضح ثبوت ہے۔ 2008ءمیں اقتدار سنبھالتے ہی حکمرانوں
نے عوام سے وعدہ کیا کہ دسمبر 2010ءتک بجلی کے بحران کا خاتمہ کیا جائے گا
،مگر یہاں پر 2012ءکا مئی بھی اختتام پذیر ہے ،خاتمہ تو کیا ہوتاالٹابحران
میں مزید شدت پیدا ہورہی ہے۔ چار سال کے عرصے میں حکومتی دعوے اور اعلانات
کاغذوں کے ڈھیر اور فائلوں کے نیچے دبے ہی رہے۔ اگر واپڈا اور دیگر اداروں
کے خوبصورت اعداد وشمار اور کاغذوں میں بنے ہوئے خوابوں کا جائزہ لیا جائے
تو پاکستان کے مختلف چھوٹے بڑے دریاﺅں میں مجموعی طور پر 59208 میگا واٹ
بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہے ،مگر ہم 7000 میگا واٹ سے اوپر نہیں جاسکے
ہیں۔ حکومتی کاغذات میں مجموعی طور پر 48چھوٹے بڑے منصوبوں کا ذکر ہے، مگر
عملی میدان میں رفتار بہت سست ہے ۔اس کی وجہ بھی حکمرانوں کی غفلت ، کرپشن،
انا پرستی اورعوامی ذمہ داریوں کا احساسسے پہلو تہی ہے ۔
ہم نے دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں کو بھی مدنظر نہیں رکھا ہے ۔ واپڈا کی
تیار کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آئندہ 70 سال میں موسمیاتی
تبدیلی بہت نمایاں ہوگی۔ گزشتہ صدی میں اس خطے میں 0.6 سے 0.8 سینٹی گریڈ
تک موسمیاتی تبدیلی محسوس کی گئی۔2020ءتک یہ 1.3 سے 1.8 سینٹی گریڈ،
2050ءتک 2.5 سے 2.8 سینٹی گریڈ تک اور 2080ءتک 3.9 سے 4.4 سینٹی گریڈ تک
موسمیاتی تبدیلی کا امکان ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی ہی وجہ سے سردی اور
گرمی کے مختلف ریکارڈقائم ہورہے ہیں۔ گلیشیئر تیزی کے ساتھ پگھل رہے ہیں
اور اس کی وجہ سے پانی میں بھی کمی آرہی ہے۔ پینے کے پانی کی طلب اور قلت
میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مختلف امراض بھی جنم
لے رہے ہیں۔ ان حالات میں انتہائی مناسب انداز میں منصوبہ بندی کی ضرورت
ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستانی حکمرانی ایسا کرنے سے گریزاں ہیں۔
غالباً اب عوام نے بھی اسی کو محسوس کرتے ہوئے قانون کو ہاتھ میں لینا شروع
کردیا ہے۔ ملک میں بڑے پیمانے پر ہونے والی توڑ پھوڑ اور بھرپور عوامی
احتجاج اس بات کا واضح ثبوت ہےں۔ صورت حال کی نزاکت اور عوام کے غصے کو
دیکھتے ہوئے ،حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں نے بھی اپنا رنگ دکھانا شروع
کردیا ہے۔ مسلم لیگ ق کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اب اس کا اوڑھنا ،بچھونا
اور بقا صرف پیپلز پارٹی کے ساتھ ہی ہے۔لیکن سخت عوامی ردعمل کے بعد مسلم
لیگ ق بھی احتجاج کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔ مختلف ٹاک شوز میںمسلم لیگ ن کو
ہر بحران کا ذمہ دار ٹھہرانے والے اس جماعت کے سینیٹر کامل علی آغا بالآخر
سینیٹ میں حکومت پر برسنے پر مجبور ہوئے۔ حالاں کہ وہ خود2002ءسے 2008ءتک
حکومت تھے اور2010ءسے تاحال حکومت کا حصہ ہیں۔
پاکستان میں سب سے بڑی حکمران جماعت کی ہمیشہ یہ بدقسمتی رہی ہے کہ مزے اس
کی دیگر تمام اتحادی جماعتیں بھی لیتی ہیں، لیکن مشکلات اور مسائل کا ذمہ
دار بڑی جماعت کو ٹھہرا دیتی ہیں۔ حالاں کہ حقیقی اصول یہ ہے کہ حکومتی
اتحاد میں ہونے کے ناتے اس کے فائدے اور نقصان میں وہ تمام لوگ برابر شریک
ہیں ،جو اس اتحاد میں شامل ہیں ۔لیکن اس اصول کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک
طرف متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی سراپا احتجاج تھیں تو وہیں پر اب
مسلم لیگ ق بھی اپنی اصلیت میں آگئی ہے۔ جس کی قیادت کا دعویٰ ہے کہ اگر
موجودہ حکومت نے بجلی کے بحران کو حل نہ کیا تو وہ حکومت سے علیحدہ ہونے پر
مجبور ہوں گے ۔ دراصل پیپلزپارٹی کی حکومت ہمیشہ بجلی سمیت تمام بحرانوں کو
”مٹی پاﺅ اور وقتی طور پر لوگوں کو ٹھنڈا کرو“ کی پالیسی کے تحت حل کرتی
رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب حکومت کے پانچویں سال یہ سارے بحران عفریت کی
شکل میں سامنے آرہے ہیں۔صدر زرداری اور گیلانی جی خوابوں کی دنیا ،فریبی
سیاست اور” میں نہ مانوں“ کی پالیسی سے باہر نہیں آئے تو بجلی کے ایک ہی
کڑکے ساتھ جل کر راکھ ہوجائیں گے ،اورپھر ان کے لیے اس عوامی بجلی سے بچنا
مشکل ہوگا۔ |