نئے صوبوں کی تشکیل کا بل

چندماہ قبل تک نئے صوبوں کی تشکیل کی سب سے بڑی (اور شاید واحد) مخالف جماعت مسلم لیگ ن تھی، بہاول پور کی صوبائی حیثیت کی بحالی کی تحریک میں تمام چھوٹی بڑی جماعتیں شامل تھیں، اگر نہیں تھی تو ن لیگ۔ اسی طرح چند ماہ قبل ہی وفاقی حکومت کی باسی کڑھی میں یوں ابال آیا کہ اس نے سرائیکی صوبہ کا ایسا نعرہ مستانہ بلند کیا کہ ملک کے دیگر تمام مسائل کو پس پشت ڈال دیا، انہی جذبات کی رو میںبہہ کر وہ بہاول پور کی بحالی سے بھی دستبردار ہوگئے اور اپنی تمام تر توانائیاں سرائیکی صوبہ کی تشکیل پر صرف کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ جبکہ ان کی اتحادی جماعت ق لیگ ایک عرصہ پہلے جنوبی پنجاب کے صوبہ کی بات چیت شروع کرچکی تھی۔

صدر اوروزیراعظم کی طرف سے سرائیکی صوبہ کے معاملات اچھالے جانے کے بعد میاں برادران نے بھی جوابی کاروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے ایک روز یکایک بہاول صوبہ کی بحالی کا مطالبہ داغ دیا۔ اب خطے میں نئی بحث کا آغاز ہوا کہ کونسا صوبہ بنایا جانا مناسب ہے؟ اسی دوران وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کا فیصلہ آگیا، ن لیگ جو کہ ’فرینڈلی اپوزیشن‘ کا الزام سن سن کر اکتا چکی تھی ، نے وزیراعظم کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ، کہ گرتی ہوئی دیواروں کو دھکا دینا’موقع بھی ہے اور دستور بھی‘۔اس سے حکومت کے ختم ہونے کے امکانات بھی پیدا ہوجائیں گے اور جنوبی پنجاب میں ن لیگ کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بہتر کرنے کا موقع بھی ملے گا۔

اب تک بہاول پور صوبہ کی بحالی اور سرائیکی صوبہ کے قیام کی جو کوششیں یا دعوے تھے ، وہ سیاسی نعروں سے زیادہ اور کچھ نہ تھا، گیلانی ، درانی سمیت سب کو علم تھا کہ نئے صوبے کی تشکیل کا آئین میں طریقہ درج ہے، اس کے باوجود کوئی بھی اس طریقے پر عمل کرنے کو تیار نہ تھا کہ وہ ان کے بس سے باہر تھا، جو پارٹی عمل کرسکتی تھی وہ نئے صوبوں کی تشکیل کے خلاف تھی، طریقہ یہ تھا کہ جس صوبے میں سے نیا صوبہ بنایا جانا مطلوب ہے اس کی اسمبلی دوتہائی اکثریت سے اس کے حق میں بل منظور کرکے قومی اسمبلی کو بھیجے ، وہاں سے منظوری کے بعد متعلقہ صوبے کی اسمبلی دوبارہ اس کی منظوری دے گی۔

ن لیگ نے پنجاب اسمبلی سے بہاول پور کی بحالی اور جنوبی پنجاب کے نام سے نئے صوبے کی تشکیل کے لئے متفقہ بل منظور کروا کے سب کو حیران کردیا۔ حیرت کا سلسلہ طویل اس لئے بھی ہوگیا کہ قرارداد متفقہ طور پر منظور ہوئی، دوسری وجہ یہ ہوئی کہ صرف بہاول پور کا معاملہ نہیں اٹھایا گیابلکہ جنوبی پنجاب کا مسئلہ بھی ساتھ ہی حل کردیا، لیکن سب سے بڑی حیرت اس بات پر ہوئی کہ پی پی نے جنوبی پنجاب کے بل کی حمایت کی ، سرائیکی صوبہ کہاں گیا؟اس کے لئے تو حمایتوں ، مخالفتوںاور نفرتوں وغیرہ کے طوفان برپا ہورہے تھے، آخر خاموشی سے اتنا بڑا فیصلہ کیسے ہوگیا؟

خیر جو بھی ہوا، جیسے بھی ہوا، علاقے کے عوام کا دیرینہ مطالبہ تھا ، اب آئینی طریقہ اپناکر ن لیگ کریڈٹ لینے میں کامیاب ٹھہری ہے، بسااوقات ایسے ہی ہوتا ہے ، منزل اسی کو ملتی ہے جو شریک سفر نہیں ہوتا۔ اب گیند وفاقی حکومت کی کورٹ میں ہے، ان کشیدہ حالات میں اگر پی پی نے پنجاب اسمبلی سے متفقہ قرارداد منظورکروانے میں ن لیگ سے اتفاق کیا ہے ، امکان یہی ہے کہ قومی اسمبلی میں بھی ایسے ہی تعاون ہوگا، اگر ایسے ہی ہوا تو صوبوں کا یہ معاملہ آئینی طریقے سے اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گا۔ لیکن وزیر اعظم کی نااہلی کا معاملہ اور اپوزیشن کے ”مارچ“ ،جانے کیا رنگ لائیں گے۔ آیا پنجاب اسمبلی میں اختیار کیا گیا آئینی راستہ فیصلہ کن مرحلے پر آپس کی کشمکش کا شکار تو نہیں ہوجائے گا،کیا اس کے لئے دونوں پارٹیاں نرم رویہ اختیار کریں گی، یا اپنی روایتی مخالفت سے جمہوریت کو بھنور میں ہی پھنسائے رکھیں گی اور صوبوں کی نیا ساحل کے قریب آکر ڈوب جائے گی؟
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 429616 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.