امریکی دھونس و دھمکی معافی نہ تلافی؟
(Begum Dr Muhammad Rafiq Mirza, )
پاکستان کی حکومت اور امریکہ
سمیت مغربی اتحادیوں کو یہ بات بہرصورت پیش نظر رکھنی چاہئے کہ ان سب کو
دہشت گردی کے جس مشترکہ دشمن سے جنگ کرنا پڑی ہے، اس کے خلاف کامیابی اس
وقت ہی ممکن ہے جب تمام حلیفوں میں اعتماد، اتحاد اور ایک دوسرے کے احترام
کا رشتہ موجود ہو۔ جس جنگ میں شریک عناصر ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھیں
یا ان کے ہاتھوں ایک دوسرے کے ہی وقار و خودمختاری کو خطرات لاحق نظر آنے
لگیں اس کی کامیابی کی پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہے۔ 26نومبر 2011ءاور 2مئی
2012ءکے واقعات سے نہ صرف پاکستان کی خودمختاری اور وقار پر ضرب لگی بلکہ
شریک جنگ کی حیثیت سے اس کے خلوص کو بھی ٹھیس پہنچی جسے نظرانداز کرنا کسی
بھی خوددار قوم کے لئے ممکن نہیں۔ امریکہ اور نیٹو کے دوست ممالک کو
پاکستانی قوم کی عزت نفس کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے میں اتنی تاخیر
نہیں کرنی چاہئے تھی اور اب بھی ایسا لب و لہجہ اپنانے یا ایسا طرز عمل
اختیار کرنے سے اجتناب برتنا چاہئے جس سے کسی دیرینہ دوست کو منانے کی
بجائے اسے جھکانے کا تاثر ملے۔
نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرے فوگ راسموسن نے برسلز میں پریس کانفرنس سے خطاب
کرتے ہوئے یہ اشارہ دیا کہ اسلام آباد نے بروقت نیٹو فوجوں کی سپلائی بحال
نہ کی تو وہ شکاگو کانفرنس میں شرکت کا موقع کھو سکتا ہے۔ دوسری جانب وزیر
اعظم یوسف رضا گیلانی نے نیٹو سپلائی کی بحالی کے حوالے سے کوئی پیشگی شرط
قبول نہ کرنے کی بات کرتے ہوئے یہ اشارہ دیا ہے کہ اس معاملے میں مذاکرات
مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ دونوں جانب مسئلے کو حل
کرنے کی خواہش موجود ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ سلالہ چیک پوسٹ پر جو کچھ ہوا،
امریکی اور نیٹو فوجیں اس پر ندامت ظاہر کرنے کی بجائے الٹا پاکستان کو
قصوروار ٹھہرا رہی ہیں جبکہ پاک فوج کے پاس اس بات کے واضح شواہد موجود ہیں
کہ حملہ توجہ دلانے کے باوجود گھنٹوں جاری رہا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے
خلاف مہم کے دوران دنیا کے ہر ملک سے زیادہ قربانیاں دیں۔ مگر سانحہ سلالہ
سے پہلے اور اس کے بعد جس انداز میں اس قوم کے خلوص پر شبہہ کرتے ہوئے
الزامات کی بارش کی گئی اس سے پاکستانیوں کی قومی انا مجروح ہوئی۔ سلالہ کا
حملہ نہ صرف الزامات کے سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر دیکھا گیا بلکہ اس سے
ملک کے وقار اور خودمختاری پر بھی ضرب لگی۔ اس کا ردعمل پورے پاکستان میں
بہت شدید ہوا۔ امریکہ اور نیٹو کی طرف سے کھلے دل اور ذہن کے ساتھ اس پر
معافی مانگ لی جاتی تو صورت حال کو جلد معمول پر لایا جاسکتا تھا۔ فریقین
کے بعض اندازوں کی غلطی صحیح وقت پر صحیح فیصلے کرنے میں آڑے آئی اور
معاملات میں اندازے سے زیادہ بگاڑ آیا۔
معاملہ خواہ نیٹو فوجوں کے لئے رسد پہنچانے کا ہو یا اتحادی افواج کے انخلا
کا۔ اس زمینی راستے کی ضرورت و اہمیت سے انکار ممکن نہیں جو پاکستان سے
گزرتا ہے۔ اسی لئے امریکہ کی ایک اہم سینیٹر کلیری میک کیسکل نے کانگریس کی
ایک سماعت میں توجہ دلائی ہے کہ رسد کا متبادل راستہ استعمال کرنے کے باعث
امریکہ کو 38ملین ڈالر ماہانہ زائد خرچ کرنے پڑرہے ہیں اور ایندھن کے نرخوں
میں اچانک اضافے کے باعث اس سال یہ اخراجات ایک ارب 30کروڑ ڈالر مزید بڑھ
جائیں گے۔ جبکہ امریکی وائس چیف آف ائیرفورس فلپ بریڈلو کے ایوان نمائندگان
میں دئیے گئے بیان سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کا زمینی راستہ نہ کھلنے
کی صورت میں ائیرفورس پر بہت بڑا بوجھ آئے گا اور فوجوں کے انخلا کے
پروگرام میں ایک سے ڈیڑھ برس کی تاخیر ہوسکتی ہے۔ اس لئے واشنگٹن کے لئے
مناسب بات یہی ہے کہ وہ سینیٹر جان کیری کے مشورے پر چلتے ہوئے پاکستان کا
تعاون حاصل کرنے پر توجہ دے۔ یہ تعاون اسلام آباد کو شکاگو کانفرنس سے باہر
رکھ کر نہیں، کانفرنس میں اس کی شمولیت یقینی بناکر ہی حاصل کیا جاسکتا
ہے۔جہاں تک اسلام آباد کا تعلق ہے، 65برسوں کے دوران اس نے ایٹم بم بنانے
سمیت بھرپور دفاعی حکمت عملی بھی جاری رکھی اور عالمی تنہائی سے بھی محفوظ
رہا۔ اب بھی اسے اپنے وقار، خودمختاری اورقومی سلامتی کا تحفظ کرتے ہوئے ان
ملکوں کے راستے پر جانے سے گریز کرنا چاہئے جو غیرمعمولی وسائل رکھتے ہوئے
بھی عالمی تنہائی کے باعث مشکلات کا شکار ہیں۔ پارلیمینٹ نے پاک امریکہ
تعلقات کے حوالے سے ایک متفقہ پالیسی بنائی ہے جس پر عمل کیا جانا چاہئے
اور جہاں ضرورت ہو پارلیمینٹ کا اجلاس بلاکر اس میں ترامیم کی جانی چاہئیں۔
اس ضمن میں امریکہ سمیت کئی ملکوں میں اختیار کردہ یہ طریق کار بہت مناسب
ہے کہ متعلقہ پارلیمانی کمیٹیاں اپنے اپنے شعبوں میں حالات کا مسلسل جائزہ
لے کر پالیسی سفارشات پیش کرتی رہتی ہیں۔ قوم اس وقت گومگو کی جس کیفیت سے
دوچار ہے اس میں اقتصادی امداد اور کولیشن سپورٹ فنڈ نہ ملنے سمیت متعدد
وجوہ کے باعث بجٹ بنانا بہت مشکل ہوچکا ہے۔ جبکہ گردشی قرضوں کی وجہ سے
لوڈشیڈنگ کے جن کو بوتل میں بند کرنا بھی ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔ دوسرے
مسائل بھی سنگین ہوچکے ہیں جن کے باعث روزمرہ معاملات چلانے میں دشواری
محسوس ہورہی ہے۔ پاکستان کو درپیش مسائل کے فوری حل کے لئے دوستوں کا تعاون
اور دیرپا حل کے لئے افغانستان میں امن و استحکام کی کوششوں کا نتیجہ خیز
ہونا ضروری ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ کابینہ کی دفاعی کمیٹی، جس کا
اجلاس 15مئی کو بلایا گیا ہے، امریکہ سے کشیدگی کی طوالت کے مضمرات کا
جائزہ لیتے ہوئے ایسی راہ نکالے جس میں ملکی خودمختاری، سالمیت اور وقار کے
تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے شکاگو کانفرنس میں شمولیت سمیت عالمی برادری سے
اشتراک و تعاون کا سلسلہ جاری رہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ امریکی وزارت خارجہ
کے ترجمان کے مطابق نیٹو سپلائی کھلوانے کے معاملے پر امریکی ٹیم سے
پاکستانی حکام کی بات چیت جاری ہے۔ جبکہ وزیر اعظم گیلانی نے معاملات میں
مثبت پیش رفت کا اشارہ دیا ہے۔ یہ بات سب ہی کے سمجھنے کی ہے کہ افغانستان
سے غیرملکی فوجوں کے انخلا سے لے کر بعد کے منظرنامے تک پاکستان کا کردار
اہم ہے جس کےلئے اسلام آباد کو شکاگو کانفرنس میں شریک ہونا چاہئے۔ اس
کانفرنس سے اسلام آباد کی غیرحاضری اس خطے پاکستان، افغانستان، امریکہ اور
عالمی برادری سمیت کسی کے مفاد میں نہیں۔ |
|