”پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا“

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہود و ہنود بطور قوم اور امریکہ بطور ملک ، صرف اسلام سے خوف زدہ ہیں مسلمانوں سے نہیں، اس کے باوجود جب ان کا بس چلتا ہے وہ مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنے اور ان پر ظلم و ستم کے نئے نئے طریقے ایجاد کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لیجانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسلمانوں سے خطرہ نہ ہونے والی بات اس لئے ہے کہ مسلمانوں کے ”قائدین“ اکثر ان کی جیبوں میں پڑے رہتے ہیں، انہیں پاکستان، سعودی عرب یا دیگر اسلامی ممالک کے ”جماندرو“ مسلمانوں سے اس لئے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا کہ ہم لوگ جو اسلامی ممالک میں رہتے ہیں اور پیدائشی مسلمان ہیں، اسلام پر بس اتنا ہی عمل کرتے ہیں جو ہمیں موافق لگتا ہے۔ فرقہ واریت کی جڑیں اتنی مضبوط ہوچکی ہیں کہ ہم قرآن و حدیث کو بھی اپنے فرقے کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور ایسی آیات اور احادیث ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں جو ہمارے مکتبہ فکر کو تقویت بخشے اور دوسرے مکاتب ہائے فکر کو کمزور کرتا ہو۔ اول تو قرآن کو پڑھتے ہی نہیں کہ اس کوطاقچوں میں سجا کر رکھا جانا ہی مقصد رہ گیا ہے اگر تلاوت کرتے بھی ہیں تو ایسے کہ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتی کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہم سے کیا کہہ رہی ہے، کون سے کام کرنے کا حکم دیتی ہے اور کن کاموں سے روکتی ہے، ترجمہ پڑھنا اور قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرنا ”گناہ“ ٹھہرتا ہے اور کئی لوگ تو ہمیں ناقص العقل قرار دے کر ترجمہ پڑھنے سے روک دیتے ہیں، ایسے میں ”مولوی“ کا ادارہ ہی رہ جاتا ہے جس سے رہنمائی طلب کی جاتی ہے اور نہائت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہر مولوی اسلام کی تشریح اپنے فرقے کے مطابق کرنے کی کوشش کرتا ہے نہ کہ اسلام کی اصل روح کے مطابق، کئی ”علمائ“ حضرات تو اس میں ید طولیٰ رکھتے ہیں اور ”بیچارے“مسلمانوں کے عقائد کا وہ حال کرتے ہیں کہ بس اللہ کی پناہ....!

تمام مذکورہ بالا امور کے باوجود کوئی گیا گذرا مسلمان، انتہائی کم تر ایمان کا حامل مسلمان بھی اپنے متبرک و محترم مقاموں خانہ کعبہ اور روضہءرسول ﷺکی حرمت پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ ہم لاکھ فرقہ واریت میں غرق ہوں، ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہوں، دشنام طرازی کررہے ہوں یہاں تک کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہوںلیکن جب مکہ اور مدینہ کی حرمت کا سوال آتا ہے تو نہ کوئی سنی ہوتا ہے نہ شیعہ، نہ کوئی اہلحدیث ہوتا ہے نہ بریلوی، نہ دیوبندی ، نہ شافعی، نہ مالکی بلکہ سب کے سب صرف اور صرف مسلمان ہوتے ہیں اور اگر کسی کو خوف آتا ہے تو اسی مسلمانی سے، انہی جذبات سے، انہی احساسات سے....! اس کے باوجود کبھی نعوذ باللہ ہمارے آقا و مرشد،نبی آخرالزمان، فداہ ابی و امی، حضرت محمد ﷺ کے خاکے بنائے جاتے ہیں، کبھی فیس بک پر ان کے مقابلے کرائے جاتے ہیں، کبھی نعوذ باللہ قرآن کریم کو جلایا جاتا ہے اور ہم ہیں کہ چند دن احتجاج کرکے چپ سادھ لیتے ہیں، اپنے ملک کی املاک کو نقصان پہنچا کر سکون کی نیند سو جاتے ہیں، میرا یہ کہنا اور ماننا ہے کہ ایسے کام نہیں چلے گا، احتجاج کرنا بجا لیکن اگر صرف پاکستان کے عوام کی ہی بات کرلی جائے تو کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ اس احتجاج کا طریقہ کار کیا ہونا چاہئے، کیا ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ جس طرح کسی پر دہشت گردی کا جھوٹا الزام لگا کر امریکہ و بھارت ہم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فلاں شخص کے خلاف یہ الزام ہے اس لئے آپ اسے ہمارے حوالے کردیں،فلاں تنظیم کے خلاف پابندی لگا دیں اور یہ کہ پاکستان کی سرزمین کسی اور ملک کے خلاف کسی بھی حوالے سے استعمال نہیں ہونی چاہئے ایسے ہی جو ملعون پادری نعوذ باللہ قرآن کریم کو برسر عام، میڈیا کے سامنے جلاتا ہے، جو تنظیم نعوذ باللہ حضور اکرم کے خاکوں کا مقابلہ کراتی ہے، پاکستان یا کوئی بھی اسلامی حکومت اس کو امریکہ سے طلب کرے کیونکہ اس سے بڑی دہشت گردی کیا ہو سکتی ہے کہ کوئی کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن، ان کے پیارے نبی ﷺ کی توہین کرے کہ جن کی عزت و حرمت پر ایمان لائے بغیر ہم مسلمان ہی نہیں ہوسکتے۔ کیا ان ملکوں سے سفارتی تعلقات منقطع نہیں کرنے چاہئیں؟ کیا ان ملکوں کے خلاف جہاد کا اعلان نہیں کیا جانا چاہئے؟ لیکن یہ تبھی ہوسکتا ہے کہ اگر ہمارے حکمران بھی ”مسلمان“ ہوں، وہ بھی حضور اکرم ﷺ سے اتنی ہی عقیدت رکھتے ہوں، ان کا اتنا ہی احترام کرتے ہوں جتنا کسی بھی مسلمان کو دائرئہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد کرنا چاہئے۔ کیا کبھی ہم نے بطور محب رسولﷺ اور حضور اکرم ﷺکا امتی ہونے کے ناطے اس بات پر غور کیا ہے کہ ہم ان لوگوں کا انتخاب کرکے اسمبلیوں میں بھیجیں جو اس طرح کی پالیسیاں وضع کرسکیں کہ پوری دنیا میں کسی کو توہین رسالت و توہین قرآن کی جراءت نہ ہوسکے، میرا خیال ہے کہ ووٹ دیتے وقت شائد ہی کسی نے ایسی سوچ رکھی ہو، ورنہ یہاں تو سب اپنے اپنے دھڑے کو ووٹ بھی دیتے ہیں اور نوٹ بھی کہ یہی ان کی انویسٹمنٹ ہوتی ہے، مستقبل میں اسی انویسٹمنٹ کو تو ”کیش“ کرانا ہوتا ہے۔

مغرب کی اسلام دشمنی کی صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ امریکہ کے فوجی کالج میں مکے اور مدینے پر حملہ کرنے کا سبق دیا جارہا ہے، ہمارے ان مقدس مقامات پر نعوذ باللہ جوہری ہتھیاروں سے حملے کرکے انہیں تباہ کرنے کا درس دیا جارہا ہے بلکہ باقاعدہ کورس کرائے جارہے ہیں، ظاہر ہے امریکی حکومت کی مرضی سے ایسا کیا جارہا ہے، اب خبر آئی ہے کہ وہ نصاب فی الوقت معطل کردیا گیا ہے لیکن جن لوگوں نے وہ نصاب بنایااور جن لوگوں نے اس کی منظوری دی، جو یہ وحشت بھرا کھیل کھیلنے کی تیاری شروع کررہے تھے اور جن کو یقینا مقتدر شخصیات کی پشت پناہی حاصل تھی ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟ اس کا جواب نفی میں ہے، کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی صرف ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی گئی جس کی رپورٹ شائد 24 مئی کو متوقع ہے لیکن سبھی جانتے ہیں کہ کچھ نہیں ہونے والا۔ یہ بات تو منظر عام پر آگئی لیکن کون نہیں جانتا کہ یہودیوں کی کٹھ پتلی امریکی حکومت میں کتنی اسلام دشمنی بھری ہوئی ہے، ان کے دلوں اور اذہان میں کتنی خباثت ہے؟لیکن وہ خبیث روحیں شائد یہ بھول جاتی ہیں کہ اس سے پہلے بھی وہ اس طرح کی سکیمیں بنا چکی ہیں، پہلے بھی خانہ کعبہ اور روضہءرسول پر حملوں کی منصوبہ بندیاں ہوچکی ہیں، ظہور اسلام سے پہلے بھی کچھ لوگ نعوذ باللہ کعبہ کو ڈھانے کے درپے تھے لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے ان کا کیا حال کیا؟ چھوٹے چھوٹے پرندوں نے چھوٹی چھوٹی کنکریوں سے اللہ کے دشمن کا ملیدہ بنا دیا تھا کیونکہ اللہ کی ذات سب سے بڑی محافظ ہے، خانہ کعبہ اس وحدہ لاشریک کی عزت و عظمت کا اظہار ہے، وہ کیسے اپنی شان کو مٹنے دے سکتا ہے، روضہءرسول، گنبد خضریٰ اس کے سب سے برگزیدہ پیغمبر، اس کے بعد سب سے زیادہ لائق تعظیم ہستی کا نشان ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ کی ذات اپنے محبوب کی شان میں اتنی بڑی گستاخی برداشت کرلے؟ ہمارے مسلمان عوام اور ”قائدین“ تو اپنی بے حمیتی، نام کے مسلمان ہونےکی وجہ سے، مصلحتوں کا شکار ہوکرچپ سادھ سکتے ہیں لیکن کیا اللہ کی غیرت کو یہ گوارا ہوسکتا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں.... لیکن جب اللہ کی پکڑ آئے گی تو صرف یہودیوں، نصرانیوں اور ہندوﺅں کے لئے نہیں ہوگی بلکہ نام نہاد مسلمانوں کے لئے بھی اتنی ہی سخت ہوگی بلکہ منافقوں کے لئے اور زیادہ سخت....! سازشیں تو ظہور اسلام کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھیں لیکن وہ سازشیں نہ اسلام کا کچھ بگاڑ سکیں نہ قرآن کا، البتہ مسلمانوں نے اپنے ہاتھوں اپنا بیڑہ ضرور غرق کرلیا، قرآن اور احادیث پاک سے دوری کی وجہ سے۔ اگر امریکہ اور اس کا آقا اسرائیل اس طرح کی سازشوں سے جو براہ راست ہمارے سینوں میں خنجر پیوست کرتی ہیں اور اللہ کی غیرت کو للکارتی ہیں، سے باز نہ آئے تو وہ خود ہی ذلیل و رسوا ہونگے اور وہ وقت بھی دور نہیں جب ہر مسلمان ان کے لئے جلتا ہوا انگارہ اور چلتا ہوا ایٹم بم نہ بن جائے۔ یہ جس طرح کی مرضی سکیمیں بنا لیں، میرا اللہ اپنے گھر، اپنی کتاب اور اپنے محبوب کی عظمت کا خود نگہبان اور محافظ ہے۔
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 206700 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.