یہی تو لائق تعزیز جرم ہے ۔۔۔۔۔۔!

عذاب الٰہی سے ڈرانے کے مجرم۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سیّدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور حکومت کی بات ہے کہ ایک رات مدینہ منورہ ایک تاریک گلی میں دو دوست آپس میں باتیں کرتے ہوئے جارہے تھے،ایک نے دوسرے سے کہا ،میں سمجھتا ہوں،خلیفة المسلمین نے خالد بن ولید کو سپہ سالاری سے معزول کرکے اچھا نہیں کیا،دوسرے دوست نے پہلے کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے جواب دیا ،ہاں میرا بھی یہی خیال ہے،انہیں معلوم نہیں تھا کہ اِن کے پیچھے سیّدناعمر فاروق بھی آرہے ہیں، آپ نے دونوں دوستوں کی باتیں سن لیں اور آواز بدل کر اُن سے پوچھا ،تو پھر تمہارے خیال میں اب عمر کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے۔؟دونوں دوستوں نے بلا کسی توقف جواب دیا،عمر سے کیا سلوک کرنا؟ کیا مطلب؟ ارے بھائی! وہ امیرالمومنین ہیں،ہم بات تو انہی کی مانیں گے،یہ تو ہماری زاتی رائے ہے،یہ سن کر سیّدنا عمر فاروق آگے بڑھے،اپنا تعارف کروایا اور اُن سے کہا ،میں اللہ ربّ العزت کا شکر ادا کرتا ہوں،جس نے مجھے تم جیسے ساتھی عطا کیے،آپ نے فرمایا” جب تک تم جیسے لوگ موجود ہیں مسلمان شکست نہیں کھا سکتے۔“

تاریخ بتاتی ہے کہ سیّدنا عمرفاروق نے حضرت خالدبن ولید کو رومیوں سے جنگ کے موقع پر عین اُس وقت فوج کی سپہ سالاری سے معزول کر دیا تھا جب آپ میدان جنگ میں دشمنان اسلام سے برسر پیکار تھے اوراُس وقت آپ کی شہرت بام عروج پر تھی،آپ ہر معرکے میں کامیابی و کامرانی کے جھنڈے گاڑھتے چلے جارہے تھے،اُن کی اِس کامیابی کو دیکھ کر عوام الناس میں یہ تاثر قوی ہوتا جارہا تھا کہ ہر معرکے میں مسلمانوں کو کامیابی حضرت خالدبن ولید کی وجہ سے حاصل ہورہی ہے،چنانچہ اِس خیال کورد اور اِس تاثر کا زائل کرنے اور اِس بات کو ثابت کرنے کیلئے کہ کامیابی و کامرانی عطا کرنے والی ذات صرف اور صرف اللہ ربّ العزت کی ہے ،اُسی کی مدد و نصرت فتح و کامیابی کا موجب بنتی ہے،سیّدنا عمر فاروق نے حضرت خالد بن ولید کو فوج کی سپہ سالاری سے معزول کرکے لشکر اسلام کی قیادت حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کو سونپ دی اور حضرت خالد بن ولید کو ان کا نائب بنادیا تھا،جس کی وجہ سے آپ کے اِس فیصلے پر عوام میں اختلاف رائے پایا گیا ،مگر اِس کے باوجود نہ صرف لوگوں نے بلکہ خود حضرت خالد بن ولید نے فیصلے پر عمل کرکے ثابت کردیا کہ نیک و صالح حکمرانوں کے فیصلے اختلاف رائے رکھنے کے باوجود قابل عمل ہوتے ہیں اور اُن میں مملکت اور قوم کی بہتری کا راز پوشیدہ ہوتا ہے۔

یہ واقعہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ مومنانہ بصیرت رکھنے والے حکمران اِس اختلاف رائے پر برا نہیں مانتے اور نہ اِسے اپنی عزت نفس ، اَنا اور استحقاق کو مسئلہ بناتے ہیں، بلکہ مثبت اختلاف رائے پر تعریف و تحسین فرماتے ہیں اور اللہ کریم کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اُس نے اُن کی قوم میں ایسے جرات مند اور بہادر لوگ پیداکیے جو حاکم وقت کے سامنے کلمہ حق کہنے اور اُسے احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ہمت رکھتے تھے،ہماری تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے مزین ہے، درحقیقت یہ اختلاف رائے کی وہ مثبت اور صحت مندصورت تھی جو معاشرے کو درست راہ پر گامزن رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کرتی تھی اور حکمران ہمہ وقت وقت کو اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی اور عوامی گرفت و احتساب کا احساس دلاتی رہتی تھی،مگر افسوس کہ آج اِس اسلامی وصف سے ہمارے حکمران عاری ہیں،حقیقت اور سچائی کے آئینے میں انہیں اپنا آپ اچھا نہیں لگتا ، وہ اِس بات پر ناراض ہوجاتے ہیں کہ آپ کیوں اُن کی پالیسیوں پر حرف تنقید بلند کرتے ہیں،کیوں سیاسی ،سماجی اور معاشرتی مسائل سامنے لاتے ہیں ،کیوں حکمران وقت کو اُن کی ذمہ دایوں کا احساس دلاتے ہیں اور کیوں اصلاح احوال کے مشورے دیتے ہیں، یہ باتیں مزاج شاہی پر بہت ناگوار گزرتی ہیں،چنانچہ اِس کی روک تھام ہمارے سرکاری اداروں کی اوّلین ذمہ داری قرار پاتی ہے۔

ایسے میں نواب شاہ سے تعلق رکھنے والے مولانا عبدالقدیر ڈیپر،عبدالوہاب بروہی اور عزیز احمد بھٹی کی ہمت تو دیکھئے کہ انہوں نے جناب صدر کو خدا کے عذاب سے ڈرنے کی دھمکی دے ڈالی ،اُن کا یہ جرم یقینا لائق تعزیر ہے ، وہ یہ بھول بیٹھے کہ وہ کسی خلفاءراشد کے نہیں بلکہ زرداری دور میں جی رہے ہیں،جہاں ہر طرف مال و دولت کی فراوانی ہے،عیش و عشرت کی حکمرانی ہے،امن و سکون اور سلامتی و خوشحالی کا دور دورہ ہے، دور دور تک بھوک ،غربت ،افلاس اور بے روزگاری کا نام و نشان نہیں اور شیر بکری ایک گھاٹ پانی پی رہے،بھلا ایسے تاریخ سازسنہری دور میں ایک مولوی اور اُس کے چند ساتھیو ں کی یہ جرات اور اتنی ہمت کہ وہ جناب صدر کو خدا کے عذاب سے ڈرنے جیسی سنگین دھمکی دے ڈالے،یہ تو جرم عظیم ہے ، لہٰذا اِن حضرات کو ایوان صدر کی شکایت پر نوابشاہ ایئر پورٹ پولیس نے اصلاحی خط بھیجنے کے الزام میں مقدمہ درج کرکے جیل بھیج دیا،گرفتار ملزمان کا کہنا ہے کہ انہوں نے دھمکی آمیز خط نہیں لکھا بلکہ اصلاحی خط لکھا تھا جس میں صدر کو نصیحت کی گئی تھی،ہمارا ماننا ہے کہ کسی نظام یا سسٹم سے وابستہ رہتے ہوئے اُس سے اختلاف رکھنا، یا اختلاف رکھتے ہوئے بھی اُس سے وابستہ رہنا اور اُس کی تعمیرو ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہنا، یقیناایک ایسی خوبصورت روایت ہے جو اسلامی معاشرے کا لازمی جزو رہی ہے،جبکہ کسی سسٹم سے اختلاف کی اجازت نہ دینا یا اختلاف رائے رکھنے کو قابل تعزیر جرم سمجھنا فرعونیت اور چنگیزیت کی علامت ہیں ،جن قوموں، معاشروں اوراداروں میں یہ بات رواج پا جائے، وہاں بدترین قسم کی منافقت جنم لیتی ہے جو غیبت اور چغلی سے ہوتی ہوئی حسد، کینے اور بغض و عناد کے رذیل درجے تک پہنچ کر ایسی سازشوں کو جنم دیتی ہے جس سے نہ صرف افراد کے کردار وعمل داغدار ہوتے ہیں بلکہ ادارے، معاشرے اور قومیں بھی رو بہ زوال ہوکر انحطاط کا شکار ہوجاتی ہیں۔

یہی وہ نقصان تھا جس سے معاشرے اور افراد کو بچانے کیلئے پیغمبر انقلاب خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اختلاف رائے کی اجازت دی بلکہ متعدد موقعوں پر بہ نفس نفیس خود اِس کی حوصلہ افزائی بھی فرمائی ،تجربہ کہتا ہے کہ جس معاشرے میں عقل و رائے پر پہرے بٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے وہاں تعمیر کے بجائے تخریب جنم لیتی ہے ،اگر اظہار رائے کے مثبت راستے بند کر دئیے جائیں گے تو پھر یہ منفی راہیں تلاش کرتی ہے،اِس لیے جو معاشرے ، ادارے اور قومیں ترقی کے خواہاں ہوتی ہیں وہ ہمیشہ اختلاف رائے کی نہ صرف قدر کرتی ہیں بلکہ اِس کو پروان چڑھانے کی سعی بھی کر تی ہیں،اسلام میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد صرف اور صرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ایسی ذات ہے جس کی غیر مشروط اطاعت کا حکم ملتا ہے،اب پیغمبر اسلام کے حکم کے منشاء کے سمجھنے میں تو اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی اطاعت میں کسی اختلاف و تاویل کی قطعاًکوئی گنجائش نہیں ہے،یہاں خیال رہے کہ عزت، قدر و منزلت اور اطاعت و محبت کے حوالے سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ مسلم معاشرے میں ایک ایسا منفرد مقام رکھتی ہے کہ جس کا تقابل کسی بھی زمانے کے سیاسی قائد، لیڈر اور حکمران سے نہیں کیا جا سکتا،مگر اِس اعلیٰ رتبہ و مقام کے باوجود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف لوگوں سے رائے طلب کی بلکہ بعض مواقع پر اپنی رائے کے برخلاف اُن کی رائے پر عمل بھی کیا اور بعض تہذیبی اور نجی معاملات میں لوگوں کو یہ آزادی بھی دی کہ وہ چاہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورے پر عمل کریں اور چاہیں تو نہ کریں۔

یہی وہ بنیادی وجہ تھی کہ اسلامی معاشرے میں یہ بات کبھی مسئلہ نہیں بنی تھی کہ حدود اور آداب کی رعایت کرتے ہوئے اولاد، والدین سے اختلاف کر سکتی ہے یادلیل کی بنیاد پر شاگرد استاد سے اختلاف کر سکتا ہے یا مرید پیر سے اور رعایا حاکم سے اختلاف کر سکتی ہے، ہماری تاریخ میں اِس بات پر تو تنقید یا بحث مل جاتی ہے کہ اختلاف کرتے ہوئے آداب کا خیال نہیں رکھا گیا یا حفظ مراتب کو نظر انداز کر دیا گیا، لیکن یہ کبھی نہیں کہا گیا کہ اختلاف رائے کیوں کیا گیا، اسلامی تہذیب میں جس طرح حفظ مراتب کو ایک بنیادی قدر کی حیثیت حاصل ہے اسی طرح اختلاف رائے اور اظہار رائے کی آزادی کو بھی اہم حیثیت کی حامل رہی ہے،رہا سوال یہ کہ اختلاف رائے کیوں کیا گیا، مسلمان معاشروں میں بہت بعد کی پیداوار ہے، اِس کا نہ اللہ اور رسول کے حکم سے کوئی تعلق ہے اور نہ اہل علم کی روایات سے، بدقسمتی سے آج یہ روشن روش ہماری نظروں سے اوجھل ہوگئی اور ہم نے ذات،مرتبہ و مقام اور اعلیٰ سوسائٹی کے بت تراش کر اُن کو اتنا مقدس بنا لیا کہ اُن سے اختلاف کی گنجائش کو ہی ختم کرڈالا۔

لہٰذا اِس رویے نے اسلامی تہذیب و تمدن اور معاشرے میں انسانوں کو عقل کل اور دیوتا بنانے کی رسمِ قبیح کو پروان چڑھایا،بدقسمتی سے اب یہ صورت حالات ہوگئی ہے کہ مسلم معاشروں میں جگہ جگہ قائم مذہبی، سیاسی، معاشی، علمی اور عملی دیوتاؤں کو اپنا مفاد اسی میں نظر آتا ہے کہ اختلاف رائے کو ادب، محبت اور عشق کے نام پر غیر اسلامی باور کرایا جائے تا کہ اُن کی دیوتائی حیثیت بھی قائم رہے اور کاروبارگلشن بھی چلتا رہے، اِن حالات میں ہر وہ مسلمان جو اللہ کی رضا کا طالب، آخرت کی کامیابی اور مسلم معاشروں اور اداروں کی ترقی کا خواہاں ہو، اُس پر لازم ہے کہ وہ جہاں بھی ہو، اپنی حیثیت و بساط کے مطابق اِس بات کو عام کرے کہ آداب کی رعایت کرتے ہوئے اپنا اپنا فریضہ سرانجام دیتا رہے ،کیونکہ اختلاف رائے نہ صرف اسلامی تہذیب کے ماتھے کا جھومر بلکہ اللہ اور اُس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے عین مطابق ہے،بس اتنا خیال رہے کہ اِس پیغام کو عام کرنے میں تہذیب و شا ئستگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے ۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 313513 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More