تحریک انصاف آزاد کشمیر میں قیادت کا فقدان دور کیا جائے

میر صاحب ۔۔۔کیا تحریک انصاف پاکستان میں واقعی ایک انقلاب لانے والی ہے ؟کیا عمران خان کے پاس اتنی بہتر ٹیم موجود ہے کہ وہ اپنی حکومت بنانے کے تین ماہ بعد ہی میرٹ کو بھال کرتے ہوئے کرپشن سے چھٹکارا دلوا پائیں گے؟ اگر عمران خان کی حکومت آئے تو ہم بھی وطن واپس آکر وہیں روزی روٹی کما کر اپنوں کے پاس رہ سکیں گے؟ آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کا سونامی کہاں تک پہنچا ہے ؟مصدق خان کی کیا پوزیشن ہےَ؟کیا وہ آزاد کشمیر میں اس سونامی کو سنبھال پا رہے ہیں ؟ مجھ سے یہ سوالات گزشتہ دنوں لندن میں مقیم ایک دوست نے رابطہ کرتے ہوئے کیے تھے،ابتداءمیں کہنے لگے اللہ بھلا کرے ان سوشل ویبزاور سافٹ وئیرز بنانے اور چلانے والوں کا ،جنہوں نے اپنوں سے رابطے کرنے اور دنیا بھر کی معلومات تک رسائی انتہائی آسان کر دی ہے ۔ میری ان سے دوستی قریباً دو سال پہلے ایک سوشل ویب کے ذریعے ہوئی تھی ،جو دن بدن پختہ ہوتی گئی ،معلومات لینے سے علم ہوا کہ وہ گزشتہ 17 سال سے لندن میں مقیم ہیں ،ان کے بقول وہ معمولی سا ذاتی کاروبارکرتے ہیں اور ہر پانچ،چھ سال بعد اپنے ملک میں مختصر مدت کیلئے آتے ہیں ،یہاں اپنوں سے ملتے ہیں ان کے دکھ درد میں شریک ہو تے ہیں یہاں کے حالات دیکھتے ہیں مہنگائی کا خود بھی شکار ہوتے ہیںاور اپنوں سے بے روزگاری، مہنگائی اورلوڈ شیڈنگ جیسے مسائل کے بارے میں سنتے ہیں،ان سے جو ہو سکے ضرورت مندوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں اورپھر سے روزگار کیلئے واپس لوٹ جاتے ہیں ۔

میں نے انہیں بتایا کہ میں آپ کے سوالات کا جواب تحریری طور پر دوں گا کیونکہ جو سوالات آپ کے ہیں ایسے ہی سوالات دیگر ہزاروں پاکستا نیوں اور کشمیریوں کے بھی ہیں ، میں نے انہیں یقین دلانے کی کوشش کی کہ عمران خان مخلصانہ طور پر تحریک انصاف کے سونامی کو آگے بڑھا رہے ہیں،اس سونامی میں ان کے ساتھ جہاں مفاد پرسٹ ٹولہ بھی شامل ہو رہا ہے (یہ لوگ ہردیگ کے چمچے بن جایا کرتے ہیں) اس کے ساتھ عمران خان کی سونامی میںبے شمار مخلص لوگ شامل ہیں جن میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جنہوں نے ملکی خدمت میں بڑا نام کمایا ہے ،سونامی میں شامل ہونے والوں میں سابق ججز ،مصنفین، بیوروکریٹس،وکلائ،سابق فوجی آفیسر ان،تجزیہ نگار،سول سوسائیٹی کے نمائیدگان،شوبز،کھلاڑی اور طلباءو نوجوانوں کی ایک بڑی تعدا د ان کے ساتھ شامل ہوئی ہے جوماضی میں سیاست کا نام بھی لینا گوارا نہیں کرتے تھے ۔اس لیے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اچھا مینڈیٹ حاصل کر سکتے ہیں۔جہاں تک بات ہے ملک سے کرپشن کو ختم کرنے کی توعمران خان اگر ایسے مخلص لوگوں کو سامنے لا سکتے ہیں جو کبھی سیاست میں شریک کار بھی نہیں رہے اور جنہوں نے ملکی خدمت بھی کچھ نہ کچھ حد تک کر رکھی ہے ،ان کے پاس وسیع تجربہ بھی موجود ہے اور سب سے بڑھ کر وہ لوگ جوماضی میں کسی گند کا حصہ رہے ہوں تو ان سے یہ امید بھی کی جا سکتی ہے کہ وہ اقتدار میں آکر کرپشن کو کم کر سکتے ہیں اورخود میرٹ پر آکر بلا شبہ ملک میں میرٹ کو بھی بھال کر سکتے ہیں اور روزگار کے مواقع بھی لا سکتے ہیں اس لیے آپ امید رکھیں کہ تحریک انصاف اقتدار میں آئے گی اور بیرون ملک آپ جیسے لاکھوں محنت کش وطن واپس لوٹ کر ملکی ترقی میں شریک بھی ہو سکیں گے اور اپنوں کے ساتھ رہ کر زندگی کی نعمتوں سے فیضیاب بھی ہو سکیں گے ۔

جہاں تک بات رہی مصدق خان کی سیاست کی اور آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کے سونامی کی تو مصدق خان سے مجھے زیادہ امید نہیں ہے ،ان کو تبدیل کیا جانا وقت کی ضرورت بن چکا ہے تبدیلی تحریک انصاف کی مجبوری بھی بنتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ان میں توازن تو نہیں کیاجانا چاہیے لیکن پھر بھی تجزیے کے طور پر عمران خان اور مصدق خان میں موازنہ کیا جائے توان میں زمین آسمان کا فرق ہے ،عمران خان اپنوں کی قدر کرتا ہے،خود بھی محنتی ہے اور محنتی اور سمجھ دار لوگوں کو سامنے بھی لا رہا ہے ،اس میں اکڑ نام کی چیز نظر نہیں آتی، ماضی میں ان کی کامیابی کہ ہم سب گواہ ہیں۔ لیکن جہاں تک مصدق خان کی بات ہے تو ان کا ماضی بھی زیادہ شاندار نہیں رہا ،انگلینڈ میں کچھ وقت گزارنے کے بعد آٹھ ،دس سال پہلے وطن واپس لوٹے تھے ان کے بقول یہ وہاں پر پارٹی کو مضبوط کرنے میں محنت کرتے رہے ہیں ۔(لیکن اصلیت یہ تھی کہ یہ تو وہاں پرپیپلز پارٹی بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی ٹیم کا حصہ رہے )جب پارٹی کو وہاں ایک خاتون کی صورت میں اچھی محنتی ورکر ملی تو انہوں نے مصدق خان سے پارٹی کی ذمہ داری واپس لے لی ،مصدق خان آبائی شہر میرپور آزاد کشمیر لوٹ آئے ،پارٹی سے تعلقات پھر سے جوڑنے کی تگودو کی جس میں کامیاب ہو گئے ،آزاد کشمیر میں تحریک انصاف اتنی فعال نہ تھی ،کرنل (ر) مجاہد حسین جن کا تعلق میرپور سے تھا وہ آرگنائیزر آزاد کشمیر رہے،جنہوں نے کمال مہارت سے پارٹی کو جوڑے رکھا اور خطوط کے ذریعے تمام ضلعی عہدیداران کو رابطے میں رکھتے تھے ،ان کے بعد عبوری طور پر مصدق خان کو آزاد کشمیر تحریک انصاف کا مرکزی چیف آرگنائیزر بنا دیا گیا اور آج تک بغیر انتخابی پراسیس کے مصدق خان آزادکشمیر تحریک انصاف کے آرگنائیزر ہیں ،مصدق خان کی داستان تحریک انصاف قابل غور ہے ،ان کے آٹھ سالہ دور اقتدار (آرگنائیزر تحریک انصاف آزاد کشمیر )میں یہ پارٹی کو آزاد کشمیر میں فعال کرنے میں کلی طور پر ناکام رہے ہیں ، مصدق خان تحریک انصاف آزاد کشمیر میں ڈیکٹیٹربن بیٹھے ہیں۔ کبھی ان کا موڈ بن جائے تو ایک، ایک ضلع میں تین،تین آرگنائیزر لگا کر ان کو آپس میں بھی لڑا دیتے ہیں،انہوں نے کارکنان سے بارہا وعدے کیے لیکن ان پر عمل نہیں کیاجاسکا، مرکز کے دباﺅ کے باوجودیہ آزاد کشمیر میں کہیںبھی رکنیت سازی مہم نہیں چلا سکے،جبکہ تحریک انصاف کے جیالوں نے ذاتی طور پر محنت کی اوران کی ذاتی کاوشوں سے رکنیت سازی کی گئی،گزشتہ آٹھ سال سے پارٹی فنڈز کا بے جا استعمال کر رہے ہیں ،پارٹی کیلئے فنڈنگ کرنے کا بہانہ بنا کر کہ لندن گھوم کر آتے ہیں لیکن نہ پارٹی فنڈ میں اضافہ کر سکے نہ کوئی بڑی مہم چلا سکے،آزاد کشمیر جہاں کہیں بھی پارٹی کارکنوں نے پروگرامات کروائے ان سے لاتعلق سے رہتے ہیں ، رسم پوری کیلئے کبھی کبھار جیالے کارکنوں کی منتیں کرنے پر حاضری لگانے پروگرامات میں پہنچ جاتے ہیں ،سب سے بڑھ کر ان میں سیاسی خامی یہ معلوم ہوئی کہ آزاد کشمیر کا مرکزی چیف آرگنائیزر ہونے کے باوجود وہ آزاد کشمیر کے دیگر زیرق سیاستدانوںتک رسائی نہیں رکھتے،نا ہی وہ کسی ایسی سیاسی ساکھ والی شخصیت کو پارٹی میں آنے دے رہے ہیں جو بڑے سیاسی قد کاٹھ کا مالک ہو ا س کاو اضح ثبوت سب کے سامنے ہے کہ انہوں نے گزشتہ آٹھ سال میں کسی بھی سیاسی قد کاٹھ والی شخصیت کو پارٹی میں نہ شامل کیا اور نہ انہوں نے اس طرف کسی کو لایا ، کرنل (ر)نسیم خان سابق وزیر حکومت تحریک انصاف میں شمولیت کرنے ہی والے تھے کہ مصدق خان کی سیاست سامنے آگئی ، کرنل (ر) نسیم خان کے خلاف اخبارات میںمن گھڑت خبریں چلائی گئیں جن سے وہ بھی پارٹی میں شامل نہ ہوئے دوسری طرف پونچھ حلقہ 3سے سابقہ الیکشن میں آزاد امیدوار قانون ساز اسمبلی نیئر ایوب جو ایک بڑا وﺅٹ بنک بھی رکھتے ہیںاور ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ تحریک انصاف کیلئے درد دل بھی رکھتے ہیں لیکن نیئر ایوب تک پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر کی قیادت نے کوئی باضابطہ رابطہ نہ کیا ،نیئر ایوب کی طرح آزاد کشمیر بھر میں بہت سے ایسے سیاستدان ہیں جن کے پاس ایک بڑا وﺅٹ بنک بھی ہے لیکن تحریک انصاف آزاد کشمیرکی مرکزی قیادت کا یا ضلعی قیادت کا ان میں سے کسی سے رابطہ نہیں ہو پاتا،شاید تحریک انصاف کہ یہ عہدیداران شاید اس گھمنڈ میں ہیں کہ لوگ ان کے قافلے میں خود شامل ہونے آئیں گے اور انہیں پارٹی میں آنے کی درخواستیں دیں گے ۔ یہاں ایک اور ذکر کروں گا کہ پونچھ کے آرگنائیزر سردار ابرار جاوید جو پارٹی کے ساتھ ایک لمبے عرصہ سے مخلصانہ کھڑے ہیں ان کی سیاسی تربیت و سرپرستی بھی اس طرح نہیں کی گئی کہ وہ اپنے ضلع کے حد تک ہی قابل سیاستدانوں تک پہنچ سکیں ،ایسا ہی حال آزاد کشمیر کے تقریباً ہر ضلع کا ہے ،جب تک مرکزی قائدین اپنی ذمہ داریاں صحیح طرح سے نہیں نبھائیں گے تب تک آزاد کشمیر میں یہ سونامی خاموش ہی رہے گا ، آزاد کشمیر کے مرکزی قائدین کی اس سست روی اور کاہلی کی مرکزی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ شاید ان کو یہ خوف ہے کہ کسی مضبوط امیدوار کے اس تحریک انصاف میں شامل ہونے سے ان کے نزدیک انکی اپنی پوزیشن کمزور ہو جائے گی ، مصدق خان یا ان کی ٹیم سے میرا اورتحریک انصاف کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے دیگر لوگوں کا اصولی اختلاف یہ بھی ہے کہ وہ زبانی توکہتے ہیں کہ وہ پارٹی منشور سے ہٹ کر کام نہیں کرتے اور نہ کریں گے لیکن حقیقت میں وہ پارٹی سربراہ کی پالیسیوں پر عمل نہیں کر رہے ،عمران خان جس طرح پاکستان کی مختلف سیاسی پارٹیوں کے تمام زیرق سیاستدانوں سے رابطے میں ہیں اورایک بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کو پارٹی میں لانے میں بھی کامیاب رہے ہیں حتیٰ کہ وہ پارٹی میں مخدوم جاوید ہاشمی جیسی شخصیت کو بھی لے آئے اور ان کو ان کی حیثیت کے مطابق ایڈجسٹ بھی کر دیا ہے ۔مصدق خان کو چاہیے تھا کہ وہ پارٹی میں آزاد کشمیر سے اچھی شہرت والے سیاستدانوں کو لیتے اور ان کو مرکز کی مشاورت سے مناسب ایڈجسٹ بھی کروا دیتے کیونکہ مرکز میں دیکھا جاتا ہے کہ آپ کے ساتھ عوام کی کتنی طاقت ہے، عوامی وسماجی تعلق کیسا ہے ،مصدق خان اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر وہ آج جنرل الیکشن میں اپنے حلقہ سے حصہ لیتے ہیں تو خود کتنے وﺅٹ حاصل کر سکیں گے ؟اس سوال کا بہتر جواب ان کے حلقہ کے لوگ ہی بہتر دے سکتے ہیں۔ ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ آزاد کشمیر میں مرکز کی منشاءکے مطابق چیف آرگنائیزر کی منظوری تو دی جاتی ہے لیکن کیا ہی بہتر ہوتا کہ آزاد کشمیر سے چیف آرگنائیزر لینے کیلئے یہیں سے ایک آرگنائیزنگ کمیٹی بھی بنائی جاتی جو وﺅٹ کے ذریعے اس چیف آرگنائیزر کو منتخب کرتی تا کہ مرکزی چیف آرگنائیزر بھی اس کمیٹی کو اعتماد میں لے کر فیصلے صادر کرتا ،یہاں پر میں ان کی ہٹ دھرمی کی ایک تازہ مثال آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں ،گزشتہ دنوں راجہ تجمل جو پارٹی کے دیرینہ سر گرم کارکن ہیں کا تعلق کوٹلی سے ہے ،انہوں نے پارٹی کیلئے لمبے عرصہ سے جدوجہد کی ہے اور آزاد کشمیر سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں سیاستدانوں اور پارٹی کارکنان سے را بطے میں ہیں ان کی کارکردگی کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کو مرکز نے چیئرمین مانیٹرنگ سیل آزاد کشمیر کا نوٹیفکیشن جاری کیا لیکن چیف آرگنائیزر مصدق خان جن کے بارے میں آواز ا ±ٹھ رہی ہے کہ وہ خود غیر آئینی حیثیت سے ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں نے غیر آئینی طور پرراجہ تجمل کے نوٹیفکیشن کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا یہیں تک نہیں انہوں نے اخبارات میں اس نوٹیفکیشن کی تردید تک کر دی اور یہاں تک کہہ دیا کہ تجمل خان بے شک ن لیگ میں چلا جائے اور ڈاکٹر لطف الرحمان جو ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے الیکشن بھی لڑتے رہے ان کو مظفر آباد ڈویثرن کا عبوری انچارج بنا دیا گیا۔ یہ وہی راجہ تجمل ہیں جنہوں نے مصدق خان کی سرپرستی کر کہ انہیں پارٹی میں مضبوط کیا اور چیف آرگنائیزر بنوانے کیلئے بھی تگو دو کرتے رہے ،آج ا ±سی راجہ تجمل کو سائیڈ لائن کیا جارہا ہے جس نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر مصدق خان کو سیاست میں چلنا سکھایا تھا،مصدق خان کی اس نا بالغی پرتحریک انصاف کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے آواز بھی اٹھا رکھی ہے ، تحریک کے سیاسی کارکن ان کے خلاف پریس کانفرسز کر رہے ہیں، مرکز پر بھی دن بدن دباﺅ بڑھ رہا ہے کہ وہ ایک عرصہ سے پارٹی کی سرپرستی اور پارٹی کیلئے عملی کام نہ کرنے والوں کا محاسبہ بھی کریں اور انہیں تبدیل بھی کریں۔اس وقت تحریک انصاف آزاد کشمیر کے مرکزی چیف آرگنائیزر کیلئے کچھ اور لوگ بھی موزوں ہیں جن میں سرینگر سے آئے ہوئے فیصل حسین پیزادہ سہر فہرست ہیںجو پنڈی سٹی کے صدر بھی رہے ہیںان کے علاوہ یاسر حفیظ ایک متحرک کارکن ہے ان کو آزاد کشمیر میں واپس لایا جانا چاہیے اور راجہ تجمل خان کو بھی مزید اہم ذمہ داری دی جا سکتی ہے۔
Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 66264 views Columnist/Writer.. View More