خدا ناراض ہوتا ہے تو ہو جائے۔۔۔
خدا کی خدائی ناراض ہوتی ہے تو ہو جائے۔۔۔ہمیں اس بات سے ایک تولہ تو کیا
ایک ماشہ بھی فرق نہیں پڑتا۔ہمیں فرق اگر پڑتا ہے تو اس بات سے کہ کہیں
ہمارا آقا ، ہمارا داتااور ہمارا قبلہ و کعبہ ۔۔۔ امریکہ۔۔۔ نہ ہم سے ناراض
ہوجائے۔کیونکہ اُس کی ناراضگی ہم کسی صورت بھی افورڈ نہیں کر سکتے ۔اُسے ہم
نے ہر صورت میں خوش رکھنا ہے۔ اگر وہ ہم سے ناراض ہو گیا تو مختلف بنکوں
میں رکھے ہوئے ہمارے ڈالر روپوں کی شکل اختیار کر جائیں گے اور پھر آہستہ
آہستہ ہم اُن روپوں سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ ہماری گاڑیاں ہماری
جائیدادیںنیلام ہو جائیں گی۔ ہمارے گھروں کے چولہے بُجھ جائیں گے۔ ہمارے
بچے بھوکے مر جائیں گے۔اٹھارہ کروڑ عوام کی ناراضگی اُس کی ناراضگی کے آگے
کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی کیونکہ یہ اٹھارہ کروڑ عوام ہمیں سوائے ووٹ دینے
کے کچھ بھی تو نہیں دے سکتی اگر کچھ دے بھی سکتی ہے تو گالیاں، بد دعائیں،
لعن طعن اور الزامات۔۔۔عوام ہمیں ووٹ دے کر یہ بھول جاتی ہے کہ ہم سیاست
دان ہیں اور سیاست میں جذبات نہیں اختیارات چلتے ہیں۔جس کے پاس جو اختیار
ہوتا ہے وہ اپنے اُس اختیار کے حساب سے اُس سے فائدہ اُٹھانا اپنا پہلا حق
سمجھتا ہے۔وہ حق کرپشن کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے اور ملک اور قوم کے ساتھ
غداری کی صورت میں بھی۔ ہم نے تو وہی کام کرنا ہے ناں جس میں ہمیں چار پیسے
بچتے ہوں۔کروڑوں لگا کر اسمبلیوں میں آتے ہیں اگر اربوں نہیں کمائیں گے تو
پھر کیا فائدہ ہمارے سیاست میں آنے کا اس سے اچھا تو پھر بندہ گول گپوں کی
ریڑھی ہی لگا لے۔سیانوں نے یہ قول ایسے ہی ایجاد نہیں کیا کہ ۔۔۔کچھ پانے
کے لیئے کچھ کھونا پڑتا ہے۔۔۔اور ہمارا قول یہ ہے کہ ۔۔۔ڈالر پانے کے لیئے
غیرت کھونی ہی پڑتی ہے۔۔۔ سیاست میں آنے کایہ پہلا اُصول ہے۔اور ہم اپنے اس
اُصول کے کس قدر پابند ہیں یہ تو سب ہی جانتے ہیں۔
ہمیں امریکہ پر بھروسہ ہے اور امریکہ کو ہم پر۔۔ کبھی ہوا ہی نہیں۔۔کیونکہ
وہ اتنا تو جانتا ہے کہ جو حکمران اپنی عوام کے سکّے نہیں بنتے وہ ہمارے
کیسے بنیں گے ۔ ۔۔پھر بھی ہمیں اپنی وفا داریوں کا یقین دلانے کا پورا پورا
حق ہے ۔۔۔!!! ہم کئی بار یہ بات واضع کر چکے ہیں کہ سرکار ہم آپ کے ہی غلام
ہیںاور آپ ہی ہمارے آقا ہیں۔۔۔ لوگ کہتے ہیں کہ کتا سب سے زیادہ وفادار
ہوتا ہے ۔لیکن ہم نے تو یہ بات بھی غلط ثابت کر دی ہے۔ بات اُس وقت بگڑتی
ہے جب کچھ امریکہ مخالف عناصر درمیان میں کود پڑتے ہیں اور ۔۔گو امریکہ گو
۔۔گو امریکہ گو۔۔ کا شور مچانا شروع کر دیتے ہیں۔ اور ہماری ۔۔دو امریکہ
دو۔۔دو امریکہ دو۔۔والی پالیسی کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔۔۔ وہ لوگ تو یہی
چاہتے ہیں کہ ہم بھی ساری زندگی اس ملک میں ایک عام آدمی کی حیثیت سے
گزاردیں اور ہمارے بچے بھی انہیں تھرڈ کلاس سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں
میں تعلیم حاصل کریں جن کا نہ تو کوئی معیار ہے اور نہ ہی کوئی وقار۔۔۔ہمیں
اپنی زندگی اس ملک سے باہر گزارنے اور اپنے بچوں کو باہر کے تعلیمی اداروں
میں تعلیم حاصل کروانے کے لیئے کچھ نہ کچھ تو ہاتھ پاﺅں مارنے ہی ہوتے ہیں۔
اصل میں ہمارے گھر وہاں ہیں ہمارے بچے وہاں ہے اور ہمارے کاروبار
بھی۔۔۔اپنے گھر بچوں اور کاروبار کی بقا کے لیئے بھی تو ہمیں ان سے اچھے
تعلقات رکھنے کی ضرورت ہے۔اور یہی ہمیں اقتدار میں آنے کے لیئے مدد کرتے
ہیں اس لیئے ہمیں ان کی پروا کرنی چاہیئے یا کہ دو ٹکے کے ان غریب عوام کی
جو ووٹ دے کر بہت بڑا احسان کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ حکومتی فیصلے ہم
اُن کی مرضی کے مطابق کریں گے۔۔۔ بےوقوف کہیں کے!!!۔۔۔اتنا بھی نہیں جانتے
کہ فیصلے کبھی بھی غلام نہیں کیا کرتے۔۔۔ ہم نے تو صرف اپنے آقاﺅں کے
فیصلوں پر عمل کرنا ہوتا ہے۔
ہم نیٹو سپلائی بھی بحال کریں گے اور ہر صورت میں کریں گے۔ کیا ہوا جو
امریکہ نے ہم سے معافی نہیں مانگی ۔ اگر اُس نے ہم سے معافی نہیں مانگی تو
ہم اُس سے مانگ لیتے ہیں ۔۔۔ سرکار ہم سے غلطی ہو گئی جو ہم نے آپ حضور کے
آگے اپنی اس عوام کی خواہش پر اپنی زبان چلا دی۔۔۔یہ تو عوام کی خواہش تھی
ورنہ۔۔ یقین کریں۔۔ ہمارا تو ایسا کوئی ارادا نہیں تھا۔۔۔ فوجی تو فوج میں
بھرتی ہی جان دینے کے لیئے ہوتے ہیں ۔اور اس کے علاوہ اُن کا کام ہی کیا
ہوتا ہے۔یہ چند فوجی تو کیا ہم تو آپ پر ہزاروں فوجی قربان کر سکتے ہیں۔اس
عوام کے علاوہ اس ملک کا سب کچھ آپ ہی کا تو ہے۔۔۔ ہم جو آپ کے ہیں۔۔۔اس
ملک کا چپہ چپہ آپ کا ہے۔۔۔ یہ فوج بھی آپ ہی کا کھاتی ہے اس لیئے تو آپ کا
لحاظ کر لیتی ہے۔۔اور تو اور در پردہ حکمرانی بھی تو آپ کی ہی چلتی ہے یہاں
پر۔۔۔بس آپ سے ہماری یہی التجا ہے کہ آپ ہم سے ناراض مت ہوئیے گا ۔۔۔
کیونکہ ہمیں آپ کی ناراضگی سے بہت ڈر لگتا ہے۔۔۔ |