اے طاہرِ لاہوتی

امریکی بوکھلاٹ کا شکار ہو گئے یا اصل نشانے کی طرف آگئے؟ امریکی جنرل نے منہ پھاڑ کر بول ہی ڈالا۔۔۔ کہ ISI طالبان اور حقانی گروپ کو سپورٹ کر رہی ہے۔ مطالعہ امریکی محکمہ خارجہ تک پہنچا تو وہی پرانی رٹ۔۔۔ "DO MORE" ارے جناب آخر 35000 پاکستانی شہید کروا کر، اربوں ڈالروں کا نقصان اُٹھا کر بھی ہم اور کیا کر گزریں؟ معاملہ حد درجہ سادہ ہے۔ اس تمام معاملے کا اصل آغاز اسوقت ہوا جب پاکستان کی ایٹمی قوت واضع ہو گئی اور اسرائیل کو اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے ہم سے شدید خطرات لاحق ہونے لگے۔ ہمارے چند مدبرین یقیناًاس سوچ کر رد کرتے ہیں مگر زمینی حقائق یہ بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بھٹو کو نشانِ عبرت بنانے کی دھمکی کیونکر دی گئی تھی؟ نوازشریف کو عمر قید کس کے حکم پر دی گئی؟ مگر بعدازاں سعودی اُن کی جان بخشی کروانے میں ضرور کامیاب ہو گئے۔ عبدالقدیر خان کا قصور بھلا کیا تھا؟ یہ تمام سوالات خود جواب ہی ہیں اب کوئی مانے یا چاہے کبوتر کی طرح بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لے۔ 2001 ؁ میں ہونے والے 9/11 کا اصل مقصد اسلامی جمہوریہ پاکستان کو غیر مسلح ، بدنام اور دہشت گرد ریاست قرار دینا ہی تھا۔اس ڈرامے کے لیے امریکہ نے ساری دنیا کو ایک اَن دیکھے دشمن سے لڑنے کے لیے مجبور کیا اور وقت کے انتہائی کمزور اور بدحال ملک پاکستانی حمایت یافتہ طالبان کے افغانستان پر چڑھ دوڑے اور لاکھوں افراد کا قتلِ عام کرنے لگے۔ اُن کا قصور محض اتنا کہ وہ مہمان نواز ہیں اور اصل قصور یہ کہ وہ ایٹمی اسلامی ریاست کا دائیاں ہاتھ بن چکے تھے جو نہ خطے میں بھارتی ٹھیکے داری کے لیے موزوں تھا نہ اسرائیلی توسیع پسندی کے حق میں بہتر تھا۔ مزید یہ کہ امریکی CIA کے خفیہ دھندے بھی بند ہونے لگے تھے کیونکہ طالبان نے منشیات کی کاشت کرنے پر انتہائی سخت پابندی عائد کر رکھی تھی۔پاکستان میں انتہائی ’’اعلیٰ فہیم‘‘ قیادت ملک کے اقتدار پر قابض ہو چکی تھی جو امریکی تائید پانے کو بے تاب تھی لہذا 9/11 کو فوراََ بعد ’’پتھروں کے دور‘‘ میں جانے سے خوفزدہ SSG کمانڈو نے ریاست کو یوں گہری کھائی کی جانب دھکیلا کہ خود امریکی بھی حیران رہ گئے۔ جنرل صاحب کو امریکی تائید کیا ملی انہوں نے ملک کو ’’ انتہا پسندی‘‘ سے پاک کرنے کا نیا حل ڈھونڈ نکالا اور Illetren Moderation نامی فارمولاغصے اور غم سے نڈھال قوم کے منہ پر دے مارا اور کمال فہم فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر کی جہادی تنظیموں پر بھی پابندی عائد کر دی تاکہ ’’ہندو بنیا‘‘ بھی خوش رہے۔ قوموں کو مشکل وقت میں اگر اچھے قائد نہ میسر ہوں تو وہی حال ہوا کرتا ہے جو پاک وطن کا ہوا۔ مشرف کی بدحال جمہوریت، بے باک امریکہ نوازی اور نا آقبت اندیشی نے پاکستان کو میدانِ جنگ بنا ڈالا۔معصوم اور غم و غصے سے نڈھال قبائلی بھائیوں کو سیاسی سطح پر مفاہمت پر آمادہ کرنے کے بجائے امریکہ نوازی میں ان پر بھی حملہ کر دیا گیا جس سے وہ ہمارے بھائی جو 1948 ؁، 1965 ؁، 1971 ؁ اور 1998 ؁ میں افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ اس مملکت کے دفاع کے لیے لڑے اپنی ہی فوج سے لڑنے لگے۔ کیا ہمارے صدر محترم، سول انتظامیہ اور اعلیٰ فوجی اہلکار اسوقت یہ بھول چکے تھے کہ پاکستان امریکہ کی 53 ویں ریاست نہیں ہے بلکہ ایک آزاد اورخود مختیار اسلامی ریاست ہے جسکے اپنے مفادات بھی ہیں جنہیں فراموش کر کے وہ خود کو خاتمے کی جانب لے جا رہے ہیں۔اہل نظر چِلاتے رہے کہ افغانستان میں بھارتی مداخلت انتہا درجے کو پہنچ چکی ہے اور گیارہ قونصل خانوں کے ساتھ بھارت افغانستان سے پاکستان دشمن سرگرمیوں کا آغاز کر چکا مگر ایوانِ اقتدار کو ہوش تب آئی جب بلوچستان جلنے لگا مگر پھر بھی کہاں عقل اور سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ ہوا۔ جنرل صاحب نے سابق وزیر اعلیٰ،گورنر اور اس ملک میں شمولیت کے لیے ووٹ ڈالنے والے ہر دل عزیز اکبر بگٹی کو شہید کر ڈالا جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اور صوبہ سرحد کی عوام اور قبائلی تو جیسے اس آگ کا ایندھن بننے کے لیے ہی رہ گئے تھے جس کا شوق امریکہ بہادر نے فرمایا اور پاکستان اپنے تمام تر مفادات بھول بھال کر اپنے عوام کی قربانی دینے بُش کی بتائی راہ چل پڑا۔ تحریکِ طالبان پاکستان نامی ایک تنظیم اپنے تمام تر مفادات جیسے پاکستان کی اسلامی ریاست کو تباہ وبرباد کر دینے میں ہی دیکھتی ہے اس کا وجود بھی تو جناب جنرل مشرف صاحب کی مہربانیوں کی مرہونِ منت ہے۔ امریکہ نوازی کے ردِعمل کے طور پر وجود میں آنے والی مختلف تنظیموں کو بھارتی اور اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کی براہِ براست یا بلواسطہ حمایت حاصل ہوتی رہی اور TTP انکی ایک مشترکہ شکل میں سامنے آئی۔ ان دہشتگردوں نے مسلمان پاکستانیوں اور مجاہدین کا روپ دھار کر اس پاک سرزمین کے خلاف ایسی کاروائیاں کیں جو بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک کی خفیہ ایجنسیاں تک نہ کر سکیں۔یہ سوال برابر اٹھتا رہا کہ ایک جانب امریکہ اور نیٹو کا افغانستان ، دوسری جانب چین جبکہ دو اطراف خود پاکستان کے باوجود آخر ان شرپسندوں کو عسکری و مالی امداد کہاں سے حاصل ہوتی رہی ہے مگر ایوانِ اقتدار نے کبھی امریکہ اور افغان حکام سے یہ سوال نہ کیا بلکہ امریکی احکامات برائے "DO MORE" کو بجا لاتے رہے۔ جنرل کیانی نے فوج کی کمان سنبھالتے ہی فوج کو سیاست سے الگ اور ریاست کے دفاع تک محدود کر دیا، کمال مہارت سے امریکی مطالبات کو رد کرتے ہوئے ریاست کے مفادات کو مدِ نظر رکھا۔یہی وجہ بنی امریکی ایماء پر وجود میں آنے والی بے ڈھنگی حکومت کی پے در پے حماقتوں کی کہ کبھی ISIکو وزارت کے ماتحت کرنے کی باتیں تو کبھی ممبئی حملوں پر ISI سربراہ کو بھارت بھیجنے کی باتیں اور کبھی تاریخ میں پہلی بار افواج پاکستان کو باقاعدہ پریس ریلیز جاری کر کے حکومت کو کیری لوگر معاملے پر اپنے تحفظات سے آگاہ کرنا پڑا۔ امریکی پاکستان سے جو چاہتے تھے یا ہیں وہ مشرف کے دور میں واضع ہو چکا کہ ہم اپنے ہی وطن پر چڑھ دوڑیں، اپنے لوگوں کا قتلِ عام کریں اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر امریکی CIA ایجنٹوں کو ویزے جاری کریں تاکہ وہ ناراض پاکستانیوں کو اس ملک کو انفرا اسٹرکچر تباہ کرنے کے لیے استعمال کر سکیں اور دنیا کو یہ باور کرواسکیں کہ پاکستان ایک مذہبی جنونیوں کا وطن ہے جسکے پاس ایٹمی قوت کا ہونا دنیا کے لیے خطرہ ہے۔ اور یوں 1998 ؁ سے شروع کی گئی ’’دفاع اسرائیل‘‘ مہم اپنے مقاصد کی تکمیل پا سکے۔ مگر ہمارے چند لوگ بے ضمیر ضرور ہو سکتے ہیں اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کا یہ ملک محب وطن اور مذہب اسلام سے محبت کرنے والوں کا وطن ہے جو امن ضرور چاہتے ہیں مگر یہ بھی نہیں بھولے کہ وہ خالدؓ کی اولاد ہیں علیؓ کی شجاعت رکھتے ہیں اور ٹیپو کی لاج رکھنا جانتے ہیں۔ امریکی مفادات کی دلدل سے نکلنا ہی اس ملک کی سلامتی کے لیے موزوں تھا وہی ہماری عسکری قیادت نے کیا۔ امریکی افغانستان میں طالبان سے مار کھاتے اور الزامات کی بوچھاڑ پاک فوج پر اسلئے ہی ڈالتے ہیں کہ اپنی عوام کو جواب کیا دیں کہ جس پتھروں کے دور میں رہنے والے ملک پر ’’دہشتگردی‘‘ کے خلاف جنگ نامی مہم کی تھی وہ اِن سے دس سال میں بھی قابو نہیں ہو سکے۔ وہی ’’حقانی‘‘جیسے خود CIA نے بنایا آج اُسی امریکہ کی ناک میں دَم کیے ہوئے ہے۔ پاکستان کے زعمار و اقابرین اب ہوش میں آچکے اور یہ جان چکے ہیں کہ امریکی جنگ میں انکا ذاتی فائدہ ضرور ہے مگر اسلامی کی تباہی نہ تو ان کے حق میں بہتر ہے ان امت کے اور جوابدہی کا وقت بھی قریب ہے۔ امریکی غبارے سے ہوا نکل چکی۔معاشی طاقت چین ہے، فوجی طاقت اللہ کا شکر ہے ہم بھی رکھتے ہیں اور اگر امریکی وزیرستان، خیبر پختونخوا یا بلوچستان تک حملے کرنے کی جرات کر سکتے ہیں تو ہم بھی ’’تل ایبک‘‘ تک رسائی رکھتے ہیں۔ یہ وقت سیاست کا نہیں یہ وہ وقت ہے جسکا انتظار پاکستانیوں کو پچھلے دس سالوں سے تھا کہ امریکی جنگ سے ہاتھ اٹھا لیا جائے ، ان کی امداد کو ٹھوکر مار دی جائے اور درسِ اقبال کو من وعن قبول کیا جائے۔ آئیں اور اس وقت کا مکمل فائدہ اٹھا ئیں پھر سے یکجا ہو کر دشمن کے سامنے کھڑے ہو جائیں اور اُسے بتا دیں کہ ہم سوئے ہوئے ضرور تھے مگر مرے ہر گز نہیں تھے۔ ہم اُسی طارق کی اولاد ہیں جو بارہ ہزار مجاہدین کا لشکر لیکر اسپین کے ساحل پر اترا اور کشتیاں جلا کر دعا کی ’’اے اللہ یا اسپین ہمارا یا ہم تیری بارگاہ میں حاضر‘‘ ۔ اب ہماری زندگی کا فیصلہ ہمارا اللہ کرے گا۔ پتھروں کے دور میں ہم جی لیں گے مگر غلامی کی زندگی ہمیں قبول نہیں۔یہ پاکستان چالیس لاکھ شہدا کی امانت ہے اُسکو رسوا نہ ہم ہونے دیں گے نہ اللہ ان شہیدوں کے خون کو رائیگاں کر سکتاہے۔ افواج پاکستان اور ISI ہماری شان اور آن ہیں اور اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو انشاء اللہ ہم صلاح الدین ایوبی کی یاد تازہ کریں گے۔ مسلح افواج اسلامی جمہوریہ پاکستان زندہ باد۔ پاکستان پائندہ باد۔
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتائی
احسن اعوان
About the Author: احسن اعوان Read More Articles by احسن اعوان: 11 Articles with 6787 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.