پاک بھارت تعلقات آج جس نہج کو پھنچ چکے ہیں اس کے ماضی کو کھنگالنے کی بجائے
اگر حالیہ تناظر میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے
کہ دونوں ممالک کے درمیان پے در پے وقع ہونے والے جنگی جنون کے پیچھے چند یکساں
عوامل میں سے سب سے بڑا اور اہم عنصر ان ممالک میں پایا جانے والا وہ مذہبی
جنون کار فرما ہے جس کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے۔اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں
کوئی تعامل نہیں ہے کہ دو مختلف عقائد، رسوم و رواج میں زمین آسمان کا تضاد اور
نہ پاٹنے والی خلیج، مذہب کی صورت میں ان دونوں ملکوں کے درمیان ایک حد فاصل کا
کردار ادا کر رہی ہے۔ اب زرا ہندومت اور اسلام میں کسی قسم کی کوئی چیز مشترک
پائی جاتی ہے تو وہ صرف اور صرف امن و آتشی کی تحریک ہے جو دونوں مذاہب اپنے
پیروکاروں کو دیتے ہیں۔اگرچہ اپنے ہی مذہب کو سب سے زیادہ پاکیزہ اور سچا
سمجھنے کا حق تمام مذاہب عالم کے پیروکاروں کو حاصل ہے۔ تاہم دوسروں کی اصلاح
کا بیڑا اٹھانے والے ہئ در اصل اپنے ہی مذہب کی تعلیمات اور امن عالم کا بیڑا
غرق کرتے ہیں۔ یہ مذہبی جنونی عیسائیت،اسلام، یہودیت اور ہندومت تمام میں پائے
جاتے ہیں۔ کیونکہ بھارت میں تمام مذاہب کے ماننے والے پائے جاتے ہیں لہٰذا وہاں
کے حکمرانوں پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسے شرپسند عناصر کا
قلع قمع کرے۔ تاآنکہ نہ صرف اپنی عوام کو دہشت گردی اور مذہبی جنونیوں سے بچا
سکے بلکہ خطے میں واقع دیگر ممالک کے لیے بھی ایک اچھی مثال قائم کی جا سکے، جس
پر عمل پیرا ہو کر ہمسایہ ملک بھی ایک معتدل اور روشن خیال معشرہ تشکیل دے
سکیں۔
بھارت اور پاکستان میں اس وقت لبرل، آزاد خیال اور قدرے بائیں بازو والی
جماعتیں بر سر اقتدار ہیں۔اگر دونوں حکومتیں مل کر ایک مشترکہ لائحہ عمل تشکیل
دیں تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان مٹھی بھر مذہبی جنونیوں سے چھٹکارا پایا
جا سکے اور خطے کو ایک بھیانک جنگ سے بچایا جا سکے۔اس سے نہ صرف دونوں ممالک
میں امن کے قیام میں مدد ملے گی بلکہ دونوں ملکوں کے پسماندہ عوام معاشی طور پر
مستحکم ہونگے اور خطے میں خوشحالی، امن،اور دوستی کا ایک نیا دور شروع ہو گا جس
کو سبوتاژ کرنا دہشت گردوں کے لیے ناممکن ہوگا۔ |