ترکی کے وزیراعظم کا طمانچہ

عرب رہنماؤں کے منہ پر ترکی کے وزیراعظم کا طمانچہ

سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیوس میں منعقدہ عالمی اقتصادی فورم کے سالانہ اجلاس میں اسرائیلی صدر کی ہرزہ سرائی اور میزبان کی عدم انصافی کے جواب میں ترک وزیراعظم طیب اردگان نے جس جرات کا مظاہرہ کیا وہ صرف اسرائیل کے منہ پر ہی نہیں بلکہ عرب سربراہان کے منہ پر بھی ایک طمانچہ ہے جو اپنے ذاتی مفادات کی بجاآوری کےلئے نہ صرف یہود وہنود اور صلیبیوں کے ہاتھوں مسلم قوم کی تباہی و بربادی دیکھ رہے ہیں بلکہ بیشتر جگہوں پر مسلمانوں کے خلاف جارحیت ان کی رضا ومنشاء کے مطابق یا پھر ان کی خاموشی کی وجہ سے ہے ۔ طیب اردگان نے عالمی اقتصادی فورم میں اسرائیل کے صدر شمعون پیریز کی تقریر میں فلسطین و غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کو ضرورت اور کارنامہ قرار دینے کے بعد عالمی اقتصادی فورم سے اپنے خطاب میں شمعون پیریز کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ” غزہ میں بے گناہ لوگوں کا لہو پانی کا طرح بہایا گیا ہے اور مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ لوگ اسرائیل کی جانب سے اس فوج کشی کا جواز پیش کئے جانے پر تالیاں بھی بجا سکتے ہیں“۔ انہوں نے کہا”مجھے لگتا ہے کہ آپ شاید اپنا احساس جرم مٹانے کے لئے ایسے الفاظ استعمال کر رہے ہیں اور وہ بھی بلند آواز میں مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ نے لوگوں کو ہلاک کیا اور میں ان بچوں کو یاد کررہا ہوں جنہیں ساحل کے قریب مار دیا گیا“۔اور ہوسکتا تھا کہ مسلمانوں کے قتل عام پر جرات اظہار کے ذریعے یہود و ہنود کو آئینہ دکھانے کی کوشش کرنے والے ترکی کے وزیراعظم طیب اردگان اسرائیل اور مہذب دنیا کو اس کا اصلی چہرہ مکمل طور پر دکھانے میں کامیاب ہوجاتے کہ میزبان نے وقت کی کمی کا بہانہ بناکر ان سے تقریر مختصر کرنے کے لئے کہا اور اسرائیلی وزیراعظم شمعو ن پیریز کو تقریر کے لئے 25منٹ دیئے جانے کے باوجود ترک وزیراعظم کو تقریر کے لئے صرف 12منٹ دیئے جو عالمی اقتصادی فورم جیسے آزادانہ مباحثوں کی روح کے سراسر منافی تھا جس کے جواب میں طیب اردگان نے مزید ہمت ہی نہیں بلکہ شجاعت کا مظاہرہ کیا اور ڈائس چھوڑتے ہوئے اقتصادی فورم کے مذکورہ اجلاس کے بائیکاٹ کے ذریعے ثابت کردیا کہ ہمت و شجاعت مومن کا وصف ایمانی ہیں ۔ طیب اُردگان کے اس انداز کو عرب اخبارات نے بےحد سراہتے ہوئے لکھا ہے کہ جو کام عرب سربراہوں کو کرنا تھا وہ کام ترک وزیر اعظم کو کرنا پڑا۔ ترک وزیر اعظم عرب باشندوں کے دلوں میں اپنے لئے خاص مقام پیدا کرچکے ہیں اور انہیں عالم عرب میں ایک ہیرو کے طور پر دیکھا جارہا ہے یہی وجہ ہے کہ ڈیوس میں غزہ پر حالیہ اسرائیلی حملوں کے معاملے پر اسرائیلی صدر کے ساتھ تلخ کلامی کے بعد ترک وزیر اعظم طیب اردگان کا وطن واپسی پر ہیرو کی طرح استقبال کیا گیا۔ ترک وزیر اعظم اپنے مقامی وقت کے مطابق نصف شب کے بعد تین بجے انقرہ پہنچے تو شدید سردی کے باوجود ہزاروں افراد گھروں سے باہر نکل آئے۔ اس موقع پر وزیر اعظم کے حق میں زبردست نعرے بازی کی گئی۔ استقبالی ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے طیب اردگان نے کہا کہ عالمی اقتصادی فورم میں ان کی ذات نہیں بلکہ قومی وقار کا مسئلہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک سیاستدان ہیں اس لئے کسی بوڑھے ریٹائرڈ سفارتکار کی طرح بات نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے حق میں بولنے کا موقع نہ ملنے پر واک آﺅٹ فطری ردعمل تھا۔

مذکورہ بالا روداد سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مسلم دنیا کے عوام اپنے حکمرانوں سے کیا توقعات رکھتے ہیں جبکہ یہ بات بھی واضح ہوئی ہے کہ عوام اور حکمرانوں کی سوچ میں کتنا فرق ہے۔ طیب اردگان نے ڈیووس میں وہی انداز اختیار کیا جو ترک عوام دیکھنا چاہتے تھے چنانچہ جب ان کے وزیر اعظم نے اپنے عوام کے جذبات و احساسات کی درست ترجمانی کی تو عوام نصف شب کو گرم بیڈ روموں سے نکل کر رگوں میں خون جما دینے والی سردی کے باوجود سڑکوں پر آگئے اور اپنے رہنما کا فقید المثال استقبال کیا۔ طیب اردگان کے حوصلے اور جرات اظہار کے جواب میں ترک عوام کی جانب سے فقید المثال استقبال کے ذریعے انہیں پیش کیا جانے والا خراج تحسین اس بات کا متقاضی ہے کہ عرب ممالک اور مسلم دنیا ان جیسا حوصلہ پیدا کریں اور استعماری قوتوں کے خلاف ڈٹ کر مسلمانوں کی نسل کشی و استحصال کی سازشوں کو ناکام بنانے کا عزم اگر کرلیں تو ان کے عوام نہ صرف ان کے ساتھ ہوں گے بلکہ اپنے ان جری رہنماؤں کی خاطر اپنی جان قربان کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے اور اگر ایسا ہوگیا تو پھر ہر اسلامی و عرب ملک میں اتحاد و اتفاق کی وہ قوت پیدا ہوجائے گی جو سامراجی قوتوں کے جبر کے ہر جال کو ہی نہیں توڑ دے گی بلکہ ان کے ہر وار کو بھی ناکام بناکر اسلامی دنیا کو ان کی یرغمالیت سے باہر نکال لانے کے ساتھ ساتھ ملک میں ترقی و خوشحالی کی وہ راہیں بھی وا کردیگی کہ پھر کوئی مسئلہ مسئلہ نہیں رہے گا اور کوئی بحران تا دیر قائم نہیں رہ سکے گا ! طیب اردگان نے ڈیووس میں جو مثالی رویہ پیش کیا اس پر پاکستان کے سولہ کروڑ عوام انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور اپنے حکمرانوں و رہنماؤں سے بھی اس عزم و حوصلے اور جرات و استقامت کی اُمید کرتے ہیں جس کا مظاہرہ طیب اردگان نے کیا ۔  

Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 63 Articles with 62588 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.