ہندوستان کی تاریخ میں شاید ایسا
پہلی بار ہوا ہے کہ کسی اردو والوں کی پارلیمنٹ میں گونجنے والی اردو آواز
مسٹر احسان جعفری ممبر ایوان پارلیمنٹ کا درد ناک قتل ہوا۔اور یہ قتل گجرات
کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی حکمرانی میں وقوع پذیر ہوا۔کیونکہ گجرات
انتظامیہ ان کے تابع ہے ۔ تو ان کی ہدایت و ان کے حکم پر وان کی مرضی کے
تحت ہی مذکورہ اردو داں شخص کا قتل کرنے کی خاطر گلبر سوسائٹی میں فساد
کرایا گیا ہے۔اردو والوں کی پارلیمنٹ میںنمائندگی کرنے والے مرحوم احسان
جعفری ایک بہت ہی معتبرشخصیت کے مالک تھے۔ان کی اردو کے تئیں خدمات کو
محبان اردو سلام کرتے ہیں۔ گجرات میں ان کو جس طرز پر قتل کیا گیا۔وہ اس
بات کی دلیل ہے۔ کہ نریندر مودی نے فسادیوں کو ٹرینگ دی تھی کہ جیسے ان کے
سیاسی حریف احسان جعفری ہی ان اصل نشانہ بنیںجس میں وہ کامیاب
ہوگئے۔پارلیمنٹ میں اردو والوں کی ایک منفرد آوازفساد کا سہار ا لیکر خاموش
کردی گئی، ان کا منصوبہ ہندوستان سے اردو ، اردووالوں، اردو کے عقیدت مندوں
کیلئے ایک دھمکی تھی۔ کہ باز آجاﺅ ورنہ اردو کے تمام چاہ نے والوں کا یہ ہی
حشر ہوگا جو گجرات میں احسان جعفری کا ہوا ہے۔ یہ چیلنج نریندر مودی نے
اردو عوام کے سامنے رکھ دیا ہے۔ ان کو نہیں معلوم کہ انقلاب زندہ باد کی
شمع اردو والوں ہی روشن کی تھی۔ اس نعرے کے ذریعہ ملک سے انگریزوں کو
بھاگایا گیا تھا۔مودی نے احسان جعفری کا حقیقی کیا ہے۔ مگر اردو عوام ان کا
سیاسی قتل کریں گے۔ یعنی ان کو اقتدار سے بے دخل کرکے احسان جعفری کے حقیقی
قتل کا سیاسی انتقام لیں گے۔ لیکن یہ بات حیرت کی ہے کہ نریندر مودی نے
ملائم سنگھ یادو سے خفیہ مدد کی اپیل کی ہے۔اور کہا کہ اگر وہ گجرات کے
اعلیٰ بننے میں کامیاب ہوگئے تو اس کے عوض بھاجپا اپنی مدد سے ملائم سنگھ
یادو کو ہندوستان کا وزیر آعظم بنائے گی۔اسی کے مدنظرڈاکٹر اے پی جے
عبدالکلام کو صدارتی عہدے کیلئے ان کی جانب سے سیاسی مہرے کے طور پر استعما
ل کیا جارہا ہے۔’مودی ۔ملائم‘ ان کی صدر جمہوریہ کی امیدواری کیلئے ایک
خفیہ سمجھوتے تحت رضا مند ہوگئے ہیں۔ مگر یہ بات بہت شرم و افسوس کی ہے کہ
ملائم سنگھ یادو نے ان کی اس خفیہ اپیل و سمجھوتے کو مانتے ہوئے گجرات میں
ان کی مدد کیلئے اپنے امیدوار تمام حلقو ں میں اتارنے کے منصوبہ پر عمل
شروع کردیا ہے۔ ان کو سیکولر ووٹوں کو منتشرکرنے کی ایک اہم زمہ داری دی
گئی ہے۔ جس کو وہ گجرات کے اسمبلی انتخاب میں خوب اچھی طرح نبھائیں گے۔ آپ
کویاد دلادیں کہ ملائم سنگھ یادو نے اپنے دور اقتدار میں یوپی میں کانگریس
کے مکمل خاتمہ کیلئے ایک خفیہ سمجھوتہ کیا تھا۔ جب بھاجپا ورکر کارسیو ں کی
شکل میں اجودھیا کوچ کرر ہے تھے۔ انہوں نے اعلانیہ کا کہا تھا کہ بابری
مسجد کو چاروں طرف سے سیل کردیا گیا کہ اس کے احاطہ میں کوئی پرندہ بھی پر
نہیں مارسکتا۔اس پر بھاجپا کے لیڈروں نے خفیہ طور پر ملائم سنگھ یادو سے
ملاقات کی۔کہ جناب آپ یہ کیا کررہے ہیں۔ آپ کو بابری مسجد کی پختہ حفاظت سے
کیا ملے گا۔قانون کو بالائے طاق رکھیئے۔اور یوپی سے کانگریس کو ختم کرنے
کیلئے ہم سے ہاتھ ملایئے۔ خفیہ معاہد ہ ’بھاجپاوملائم ‘ کے درمیاں طے
ہوا۔کہ” آپ ہمارے کارسیوں کی رسائی بابری مسجد تک آسان بنائیں گے۔اور اتنی
اجازت دیں گے کہ وہ کارسیوک بابری مسجد کی چھت پر چڑھ کر اس کے گمبدپر
ہتھوڑا بجاکر اس کو کچھ نقصان پہنچائیں۔بس اتنی اجازت دیں۔باقی آپ جو چاہیں
کریں۔ملائم سنگھ بولے کہ میں اعلانیہ مسلمانوں سے احسان فراموشی نہیں
کرسکتا ۔بھاجپا بولی ۔اسمیں احسان فراموشی کی کیا بات ہے۔بس آپ ہمارے
کارسیوکوں کو اجازت دیں پھر آپ جو چاہیں کریں۔ملائم سنگھ نے کہا کہ وہاں
گولی چلے گی۔بھاجپا نے کہا کہ ہم نے اس کی پہلے اجازت دے دی کہ آپ پھر
جوچاہیں کریں۔ مگر اس سے مجھے کیا فائدہ ہوگا۔جناب آپ کو گولی چلانے سے یہ
فائدہ ہوگا۔کہ ہم آپ کو ” ملا ملائم سنگھ کے خطاب سے نوازیں گے۔ اور پھر
یوپی کے تمام مسلم ووٹ آپ کی جھولی میں آگریں گے۔جذباتی ہندﺅں کے ووٹ ہمارے
پاس آجائیں گے۔ جس سے کانگریس کا پتّہ یوپی سے ہمیشہ کیلئے صاف ہو جائے
گا۔اس پر ملائم سنگھ بھاجپا لیڈروں سے بغل گیر ہوگئے۔ دنیا نے دیکھا کہ پھر
وہ ہی ہوا ۔ جو ”ملائم و بھاجپا کا خفیہ معاہدہ“ تھا۔وہ بھاجپا کے ” ملاّ و
مولانا “ کے خطاب سے نوازے گئے۔اور اس طرح یوپی کی مطلعِ سیاست سے کانگریس
پوری طرح صاف ہوگئی۔بابری مسجد کے انہدام میں ملائم سنگھ کی جماعت نے کسی
احتجاج کی ضرورت بھی نہیں سمجھی ۔ حالانکہ نرسمہا راﺅ نے مسلمانوں کو دلاسہ
دیا کہ بابری مسجد دوبارہ اسی مقام پر ایک سال کے اندر اندر بنا کر دی جائے
گی مگر ملائم سنگھ فرقہ پرستوں کے ساتھ ہوئے سمجھوتے پر عمل کرتے رہے۔
بھاجپا نے مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کیلئے ملائم سنگھ کو ملا ملائم سنگھ
بنایا۔ملائم سنگھ کو مسلمانوں نے ’مولانا‘ کے خطا ب سے نہیں نوازہ بلکہ یہ
خطاب بھاجپا کی طرف سے ملائم سنگھ کو دیاگیا تھا ۔جس پر بھاجپا ابھی تک
قائم ہے۔ حالانکہ ملائم سنگھ نے اس خطاب کو ردّ و ناکارہ بنانے کیلئے کلیان
سنگھ اپنے گلے لگایا اور ان کو اپنے سر پر بیٹھا یا حتیٰ کہ آعظم خان کو
بھی نہیں بخشا گیا۔مگر بھاجپا پھر بھی باز نہیں۔اب کانگریس کو گجرات سے ختم
کرنے کیلئے ایسا ہی کھیل مودی و ملائم گجرات میںمل کر کھیل نے جارہے ہیں۔
اگر سماج وادی پارٹی نے مودی کے ساتھ ہوئے سمجھوتے پر عمل کیا۔تو اردو عوم
۔مسٹراکھلکیش یادو کو چندر بابونائیدو اور کماری مایا وتی کی طرح کا سبق
سیکھائیں گے۔ کیونکہ ملائم سنگھ گجرات میں نریندرمودی کی مفاہمت سے سماج
وادی پارٹی ان مسلم و غیر مسلم لوگوں کو ٹکٹ دے گی جس کی منظوری پر نریندر
مودی اپنی مہر لگائیں گے۔اب اردو عوام نریندر مودی سے احسان جعفری کے قتل
کا سیاسی بدلہ لینے کے موڈ میں ہے۔کیونکہ ان کا قتل ان کے دور اقتدار میں
ہوا ۔ اس کیلئے اخلاقی طور پر بھی وہ زمہ دار ہیں۔ گجرات میں کانگریس کی
اعلیٰ قیادت کو چاہئے کہ وہ کسی ہیم وتی نند بہوگنا جیسے اردو داں شخص کو
بطور وزیر اعلیٰ نامزد کرے،جس سے وہ (اردو سے واقف کار شخص) وہاں کے اردو
عوام کی پہلی پسند بن جائے۔ نریندر مودی کو اکھاڑ پھینک نے کیلئے ایسا کرنا
ضروری ہے۔ مسٹر بہوگناجیسے شخص کو دیکھنے کا کام سونیا گاندھی کے سیاسی
صلاح کار احمد پٹیل صاحب کا ہے جو اس کام کو بہ خوبی انجام دے سکتے ہیں۔
اور نائب وزیر اعلیٰ کیلئے وہ اپنے صاحب زادے فیصل پٹیل کو پیش کریں تو
گجرات میں ایک نئے انقلاب کی دستک سنائی پڑسکتی ہے۔ بھاجپا میںانتشار کی
باتیں صرف عوام کو گمراہ کرنے کے مقصد کے تحت ہورہی ہیں۔ جس مطلب احسان
جعفری کے سیاسی قتل کو بھاجپا مرکزی حیثیت نہیں دینا چاہتی۔ وہ اس کو صرف
گجرات تک ہی محدود رکھنا چاہتی ہے۔ جبکہ ان کے قتل سے پورے ہندوستان کے
مسلم عوام بہت زیادہ دکھی ہیں۔اب اردو عوام نے اس کا سیاسی نوٹس لے لیا
ہے۔اب وہ نریندر مودی کو اقتدار سے بے دخل کرکے ہی دم لیںگے۔اگران کے اس
کام میں ملائم سنگھ یادو یاان کی پارٹی کے کسی ورکر نے دخل اندازی کی تو ان
کے صاحب زادے اکھلیش یادو کا اقتدار بھی چھین لیا جائے گا۔اردو عوام کی
خاموش حکمت عملی پورے ہندوستان میں پھیل چکی ہے۔اردو عوام کا پہلا نشانہ
نریندر مودی دوسرا نشانہ ممتا بینرجی اور اگر ملائم سنگھ یادو راہ راست پر
نہیں آئے توپھر تیسرا نشانہ اکھلیش یادو ہی ہوں گے۔ہندوستان کے اردو عوام
نے چندر بابو نائیڈو اور مایا وتی کو شکست دے کر اپنا پیغام موقع پرستوں کو
واضع طورپر پہنچادیا ہے۔ بہرحال اب سیاسی میدان میں اردو عوام کی اہمیت کو
نظر انداز نہیں کیا جاسکتاہے۔اب وہ اپنے دشمنوں سے سیاسی انتقام لینے کیلئے
پوری طرح تیار ہیں۔فی الوقت مرحوم احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری کی حوصلہ
مندی ہمت و ولولہ کو سلام پیش کرتے ہیں ۔کہ وہ اب تنہا نہیں ہیں۔ بلکہ پورا
ملک ان کے ساتھ کھڑا ہے۔اب اردو کو اردو والوں احسان جعفری کی طرح موت کے
گھاٹ اتارنا،اور اردو کو ہندوستان سے مٹانا مشکل ہی بلکہ ناممکن ہے۔اب پورے
ملک کے اردو عوام اردو والوں کے ساتھ ہورہی زیادہ کا نوٹس لیکر اردو ۔محبان
اردو کاقلمی تحفظ کیا جائے گا۔ |