جمہوریت کی فتح مبارک ہو۔۔۔

میں اُس دن معمول سے کچھ زیادہ ہی خوش تھا۔ میری اس خوشی میں اُس وقت اضافہ ہوا جب صبح نہار منہ میری پہلی نظر اخبار پر پڑی جس پر موٹی سرخی تھی کہ سپیکر قومی اسمبلی محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا صاحبہ نے میرے پسندیدہ وزیر اعظم جناب محترم سیّد یوسف رضا گیلانی صاحب کو توہین عدالت کے کیس سے بری کردیا تھا اور فرمایا تھا کہ وزیر اعظم کے خلاف کسی بھی قسم کا ریفرنس بھیجنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اور انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ میں ملک کے 342 منتخب چوروں کے حقوق۔۔۔۔اوہ ۔۔معاف کیجئے گا وہ ذرا زبان پھسل گئی ہے۔اصل میں انہوں نے یہ فرمایا تھا کہ میں ملک کے 342 منتخب ارکان کے حقوق کی نگہبان ہوں اس لیئے گیلانی صاحب کی نا اہلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔یہ ہوئی نہ بات ۔۔۔اسی کو کہتے ہیں ۔۔اصلی جمہوریت۔۔ اور پاکستان میں اصلی ملنے والی واحد شے جمہوریت ہی ہے ورنہ یہاں تو زہر بھی اصلی نہیں ملتا۔۔۔جمہوریت زندہ باد۔۔ جمہوریت زندہ باد۔۔یہ خبر پڑھتے ہی میں اپنی چار پائی سے اچھل کر نیچے گرا اور ادھر اُدھر دائیں بائیںدیکھا کہ مجھے گرتے ہوئے کسی نے دیکھا تو نہیں ۔۔؟؟ وہ تو بعد میں مجھے یاد آیا کہ اس وقت تو میں گھر پر اکیلا ہی ہوں اس لیئے میں تسلی سے اُٹھا کپڑے جھاڑے اور یہ خبر اپنے دوستوں کو بتانے کے لیئے گھر سے باہر آ گیا۔۔۔میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی اور مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں سب سے پہلے یہ خوشخبری کس کو سناﺅں۔گھر سے نکلتے ہی گلی کی نکڑ پر خان چاچا کی دوکان تھی ۔۔ خان چاچا ابھی اپنی دوکان کھولنے کے لیئے تالے میں چابی لگا ہی رہے تھے کہ میں نے پاس جا کر زور سے کہا ۔۔۔ خان چاچا مبارک ہو۔۔۔خان چاچا بھی خوشی سے اُچھلے اور اور جھٹ سے مجھے گلے لگالیا۔۔۔ اور جوابی حملہ کر دیا۔۔۔ خیر مبارک۔ خیر مبارک۔۔۔آپ کو بھی عیدکاخوشی مبارک او۔۔۔میں نے کہا ۔ خان چاچا عید ؟؟ کون سی عید؟؟۔۔۔خان چاچا اپنے چمکیلے دانت پھیلاتے ہوئے بڑی عجیب سی نظروں سے دیکھ کر کہنے لگے کہ۔۔۔ اوہ لاکا۔۔ تم جب بی اَم کو ملتا اے تو مارا عید ای اوتا اے (تم جب بھی ہم کو ملتے ہو تو ہماری عید ہی ہوتی ہے)۔۔۔ وہ تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ محلے کے کسی لڑکے کی نظرہم پر نہیں پڑی ورنہ ہماری جمہوریت تو قربان ہو چکی ہوتی ۔۔۔میں نے جلدی سے اپنے آپ کو خان چاچا کے چنگل سے آزادی دلائی اور آگے کی راہ لی۔۔۔پیچھے سے خان چاچا نے مجھے بہت آوازیں دیں۔۔۔ او لاکا ۔ او لاکا۔ امارا بات تو سنو یارا!! (ہماری بات تو سنو یار )۔۔۔ لیکن اُس وقت ہمیں اپنی جمہوریت اپنی جان سے بھی زیاداہ عزیز تھی۔۔چند قدم چلنے کے بعد میں بازار پہنچا اور کالو ریڑھی والے کے پاس جا کرکھڑا ہو گیا جس سے میں اکثر اُدھار امرود لے کر کھاتا ہوں۔۔۔ رسمی سلام دعا کے بعد میں نے کالو کا حال چال پوچھا اور اُسے بھی مبارک باد دے ماری۔۔۔ خیر مبارک۔۔۔پر کس بات کی مبارکیں دی جارہی ہیں ؟؟لگتا ہے کہ میرے بھائی کا کوئی انعامی بونڈ شونڈ نکل آیا ہے!! اس لیئے آج بڑا خوش ہے۔۔ہیں!!!۔۔۔کالو نے ایک ہی سانس میں سارا سبق مجھے سنا دیا۔۔۔ہا ہا ہا ہا ۔۔۔ کالو بھیاانعامی بانڈ کے نکلنے سے بھی زیادہ خوشی کی بات ہے۔۔۔

تو پھر جلدی بتا ناں۔۔۔ کوئی منگنی شنگنی کا چکر لگتا ہے مجھے تو۔۔۔۔کالو نے چہچہاتے ہوئے مجھ سے کہا۔۔۔
او یار تو نے آج کااخبار نہیں پڑھا ؟؟؟ میں نے بڑی حیرت بھری نظروں سے اُسے دیکھ کر پوچھا۔۔۔

او نئی جی۔۔ میں نے اخبار پڑھنا چھوڑ دیا ہے ۔۔ کوئی ہمارے غریبوں کے کام کی خبر ہو تو بندہ اخبار بھی پڑھے ۔۔۔ ساری کی ساری خبریں چوروں اور ڈاکووں کے کارناموں کی ہی ہوتی ہیں۔۔ اُس نے بڑے مایوس ہونے والے انداز سے کہا۔۔۔

او نہیں یار۔۔ ایسی بھی کوئی بات نہیں۔۔ تو نے اگر آج کا اخبار پڑھا ہوتا تو اس طرح مایوس ہونے والی باتیں نہ کرتا۔۔۔میں نے اُسے تسلی دینے والے انداز سے کہا۔۔

کیوں جی آج کون سی ایسی خبر آ گئی ہے جس سے ہمارے غریبوں کے بھاگ جاگ جائیں گے؟۔۔ کیا پٹرول ایک روپیہ سستا ہو گیا ہے؟؟۔ ۔ لوڈ شیڈنگ بیس گھنٹوں سے اُنیس گھنٹوں پر آگئی ہے؟؟۔۔ کیا سبزیوں اور پھلوں کے بھاﺅ گر گئے ہیں؟؟۔۔کیا محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتل گرفتار ہو گئے ہیں؟؟۔۔ یا کسی بڑے چور کی چوری پکڑی گئی ہے؟؟۔۔۔ آخر کون سی ایسی بڑی خبر لے کر آئے ہو جس کی تم مبارکیں دے رہے ہو؟؟۔۔۔۔۔

ارے کالو بھیا۔۔ یہ سب خبریں اس خبر کے سامنے بہت چھوٹی ہیں۔۔۔جو خبر میں تمہیں سُنانے والا ہوں وہ سن کر تو تم خوشی سے پاگل ہو جاﺅ گے۔۔۔تولو سنوں پھر۔۔۔ ارے آج جمہوریت کی فتح ہوئی ہے۔۔۔ جمہوریت جیت گئی ہے آج ۔۔۔ ہمارے وزیر اعظم گیلانی صاحب توہین عدالت کے جرم میں اب نا اہل نہیں ہو سکتے ۔۔۔ یہ قومی اسمبلی کی سپیکر فہمیدہ مرزا صاحبہ نے کہا ہے۔۔۔جیسے جیسے میں جمہوریت کے حق میں اپنا گلا پھاڑ پھاڑ کر تقریر کر رہا تھا ۔۔ ویسے ویسے کالو کا چہرہ غصے سے لال ہوتا جا رہا تھا ۔۔ وہ اب کالو نہیں لالو لگ رہا تھا۔۔۔اور میری تقریر سن کر غصے سے بولا۔۔۔ایسی کی تیسی تمہاری جمہوریت کی۔۔۔ کیا دیا ہے اس جمہوریت نے مجھے؟۔۔۔اور میرے جیسے کروڑوں غریبوں کو جن کے نام پر اس جمہوریت نے اقتدار حاصل کیا ہے۔۔۔ وزیراعظم رہے یا نہ رہے اس کا مجھے یا میرے بچوں کو کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔جمہوریت کی فتح تب ہوتی جب لوگوں کو انصاف ملتا۔بیروزگاری میں کمی آتی۔ مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا۔ملک ترقی کرتا ہوا نظر آتا ۔ قانون کی بالا دستی ہوتی۔۔۔کالو کی یہ دھواں دار تقریر سن کر کافی لوگ جمع ہو چکے تھے اور اُس کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے ۔۔۔ لیکن اس کے باوجود میں ہار ماننے والا نہیں تھا ۔۔۔میں نے بھی اپنی حکومت کے حق میں نعرے لگانا شروع کر دیئے۔۔۔پی پی دے نعرے وجن گے۔۔ چور لٹیرے پجن گے۔۔۔ لیکن مجھے ایسے لگا کہ میں یہ کہ رہا ہوں ۔۔۔ پی پی دے نعرے وجن گے ۔۔ چور لٹیرے رجن گے۔۔۔اس بات کا احساس مجھے اُس وقت ہوا جب سارے لوگ مجھ پر ہنس رہے تھے۔
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 100427 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.