آﺅ کھیلیں چور سپاہی

بچوں کا تو یہ بہت ہی پسندیدہ کھیل ہے۔اور یہ کھیل بچے بڑے شوق اور اہتمام سے کھیلتے ہیں۔ کچھ بچے سپاہی بن جاتے ہیں اور کچھ چور ۔۔۔ سپاہی بننے کا ہر کسی کو شوق ہوتا اس لیئے اس بات پر پہلے تو کچھ دیر بحث چلتی ہے پھر جس جس کا زور چلتا ہے وہ سپاہی بن جاتا ہے اور باقی چور بنا دیئے جاتے ہیں۔ سپاہیوں کے ہاتھوں میں باقاعدہ طور پر پستول نما لکڑی ہوتی ہے۔ بلکہ آج کل تو نقلی پستول بھی مل جاتے ہیں ۔ اگر گولیاں نہ بھی ہوں تو منہ سے ٹھاہ ۔۔ٹھاہ۔۔ کی آوازیں نکال لیتے ہے۔چور چوری کرکے بھاگ جاتے ہیں اور سپاہی اُن کو پکڑنے کے لیئے اُن کا پیچھا کرتے ہیں۔ کچھ دیر بعد سپاہی تمام چوروں کو پکڑ کر جیل میں قید کر دیتے ہیں اور یوں یہ کھیل ختم ہو جاتا ہے۔ ۔۔چور سپاہی کا کھیل صرف بچے ہی نہیں اب تو یہ کھیل بڑے بھی بڑے شوق سے کھیلتے ہیں۔ بڑوں کے اس کھیل میں کھیل کا دورانیہ پانچ سال کا ہوتا ہے۔ اس کھیل میں دو ٹیمیں ہوتی ہیں ایک ٹیم چور کا کردار ادا کرتی ہے اور دوسری ٹیم سپاہی کا۔۔۔چوروں نے چوری کر کے بھاگنا ہوتا ہے اور سپاہیوں نے اُن کو پکڑ کر جیل میں بند کرنا ہوتا ہے۔ چور چوری کرتے رہتے ہیں اور سپاہی اُن کا پیچھا ۔ لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کسی بھی چور کو پکڑا جا سکے ۔پانچ سال تک یہی سلسلہ چلتا رہتا ہے اور پانچ سال گزر جانے کے بعد یہ کھیل نئے سرے سے کھیلا جاتا ہے اور اگلے پانچ سال کے لیئے جو ٹیم چور ہوتی ہے وہ سپاہی بن جاتی ہے اور سپاہیوں کا کردار ادا کر نے والی ٹیم چوری کرنا شروع کر دیتی ہے۔۔۔اس طرح ہر بار کردار بدل بدل کر یہ کھیل کھیلا جاتا ہے ۔ یہ کھیل اب بھی کھیلا جا رہا ہے اور اس کھیل کو تقریباً پانچ سال پورے ہونے والے ہیں۔ ان ساڑھے چار سالوں میں چور خوب زورو شور سے چوریاں کرنے میں مصروف ہیں ۔ لیکن ابھی تک کسی سپاہی نے ایک بھی چور نہیں پکڑا۔کیونکہ سپاہی جانتے ہیں کہ اب اگلی باری چور بننے کی اُن کی ہے اس لیئے اگر انہوں نے کسی چور کی چوری پر شور مچایا یا کسی چور کو پکڑا تو پھر اُن کی باری جب چوری کرنے کی آئے گی تو اُن سے بھی کوئی رعائت نہیں برتی جائے گی۔سپاہیوں کے پاس پستول اور گولیاں ہونے کے باوجود بھی وہ صرف منہ سے ٹھاہ ۔۔ٹھاہ۔۔ کی آوازیں نکال رہے ہیں۔ تا کہ جن کی چوریاں ہو رہی ہیں وہ (یعنی عوام) یہی سمجھیں کے سپاہی چوروں کا پیچھا کر رہے ہیں اور اگلے ہی لمحے وہ چوروں کو پکڑ کر جیل میں بند کر دیں گے اور یوں چوروں کا کھیل ختم ہو جائے گا۔ لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔یہاں تو معاملہ ہی اُلٹ ہے ۔ سپاہی خود چوروں کے ساتھ ملے ہوئے ہیںاور سپاہیوں نے چوروں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ جس محکمے کی جتنی چاہے چوری کریں۔۔ اُسے کوئی بھی نہیں پوچھے گا اور اگر کبھی عوام یا میڈیا نے کسی چوری کا شور مچایا تووہ منہ سے ہی ٹھاہ۔۔ ٹھاہ۔۔ کی آوازیں نکال کر عوام کو مکو ٹھپ دیا کریں گے۔ عوام کا دھیان ایک چوری کی طرف ہو گا تو ادھر سے دوسرے چور دوسری چوری کرنے لگ جائیں گے۔اس طرح دوسری چوری سے تیسری اور تیسری چوری سے چوتھی اور یہ سلسلہ پانچ سال تک چلتا ہی رہے گا آخر عوام کا کس کس چوری کی طرف دھیان جائے گا۔عوام کا دھیان تو چوروں اور سپاہیوں نے مل کر مہنگائی بے روزگاری لوڈشیڈنگ اور اس طرح کی ہزاروں مصیبتوں میں اُلجھا رکھا ہے۔

چوری بھی یہ چور کوئی چھوٹی موٹی نہیں کرتے۔ وی آئی پی چور ہیں اس لیئے کوئی بڑا ہی ہاتھ مارتے ہیں۔ بڑے بڑے ہاتھ مارنے کے باوجود بھی ان کے ہاتھ اس طرح صاف ہوتے ہیں جیسے ابھی ابھی صابن سے دھوئے ہوں۔یہ مفاہمت مارکہ صابن انہی چوروں کے لیئے ہی تو بنا تھا۔ بڑی سے بڑی چوری کرو۔۔۔مفاہمت مارکہ صابن سے ہاتھ دھوﺅ۔۔۔ اور ۔۔۔ اسمبلیوں میں جا بیٹھو۔۔۔پھر کرو فیصلے اپنی مرضی کے اور بناﺅ قانون اپنے گھر کا۔۔۔ آپ کو کس نے روکنا ہے ؟؟؟ کیونکہ روکنے والے بھی تو آپ کے ہی ساتھی ہیں۔ اپنی باری لینے کے چکر میں وہ آپ کی ہر چوری کو نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس کھیل میں بچوں کے برعکس ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ چور ہی بنے کیونکہ چور بننے میں جو مزہ ہے وہ سپاہی بننے میں نہیں۔ اس لیئے تو ہر پانچ سال کے بعد کہتے ہیں کہ۔۔۔ آﺅ کھیلیں چور سپاہی!!!
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 100426 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.