بوڑھے باپ کی اُمید

میرے مڈ ٹرم امتحان ہو چکے تھے ۔ مجھے واپس گھر جانا تھا۔ میں گجرات ریلوے سٹیشن پہ پہنچا ۔ میری بکنگ تھی چناچہ میں ٹرین کا انتظار کرنے لگا۔میں طویل سفر کیلے ہمیشہ ٹرین کو ترجیح دیتا ہوں۔میرے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ طویل سفر کیلے زیادہ آرام دہ ہے۔ یہ وقت تھوڑا زیادہ لیتی ہے مگر اس میں اس میں آپ لیٹ کر اپنی تھکن دور کر سکتے ہیں۔ ٹرین کے آنے میں ابھی تھوڑا وقت تھا۔

پلیٹ فام پہ میری ملاقات ایک بوڑھے شخص سے ہوئی۔ مجھے وہ بہت پریشان دیکھائی دے رہے تھے۔ میں نے اِس کی وجہ جاننے کے لیے اُن سے ابھی صرف اتنا ہی پوچھا تھا کہ بابا جی! سب ٹھیک ہے ناں؟ کہ اُن کی آنکھیں بھر آئیں۔ پھر انہوں نے بتانا شروع کیا۔

اُن کا ایک ہی بیٹا ہے۔ جس کی عمر اَب تقریباً بتیس سال ہے جو کہ دو سال سے لا پتہ ہے۔ وہ اسے ڈھونڈے کے لیے کراچی جا رہے ہیں اور وہ اِسی سلسلے میں تیسری بار کراچی جا رہے تھے۔ میں نے مزید تفصیل پوچھی تو انہوں نے تفصیل بتانا شروع کی۔

انہوں نے بتایا کہ وہ سیالکوٹ کے رہائشی ہیں اور پاکستان بننے کے بعد سے یہاں ہی رہ رہے ہیں۔ ان کی بیوی پہلے بچے کی پیدائش پر انتقال کر گئیں تھیں۔ وہ پاکستان سے پندرہ برس بڑے ہیں اور ان کا نام حمید ہے۔ ان کے بیٹے کا نام شہزاد ہے۔ ان کی وہاں کسی سے دشمنی تھی۔ جس کی بھینٹ ان کا بیٹا چڑھ گیا۔ ان کا بیٹا زیادہ پڑھا ہوا نہیں تھا۔ اسے مخالفوں نے بلاوجہ پولیس کے حوالے کر دیا کیوکہ پولیس بِک چکی تھی۔ اسے حراست میں رکھ کر تشددکیا گیا اور حمید صاحب کے ساتھ بھی بد تمیزی کی گئی۔ پھر انہوں نے ہائر اتھاڑٹیز سے بات کی جس پر ان کے بیٹے کو تو چھوڑ دیا گیا مگر دشمنی مزید بڑھ گئی۔ ان کا بیٹا ایک دکان چلاتا تھا۔ جو کہ کرائے کی تھی۔ انہوں نے بیٹے کو دوکان پہ جانے سے منع کیا مگر وہ نہ رُکا۔ وہ عام زندگی گزارنا چاہتا تھا۔ مگر یہ اس کی زندگی کے لیے بھی خطرناک تھا۔ چناچہ حمید صاحب نے ایک کڑا فیصلہ کیا۔ وہ اپنے بیٹے کو کراچی چھوڑ آئے اور اللہ کے حوالے کر دیا۔ اور خود واپس آ گئے۔ یہ فیصلہ انہوں چند رفقائ کے کہنے پہ کیا ۔ اور آج وہ اپنے اس فیصلے پہ پچھتا رہے تھے۔ یہ دو سال پہلے کا واقعہ تھا اس کے بعد آج تک ان کے بیٹے کا پتہ نہیں چلا۔ انہوں نے مجھے اپنے بیٹے کا شناختی کارڈ بھی دکھایا اور وہ اخبارات بھی دکھائیں جن پہ ان کے بیٹے کی تفصیلات موجود تھیں۔

یہ اس وقت سے اپنے بیٹے کو تلاش کر رہے ہیں۔ اور اس سلسلے میں وہ پاکستان کے بیشتر شہروں میں جا چکے ہیں۔ وہ پولیس اسٹیشنوں اور ہسپتالوں میں جا کر پتہ کر چکے ہیں۔ جب بھی انہیں کوئی بتاتا ہے کہ تمھارے بیٹے کو میں نے فلاں جگہ دیکھا (چاہے مذاق میں ہی کیوں نہ کہے) ، وہ وہاں چلے جاتے ہیں اور تلاش کرتے ہیں۔ کیوکہ وہ پرُ امید ہیں کہ ان کا بیٹا مل جائے گا۔اسی لیے وہ آج بھی اس دکان کا کرایہ ادا کرتے ہیں۔ اسی لیے وہ ایک بار پھر کراچی جا رہے ہیں۔

یہ امید ہی ہے جو کہ ان کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔باقی تمام چیزوں کے بغیر انسان زندہ رہ سکتا ہے مگر امید کے بغیر انسان ایک سیکنڈ کے لیے بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ شاید اسی لیے مایوسی کو کفر قرار دیا گیا ہے۔ انسان کو زندگی کے کسی بھی لمحے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ یہ طے ہے کہ ہر انسان کی زندگی میں ایسے لمحے آتے ہیں کہ انسان کی عقل اور سمجھ جواب دے جاتی ہے۔ اس لمحے انسان کو مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا چاہیے۔ یہی کامیابی کا راز ہے۔ بوڑھے باپ کی اس پختہ امید پہ مجھے یقین ہو گیا کہ اس کا بیٹا اسے ضرور ملے گا۔

اتنے میں ٹرین آ گئی اور میں سوار ہو گیا۔ میری ٹرین میں ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔
Muhammad Usman Habib
About the Author: Muhammad Usman Habib Read More Articles by Muhammad Usman Habib: 9 Articles with 94426 views I am writing on social issues of Pakistan. See my notes...
Wake up our Nation, Wake up!!

I am very straight forward person and trying to play my r
.. View More