جہاد اور تصوف:چند اشارات

تحریر: امیرالمجاہدین حضرت مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ تعالیٰ

اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو ہر طرح کے ظاہری اور باطنی فتنوں سے اپنی امان نصیب فرمائے. آج بہت عجیب موضوع ہے . تصوف اور جہاد. ان دونوں میں نہ تو کوئی ٹکراؤ ہے اور اور نہ ان میں سے کوئی ایک دوسرے کا قائم مقام ہے. یعنی ایسا نہیں کہ تصوف میں آ گئے تو جہاد سے چھٹی. اور جہاد میں چلے گئے تو اب اصلاح نفس سے چھٹی. ان دونوں میں باہمی تضاد بھی نہیں کہ. جہاد، تصوف کا مخالف ہو. یا تصوف، جہاد کا. دونوں ضروری کام ہیں. اور دونوں کا میدان الگ الگ ہے. تزکیہ نفس اور تصحیح نیت ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے. خواہ وہ مجاہد ہو یا نہ ہو. اور جہاد اسلام کا مستقل اور محکم فریضہ ہے. کوئی تصوف کے کسی اعلی ترین مقام پر پہنچ کر بھی اس مقام کی وجہ سے جہاد سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتا.ہاں یہ دونوں کام ایک دوسرے کے معاون ضرور ہیں. نفس کا تزکیہ ہو جائے اور وہ پاک صاف ہو جائے تو وہ جلد جہاد کی طرف لپکتا ہے. اور جہاد فی سبیل اللہ میں شرکت سے تزکیہ نفس کا اعلی مقام نصیب ہوتا ہے. کیونکہ جہاد ہی سب سے بڑا زہد ہے اور سب سے بڑی مشقت. جان کو قربانی کے لئے پیش کرنا. اور جنگ کے میدان میں اترنا کوئی آسان کام نہیں.ان دونوں کے درمیان بعض مطابقات اور موافقات بھی ہیں. مثلاً.
﴿۱﴾ دونوں کام مشکل ہیں. جہاد بھی اور تزکیہ نفس بھی. مگر دونوں بے حد ضروری ہیں
﴿۲﴾ دونوں میں کامیابی کے لئے ذکر اللہ کی کثرت کا حکم ہے. ذکر اللہ کی کثرت تزکیہ نفس کے لئے بھی ضروری ہے. اور جہاد میں کامیابی کے لئے بھی.
فاذکرو اللہ کثیر العلکم تفلحون
﴿۳﴾ دونوں کام مقام عشق سے تعلق رکھتے ہیں. اللہ تعالیٰ سے سچا عشق ہو تو تزکیہ کا اعلیٰ مقام نصیب ہوتا ہے. اور اللہ تعالیٰ سے سچی محبت اور عشق ہو تو جہاد میں اعلی کامیابی ملتی ہے.
﴿۴﴾ دونوں میں اپنی ’’ فنا‘‘ . کے ذریعے ’’ بقا ‘‘کا حصول ہے. نفس کی خواہشات کو فنا کیا جائے تو محبت الہی نصیب ہوتی ہے. اور اپنی جان کو فنا کیا جائے تو مقام صدیقیت اور شہادت نصیب ہوتا ہے. یعنی خود کو مٹانا. اللہ تعالیٰ کی خاطر اور اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر. یہ ان دونوں کا حاصل ہے.

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روزہ اور نماز دو الگ الگ فرائض ہیں. روزے دار کو نماز معاف نہیں اور نمازی کو رمضان المبارک کے روزے معاف نہیں. اسی طرح نماز، روزے کا قائم مقام نہیں اور روزہ، نماز کا قائم مقام نہیں. اس طرح نماز اور روزے کا آپس میں کوئی تضاد بھی نہیں. نماز مستقل فریضہ ہے، اور روزہ مستقل فریضہ. ہاں دونوں کے درمیان. کئی مطابقات اورموافقات ہیں. تھوڑا سا غور کریں آپ کو خود نظر آ جائیں گے. اسی طرح یہ دونوں ایک دوسرے کے معاون بھی ہیں. نمازی کے لئے روزہ آسان ہوتا ہے. اور روزے دار کی نماز زیادہ جاندار ہوتی ہے. بس اسی طرح جہاد. اور تصوف کو لیں.

ایک میں تزکیہ نفس اور اصلاح نیت کا فریضہ ہے. اور دوسرے میں قتال فی سبیل اللہ کا محکم فریضہ ہے. تو پھر اس موضوع . یعنی ’’تصوف اور جہاد ‘‘ کا مطلب کیا ہے؟.جواب یہ ہے کہ. واقعی اس موضوع کا کوئی درست مطلب نہیں نکلتا. مگر ایک فتنہ آ گیا اور اس کی وجہ سے یہ موضوع تراشنا پرا. یہ فتنہ دراصل دشمنان اسلام نے مسلمانوں کے درمیان بھڑکانے کی بہت زوردار محنت کی ہے. فتنہ یہ ہے کہ . تصوف اور صوفی کا جہاد سے کوئی لینا دینا نہیں. بلکہ صوفیائ کرام کی تعلیمات سے جہاد کی نفی ہوتی ہے. اور صوفیائ کرام کے ہاں جنگ، لڑائی اور جہاد کا کوئی تصور نہیں. اور صوفی وہ ہوتا ہے جو ہرکفر اور ہر کافر کو سر پر بٹھائے.ا ور محبت کا ایسا راگ اٹھائے کہ ﴿نعوذ باللہ ﴾ مذاہب کا فرق ہی مٹ جائے. مسلمانوں میں اس فتنہ کی آبیاری کے لئے نقلی پیروں اور ملنگوں کو داخل کیا گیا. جھوٹی روایات کو بڑھا چڑھا کر پھیلایا گیا. تاریخ کو مسخ کیا گیا. اور کافر جاسوس بھیس بدل بدل کر مسلمانوں کے معاشرے میں چھوڑے گئے. مستشرقین کا ایک پورا گروہ اسی فتنہ کو مسلمانوں میں پھیلانے کے لئے صدیوں سے سرگرم رہا ہے. اور اس وقت بھی وہ بہت محنت سے اپنا کام کر رہے ہیں. ان ظالموں نے ’’ محبت ‘‘ کے نام کو بھی رسوا کیا. محبت کا پیغام، امن کا پیغام، وحدت کا پیغام. یہ ان کے خوشنما نعرے اور جال ہیں. جھوٹے واقعات ، جھوٹی کرامات اور غلط روایات اس فتنے کا اثاثہ ہیں. بس اس وجہ سے یہ موضوع تجویز کیا گیا. تصوف اور جہاد. بندہ نے الحمد للہ شعور کی آنکھیں تصوف کے ماحول میں کھولیں . اور پھر جہادکا میدان نصیب ہوا. الحمد للہ محاذ بھی دیکھا اور خانقاہ بھی. صوفیائ کرام بھی دیکھے اور مجاہدین بھی. جہادی کتب کو بھی پڑھا اور تصوف کی کتابوں کو بھی.اگرچہ دونوں میں ہی ناقص رہا، مگر مجھے جہاد اور تصوف میں کوئی باہمی تضاد نظر نہ آیا کہ. یہ دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں. اس لئے جب کوئی اپنا یا غیر. جہاد اور تصوف کو آپس میںٹکرانے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر بہت حیرت ہوتی ہے. بہت دکھ اور افسوس ہوتا ہے.

پاکستان میں جب صدر پرویز مشرف نے امریکہ کی صلیبی جنگ میں اپنے ملک اور فوج کو جھونکا تو . اس کے منصوبوں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ’’ صوفی ازم‘‘ کو فروغ دے کر. مسلمانوں کو جہاد سے کاٹا جائے. امریکہ، انڈیا، اور مغرب نے. صوفی ازم کے فروغ کے لئے خزانوں کے منہ کھولے اور طرح طرح کے مفکرین، مجتہدین. پیر اور پروفیسر ایک دم منظر عام پر آ گئے. مسلمان تو پہلے ہی جہاد سے دور تھے، اب ان کو یہ بھی سمجھایا جانے لگا کہ . جہاد کی مخالفت ﴿نعوذ باللہ ﴾ عین اسلام اور عین صوفیت ہے. ان حالات میں الحمد للہ مسلمانوں کے درمیان تصوف اور جہاد کی باہمی مطابقت . اور تصوف اور جہاد کی حقیقت کا پرچار کرنے کی . ہماری جماعت اور ہمارے اخبار کو توفیق ملی. بے شک یہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا . آپ القلم کے خصوصی شمارے دیکھ لیں. جماعت کی دعوت اور نشریات دیکھ لیںکہ . بین الاقوامی سرپرستی میں چلنے والے فتنے کا. الحمد للہ کس مضبوطی اور حکمت عملی سے مقابلہ کیا گیا. اسی سلسلے میں ارادہ تھا کہ . ایک مفصل کتاب ’’صوفیائ کرام اور جہاد ‘‘ منظر عام پر آ جائے. اور ایک دوسری کتاب ’’ جہاد اور تصوف ‘‘ کے عنوان سے شائع کی جائے.ان دونوں کتابوں کا خاکہ اور مواد بندہ کے ذہن میں ہے. مگر جماعتی مشغولیت، تحریری کام کاج. اور تحریری معاونین کا فقدان. یہ وہ ظاہری اسباب ہیں جنکی وجہ سے یہ کتابیں تاحال تیار نہ ہو سکیں. ویسے اصل تو تقدیر اور قسمت کی بات ہے. کیا معلوم یہ سعادت کسی اور کے نصیب میں ہو. موضوع کا تعین آدھی تصنیف ہوتا ہے. بندہ نے یہ آدھا کام تو بغیر کسی بخل کے سب کے سامنے پیش کر دیا ہے. حضرت سید احمد شہید (رح) پر القلم میں جو کچھ چھاپا گیا . وہ بھی اسی فتنے کی سرکوبی کا حصہ تھا. اور اب طلبہ کرام کے تقریری مقابلے کا موضوع بھی تصوف اور جہاد رکھا گیا. اس کی برکت سے بھی بہت سے اذہان اس طرف متوجہ ہوئے.اور اب المرابطون کا یہ خصوصی شمارہ بھی اسی موضوع پر پیش کیا جا رہا ہے. اس موضوع پر اہم چیزیں تو دو ہیں:
﴿۱﴾ تصوف کے ائمہ کی کتب میں سے جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب کے حوالے جمع کرنا اور انہیں امت میں عام کرنا.

آپ حیران ہوں گے کہ. شیخ عبد القادر جیلانی (رح) ہوں یا حضرت امام غزالی(رح). امام شاذلی (رح) ہوں . یا حضرت امام ہجویری(رح). ان سب کی کتب میں قتال فی سبیل اللہ کی والہانہ ترغیب ملتی ہے. مثال کی طور پر تصوف کے بے تاج بادشاہ حجۃ الاسلام امام غزالی (رح) کی یہ دو عبارات ملاحظہ فرمائیں.

بے شک منافقین نے موت کے خوف سے قتال فی سبیل اللہ کو ناپسند کیا مگر اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے زاہدوں نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں یوں قتال کیا جیسے وہ سیسہ پلائی دیوار ہوں. ﴿احیائ علوم الدین﴾
سب سے بڑا خوف سوئ خاتمہ ﴿ یعنی برے انجام ﴾ کا ہے اور اس خوف اور خطرے سے بچنے کی سب سے محفوظ صورت شہادت کا خاتمہ ہے۔ ﴿ یعنی کسی مسلمان کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں شہادت نصیب ہو جائے﴾ ﴿احیائ علوم الدین﴾

صوفیائ کے مشہور امام حضرت سہل بن عبد اللہ التستری(رح). تصوف میں کامیابی کی تین شرطیں بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
اصل ہذالامر الصدق والسخائ والشجاعۃ
یعنی اس ﴿تصوف کے﴾ کام کی بنیاد تین چیزیں ہیں. سچائی، سخاوت اور شجاعت ﴿احیائ علوم الدین﴾
ایک اور جگہ مرقوم ہے:
الاساس الاول للصوفی ھو تقویۃ الصلۃ باللہ، والشجاعۃ بالقتال للجھاد
یعنی صوفی کے لئے پہلی بنیاد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کے ذریعہ قوت اور قتال فی سبیل اللہ کے ذریعہ شجاعت حاصل کرے۔

یہاں ایک اور عبارت پیش کر رہا ہوں جسے پڑھ کر یقیناً آپ حیران ہوں گے. حضرت یحییٰ بن معاذ الرازی(رح) اصلی صوفیائ کرام کی علامات اور شرائط بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ. جہاد کے لئے سفر کرنا بھی ان کی لازمی شرائط میں سے ہے۔ ملاحظہ کیجیے یہ شعر:
ومن الدلائل ان تراہ مسافرا
نحو الجہاد وکل فعل فاضل
یعنی اصلی صوفیائ کی علامات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ انہیں جہاد کے لئے سفر کرتا دیکھیں گے۔ ﴿ احیائ علوم الدین﴾

یہ ایک دلچسپ اور مفصل موضوع ہے. بندہ کے پاس حضرت ہجویری (رح) کی کتاب’’ کشف المحجوب‘‘ کے کئی نسخے موجود ہیں. اور میں نے اس مقام پر اشارہ لگا دیا ہے. جہاں حضرت ہجویری(رح) ﴿ جن کو لاہور والے داتا گنج بخش کہتے ہیں﴾ نے جہاد فی سبیل اللہ کی عظمت کو بیان فرمایا ہے. بات لمبی ہو گئی. طلبہ کرام بھول گئے ہوں گے ! پیچھے یہ عرض کیا تھا کہ تصوف اور جہاد کے موضوع پر اہم باتیں دو ہیں. ایک یہ کہ مشاہیر صوفیائ کرام کی کتب میں سے قتال فی سبیل اللہ کی فضیلت و عظمت کو بیان کیا جائے.بطور مثال چند عبارتیں پیش کر دیں۔ اب آتے ہیں دوسری اہم بات کی طرف.

﴿۲﴾ صوفیائ کرام میں سے جو حضرات ’’ ائمہ تصوف ‘‘ کا مقام رکھتے ہیں اور وہ میدان تصوف کے مشہور ترین اور مقبول ترین افراد ہیں . ان کی سوانح دیکھی جائے کہ انہوں نے خود جہاد فی سبیل اللہ میں کس قدر حصہ لیا۔ یہ بہت دلکش، ایمان افروز. اور دلچسپ موضوع ہے۔آپ پوچھیں گے وہ کیسے؟. جواب یہ ہے کہ میں ابھی ایسے دس حضرات کی ایک فہرست پیش کرتا ہوں. جن کے نام آپ کو تصوف کی ہر کتاب میں ملیں گے. اور یہ حضرات سلوک و احسان میں ’’ حجت ‘‘ کا مقام رکھتے ہیں.ا ور یہ حضرات خود قتال فی سبیل اللہ کے لئے نکلے اور ان میں سے کئی نے مقام شہادت حاصل کیا.
۱﴾ حضرت امام حسن بصری(رح)
۲﴾ حضرت مالک بن دینار(رح)
۳﴾ حضرت عتبۃ الغلام (رح)
۴﴾ حضرت عبد الواحد بن زید(رح)
۵﴾ حضرت ابراہیم بن ادھم(رح)
۶﴾ حضرت شقیق بلخی(رح)
۷﴾ حضرت حاتم اصم(رح)
۸﴾ حضرت علی بن بکّار(رح)
۹﴾ حضرت عبد اللہ بن مبارک(رح)
۰۱﴾ حضرت ابو العباس السماک(رح)

یہ صرف دس نام ہیں. جبکہ میرے سامنے ایک بہت بڑی فہرست موجود ہے۔ علامہ جوزی (رح) نے اپنی کتاب ’’ صفۃ الصفوۃ‘‘ میں ایک الگ فصل میں حضرات صوفیائ و زُہّاد کے قتال فی سبیل اللہ کو بیان فرمایا ہے۔مجھے تصوف کی کوئی ایسی مستند کتاب بتائیں جس میں. حضرت السری السقطی(رح) کا تذکرہ نہ ہو. یہ صاحب مقام بزرگ رومیوں کے خلاف جہاد میں نکلے۔ یہی حال سلطان العارفین. حضرت ابو یزید البسطامی(رح) کا ہے۔

پھر ایک دلچسپ بات سنیں. ان بڑے مشاہیر حضرات کے جہاد کے واقعات اتنے عجیب ہیں کہ. اگر ان کو تفصیل سے پڑھا جائے تو جہاد اکبر. اور اصغر کی بحث چھیڑنے کی کسی کو ہمت نہ ہو.ا ور نہ ہی کوئی . تصوف کو جہاد کا دشمن سمجھے.

اچھا ایک بات بتائیں. اہل تصوف کے ہاں’’ سید الطائفہ ‘‘ کا لقب کن بزرگوں کو دیا گیا؟. آپ جانتے ہیں کہ . یہ لقب حضرت جنید بغدادی(رح) کو ملا. اہل تصوف کے سردار. ابن الاثیر(رح) نے ان کو
’’عالم الدنیا فی زمانہ‘‘
قراردیا. یعنی اپنے زمانے میں دنیا کے سب سے بڑے عالم. حضرت جنید بغدادی(رح) خود قتال فی سبیل اللہ میں تشریف لے گئے. کس کس کا تذکرہ کیا جائے؟.کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں پہلی خانقاہ . حضرت عبد الواحد بن زید(رح) نے قائم فرمائی. یہ خیر القرون کے فرد ہیں.ا ور آپ ابھی مجاہدین صوفیائ کی فہرست میں ان کا اسم گرامی پڑھ چکے ہیں. تو اگر یہ کہا جائے کہ حضرت ابن زید(رح) کی خانقاہ سے تھانہ بھون کی خانقاہ امدادیہ تک. ہر جگہ جہاد و قتال کے اصل معنیٰ .ا ور اس پر عمل نظر آتا ہے تو . یہ کون لوگ ہیں جو تصوف کے نام پر جہاد کی مخالفت کرتے ہیں. یا اپنے کام کو جہاد فی سبیل اللہ سے اونچا قرار دیتے ہیں.یا جہاد فی سبیل اللہ کے معنی بدلتے ہیں. یقیناً یہ لوگ . پرویز مشرف کے صوفی ازم والے تو ہو سکتے ہیں. مگر اسلام کے ’’نظام تزکیہ‘‘ جسے تصوف کہا جاتا ہے. اس سے ان کا کوئی تعلق نہیں بنتا.

یہ تو ہوئیں اس موضوع کی دو ضروری باتیں:
۱﴾ جہاد فی سبیل اللہ کے بارے میں عباراتِ صوفیائ کرام
۲﴾ مشاہیر صوفیائ کرام کی جہاد فی سبیل اللہ میں شرکت
ان دو کے علاوہ اور بھی چند باتیں اس موضوع سے تعلق رکھتی ہیں۔
۱﴾ تصوف کا معنی، مطلب اور مقصد. یہ بہت اہم موضوع ہے. اس میں یہ سمجھانا بھی ضروری ہے کہ . طریقت کے نصاب. مدارس کے تعلیمی نصاب کی طرح ہوتے ہیں. ان کو نہ بدعت کہا جا سکتا ہے. اور نہ ان کو شرعاً لازم قرار دیا جاسکتا ہے.اور زمانے کے مطابق ان میں تبدیلی بھی ہوتی رہتی ہے.
﴿۲﴾ بیعت امارت، بیعت علی الجہاد.ا ور اصلاحی بیعت کی حقیقت کا بیان. اس میں کوئی شک نہیںکہ اصلاحی بیعت، بہت مفید سلسلہ ہے. مگر جہادی بیعت بھی بہت اہم ہے. اور قران و سنت کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ. جہادی بیعت. اصلاحی بیعت سے زیادہ اہم، زیادہ افضل، زیادہ موکد، اور زیادہ مضبوط ہے. جہلائ اس میں بہت غلطی کرتے ہیں.
﴿۳﴾ جہاد اور تصوف کے باہمی موافقات. یہ اہم بحث ہے. بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ. یہ اصلی جہاد اور اصلی تصوف کو جانچنے کا بہترین آلہ ہے.آپ کسی پروفیسر، پیر، یا نام نہاد مرشد کو دیکھیں جو. جہاد فی سبیل اللہ. یعنی قتال فی سبیل اللہ کا مخالف ہو. یا اس کے معنی میں تحریف کرتا ہو. یا خود کو جہاد سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بالاتر اور مستثنیٰ سمجھتا ہو تو آپ جان لیں کہ. یہ شخص اصلی اور حقیقی تصوف سے محروم ہے. اسی طرح آپ کسی مجاہد کو دیکھیں جو اصلاح نفس، تصحیح نیت . اور تزکیہ کا مخالف ہو تو سمجھ لیں کہ اس کے جہاد میں کوئی کھوٹ ہے. بہت سے لوگ نام، نمود، عصبیت، علاقیت اور مال کے لئے لڑتے ہیں. ایسے لوگ مجاہد ہرگز نہیں ہوتے.

بس یہ ہے ’’تصوف اور جہاد‘‘ کا خلاصہ اور اس موضوع کے مختلف پہلو. بندہ نے مختصر اشارات عرض کر دئیے ہیں. آپ ان اشارات کی مدد سے اس موضوع کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں. آگے بڑھا سکتے ہیں . اور اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اس پر کام بھی کر سکتے ہیں.
اللھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372734 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.