صلہ رحمی کا فقدان۔۔ایک معاشرتی المیہ

موجودہ دور میں مسلمان جن معاشرتی اور خاندانی پیچیدہ اور مشکل حالات سے دوچار ہوکر باہمی الفت ومحبت اور اتفاق واتحاد اور اخوت وانسیت اورباہمی غم گساری وہمدردی سے محروم ہیں اور اللہ کے فضل وکرم، رحمت وعنایت سے دوری ومحرومی کا جو روح فرساہولناک منظر دنیا دیکھ رہی ہے بلاشبہ وہ مختلف شعبہائے زندگی میں پائے جانے والی ہماری بہت سی سنگین کوتاہیوں اور بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ایسی ہی سنگین کوتاہیوں میں اس وقت ایک وبا کی شکل میں پھیلی بیماری قطع رحمی کی ہے جس نے مسلم خاندانوں کو باہمی نفرت وانتقال اور حسد وبغض کی آگ میں جلارکھا ہے۔

دنیا کا ہرانسان کسی نہ کسی خاندان کافرد ہوتا ہے اور اس ناطے سے اس کو اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ تعلقات خود بخود قائم ہوجاتے ہیںاس طرح کے اپنے گھریلو وخاندانی وقرابتی رشتہ کو حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کی اصطلاح میں ’’تدبیر منزل‘‘ کے عنوان سے جانا جاتا ہے یعنی ایک خاندان کے افراد باہم اس طرح کے تعلقات جوڑ کررکھیں کہ نہ تو وہ تعلقات اس درجہ حدود سے باہرہوں کہ ان کی وجہ سے حقوق اللہ میں کوئی کوتاہی ہونے لگے اور نہ ہی وہ تعلقات اس درجہ بے مروتی کا شکار ہوں کہ وہ قطع رحمی کو حد کوپہنچ جائیں۔

تدبیر منزل کے تعلق سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اتنی زیادہ اور اتنی واضح و روشن ہیں جن کے کسی شعبہ کا کوئی حصہ اور کوئی بھی پہلو محتاج بیان نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات وہدایات آپ کی سیرت و سنت، آپ کا طور طریق اور آپ کا اخلاق و کردار سب انسان کو نیکی، خوش خلقی، ہمدردی وغمگساری، باہمی اخوت ومحبت، امداد واعانت، نرمی و چشم پوشی، عفو درگذر، حلم و بردباری اور آپسی حقوق کی ادائیگی کا جو بے مثال سبق دیتا ہے وہ دنیا کے کسی اور مذہب یا شخصیت کے اندر ملنے والا نہیں۔ حق قرابت اور صلہ رحمی کے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رحم ﴿یعنی حق قرابت﴾ رحمان سے مشتق ہے ﴿یعنی خداوند رحمان کی رحمت کا ایک حصہ ہے اور اس نسبت سے﴾ اللہ تعالیٰ نے اس ﴿رحم﴾ سے فرمایا کہ جو تجھے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا اور جو تجھے توڑے گا ﴿یعنی قطع تعلق کرے گا﴾ میں ﴿بھی﴾ اس کو توڑوں گا۔ اس حدیث میں صلہ رحمی کی طرف بہت موثرانداز میں ترغیب دی گئی ہے اوراس کامطلب یہ ہے کہ انسان کی باہمی قرابت و رشتہ داری کے تعلق ولگاؤ کو اللہ تعالیٰ کے مقدس نام ’’رحمن‘‘ سے اور اس کی صفت’’ رحمت‘‘ سے خاص نسبت ہے اور وہی اس کاسرچشمہ و منبع ہے، اسی وجہ سے اس کا نام ’’رحم‘‘ متعین کیاگیا ہے اور اسی خصوصی نسبت کی وجہ سے اللہ کے نزدیک اس کی اتنی اہمیت ہے کہ اللہ رب العزت کا یہ فیصلہ ہے کہ جو صلہ رحمی کرے گا یعنی رشتہ داروں کے حقوق ادا کرے گا اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے گا اس کو اللہ تعالیٰ اپنی خاص رحمت اور خاص فضل سے جوڑدیں گے اور اس کو اپنے محبوب بندوں میں شامل فرماکر اپنا بنالیں گے۔ کتنا خوش نصیب ہے وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ اپنا بنالے، اور اس کے برخلاف جو کوئی قطع رحمی کا رویہ اپنائے گا اور اہل قرابت سے بے تعلقی ،بے رُخی اور دوری اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سے الگ اور بے تعلق کردے گا۔ اسی طرح ایک اور حدیث میںحضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں اللہ ہوں، میں رحمن ہوں، میں نے ’’رحم‘‘ یعنی ﴿رشتہ و قرابت﴾ کو پیدا کیا ہے اور اپنے نام رحمن کے مادّہ سے نکال کر اس کو ’’رحم‘‘ نام دیا ہے۔ لہٰذا جو اسے جوڑے گا میں اس کو جوڑوں گا اور جو اس کو توڑے گا میں ﴿بھی﴾ اس کو توڑوں گا۔﴿ابوداؤد﴾

رب ذوالجلال پوری کائنات کا نظام ایک مستحکم حکمت ومنصوبہ بندی سے بنایا ہے اوراس نے اپنی حکمت ومشیت سے تخلیق انسانی کا بھی کچھ ایسا نظام بنایا ہے کہ ہر پیدا ہونے والا قرابت و رشتے کے حسین بندھنوں میں بندھا ہوتا ہے پھر ہر رشتے کے کچھ حقوق و تقاضے مقررہیں، انھیں حقوق و تقاضوں کو حدیث کے اندر ’’صلہ رحمی‘‘ کے عنوان سے بیان کیاگیا ہے۔ لہٰذا جو بندہ بھی انسانی فطرت میں رکھے ہوئے اور اللہ کے متعین کئے ہوئے ان حقوق اور تقاضوں کو ادا کرے گا اور صلہ رحمی کا معاملہ کرے گا اس کے لئے اللہ نے اس انعام کا اعلان کیا ہے،جو کسی بھی انسان کو مل جاناسب سے بڑی سعادت ہے اور اس سے محروم ہوجانا بڑی شقاوت اور بدبختی ہے۔

صلہ رحمی جس طرح اللہ کے رحم وکرم اور اس کی عنایات وقرب کا سبب ہے اسی طرح اس کی دنیوی برکات بھی ہیں۔ قرآن کریم اور تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حقیقت کو جابجا بیان فرمایا ہے کہ نیک اعمال کے صلہ میں اللہ رب العزت اس دنیا میں بھی برکتوں، رحمتوں اور سعادتوں سے نوازتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کو پسند ہوکہ اس کے رزق کے اندر وسعت ہو اور دنیا کے اندر اس کے قدم کے نشان دیرتک باقی رہیں ﴿یعنی اس کی عمر طویل ہو﴾ تو اس کو چاہئے کہ ﴿رشتہ داروں کے ساتھ﴾ صلہ رحمی کا معاملہ کرے﴿بخاری ومسلم﴾ یعنی رشتہ داروں کے ساتھ نرمی ان کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن سلوک ان نیک وصالح اعمال میں سے ہیں جس کی برکت سے اللہ رب العزت بندے کے رزق میں فراخی وکشادگی پیدا فرمادیتے ہیں اور عمر میں زیادتی وبرکت ہوتی ہے۔

موجودہ نفسانفی کے دور میں قطع رحمی کی وسیع خلیج کو پاٹنے میں ہمارے نوجوان خاص کردار اداکرسکتے ہیں اور وہ اس طرح کہ اگریہ نوجوان اپنی کمائی وکسب اور قوت واستعدادسے رشتہ داروں کی مالی خدمت، ان کی امداد واعانت کرے اور اپنے اوقات کا کچھ حصہ ان سے ملاقات اور ان کی خیریت وغیرہ معلوم کرنے میں صرف کرے اور وقتاً فوقتاً ان کے کاموں میں ہاتھ بٹائے تو یہ چیزیں ان کے حق میںخیر وبرکت کا باعث ہوں، ان کی زندگی خوشگواربنے، ان کے رزق ومال میں برکت اور ان کی عمر میں برکت واضافہ اور ان کے گھر، خاندان کے چین وسکون کا سبب بنے گا اور ایسا ہونا اللہ حکیم ورحیم کی رحمت وحکمت کے عین مطابق ہے۔

پھر غور وفکر کرنے سے بھی یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے اور یہ مشاہدہ اور عام تجربہ بھی ہے کہ، خاندانی جھگڑے، گھریلو الجھنیں جو عموماً رشتہ داروں اور اعزہ واقارب کے حقوق ادا نہ کرنے اور ان کے ساتھ سختی وشدت کا معاملہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں وہ انسان کے لئے دلی پریشانی، اندرونی گھٹن وکڑھن کا باعث بنتی ہیں اور پھر یہی چیزیں بڑھ کرکئی روحانی بیماریوں مثلاً کینہ وحسد ، بغض وعدوات تک نوبت پہنچ جاتی ہے جو گھریلو وخاندانی بگاڑ وخلفشار کا ذریعہ ہیں جس کا اثر لازمی طور پر تجارت و زراعت، کاروبار اور صحت پر بلکہ ہر چیزپر بری طرح پڑتا ہے اور جو لوگ اہل خاندان، رشتہ داروں اور قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی کا خیال رکھتے ہیں ان کے ساتھ صلہ رحمی، نرمی اور ان کے اچھے، بُرے وقت پر ان کے ساتھ شرکت اور ان کی نصرت وحمایت کا جذبہ وحوصلہ رکھتے ہیں ان کے قلوب آپسی محبت وپیار سے لبریز رہتے ہیں ان کی زندگی خوشگوار فرحت ومسرت سے پُر اور امن وامان کے ساتھ بسر ہوتی ہے اور ہر اعتبار سے ان کے حالات قابل اطمینان ہوتے ہیں اوراللہ کا فضل ان کے شامل حال ہوتا ہے۔
صلہ رحمی خونی رشتے کا اولین فریضہ ہے اگر کوئی شخص صلہ رحمی نہ کرے بلکہ قطع رحمی کا مرتکب ہوتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے لئے سخت وعید سنائی ہے کہ ایسا شخص جنت میں داخل نہیں ہوسکتا ہے اور قطع رحمی کی پاداش میں اس کے لئے جنت میں داخلہ ممنوع ہوگا۔ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوسکے گا۔﴿بخاری ومسلم﴾اندازہ لگائیے کہ قطع رحمی کاکتنا بڑا وبال ہے اور اس حدیث پاک کے اندر کتنی شدید وعید آئی ہے کہ اس کے نتیجے میں جنت کے داخلے سے محروم کردیا جائے گا یعنی اس گناہ کی گندگی کے ساتھ کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا البتہ اگر تعلقات منقطع کرنے والے کو اس کے اس جرم کی سزا دے کر پاک کردیا جائے یا کسی اور وجہ سے اسے معاف کردیا جائے تو پھر جنت میں جانے کے قابل ہوسکتا ہے۔

اس موقع پر ایک یہ بات بھی یادرکھنی چاہیئے کہ بسااوقات عائلی نظام اور خاندانی زندگی میں یہ بات بھی پیش آتی ہے ایک آدمی اپنے رشتہ دار اور اہل قرابت کے حقوق کی ادائیگی کے بجائے حقوق کی پامالی کرتا ہے اور ان کے ساتھ نرمی کے بجائے ترشروئی سے پیش آتا ہے اور ان کے ساتھ براسلوک کرتا ہے تو اس موقع اس کے ساتھ ہمیں بھی قطع رحمی کوترجیح نہ دیناچاہئے بلکہ اس کے باوجود آدمی کو اپنی طرف سے حقوق کی ادائیگی، نرمی، صلہ رحمی اوراس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہئے۔ اس بات کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ اسوئہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاندان و رشتہ داروں کے حقوق وسلوک کے معاملے میں انسان کو اس نقطئہ نظر سے دیکھنے کی تعلیم و تربیت دیتا ہے کہ ہر شخص اپنی طرف سے صلہ رحمی، حسن سلوک کرتا رہے اور رشتہ داروں اور خاندان کے لوگوں کے حقوق ادا کرتا رہے۔ رشتہ دار واہل خاندان و قرابت کے لوگ اس کے حقوق ادا کررہے ہیں یا نہیں، وہ صلہ رحمی کرتے ہیں کہ نہیں اور اس کے ساتھ نیک سلوک و نرمی کا برتاؤ کرتے ہیں یانہیں؟ اس کے دیکھنے کی ضرورت نہیں۔جیسا کہ فرمایا گیا:
’’جو تم سے تو ڑے تم اس کے ساتھ جوڑواور جو تم پر ظلم کرے تم اسے معاف کرو اور جو تمہارے ساتھ برائی سے پیش آئے تم اس کے ساتھ اچھائی سے پیش آؤ‘‘

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ آدمی صلہ رحمی کرنے والا نہیں جو بدلہ کے طور پر صلہ رحمی کرتا ہے بلکہ درحقیقت صلہ رحمی کا حق ادا کرنے والا وہ ہے جو اُس حالت میں صلہ رحمی کرے جب کہ وہ اس کے ساتھ قطع رحمی اور ﴿حق تلفی﴾ کا معاملہ کرتے ہوں۔

یہ بہت قیمتی اور حکیمانہ بات ہے کیوں کہ یہ ظاہر ہے کہ قطع رحمی اور حق تلفی کرنے والے رشتہ داروں اور اہل خاندان کے افراد کے جواب میں اگر قطع رحمی اور حق تلفی ہی کا برتاؤ وسلوک کیا جائے گا تو یہ بیماری و گندگی کم نہ ہوگی بلکہ معاشرے میں مزید بڑھے گی اور معاشرے کی بچی کچھی اچھائیاں بھی آہستہ آہستہ اپنی موت مرنے لگیں گی اور اس کے برخلاف جب ان کے ساتھ صلہ رحمی، حسن سلوک اور حقوق وفرائض کی ادائیگی کا معاملہ کیا جائے گا تو انسانی فطرت سے امید ہے کہ انسانیت اور اس کاضمیراس کے اندر جاگے گا اور ’’دیرآید درست آید‘‘ کے نظریہ سے دیر سویر ان کی اصلاح ہوگی اور معاشرے میں حقوق و فرائض کی ادائیگی اور صلہ رحمی کو فروغ ہوگا اور قطع رحمی، بدسلوکی کا خاتمہ ہوگا اس طرح ایک بار پھر چین وسکون کا ماحول تشکیل پاکر معاشرہ امن وامان کا گہوارہ بن جائے گا اور اس کے طفیل ہماری آنے والی نئی نسل کیلئے یہ خوبصورت مشعل راہ ثابت ہوگی اور ہر موقع پر اسوئہ نبی اکرم کو اپنانے اور اس کو حرز جان بنانے کی ایک فضا بن جائے گی۔بقول زکی کیفی مرحوم:
تنگ آجائے گی خود اپنے چلن سے دنیا
تجھ سے سیکھے گا زمانہ ترے انداز کبھی
شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے بھی اس سلسلے میں بڑی جاندار بات کہی ہے کہ:
بدی را بدی سہل باشد جزا
اگر مردی احسنِ الی من اساء
’’برائی کا بدلہ برائی سے دینا آسان ہے مردانگی تو یہ ہے کہ برائی کا بدلہ اچھائی سے دیا جائے‘‘

تعلیمات اسلام اور اس کا مزاج یہ ہے کہ وہ نہ صرف ہر فرد کی توجہ اپنے فرائض وحقوق کی ادائیگی کی طرف مبذول کرتی ہے بلکہ دل ودماغ کے دریچے میں اصل وبنیادی فکرہی یہ پیدا کرتی ہے کہ کہیں مجھ سے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کسی طرح کی کمی تو نہیں ہورہی ہے؟ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ میں اپنی ترکیبوں سے، کسی حیلہ و تدبیروں کے ذریعہ اس کوتاہی کو چھپالوں اور اس پر پردہ ڈال کر اس کے دنیوی ثمرات ونتائج سے مامون و محفوظ ہوجاؤں لیکن ظاہر ہے کہ اس کی کوئی کوتاہی اور اس کا کوئی قصور خواہ وہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو اس علیم و خبیر ذات سے پوشیدہ نہیں رکھ سکتا جو دلوں میں آنے والے خیالات کو بھی جانتا ہے یہی فکر پیدا کرنا ہی اسلامی تعلیمات کا اصل منشائ ہے اور جب یہ فکر کسی شخص کو دامن گیر ہوجائے تو اس کا اصل مسئلہ و مقصد اور اس کا مطمح نظر حقوق کی حصول یابی کے بجائے فرائض کی ادائیگی بن جایا کرتا ہے اور اس کے اندر کمی کوتاہی ہر وقت اس کو مواخذہ کی وعید سے ڈرایا کرتی ہے پھر وہ اپنے جائز حقوق ومطالبات بھی پھونک پھونک کر ڈرتے ڈرتے وصول کرتا ہے کہ کہیں وصول شدہ حق کا وزن ادا کردہ فریضے سے زیادہ نہ ہوجائے یہی فکر تھی جس نے قرن اول کے مسلمانوں کو عزت وسربلندی عطا کی، قدر ومنزلت اور ترقی کے بامِ عروج پر پہنچایا تھا ۔

البتہ اس فکر کے ساتھ فکرآخرت کاپیدا ہونا انتہائی ضروری ہے کیوں کہ جب تک اس میں فکر آخرت شامل نہ ہوجائے اس وقت تک ٹھوس عملی اقدامات نہیں اٹھائے جاسکتے جیسا کہ آج صورت حال یہ ہے کہ ہم عقیدئہ آخرت پر ایمان رکھنے کا زبان سے خواہ کتنا ہی اعلان کرتے ہوں اور کتنی بھی پختگی کے ساتھ اس کا دعویٰ کرتے ہوں لیکن ہماری عملی زندگی یکسر اس سے خالی ہے بلکہ عملی میدان میں اس عقیدے کا کوئی پر تو عموماً نظر نہیں آتا ہماری تمام تر محنتیں، ساری بھاگ دوڑ اور تگ و دو کا محور صرف یہ ہے کہ روپئے پیسے اور مال و اسباب میں اضافہ کیسے ہو اور بینک بیلنس کیسے بڑھ جائے؟ یہی چیز حیات انسانی کا اصل مقصد بن چکی ہے اور یہی ہماری ساری معاشی سرگرمیوں کا آخری پڑاؤ ہے اور اسی نفس پرستانہ سوچ نے ہم سے رشتوں اور خاندانوں کی محبت واخوت اور صلہ رحمی جیسے پاکیزہ اخلاق واقدار چھین لی ہیں۔اللہ تعالی امت کے حال پر رحم فرمائے۔آمین
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372845 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.