طبیب مسلمان ہوگیا

میں نے جب لکھنا شروع کیا میراذہن تھا کہ میں سماجیات پر کام کروں گا۔معاشرتی مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل ،سدباب پر اپنے قلم کو جنبش دوں گا۔کیا معلوم کہ احکام بالا،انتظامی امور میں بیٹھے صاحب منصب افراد تک میری آواز پہنچ جائے تو کچھ نہ کچھ اس بہتری کے راستے میں کچھ میرا بھی حصّہ ہوگا۔لیکن جب میں بحثیت صحافی ،پھر بحیثیت ڈاکٹر جب فیلڈ میں آیا تو چہرے پر سجی داڑھی دیکھ کر اک ایسا طبقہ بھی ملا کہ انھوں نے نت نئے اعتراضات کے وہ دفاتر کھول دیے جن کے متعلق میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔خیر اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا کی ۔اے کریم ربّ تو کسی سے بھی اپنی رضا کے کام لے سکتاہے ۔مجھ سیاہ کارسے بھی اپنے دین کا کام لے لے ۔کیونکہ یہ تمام تر اعتراضات اسلام پر شب خون مارنے کے مترادف تھے ۔مجھ پر کرم کے دریچے واہ ہوگئے ۔علم دین کی روشنی سے سینہ منور ہوا تو فکراور ذکر دونوں میں تاثیر پیدا ہوگئی اور میں نے اپنے قلم کا رخ اسلام کُش اعتراضات اور دفاعِ اسلام کی جانب کردیا ۔تادم زیست رحمٰن و رحیم ربّ مجھے اخلاص کے ساتھ حق بات کہنے ،لکھنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔گذشتہ سے پیوستہ اس مرتبہ بھی میں آپ کی خدمت میں اعجاز اسلام کا ایک پہلو اجاگر کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں کہ اسلام نے بیان تو بہت کچھ کیا کس نے کتنا لیا،کتنا سمجھایہ اس کانصیب اور توفیق من اللہ ۔خیر ۔اپنے موضو ع کی جانب چلتے ہیں ۔تفسیرِ روح البیان میں ایک واقعہ نقل ہے کہ :

ہارون رشید کا خصوصی ڈاکٹر ایک نَصْرانی طَبِیب تھا۔جو بہت ہی عقلمنداور خوبصورت آدمی تھا اور بادشاہ اس کے کمالِ سیرت وجمالِ صورت پر دل سے فریفتہ (فَ۔رِیفْ۔تہ)تھا۔ایک دن ہارون رشید نے اس سے کہا :کاش تم مسلمان ہوجاتے تو میں تم کو اپنے دربار کا سب سے بڑا اعزاز عطا کرتا۔طبیب نے جواب دیا کہ امیر المؤمنین !آپ کے قرآن کی ایک آیت مجھے ا سلام قبول کرنے سے مَنْعْ کرتی ہے ورنہ میں ضرور مسلمان ہوجاتا۔ہارون رشید نے حیران ہوکر دریافت کیا کہ وہ کون سی آیت ہے؟طبیب نے کہا :وَکَلِمَتُہ اَلْقٰیہَآ اِلٰی مَرْیَمَ وَرُوْحٌ مِّنْہُ ترجمہ کنزالایمان: اور اس کا ایک کلمہ کہ مریم کی طرف بھیجا اور اس کے یہاں کی ایک روح۔(پارہ ٦،النسائ،آیت١٧١)یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام اللہ کا کلمہ ہیں جس کو اللہ نے بی بی مریم کی طرف ڈال دیا اور وہ اللہ کی روح ہیں۔ دیکھیے اس میں ''رُوْحٌ مِّنْہُ''کا لفظ آیا ہے اور یہ مِنْ تبعیض کیلئے ہے جس کا حاصل یہ ہوا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام خدا کا جزو اور اس کا ایک ٹکڑا ہیں۔طبیب کی یہ تقریر سن کر ہارون رشید کو بڑا رنْجْ وصَدْمَہ ہوا اور اس نے اپنے دربار کے تمام علماء کو طلب کیاتاکہ طبیب کے اس شبہ کا اِزالہ کریں مگر درباری علماء اس کا جواب دینے سے قاصر رہے اور ہارون الرشید رَنْجْ وقلق (قَ۔لَقْ)سے بے قرار ہوگیا۔

اتنے میں پتہ چلا کہ مفسر علی بن الحسین مروزی حج سے واپس ہوتے ہوئے بغداد میں ٹھرے ہوئے ہیں۔ ہارون الرشید نے فوراً ہی انہیں بھی دربار میں بلایا۔وہ بھی ناگہاں یہ سوال سن کر چکراگئے اور فوراً جواب نہ دے سکے ۔مگر انہوں نے فرمایا کہ اے امیر المؤمنین !اللہ تعالٰی خوب جانتا ہے کہ یہ خبیث نَصْرانی آپ کے دربار میں مجھ سے یہ سوال کرے گا۔لہٰذا میرا ایمان ہے کہ ضرور اس نے اپنی مُقَدَّسْ کتاب میں اس شبہ کا جواب دیا ہوگا جو اس وقت میرے خیال میں نہیں آرہا ہے مگر میں ان شاء اللہ تعالٰی جب تک اس کا جواب قرآن ہی سے نہ دوں گا خدا کی قسم!میرے لئے کچھ کھانا پینا حرام ہے۔یہ کہہ کر وہ ایک اندھیری کوٹھڑی میں منتقل ہوگئے اور دَرْوازہ بند کرکے قرآن مجید کی تلاوت کرنے لگے یہا ں تک کہ سورہ جاثیہ کی آیت وَ سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ ۔(پارہ٢٥،الجاثیہ،آیت١٣)زبان پر آئی تو مارے خوشی کے اچھل پڑے اور فوراًدَرْوازہ کھول کر باہر نکلے اور دَرْبار میں جاکر ہارون رشید کے سامنے نَصْرانی طَبِیب کو یہ آیت پڑھ کر سنائی اور فرمایا کہ دیکھ لے،یہاں بھی ''رُوْحٌ مِّنْہُ'' کی طرح ''جَمِیْعًا مِّنْہ''آیا ہے ۔اگر اسمِنْکو تبعیض کیلئے مانا جائے تو یہ لازم آئے گا کہ زمین وآسمان بھی خدا کے جزو قرار پائیں۔لہٰذا تم خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ ''رُوْحٌ مِّنْہُ'' میں مِنْ تبعیض کیلئے نہیں ہے اور حضرت سیدنا عیسی علیہ السلام ہر گز ہرگز خدا کے جزو نہیں ہیں بلکہ وہ زمین وآسمان کی طرح خدا کی مخلوق ہیں۔علی بن الحسین کی یہ نورانی تقریر سن کر نصرانی طبیب کا سینہ کھُل گیا اور اس کا شُبہ بالکل رَفَعْ ہوگیا اور وہ اسی مجلس میں کلمہ پڑھ کرمُشَرَُفْ بہ اسلام ہوگیا ۔ہارون الرشید کو اس قدر خوشی ہوئی کہ اس نے علی بن الحسین مروزی کو بڑے گراں قدر اِنعام سے مالا مال کردیا ۔

علی بن الحسین مروزی نے اپنے وَطَن پہنچ کر نہایت عَرَقْ رِیزی اور محنت کے ساتھ اسی موضوع پر''النظائر فی القرآن''کے نام سے ایک ایسی کتاب تصنیف کردی کہ تمام روئے زمین میں اس کی مثال نہیں ۔اس کتاب میں اس فاضلِ جلیل نے مخالفینِ اسلام کی طرف سے اس قسم کے پیش ہونے والے تمام شبہات کا قلع قمع کردیا اور کسی کی مجال نہیں کہ قیامت تک قرآنِ کریم پر کوئی اس قسم کا اعتراض نہ کرسکے۔(تفسیر روح البیان ج٢ ص٢٨)

محترم قارئین :کیا کہتے ہیں آپ ؟آپ خود کو مسلمان پا کر کیسا محسوس کررہے ہیں ؟اے بندگانِ خدا اپنی قسمت پر رشک کرو۔تم عظیم ہو۔بلکہ تمہی عظیم ہو۔میری یہ خواہش ہے کہ ہم مل کر ریسرچ سنٹر بنائیں ۔جہاں تحقیقی موضوعات زیرِ بحث لائے جائیں ۔ان پر محنت کی جائے اور پھر نہایت دیانت سے نتائج اخذ کرکے جہاں بھر میں اس حقیقت کا پرچار کیا جائے ۔تاکہ باطل قوتوں کو کامل و اکمل جواب ثبت کرکے اس نصرانی طبیب کی طرح اسلام کی روشنی نصیب ہوجائے اور اگر ہدایت نصیب میں نہیں تو لاجواب ہوکر اسے منہ کی کھانی پڑے ۔ریسرچ کے حوالے سے اگر آپ ہمارا ہاتھ بٹانا چاہیں تو اس میلنگ ایڈریس پر رابطہ فرمائیں ۔
ہم دے رہے ہیں دعوتِ حق جو چاہے ہمارے ساتھ چلے
ہم روک رہے ہیں باطل کو جو چاہے ہمارے ساتھ چلے
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 381 Articles with 594057 views i am scholar.serve the humainbeing... View More