چند روز ہوئے امریکہ میں مقیم
بزرگ ادیب اور میرے کرم فرما جناب ابو الحسن نغمی نے فون پر مجھ سے کہا: ”
کچھ کتابیں کم نصیب ہوتی ہیں، ان کے بارے میں کوئی نہیں جانتا اور وہ وقت
کی دھول میں کہیں گم ہوجاتی ہیں،میرے دوست مظفر حسین کی خودنوشت ’عرض و
سماع ‘بھی ایسی ہی ایک کتاب ہے۔لیکن یہ آپ کو کہاں سے مل گئی؟ “
نغمی صاحب کے اس سوال کا جواب ذرا طویل ہے۔ اختصار سے کام لیتے ہوئے عرض
کرتا ہوں کہ مذکورہ کتاب کی نقل مجھے میرے ایک کرم فرما نے فراہم کی۔ان تک
بھی یہ محض ایک اتفاق کی بنا پر پہنچی اور وہ بھی چندگھنٹوں کے
لیے۔خودنوشتوں سے راقم کی دلچسپی سے وہ بخوبی واقف ہیں سو سب سے پہلے انہیں
خاکسار ہی کا خیال آیا۔
کراچی میں انجمن کے دفتر سے 500 کی معقول تعداد میں جون 1990 میں شائع
ہوئی،کل 384 صفحات پر مشتمل ایک منفرد عنوان کی حامل یہ خودنوشت ریڈیو کے
ادارے سے وابستہ رہے دونوں پیروں سے معذور ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو
اتنا تو غیر معروف نہ تھا کہ اس کی دلچسپ داستان حیات شہر کراچی کے اس
نابغہ روزگار شخص کے پاس بھی نہ پہنچی ہو جسے خودنوشتوں سے ازحد لگاؤ تھا
اور جو شہر میں خودنوشتوں کے سب سے بڑے ذخیرے کا مالک تھا۔ یہ ذکر مشفق
خواجہ مرحوم کا ہے۔ اسی طرح شہر کی چند معروف لائبریروں میں بھی اس کتاب کی
کوئی جلد موجود نہیں ہے۔اردو خونوشتوں پر کیے گئے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے
بیشتر مقالوں میں اس کا نام کہیں نہیں آیا، آپ بیتیوں پر لکھے گئے تحقیقی
مقالے بھی اس بارے میں خاموش ہیں۔ سید مظفر حسین نے بچوں کے لیے تین ناول
بھی لکھے تھے، کامران اور بھارتی جاسوس، کامران اور شاہی خنجر اور کامران
اور شاہی خزانہ نامی تینوں مشہور ناول، فیروز سنز لاہور نے شائع کیے تھے۔
اس کے علاوہ تراجم میں ربیکا اور حکایات از شیکسپیئر شامل ہیں۔
|
|
عرض و سماع برصغیر پاک و ہند کے ایک سابق ریڈیو اور ٹی وی نیوز ریڈر و براڈ
کاسٹر کی سرگزشت ہے جو 1942 سے 1982 تک کے ان ا ہم حالات و واقعات کا احاطہ
کرتی ہے جن کے چشم دید گواہ نے 19 ستمبر 1943 کو آل انڈیا ریڈیو دہلی سے
باقاعدہ ملازمت کا آغاز کیا۔ یہ نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات
نہیں۔عرض و سماع، نصف صدی کے آل انڈیا ریڈیو، ریڈیو پاکستان اور لاہور ٹی
وی کے پروڈیوسروں، ڈرامہ نگاروں و فنکاروں،شاعروں، ادیبوں اور دیگر مشاہیر
ادب کی باتوں سے لبریز ہے۔ یہ خودنوشت کسی صورت ریڈیو کے ذوالفقار علی
بخاری کی داستان حیات ’سرگزشت‘ سے کم نہیں ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ اس میں چھوٹے
بخاری کا ذکر کچھ اچھے الفاظ میں نہیں ملتا۔مصنف نے ان کو جس حال میں دیکھا،
من و عن بیان کردیا، یوں کہا جائے کہ عرض و سماع میں وہ ’ غلط بخاری ‘ ہی
کے طور پر سامنے آتے ہیں، بیجا نہ ہوگا۔
سید مظفر حسین کا تعلق دو شہروں سے تھا،یعنی شملہ اور دہلی۔ مشہور زمانہ
الیزیم ہوٹل ان کے داد اکی ملکیت تھا۔ یہ وہی ہوٹل تھا جس کے عین سامنے
واقع کوٹھی میں قائم ریڈیو کے اسٹوڈیو کے لان کے ایک پرانے کنوئیں میں
ذوالفقار علی بخاری گر پڑے تھے اور قریب قریب جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے،
بعد ازاں کنٹرولر فیلڈن نے انہیں بحالی صحت کے لیے چھ ماہ کے لیے آسٹریلیا
بھجوا دیا تھا۔ زیڈ اے بخاری نے اس واقعے کا ذکر سرگزشت میں کیا ہے۔مظفر
حسین کو اوائل عمری ہی سے ریڈیو اناونسر بننے کا شوق تھا۔کم عمری میں انہوں
نے اپنے گھر میں ایک ا سٹوڈیو بھی بنایا تھا۔ ریڈیو کی ملازمت کیا ملی،
مظفر حسین کو اپنے خوابوں کی تعبیر مل گئی، وہ شملہ سے دلی آگئے۔یہاں سحاب
قزلباش سے ان کی دوستی ہوگئی۔
مظفر حسین بیان کرتے ہیں کہ 1934 میں ڈاکٹر گوئبلز کی نگرانی میں جرمن
پروپیگنڈا اس قدر کامیاب تھا کہ ہندوستان کے لوگوں نے آل انڈیا ریڈیو اور
بی بی سی پر یقین کرنا چھوڑ دیا تھا ۔مظفر حسین رات کو ڈیڑھ بجے ریڈیو سے
واپس آتے تو ان کے دادا سید الطاف حسین ان اس روز کی تازہ خبریں معلوم کرتے
اور جب وہ بتا چکتے تو کہتے:” جھوٹ!سب جھوٹ! تم روز جھوٹ بولتے ہو۔“ ۔۔مظفر
حسین لکھتے ہیں: ” برلن کے علاوہ روم ریڈیو سے سردار اجیت سنگھ انگریزوں
اور خاص طور پر سکھ راجاؤں، مہاراجاؤں کو اردو میں وہ مغلظات سناتے تھے کہ
ایسی بے ہودہ اور غلیظ گالیاں شاید ہی دنیا کے کسی اور ریڈیو اسٹیشن سے نشر
کی گئی ہوں۔یہ سردار اجیت سنگھ اس سردار بھگت سنگھ کے چچا تھے جس کو
انگریزوں نے باغیانہ سرگرمیوں کے الزام میں موت کی سزا دے دی تھی۔دشمن کی
ان نشریات کو مانیٹر کرنے کے بعد وزارت نشریات کو بھیجا جاتا تھا جہاں
ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اس کا انگریزی میں ترجمہ کرتے تھے کہ انگریز اردو کی
تمام نشریات اور خاص طور پر سردار اجیت سنگھ کی گالیوں کو صحیح طور پر سمجھ
کر ان کی روح تک پہنچ سکیں۔“
عرض و سماع مزے دار واقعات سے بھرپور ہے۔ ایسا ہی ایک دلچسپ واقعہ کتاب کے
آغاز میں مظفر حسین نے بیان کیا ہے۔ ریڈیو سے دنیا کی کئی زبانوں میں
پروگرام نشر کیے جاتے تھے۔ایک روز ڈائرکٹر جنرل پطرس بخاری نے ایرانی یونٹ
کے انچارج حکیم اور بیگم حکیم کو اپنے آفس میں بلوالیا اور معطل کردیا۔ سب
حیران تھے کہ یہ کیا ہوا۔ دونوں میاں بیوی کا رنگ اڑ گیا۔چوتھے روز دونوں
بحال کیے گئے اور ان کے ساتھیوں کو اصل بات کا علم ہوا۔جنگ کا زمانہ تھا،
ڈاک کا نظام ٹھپ پڑا تھا، لہذا ان دونوں نے ترسیل پیغامات کا ایک آسان
طریقہ ایجاد کرلیا تھا۔ شام کو جب بیگم حکیمی خبریں نشر کرتیں تو خبروں کے
درمیان اپنی والدہ کو بھی اپنی خیریت سے مطلع کردیتیں۔پیغام اس قسم کے ہوتے
تھے :
کل رات حکیمی نے بہت شراب پی لی تھی، بڑی دیر تک مجھ سے لڑتا رہا۔۔۔
آج دوپہر حکیمی کے ایک دوست نے ہماری دعوت کی تھی، کھانے بہت مزیدار اور
قسم قسم کی شراب تھی۔۔۔
میں آج ڈاکٹر کے پاس گئی تھی ، اس نے کہا ہے کہ اگلے ما ہ کی دس تاریخ تک
بچہ ہوجائے گا۔
اپنی دانست میں حکیمی اور بیگم حکیمی نے ڈیوٹی روم کے افسران کی فارسی سے
ناواقفیت کا فائدہ اٹھایا تھا ، مگر ان کو معلوم نہ تھا کہ تہران کے
برطانوی سفارت خانے میں ان کی خبریں باقاعدگی سے سنی جاتی ہیں۔چونکہ ان کی
اس حرکت میں حکومت کے خلاف کوئی بات نہیں تھی، لہذا پطرس بخاری نے انہیں
معاف کردیا۔
اس زمانے میں مظفر حسین کی دوستی اپنے ساتھی چڈھا سے ہوگئی۔چڈھا صاحب کا
کمال تھا کہ وہ گفتگو بالکل مسلمانوں کی طرح کرتے تھے اور سبحان اللہ،
ماشاءاللہ ، بسم اللہ کا استعمال خوب کرتے تھے۔ایک روز مظفر حسین کو رات کو
اسٹیشن پر رکنا پڑا، اس روز انہیں معلوم ہوا کہ چڈھا روز رات کو اسٹوڈیو ہی
میں سویا کرتے ہیں، شیو کا سامان ان کے پاس ہوتا تھا، صبح اٹھ کر شیو کیا،
نہائے اور کمرے میں آکر بیٹھ گئے۔ ایک روز مظفر حسین نے اپنے دوست سے کہا ’
تم مولانا چراغ حسن حسرت کی طرح بولنے کی کوشش کیوں کرتے ہو اور سگرٹ بھی
انہی کے انداز میں پیتے ہو جیسے حسرت صاحب چھنگلی اور اس کے برابر والی
انگلی میں دبا کر پیا کرتے ہیں۔“۔۔حسرت کا نام سنتے ہی چڈھا نے قلم میز پر
رکھا اور دونوں ہاتھوں سے کان چھو کر بولے ’ توبہ کیجیے صاحب، میں کہاں اور
حسرت صاحب کہاں۔وہ میرے استاد ہیں، میں نے ان کی جوتیاں سیدھی کرکے صحافت
کا علم حاصل کیا ہے ۔میرے بھائی، میں ان کا شاگر د رشید ہوں۔‘ ۔۔
ایک روز چڈھا غائب ہوگئے اور پھر اس شان سے واپسی ہوئی کہ ایک لمبی سی کار
ریڈیو کی عمارت میں داخل ہوئی، ریشم سوٹ میں ملبوس چڈھا برآمد ہوئے، ہاتھ
میں ہیرے کی انگوٹھی اور کلائی پر سونے کی گھڑی۔سحاب قزلباش انہیں دیکھ کر
چیخ اٹھیں ۔معلوم ہوا کہ دہلی کے کسی چیف انجینئر کی اکلوتی مگر انتہائی
موٹی اور بھدی بیٹی سے شادی کرنے کے عوض ہری چند
چڈھا کو ایک لاکھ روپیہ ملا ہے اور اب دنیا کی تمام سہولتیں مسیر ہیں۔
یہ ریڈیو کا وہ سنہرا دور تھا جب سعادت حسن منٹو، میرا جی،اوپندر ناتھ اشک
اور رفیع پیرزادہ جیسے لوگ اس سے وابستہ تھے۔ مظفر حسین نے عرض و سماع میں
اس زمانے کے کئی واقعات بیان کیے ہیں۔میرا جی مظفر حسین سے کبھی کچھ رقم
ادھار لیتے اور کچھ ہی دیر میں واپس بھی کردیتے تھے۔یہ کہتے ہوئے کہ ’ سوا
روپے کا ٹھرا، چار آنے کی دال اور چار آنے چپراسی کو حق خدمت، اور مجھے کچھ
نہیں چاہیے۔‘ ۔۔رفیع پیرزادہ جب کام میں مگن ہوتے تو سب کچھ بھول جاتے تھے
سوائے سگرٹ کے، ایک سے دوسرا جلاتے تھے، کھانا پینا بھی یاد نہ رہتا
تھا۔آرٹسٹ تھک کر چور چور ہوجاتے تھے لیکن رفیع پیر ویسے ہی تازہ دم رہتے۔
ایک روز سحاب قزلباش نے ایک کارٹون بنایا جس میں دکھایا کہ اسٹوڈیو میں بیچ
میں مائکرو فون رکھا ہے، تمام آرٹسٹ مرے پڑے ہیں اوررفیع پیر منہ میں سگرٹ
دبائے، بال بکھیرے، سر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے مردہ آرٹسٹوں کو دیکھ رہے
ہیں۔سحاب نے نیچے لکھا تھا ’ پیر صاحب کی ریہرسل۔‘
پاکستان بنا اور مظفر حسین پہلے لاہور اور بعد ازاں پشاور ریڈیو اسٹیشن پر
تعینات رہے۔ پشاور میں ان کا قیام بارہ سال تک رہا۔ان دوران ان کی دوستی
کئی اہل علم اشخاص سے ہوئی جنہوں نے ہر طرح سے مظفر حسین کا خیال رکھا۔ ان
میں احمد فراز، محسن احسان اور خاطر غزنوی شامل تھے۔ مظفر حسین بیان کرتے
ہیں کہ پشاور ریڈیو پر ایک صاحب تھے جو کلرک تھے، وہ شاعر بھی تھے، انہیں
ریڈیو پر بولنے اور ڈرامائی پروگراموں میں حصہ لینے کا بہت شوق تھا، انہوں
نے پرائیوٹ طور پر بی اے پاس کیا اور ریڈیو میں ملازم ہوگئے، اور ایک روز
کلرک سے ریڈیو پروڈیوسرہوگئے، بعد ازاں ایم کرنے کے بعد پہلے لیکچرر اور
پھر پروفیسر ہوگئے ۔یہ خاطر غزنوی تھے۔ پشاور کے دنوں کی بات ہے۔ایک روز
ایک مظفرحسین بچوں کے پروگرام کی تیاری میں مصروف تھے کہ ان کے ایک واقف
کار ایک بچے کو اپنے ساتھ لائے اور کہا کہ اس کا تعارف پروگرام میں
کرادیجیے، یہ میرے دوست کا بھائی ہے۔پروگرام کا آغاز ہوا تو مظفر حسین نے
اسے اپنے ساتھ بٹھا کر پیار سے کہا بیٹا! آپ کا نام کیا ہے۔یہ سننا تھا کہ
وہ بچہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ مظفر حسین نے اسے باہر بھیج دیا۔ کچھ عرصہ
گزرنے کے بعد وہ پروگرام کے ماحول سے مانوس ہوا اور باقاعدگی سے شرکت کرنے
لگا۔یہ سلسلہ کافی عرصے تک چلا، اس دوران اس نے میٹرک کرلیا اور پشاور کے
ڈراموں میں بھی حصہ لینے لگا۔ اس وقت کون جانتا تھا کہ بچہ ایک روز محمد
قوی خان کے نام سے جانا جائے گا۔
مظفر حسین انہی دنوں کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ” ایک شام
میں نے اناونسمنٹ کرکے آٹھ بجے اسٹوڈیو کا دورازہ کھولا تو دیکھا کہ اس وقت
کے آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل نذیر تقریروں کے درمیان اندر جھانک رہے ہیں،
میں نے و جہ پوچھی تو گھبرا کر بولے ، دراصل آپ کے اسٹوڈیو مجھے بہت اچھے
لگتے ہیں، جی چاہتا ہے میں بھی یہاں کام کروں۔یہ کہہ کر وہ الٹے پاؤں وہاں
سے رخصت ہوگئے۔صبح میں ڈیوٹی پر آیا تو سات بجے کی خبروں سے معلوم ہوا کہ
بہت سے فوجی افسر بشمول فیض احمد فیض، حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں
گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ان میں جنرل نذیر کا نام بھی تھا۔“
مولانا شبیر احمد عثمانی کے انتقال کا دن مظفر حسین کو بہت عرصے تک یاد رہا۔
کراچی سے شکیل احمد نے مولانا کے انتقال کی خبر ان الفاظ میں نشر کی تھی: ’
آج سہ پہر کو مولانا شبیر احمد عثمانی کو گولی مار کے قبرستان میں سپرد خاک
کردیا گیا۔‘
گولی مار، کراچی کا ایک گنجان آباد علاقہ ہے۔
سید مظفر حسین 1979 میں لاہور سے کراچی منتقل ہوگئے تھے جہاں 1982 میں وہ
ریڈیو پاکستان سے ریٹائر ہوئے۔1983 میں ان کی ملاقات کراچی کے ایک رسالے شو
بزنس کے ایڈیٹر ناصر رضا سے ہوئی جس نے انہیں اپنی سرگزشت لکھنے پر آمادہ
کیا، رسالے میں اس کتاب کے بیس ابواب شائع ہوئے لیکن انہیں اس کا معاوضہ
نہیں دیا گیا۔1988 میں مظفر حسین نے شو بزنس کے مالک سہام مرزا سے رابطہ
کیا تو انہوں نے بھی کوئی تسلی بخش جواب نہ دیا۔ عرض و سماع کے دیباچے میں
مظفر حسین نے ان دونوں حضرات کو کاغب اور غاصب قرار دیا ہے۔ ان دنوں مظفر
حسین کے معاشی حالات بیحد خراب تھے۔ 1982میں ریڈیو سے ریٹائر ہونے کے بعد
انہیں گریجوئٹی کی مد میں صرف سترہ ہزار روپے ملے تھے جبکہ پینشن نہیں
تھی۔دو ماہ بعد وہ شدید بیمار ہوئے اور دس روز تک بیہوش رہے۔ ہوش آیا تو
معلوم ہوا کہ گریجوئٹی کی تمام رقم علاج کی نذر ہوچکی ہے۔ ایسے میں ان کے
دوست نبی جان صدیقی ان کے کام آئے جنہوں نے عرض و سماع کی اشاعت کے لیے رقم
اپنے دوست کو رقم فراہم کی۔
عرض و سماع کے آخری صفحات میں مظفر حسین لکھتے ہیں: ” ایک روز میں نے صدر
مملکت ضیاءالحق کو اپنی حالت سے مطلع کیا، خط کی رسید تو ملی لیکن جواب نہ
آیا۔ ایک زمانے میں بیگم عطیہ عنایت اللہ میرے ساتھ لاہور میں انگریز ی کا
پروگرام کرتی تھیں۔وہ معاشرتی فلاح و بہبود کی مشیر تھیں، ان کو خط لکھا
لیکن ان کی طرف سے نہ کوئی عطیہ ملا، نہ کوئی عنایت ہوئی۔ ہوسکتا ہے وہ
معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے معاشرہ تلاش کرتی رہی ہوں اور فلاح و بہبود
کا موقع ہی نہ ملتا ہو البتہ ان کے بیانات ان کی موجودگی کا پتہ دیتے ہیں۔
میں معذور بھی تھا، سفید پوش بھی اور غیرت مند بھی۔آج میں پہلی بار اپنے آپ
کو بے حد بے بس ، بے کس اور مجبور محسوس کررہا ہوں۔ میری بیوی اپنی ضروری
خرید و فروخت کے لیے میری طرف دیکھتی ہے میں آسمان کی طرف دیکھنے لگتا ہوں
کہ اوس سے کر لے فرشتے تک اوپر سے ہی آتے ہیں۔“
سید مظفر حسین کی تاریخ وفات کا علم نہ ہوسکا، وفیات کی کتابیں بھی اس
سلسلے میں خاموش ہیں ۔عرض و سماع کے ذریعے ایک معذور شخص اپنے قاری کو جینا
سکھا گیا۔
حاصل عمرم سہ سخن بیش نیست
خام بدم، پختہ شدم، سوختم |