پرنسپل ملّت کالج، دربھنگہ (بہار)
مجھے بچپن سے کہانیاں پڑھنے کا شوق ہے۔ ناولوں کا عاشق ہوں۔ ادب سے گہری
وابستگی کا نتیجہ کہا جائے گا کہ میں نے دربھنگہ سے ”جہانِ اردو “نکالنے کا
فیصلہ کیا۔عصری ناولیں پڑھنے کا شوق اور کہانیوں سے عشق ہوا تو ایک نام نے
میرا راستہ روک لیا۔ مشرف عالم ذوقی۔ یہاں کہانیوں کی ایک نئی دنیا آباد
تھی۔ ذوقی کی کہانیاں عام ڈگر سے مختلف تھیں۔’ نیلام گھر، شہر چپ ہے، ذبح،
لیکن جس ناول نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ ذوقی کا’بیان‘ تھا۔ اس سے
قبل کہ”لے سانس بھی آہستہ“ کا ذکر کروں، ذوقی کے بیان کی انوکھی دنیا میں
آپ کولے جانا ضروری سمجھتاہوں۔ اردو ادب کی اقلیم میں سیاست نے اپنی خاص
جگہ بنارکھی ہے — شہرت وتشہیر اور نام ونمود کے لیے جائز وناجائز، اسفل
وارزل کام کرنے کے لیے ہر ادبی بازیگر تیار بیٹھا ہے۔ اور ان بازیگروں نے
ادب کے معیارات کو نقصان پہنچانے کاکام کیا ہے۔ ایسے عہد میں بابری مسجد کے
حوالے سے بیان کو قلمبند کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اور یہ کام وہی
کرسکتا تھا جس نے ادب کی صالح اقدار کو اپنایا ہو۔ جو سیاست سے الگ ادب کی
نمو پذیری کا قائل ہو۔ میں نے جولائی 2005 میں ”جہانِ اردو کا بیان“ پر ایک
خصوصی شمارہ شائع کیا۔ (ایک سال بعد بیان منظر، پس منظر کے نام سے میری
کتاب بھی شائع ہوگئی)۔ یہاں ان چند خطوط کا حوالہ ضروری ہے جو بیان کی
اشاعت کے فوراً بعد مجھے موصول ہوئے۔
”آپ نے اچھا کیا کہ ایک شمارہ ذوقی کے ناول ”بیان“ کے نام کردیا۔ اس ناول
پر بحث ہونی چاہئے۔ کیونکہ یہ اردو کا ایک اہم ناول ہے مگر افسوس کہ
ہندستان میں گروپ بازوں نے اس ناول کو اپنی سازشوں کاشکار بنالیا۔ ”جہانِ
اردو“ کے اس خصوصی شمارے کے مضامین ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جوذوقی
اوران کی تخلیقات کو نظرانداز کرتے رہے ہیں۔“
ڈاکٹر امجد نقوی (ویانا آسٹریا)
”جہارنِ اردو“ کا شمارہ 19 جولائی تا ستمبر 2005 ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین
کے توسط سے دیکھا۔ جی خوش ہوگیا۔ ذوقی کے فن پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی
ہے۔ ذوقی کچھ اس سے بھی زیادہ کے مستحق ہیں۔ جنیون فنکاروں کو ادبی سیاست
کے تحت بعض اوقات بری طرح نظرانداز کیاجاتارہا ہے۔ صحافتی دیانتداری یہی
ہوتی ہے کہ ادبی سیاست سے اوپر اٹھ کر انہیں صحیح مقام دیاجائے۔ اوران کے
صحیح مقام کا تعین کیا جائے۔ آپ نے اس دیانتداری کاپورا پورا ثبوت فراہم
کیا ہے اس شمارہ کو ادب کے ہرحلقہ میںرسائی ملنی چاہئے۔
ابولیث جاوید(دہلی)
آپ نے ایک نئی ایجاد کردی یعنی کسی فنکارکی کسی ایک مخصوص کتاب پر نمبر
نکال دیا ہے— خوب بہت خوب— مشرف عالم ذوقی کی مشہور زمانہ کتاب”بیان“ اپنے
موضوع کے اعتبار سے غضب کی کتاب ہے ۔ اس کا انداز بیان بھی بہت خوبصورت ہے۔
اس ناول کو اردو کا شاہکار سمجھنا— اس ناول پر وقتاً فوقتاً جومضامین
اورتاثرات شائع ہوئے بہت ممکن تھا کچھ دنوں کے بعد نظروں سے اوجھل ہوجاتے—
لیکن آپ کی کوشش سے وہ ایک جگہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئے۔ اس سے بڑی ادبی
خدمت اور کیا ہوسکتی ہے۔
محمد ایوب واقف(ممبئی)
یہ خطوط گواہی دیتے ہیں کہ ذوقی کے ساتھ ناانصافی ہوئی۔ لیکن ناانصافی ہوئی
تو کیوں؟بیان پر خصوصی شمارہ نکالتے ہوئے مجھے اس بات کاشدت سے احساس تھا
کہ مجھ پر بھی حملہ ہوگا۔ احباب سوال کریں گے کہ ذوقی ہی کیوں؟ اور میں اس
جواب کے لیے تیار تھا۔میں نے پیش لفظ میں تحریر کیا کہ مجھے ذوقی کیوں پسند
ہیں۔
ذوقی ہی کیوں؟
1986 میں ڈاکٹر محمد حسن نے عصری ادب میں، نور تنوں کی فہرست میں ذوقی کو
پہلے نمبر پر رکھا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب زمینی سچائیوں کو بیان کرنے کے
ہنر میں ذوقی اپنے عصر کے تمام افسانہ نگاروں سے کافی آگے نکل گئے تھے۔
1986 میں ذوقی کی عمر بمشکل 24 سال کی رہی ہوگی۔ ایک 24 سالہ نوجوان کے فن
پاروں کو دیکھتے ہوئے اگراردو کے ممتاز ناقد ڈاکٹر محمد حسن نے اس وقت
انہیں پہلے پائیدان پر جگہ دی تھی تو یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ ڈاکٹر صاحب
نے بہت عرصہ پہلے ہی ذوقی کے اندر کے عظیم افسانہ نگار کو محسوس کرلیاتھا۔
مجھے یاد ہے اسی زمانے میں عصری ادب میں ہی ذوقی کی ایک نمائندہ کہانی”سو
باڑی“ شائع ہوئی تھی۔ جوان کے پہلے افسانوی مجموعے”بھو کا ایتھوپیا“کے
انتخاب میں شامل ہے۔ یہ کہانی ”بنجامن مولوائیز“ کے نام تھی، جس کاقتل
کردیاگیاتھا۔ ذوقی نے ”سور باڑی“ کے حوالے سے ایک ایسے شاہکار کو جنم دیا
تھا جہاں ہم بنجامن کی آتما کو ٹرپتے ہوئے محسوس کرسکتے تھے۔ ‘
”میں ذوقی کے اسٹائیل کاشروع سے مداح رہاہوں— ”بیان“ اور ”مسلمان“ سے لے کر
ان کے تازہ ناول ”پوکے مان کی دنیا“ تک ،نہ صرف میں نے سنجیدگی سے مطالعہ
کیا ہے بلکہ یہ بھی خواہش ہے کہ آنے والے چند برسوں میں ان پر الگ الگ
کتابیں قارئین کے سامنے پیش کرسکوں۔ دراصل موجودہ دور میں ذوقی کی موجودگی
اردو ادب کے سمندر میں کسی چٹان کی مانند ہے۔ ذوقی نہ کسی سے متاثر ہوتے
ہیں نہ مرعوب— ان کا اپنا انداز، اپنارنگ وآہنگ ہے۔ کہانی کہنے کے ہنر میں
ان کا کوئی ثانی نہیں— بلاشک وشبہ آج ذوقی کے قلم سے جو کہانیاں جنم لے رہی
ہیں، انہیں کسی بھی عالمی معیار کے سامنے رکھا جاسکتا ہے۔“
جو فکری عمق، سنجیدہ مطالعہ، تخلیقی بصیرت، اپنے عہد کے ساتھ ساتھ چلنے کا
عزم،بالغ نظری ذوقی کے یہاں نظر آتی ہے، وہ دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔
ذوقی اردو کا پہلا فنکار ہے جس کے ناولوں ”پوکے مان کی دنیا“” پروفیسر ایس
کی عجیب داستان“ اور ”لے سانس بھی آہستہ“ کو دنیا کے کسی بھی عظیم شہہ پارے
کے سامنے فخر سے رکھا جاسکتا ہے۔ ذوقی کو جھوٹی شہرت کاچسکا نہیں ہے۔ ادب
ہی اس کا اوڑھنا بچھونا اور زندگی ہے۔ بیان کے بعد ذوقی کادوسرا اہم پڑاﺅ”
پوکے مان کی دنیا“ تھا۔
ابھی” پوکے مان کی دنیا“ کی گونج کم بھی نہیں ہوئی تھی کہ مشرف عالم ذوقی
نے ادبی سطح پر ایک اور توپ داغ دیا۔” پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا
سنامی“۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ پوکے مان کی دنیا جیسا بڑا کینوس کا ناول
سن 2004 میں سامنے آیا۔ 2004، 27دسمبر سونامی کے المیہ نے دنیا بھر کے
لوگوں کو خوفزدہ کردیا۔ اور کمال دیکھئے سونامی المیہ کے صرف سات ماہ کے
اندر 520 صفحات پر مشتمل ذوقی کا یہ عجیب وغریب ناول سامنے آچکا تھا۔ میں
کہتا ہوں کہ ذوقی کو بسیار نویس کہنے والے اب ان کے لئے جن یا بھوت جیسا
کوئی لفظ ایجاد کریں تو بہتر ہے۔ کیوں کہ آج کے زمانے میں جن یا بھوت یاپھر
جادوگر کے ڈبہ سے بھی اتنی تیز رفتاری سے ایسے غیر معمولی نوعیت کے ادبی
خزانے نہیں نکل سکتے۔
پوکے مان نے آج کے عہد پرشب خون مارا تھا۔ بچے آج چوتھی دنیا کاسب سے بڑا
مسئلہ بن چکے ہیں۔ ذوقی نے پوکے مان کے ذریعہ بچوں کی اسی نفسیات کابخوبی
جائزہ لیاتھا خواہ وہ بچے ہندستان میں رہتے ہوں، پاکستان میں یا امریکہ میں
لیکن تیزی سے بدلتے ہوئے ان بچوں کا ایسا بھیانک چہرہ پوکے مان سے پہلے
کبھی میں نے محسوس نہیں کیا تھا۔ اوراب مشرف عالم ذوقی کے اس شاہکار نے ہم
سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ آخروہ وقت کب آئے گا جب ہم قرة العین حیدر سے آگے
نکل کر ذوقی کے ناولوں کی طرف رجوع کریں گے اور یہ دیکھنے، تجزیہ کرنے کی
کوشش کریں گے کہ اس میں ہمارے وقت کا کتنا بڑا فلسفہ پوشیدہ ہے۔ اورذوقی نے
سونامی کے بہانے کس دردمندی سے اپنے وقت کی یہ بھیانک داستان ہم تک پہنچانے
کا بیڑا اٹھایا ہے۔”پروفیسر ایس کی عجیب داستان“ میںناول کے ابواب سونامی
لہروں کے سہارے کہانی کوآگے بڑھاتے ہیں۔ احمد علی اورادیتی سانیال کا غیر
معمولی کردار ذہن پر ایسا نقش قائم کرتا ہے کہ اپنے آس پاس ایسے کتنے ہی
چہرے نظر میں گھوم جاتے ہیں۔ احمد علی کیا نہیں ہے؟ غریبی سے امیری کا سفر،
سدیپ دا جیسے کمیونسٹ کا ساتھ ،جوٹ ملس کے منیجر کو قتل کرنے کا پلان، احمد
علی کی توبہ، شاہ پور چھولہ داری میں آمد، کمیونسٹ سے مذہب کی طرف پہلا
قدم، پھر پرویز سانیال کا جنم اورپروفیسر صدر الدین پرویز قریشی کی عجیب
داستان میں شامل ہوجانا۔ دراصل اس کہانی کا اصل ہیرو وقت ہے۔ وقت جوسونامی
لہروں کی شکل میں سب کچھ بہا کرلے جارہا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے انسان ہونے
پر بھی اب شرم محسوس ہونے لگی ہے۔ قرة العین حیدر کے یہاں وقت کا یہ بہاﺅ
مختلف تھا۔ ذوقی کے یہاں یہ وقت زیادہ بڑے کینوس میں تاریخ کا سہارا لیے
اور مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے اس انداز میںشامل ہوا ہے کہ آنکھوں کی پتلیاں
خوف سے پھیل جاتی ہیں۔ ناول کے اقتباسات دیکھیے۔
”موسیو، موت کے بعد بھی زندگی چلتی رہتی ہے۔ سونامی سے جہاں نقصان ہوا ہے
۔وہاں فائدے اورروزگار کے نئے نئے دفتر بھی کھل رہے ہیں۔سونامی لہریں موت
دیتی ہیں توآپ کو زندگی بھی دیتی ہیں۔ مجھے تعجب اس بات پر ہے کہ آپ موت
کھوجتے رہے اور میں سمندر سے زندگی تلاش کرتا رہا۔ موت کے ہر ڈرکے بعد
زندگی کے دس راستے کھل جاتے ہیں۔ “ (صفحہ 362)
”سر اتنے بڑے بازار میں ہم سب بھی الگ الگ چھوٹے چھوٹے بازار بن گئے ہیں۔
ہم سب ایک ہی ریموٹ سے چلنے والے بازار ہیں۔ جن پر کنٹرول کسی اور کا ہے۔
ہم وہی سوچتے ہیں۔ جو ہمیں سوچنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ ہم وہی کرتے
ہیں جو ہمیں کرنے کے لیے کہاجاتا ہے۔ اورآج اس بازار میں سب سے زیادہ بکنے
والی کوئی چیز ہے تو وہ ہے موت۔ موت جس کے گلیمرکو امریکہ سے لے کر انڈرولڈ
مافیا اورمیڈیاتک کیش کرتی رہتی ہے۔ زندوں سے زیادہ بکتے ہیں مردے۔ “ (صفحہ
377)
”موسیو، ساری پیشین گوئیاں اب صحیح ثابت ہورہی ہیں۔ ریگستان پھیل سکتے ہیں۔
مونگے کی چٹانیں غائب ہوسکتی ہیں۔ گرم ہوائیں اپنارغ بدل سکتی ہیں۔ دنیا کا
ایک بڑا حصہ برف میں گم ہوسکتا ہے۔ اورایک بڑے حصے کو دھوپ کی ہرپل بڑھتی
ہوئی شدت جھلسا کرراکھ کرسکتی ہے۔ انٹارکٹیکا میں گھاس اگ سکتی ہے۔ موسیو،
ممکن ہے تب بھی یہ دنیا قائم رہے گی۔ بس ایک مرد اورایک عورت۔ دنیا بننے
کاعمل جاری رہے گا۔ کیوںکہ ہم ہیں۔ گلیشیر کے ٹوٹنے، بھیانک زلزلے، سونامی
قہر کے باوجود ہم میں جینے کی طاقت موجود ہے۔ “
(صفحہ 381)
ہر عہد کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے۔ اس مزاج کو سمجھنے والا صحیح معنوں میں
دانشور کہلاتا ہے۔ ذوقی میں آج کے عہد کا ایک بڑا فنکار چھپا ہے۔ جو اپنے
عہد کے تقاضوں کو نہ صرف محسوس کررہا ہے بلکہ انہیں تحریر میں لانے کی ذمہ
داری بھی ادا کررہا ہے۔ 27 دسمبر 2004 سونامی کی جو قیامت برپاہوئی، ذوقی
نے اس تاریخ کو ہمیشہ کے لیے اپنی اس کتاب میں قید کردیا۔ لیکن سونامی کے
بہانے ذوقی نے ادب میں درآئی سونامی کا جو جائزہ لیا ہے وہ ایک حیران کرنے
والی دنیا ہے۔
لے سانس بھی آہستہ: ایک کیفیت جو بتائی نہیں جاسکتی
تین چار دن پہلے میں نے یہ ناول ختم کیا اوراب تک اس ناول کے جادو میں مقید
ہوں اور کہہ سکتا ہوں کہ زندگی کے بہت آگے کے سفر میں بھی اس ناول کو بھول
پانا میرے لیے آسان نہیں ہوگا۔ آج جہاں ادبی سیاست کچھ ایسے ناولوں کو عظیم
تجربے کی صف میں رکھ رہی ہے جہاں نہ فلسفہ ہے نہ کوئی مرکزی خیال بلکہ جو
کچھ بھی ہے وہ محض صابن کا جھاگ۔ ایسے ناول دودن تو کیا پڑھنے کے فوراً بعد
ہی بھلا دیئے جاتے ہیں— لیکن ذوقی نے اپنے اس ناول میں جو دنیا آباد کی ہے،
اسے بھلانا آسان نہیں ہوگا۔ نور محمد کی شکل میں ذوقی نے اردو ادب کو ایک
ایسا کردار دیا ہے، جو اردو ناولوں کے سوسال کے سفر میں تلاش کرنے پر بھی
کہیں نہیںملتا—اس ناول کے ذریعہ ذوقی ایک بڑے مفکر کے طور پر ہمارے سامنے
آتے ہیں۔ آزادی کے ۵۶ برسوں کی تاریخ میں مسلمانوں کی روشن خیالی اور
تہذیبوں کے زوالکے جو اسباب ہوسکتے تھے، ذوقی نے اس ناول کے ذریعہ اس
کودریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں میر کے مشہور شعر کے ذریعہ ناول کی مکمل
فضا کو ایک ایسا سماجی نقطہ نظر مہیا کیاگیا ہے جو تہذیبوں کے تصادم، غلبہ
اورتسلط کا جواز فراہم کرتا ہے۔ذرا یہ پارا گراف دیکھئے—
”پروفیسر نیلے نے پلٹ کر میری طرف دیکھا— جیسے ہم ایک وقت میں کئی لوگوں سے
محبت کرسکتے ہیں اور اس لیے کہ ہم انسان ہیں— اور انسان کی سرشت میں اسکی
آزادی کو دخل ہے۔ لیکن یہاں بھی ہم اخلاقیات کی چھوٹی چھوٹی شاخیں لے کر
آجاتے ہیں— خاندان، معاشرہ، سماج، تہذیب.... اور مذہب— ہم بہت کچھ چاہتے
ہیں.... شاید سکون سے جنسی سکون اور جبلّت تک.... شاید کسی کسی لمحہ ہم
پوری طرح جانور بن جانا چاہتے ہیں.... لیکن مہذب ہوتے ہوئے وہی اخلاقیات
یہاں بھی ہمارے آڑے آجاتی ہے— ہم آج کی نئی اخلاقیات میں تہذیب کے کھلے پن
کو دیکھ رہے ہیں اور وہاں یوروپی ممالک میں عام ذہن اس کھلے پن سے اتنا
گھبرا چکا ہے کہ وہ یوگ، سادھنا، عبادت اور آشرم میں پناہ لے رہا ہے....
اور اسی اخلاقیات کا دوسرا سلسلہ بازار سے جڑا ہے— اب یہاں کے سادھو، سنت
اور آشرم کے قصے دیکھو— کتنے ہی آشرم ہیں جہاں سیکس ریکٹ چلائے جا رہے ہیں۔
ہندستان اس مہذب ہوتی صدی میں ساری دنیا کے لیے سیکس کاایک بڑا بازار بنتا
جا رہا ہے— اور وہاں.... غیر ملکی کھلے پن سے گھبرا کر اب انہی آشرموں میں
پناہ لے رہے ہیں۔ ایک ہی زندگی میں کتنے تضاد ہیں کاردار.... ہر دوسرے قدم
پر انسانی اخلاقیات ایک نیا تماشہ دیکھنے پر مجبور ہے۔ لیکن ہم اپنے اصولوں
میں، مذہب کے آدرش میں محض اعلیٰ انسان ہونے کا ڈھونگ کیے جا رہے ہیں....
دیکھو کاردار....‘
پروفیسر نیلے مسکرائے....
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا
’خوب .... کیا خوب شعر ہے— ذرااس شعر کے پردے میں تو جھانکو.... اس عالم آب
و گل کو ایک چھوٹے سے کانچ کے باریک شیشے کا محل یا قید خانہ سمجھ لو— یہی
کانچ کا باریک شیشہ ہماری دنیا ہے— ہماری تمہاری یہ مہذب دنیا، اور اسی
شیشے کی باریک دنیا میں ہم اپنے جینے کا جتن کیے جا رہے ہیں— لیکن یہ شیشہ
اتنا نازک، اسقدر باریک ہے کہ ہماری سانسوں سے بھی اس کے ٹوٹنے کا خطرہ
پیداہوجاتا ہے.... ہر سانس ایک نئی عبارت خلق کر رہی ہے.... ہر سانس ایک
نئی دنیا بن رہی ہے— اور یقینا پریشان ہوں گے وہ لوگ، جو اب تک اپنی پرانی
دنیاؤں سے چپکے ہوئے ہیں— کاردار ہم تم جتنے بھی فلسفے اور نظریات قائم
کریں یا جس نظریئے سے بھی دنیا کو دیکھنے کی کوشش کریں، مگر بھول جاتے ہیں
کہ کوئی ہمیں دیکھ رہا ہے.... کوئی اپنے حساب سے انسانی Destiny کی عبارت
لکھ رہا ہے.... کون....؟ قدرت....؟‘
پروفیسر نیلے ہنس رہے تھے— ’تمہاری کہانی بھی تم نے کہاں لکھی کاردار—‘
قدرت نے لکھی ہے— اور قدرت جس قدر حسین ہے، اتنی ہی سفاک بھی — وہ تمہیں
پتہ بھی نہیں چلنے دیتی، اور تمہاری زندگی کے سفر کو موڑ دیتی ہے—“
ناول کاآغاز ہی قاری کو کچھ ایسے جکڑ لیتا ہے کہ قاری ناول ختم کرکے ہی دم
لیتا ہے۔ یہ Readability ذوقی کے ناولوں کا خاصہ ہے۔ لے سانس بھی آہستہ کے
شروعاتی صفحے اس بات کے گواہ بن جاتے ہیں کہ قاری ناول کے بہانے ایک بھیانک
تہذیبی سرنگ سے گذرنے والا ہے۔
’بس یہی گیم ہے—‘ میں زور سے ہنسا— ابھی جو کچھ تم نے کہا وہی گیم ہے—
تمہارے ہی سوال سے شروع کرتے ہیں۔ تم چھت پر گئی اور ممی چھت پر آگئیں۔
رائٹ....‘
’ہاں....‘
’ممی کیوں آئیں....؟‘
’شک.... کہ میں کسی سے بات تو نہیں کر رہی۔ کسی سے کچھ چل تو نہیں رہا....
یعنی....‘
’ال لیگل.... میںمسکرایا— لیکن ممی آسکتی ہیں۔ کپڑے پسارنے یا کسی بھی کام
سے.... لیگل— کوئی شک نہیں— کسی شک کی گنجائش نہیں....‘
’ہاں....‘
’تمہارا موبائل پر بات کرنا....؟‘
سارہ زور سے ہنسی— ’میرے لیے آب ویسلی ال لیگل۔‘
’ممی کے لیے لیگل— اب آگے.... ایسے کچھ پوائنٹ سوچو....‘
سارہ کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ اسے جانے انجانے ایک دلچسپ کھیل مل گیا تھا—
’آتنک وادی— وہ زور سے تالیاں بجا کر ہنسی— میرے ملک کے لیے ناجائز— مگر جس
ملک نے بھیجا— اس کے لیے جائز۔ وفادار۔‘
’اسی طرح ملک کے فوجی سپاہی.... اور آگے....‘
’یعنی میں اگر Pregnant ہوجاتی ہوں— شادی سے پہلے.... روانی میں بولتی ہوئی
اچانک اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ میرا مطلب ہے کوئی لڑکی جس کی شادی نہیں
ہوئی— ال لیگل۔ لیکن شادی کے بعد یہی چیز سارے گھر کی خوشی بن جاتی ہے....‘
سارہ کی نظریں جھکی تھیں.... میرے اندر کوئی سنّاٹا نہیں تھا۔ یہ نسل خود
کو پہچانتی ہے۔ اس لیے کہیں بھی اپنی کوئی بھی بات سامنے رکھنے سے نہیں
گھبراتی....
’اس کا مطلب ایک ہی چیز۔ ایک ہی وقت میں جائز اور ناجائز دونوں ہوسکتی
ہےں....کیوں سارہ؟‘
”سماجی آئین سے الگ کی ایک نئی اخلاقیات سامنے آ رہی تھی.... انسانوں سے لے
کر جنگلی جانوروں تک، نئی اخلاقیات کی ہزاروں مثالیں سامنے تھیں— آسٹریلیا
کے حوالے سے ایک خبر آئی تھی کہ ایک شیرنی ایک چھوٹی سی بلّی کی محافظ بن
گئی ہے۔ انگلینڈ کے ایک جنگل میں کتّے اور بھالو کو ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھ
کر ایک فوٹو گرافر نے اپنے کیمرے میں قید کیا تھا۔ دنیا کے سب سے چھوٹے ماں
باپ 15 سال کے بچے تھے— ٹی وی کے روشن اسکرین پر دو چھوٹے بچے اپنے چھوٹے
سے ننھے بچے کو دیکھتے ہوئے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے.... سائبیر
ورلڈ، نئی تکنالوجی، بدلتی ہوئی دنیا— بدلتا ہوا نظام— گلیشیر کے پگھلنے
اور سائبیریا میں گھاس اگنے تک کی خبروں نے بدلے بدلے موسم کی گواہی دے
ڈالی ہے۔
اور یہ خط مجھے ایسے موقع پر ملا ہے جب ماحولیات کو لے کر کوپن، ہیگن میں
ہونے والا ڈرامہ پوری طرح ناکام ثابت ہوچکا ہے.... انتظار کیجئے۔ اس بیحد
بے رحم وقت میں، میں آپ کو ایک ایسی ہی بے رحم کہانی یا کردار سے ملانے لے
جا رہا ہوں۔ ممکن ہے، جسے سننے کے لیے آپ کے کان آشنا نہ ہوں۔ یا جسے محسوس
کرنے کے لیے آپ کے دل کی حرکتیں رک جائیں۔ یا جسے آنکھوں کے پردے پر دیکھنے
کی عجلت آپ کی آنکھوں کی بینائی چھین لے—
لیکن آپ کو اس کے لیے تھوڑا سا انتظار کرنا ہوگا....“
یہاں دور تک پہاڑیاں ہیں۔ قدرت کی آغوش میں ذرا سے فاصلے پر دو گھر آباد
ہیں۔ ایک عبدالرحمن کاردار دوسرا پروفیسر نیلے۔ دونوںہی عمر کی آخری منزلوں
میں ہیں۔پروفیسر نیلے ایک پراسرار اورمضبوط کردار کے طور پر ہمارے سامنے
آتے ہیں۔ اور یہی وہ کردار ہے، عبدالرحمن جن سے اپنی ماضی کی اس درد بھری
کہانی کو شیئر کرتے ہیں— جس نے ان کی دنیا بدل دی تھی اور بیٹے کی شادی
ہوجانے کے بعد وہ ان پہاڑوں پر آکر آباد ہوگئے تھے۔ لیکن وہ کہانی کون سی
تھی؟ کیا تھا اس کہانی میں جس نے عبدالرحمن کاردار کی واقعات سے پرزندگی سے
حوصلہ اورسچ چھن لیا تھا۔ ناول کی شروعات میں جابجا اس کے اشارے مل جاتے
ہیں۔
”میرے سامنے نور محمد کا معصوم چہرہ تھا— ’ابھی آپ تہذیبوں کی باتیں کر رہے
تھے پروفیسر....؟‘
’ہاں— تہذیبیں مرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ کوئی کوئی تہذیب بہت جلد مر جاتی ہے—
پھر ایک نئی تہذیب سر اٹھاتی ہے۔ ان تہذیبوں میں جینے کے لیے’ ہم اپنی
آسانی اور سہولت کے حساب سے اپنے مذہب چن لیتے ہیں۔ اصول اور قوانین بنا
لیتے ہیں۔ یہ سب اپنی سہولت کے حساب سے کاردار— انسانی رشتے بھی اسی سہولت
کی دین ہیں۔ جنہیں بیحد مہذب ہوتی دنیا میں ہم اپنے حساب سے بناتے اور
توڑتے رہتے ہیں— یہ رسم و رواج— شادی بیاہ، بندھن.... ممکن ہے یہ تہذیب ختم
ہوجائے تو نئی تہذیب ان سب کی نئی تعریفیں اپنے حساب سے یا اپنی سہولت کے
حساب سے لکھنے لگیں۔ ممکن ہے کل کی تہذیب میں نومولود بچے کی اپنی دنیا ہو—
جیسے اس کے آزاد ماں باپ کی— وہ بچہ آنکھیں کھولتے ہی اپنی آزاد سلطنت کا
وارث بن جائے....‘
پھر اس بچے کا مستقبل ؟ میری آنکھوں کے آگے کا سایہ گھنا ہوگیا تھا—
”مستقبل وہ بچہ خود طے کرے گا۔ ممکن ہے، کل کی تہذیب میں پیدا ہوتے ہی بچوں
کو کوئی قانون، کوئی ان جی او یا پھر کوئی سوسائٹی اپنالے— ممکن ہے نئے
بچوں کے لیے باقاعدہ کوئی نیا انتظام ہو— ہم جو کچھ دیکھتے ہوئے اور سیکھتے
ہوئے بڑے ہوتے ہیں، وہی ہماری پہچان بن جاتی ہے کاردار— بچپن سے سنسکرتی،
اخلاق، اور تہذیب کے اتنے گھول ہمیں پلائے جاتے ہیںکہ ہم انہیں ہی سچ سمجھ
بیٹھتے ہیں— اور اس میں، تمہیں شک نہیں ہونا چاہئے کہ آگے آنے والے سوبرسوں
یا ہزار برسوں میں یہ تہذیبیں ایک نئی کروٹ لیں گی— ممکن ہے تب....“
اور یہیں سے اخلاقیات اورتہذیبوں کے زوال کی وہ بھیانک کہانی شروع ہوتی ہے
جو ہمیں حیران کرجاتی ہے۔ ایک ایسی کہانی جو اردو ادب کی اب تک تاریخ میں
نہیں لکھی گئی۔ اوراس کہانی کو رفتار اوروژن دینے کے لیے ذوقی نے واضح طور
پر کرداروں کے توسط سے ہمیں فکری بصیرت کی نئی راہ سے روشناس کرایا ہے۔
”کون بناتا ہے یہ نظریہ—؟ جب ایک نظریہ سچ ہے تو پھر اختلاف کی گنجائش ہی
کیوں پیدا ہوتی ہے؟ کیا اخلاقیات ہر بار ہمارے لیے ایک چیلنج ہےں؟ کیا وقت
اپنے حساب سے اپنی اخلاقیات کی تھیوری پیش کرتا ہے—؟ کیا آج کی ساری بحث
صرف اور صرف اخلاقیات تک سمٹ کر رہ گئی ہے—؟ گلوبل دنیا اور گلوبل وارمنگ
کے اس دور میں الگ الگ اخلاقیات کے عفریت ہمیں حصار میں لیے کھڑے ہیں....
کہ پہلے ہم سے الجھو.... اور جیسا کہ اندنوں مغرب کے بارے میں کہا جا رہا
ہے کہ مغرب کے بنیادی مسائل نہ تو معاشی ہیں اور نہ ہی آبادی کا بڑھنا—بلکہ
اصل مسئلہ ہے— اخلاقیات کا گم ہوجانا— ثقافتی خودکشی— اور انہی سب سے ایک
نہ ختم ہونے والا سیاسی بحران پیدا ہو گیا ہے— ایک طرف دہشت پسندی اور
القاعدہ تہذیب ہے جس کی جڑیں بنیاد پرستی سے زیادہ دہشت پسندی میں کھڑی
ہیں....“
”نور محمد کا خط ایک بار پھر میرے ہاتھوں میں ہے....
بچپن سے سنتا آیا تھا، ہم سب قدرت کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ پہلے مجھے
یہ صرف محاورہ لگتا تھا۔ لیکن اب نہیں— مجھے لگتا ہے۔ ریموٹ کنٹرول قدرت کے
ہاتھوں میں ہے۔ وہ ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیتی ہے— جیسے ہم ٹی وی کے سامنے
ریموٹ گھماتے ہوئے نا پسندیدہ سے پسندیدہ پروگرام کی طرف لوٹتے ہیں— قدرت
سارا تماشہ دیکھتی رہتی ہے— اور اچانک ریموٹ کا ایک بٹن دبا دیتی ہے....
کیا آپ نے یہ دھماکہ سنا؟
شاید آپ اس دھماکے کو سن سکتے ہیں—؟
میں یہ نہیں کہوں گا کہ مجھے آپ کی ضرورت ہے۔ لیکن شاید آپ آسکیں تو میں آپ
کو قدرت کی سفاکی اوربے رحمی کا ایک نمونہ دکھانا چاہتا ہوں— میں یہ چھپاو
¿ں گا نہیں کہ میں بہت پریشان ہوں— اور یہ بھی نہیں کہ میں آپ کا انتظار کر
رہا ہوں....
میں کھڑکی پر آگیا ہوں—
آج آسمان صاف ہے۔ نیلے آسمانی چادر پر کا نپتا ہوا ایک روشن چاند—
ہوا تیز ہوگئی ہے— کتنی ہی آوازیں ہیں جو میرے کانوں میں گونج
رہی ہیں....
اس وقت میں ماضی کی خوفناک ٹرین میں اکیلا ہوں۔ اور ہزاروں پرچھائیاں مجھے
گھیر کر بیٹھ گئی ہیں۔“
ماضی کی خوفناک ٹرین چلتی ہوئی ہمیں غلامی سے فیوڈل سسٹم کی طرف لے آتی ہے۔
عبدالرحمن کاردارکی بدنصیبی یہ کہ وہ آزادی سے ایک گھنٹہ قبل پیدا ہوا۔ اس
لیے اس کے ضمیر میں غلام اخلاقیات کو بھی جگہ ملی۔ یہ وہ زمانہ تھی جب بلند
شہر میں جاگیرداروں کا زوال شروع ہوگیا تھا— عبدالرحمن کاردار بدلتے ہوئے
بدترین وقت کا گواہ تھا۔ اور اس گواہی میں اسے نور محمد کا ساتھ مل گیا
تھا۔نورمحمد جس کی ماں پر آسیب کا سایہ تھا اورایک دن یہ آسیب ہمیشہ کے لیے
نورمحمد کی ماں کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ ادھر عبدالرحمن کاردار بڑے ہوتے
ہیں۔ حویلی ویران ہوچکی ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش کے زخموں سے گھبرا کر ماموں
سفیان اپنی بیٹی نادرہ کے ساتھ ان کے گھر پناہ لیتے ہیں۔ عبدالرحمن نادرہ
سے محبت کرتے ہیں لیکن نادرہ کی نورمحمد میں دلچسپی دیکھ کر وہ اپنے قدموں
کو واپس کھینچ لیتے ہیں۔ نورمحمد، عبدالرحمن کاردار کو اپنا آئیڈیل تصور
کرتا ہے — ادھر ایک پورا دور تبدیل ہوجاتا ہے۔ ذوقی نے بیحد خوبصورتی سے
تہذیب کے ان بدلتے ہوئے رنگوں کو اپنے ناول میں پیش کیا ہے۔
”ایک دن بولن بوا جو لڑکے کے ساتھ کپڑوں کا تھان لے کر آیا کرتی تھیں،
انتقال کر گئیں— وہ اندھیری گلی میں گر گئی تھیں۔ کچھ دن بیمار رہیں لیکن
صحت مند نہیں ہوسکیں— محلے والوں کی یہ بڑی تفریح بھی چھن گئی— اماں اور
دوسری عورتوں کو اب شہر کے نئے بازاروں کا رخ کرنا تھا۔ محلے میں بھی پردہ
کا رواج کچھ حد تک کم ہوگیا تھا— خاص کر نئی تہذیب یا نئی نسل کے بچے ان
پردوں کے حق میں نہیں تھے—
آزادی کے بعد یہ ایک نئے انقلاب کی تیاری تھی۔
یہ بدلتی ہوئی دو دنیائیں تھیں—
ایک دنیا حویلی کی تھی—
اور ایک دنیا حویلی کے باہر کی تھی۔
اور مجھے یقین تھا ترقی کے راستے حویلی سے باہر ہو کر ہی جاتے ہیں۔ میں
ابھی سے ان راستوں کے لیے خود کو تیار کر رہا تھا۔“
عبدالرحمن کاردار کے والد کا انتقال ہوتا ہے۔ اوروہ حویلی بیچ کر اسی شہر
میں ایک دوسرا مکان خریدلیتا ہے۔ لیکن نورمحمد ایسا نہیں کرتا۔ نادرہ کی
نورمحمد سے شادی ہوجاتی ہے۔ نورمحمدپاگلوں کی طرح نادرہ سے محبت کرتا ہے
لیکن نادرہ تو عبدالرحمن کاردار سے محبت کرتی ہے۔ حویلی میں جن اور بھوتوں
کاسایہ تھا۔ نادرہ بھی اس چکر میں آجاتی ہے۔ اس کی بیٹی پیدا ہوتی ہے۔
نگار۔
” وہ رو رہی ہے— ڈاکٹر کہتا ہے.... وہ نہیں بچے گی— وہ مر جائے گی....‘
نور محمد کانپ رہا ہے— ’نادرہ گھٹ گھٹ کر مرجائے گی بھیّا— نگار کو بچنا ہی
ہوگا....‘
”اس کا رونا کم ہی نہیں ہو رہا ہے.... میں نے اس سے پہلے کیا کیا نہیں
دیکھا تھا بھیّا— کیسی کیسی انوکھی بیماریاں.... جنگیں صرف بیماریاں ہی تو
پیدا کرتی ہیں— مگر یہ انوکھی بیماری— اس نے ایک برے موسم میں آنکھیں کھولی
ہیں۔
شاید بے حد برے موسم میں اور وہ.... صرف روئے جا رہی ہے....“
پرآشوب موسم میں نگار کی پیدائش یہاں خوبصورت علامت کے طور پر استعمال کی
گئی ہے۔ نہ وہ بول سکتی ہے نہ وہ ایک عام لڑکی ہے۔ مگر وہ زندہ ہے۔ جیسے اس
پرآشوب موسم میں جینے کی خواہش نہیں رکھنے کے باوجود ہم سب زندہ ہیں۔ پھر
ایک دن نادرہ کا انتقال ہوجاتا ہے۔ اوراس کے بعد وقت بے رحمی کے ایسے صفحات
لکھتا ہے، کہ ناول پڑھتے ہوئے سارے بدن میں لرزہ طارہ ہوجاتا ہے ۔
”نگار کیسی ہے....؟‘
اس کے ہونٹ لرز کر رہ گئے....
’زندہ ہے نا....؟ اس بار میں زور سے چیخا—‘
’ہاں....‘ وہ تڑپ کر بولا—
’پھرکیا بات ہے؟ خدا کے لیے چپ مت رہو۔ بتاو ¿ مجھے ....‘
آنکھوں کے آگے وہ فلم روشن تھی— پچھلی ملاقات میں گھبرایا ہوا نور محمد....
اور وہ کہہ رہا تھا— ’اب اس کے اندر طلب جاگ گئی ہے....‘
میں نے آگے بڑھ کر کھڑکی کھول دی— دوبارہ نور محمد کے پاس آکر کھڑا ہوا— اس
بار میرا لہجہ ملائم تھا—
’دیکھو نور محمد— پہلے بھی تم سب بتا چکے ہو— ڈرو مت— جو بھی اندر ہے....
اسے اللہ کے واسطے اپنے اندر سے نکالنے کی کوشش کرو— اس طرح گھٹ گھٹ کے
مرجاو ¿ گے....‘
وہ اب بھی خاموش تھا—
پچھلی بار تم نگار کا تذکرہ رہے تھے.... انوار کے جانے کے بعد....‘ میرے
لفظ ٹوٹ رہے تھے.... اور تم نے بتایا تھا کہ.... اس کی آنکھیں اب بے رنگ
نہیں ہیں....‘
’ہاں....‘
’اور یہ.... کہ....‘ تمہیں لفظوں کی ادائیگی میں پریشانی ہو رہی تھی....
اور یہ کہ اس کے اندر تمہارے لیے.... ایک طلب.... پیدا ہوئی ہے....‘
’ہاں....‘
اس نے لمبی سانس بھری اور دھماکہ کردیا—
’میں نے طلب پوری کردی.... پوری کردی....“
ذوقی نے جابجا اس ناول میں تاریخ کو گواہ بناکر پیش کیا ہے۔ جہاں یہ خوفناک
منظر سامنے آتا ہے، یہ وہی سال ہے جب بابری مسجد شہید کی گئی تھی۔ ذوقی نے
یہاں صرف بابری مسجد کی شہادت کا اشارہ دیا ہے۔ ممکن ہے اس پردے میں ذوقی
یہ کہنے کی کوشش کررہے ہوں کہ ہندستانی تہذیب کے زوال کا سلسلہ کہیں نہ
کہیں اس بدقسمت تاریخ سے ملتا ہے، جو چھ دسمبر کی تاریخ ہے اوراسی دن بابری
مسجد شہید ہوئی تھی۔ اوراسی کے بعد نورمحمد بلند شہر، حویلی چھوڑ کر
چلاجاتا ہے اورعبدالرحمن کاردار اپنے بیٹے کی شادی سے فارغ ہوکر پہاڑوں پر
بس جاتے ہیں۔ اور یہیں انہیں مدت بعد نورمحمد کاایک خط ملتا ہے۔ ۸۱ برس کا
طویل عرصہ گذر چکا ہے۔ پروفیسر نیلے سے گفتگو کے بعد وہ بلاسپور گاﺅں میں
نورمحمد سے ملنے کے لیے جاتے ہیں۔ یہاں ایک سترہ سال کی دوشیزہ دروازہ
کھولتی ہے۔ وہ نورمحمد سے اس کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔
”تو جینی....؟‘ میری سانس ٹوٹ رہی تھیں— ’تمہاری بیٹی ہے....؟ نگار کی....؟
‘
’ہاں.... ‘ اُس پر کھانسی کا دورہ پڑا تھا— ’بے رحم حقیقت— لیکن اسے تسلیم
کرنا ہی ہے بھائی— میری بیٹی— لیکن قدرت کا ظلم کہ اس کی ماں بھی میری بیٹی
تھی....‘ وہ رو رہا تھا.... قدرت کا انتقام.... اور یہی تو جانناہے مجھے کہ
اس انتقام کے لیے خدانے میرا انتخاب ہی کیوں کیا“
نورمحمد نے ایک نئی تہذیب سے سمجھوتہ کرلیا ہے۔ عبدالرحمن واپس لوٹ رہے
ہیں۔ واپس لوٹتے ہوئے انہیں شدت سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ تہذیبیں ہر
بار ایک نئی شکل لے کر ہمارے سامنے آتی ہیں—
”کھیت کی مینڈوں سے نکل کر آگے بڑھتے ہوئے میں پلٹ کر دیکھتا ہوں۔ نور محمد
اور جینی دونوں اب تک ہاتھ ہلا رہے ہیں....
میں مسکرا رہا تھا— تہذیبیں ہر بار اپنے بھیس بدل دیتی ہیں.... کبھی بھیانک
سطح پر اور کبھی....“
ہر نفس نومی شود دنیا و ما....
ہر آن ایک نئی دنیا تعمیر ہو رہی ہے—!
یہاں یہ حیران کرنے والی بھیانک کہانی صدیوں کی تاریخ کو گواہ بن کر انجام
تک پہنچ جاتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ کہانی کہنے کا جو ہنر ذوقی کے پاس ہے،
وہ دور دور تک دیکھنے میں نہیں آتا— ذوقی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ
اپنے عہد اور تاریخی حقائق کو گواہ بناکر ٹھوس دلائل کے ساتھ کہانی بیان
کرتے ہیں۔ لے سانس بھی آہستہ کی کہانی دراصل آج کی کہانی ہے جہاں تہذیبوں
کا تصادم جاری ہے۔ جہاں امریکہ افغانستان اورعراق پر کوڑے برسارہا ہے۔ جہاں
نئی نسل ڈپریشن کی شکار ہے۔ تعریفیں بدل چکی ہیں۔ نفرت اورمحبت کے معنی
تبدیل ہوچکے ہیں۔ جائز اور ناجائز کافرق مٹ چکا ہے۔ ایک ترقی یافتہ نظام
میں انسانی سکون درہم برہم ہوچکا ہے۔ یہ نئی تہذیب کی دستک ہے۔ لیکن ذوقی
ناامید نہیں ہوتے۔ وہ یہاں بھی نورمحمد کے زندہ رہنے والے کردار کے ذریعہ
امید کی نئی شمع روشن کرلیتے ہیں۔
مجموعی طور پر لے سانس بھی آہستہ نے اردو ناول کو علمی اورفنی نقطہ نظر سے
اسی مقام پر پہنچادیا ہے جہاں پہلے سے تالستائے، دوستوفسکی اور وکڑھیوگو
جیسے عظیم لکھنے والوں کے بت تعمیر ہیں۔یہ عہد گابریئل کارسیا مارکینر
اورملان کندیرا کاعہد نہیں ہے۔ اس عہد کو ناول کے لیے زندگی اور مکالموں کی
زبان چاہئے۔ اس سسکتی ہوئی دنیا کو موت سے زیادہ زندگی کی کتاب کی ضرورت
ہے، جیسا ا شارہ ذوقی نے اپنے اس ناول میں دیا ہے۔ یہ ایک ناقابل فراموش
شاہکار ہے جس کا ہر عہد ہرموسم میں استقبال کیا جائے گا۔ |