اخوتِ اسلامی

تحریر: مولانا طلحہ السیف حفظہ اللہ تعالیٰ

اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لوازم میں سے یہ بات بھی ہے کہ ان کے بندے اور غلام آپس میں بھائی بھائی ہوں اور اس غلامی کے رشتے کی بنیاد پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوں.
ایک آقا کے غلام اگر آپس میں متحد نہ ہوں.
جڑے ہوئے نہ ہوں.
ان میں باہمی اُخوت و تناصر نہ ہو.
بلکہ
اختلاف و انتشار ہو. تو وہ کبھی بندگی کے تقاضوں پر پورا نہیں اتر سکتے.
خصوصاً جب آقا کی خاطر لڑنے کا مرحلہ در پیش آ جائے.
ہم سب اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور ہم پر اللہ تعالیٰ کی خاطر لڑنا اور لڑتے رہنا فرض کر دیا گیا ہے.
اور ہماری لڑائی بھی محدود نہیں. ہمیشہ جاری رہنے والی ہے.
اور کسی ایک آدھ قوم کے خلاف نہیں. ہمارے مالک کے نظام سے ٹکرانے والے ہر نظام کے خلاف.
اور بندگی سے اعراض کرنے والے ہر نافرمان کے ساتھ ہے.
تو ہمیں یہ حکم کیوں نہ ہو گا کہ ہم جڑ کر رہیں اور اختلاف نہ کریں.
اور ہاں. اتحاد اور اُخوت ہی تو وہ علامت ہے جس سے ظاہر ہو گا کہ ہم حقیقت میں ’’ بندے ‘‘ بن چکے ہیں یا نہیں.
’’ بندگی‘‘ نام ہے اپنی مرضی اور انا کے ختم کر دینے کا. اور اختلاف تو انہی دو چیزوں سے پیدا ہوتا ہے.
پس جو کٹ کر رہے گا اور مرضی کی زندگی چاہے گا وہ ’’بندہ‘‘ ہی کہاں بنا؟.
اسی لئے تو فرمایا گیا.
’’ اِنّما المُومِنُون اِخوۃ ‘‘ ﴿الحجرات﴾
’’ ایمان والے تو آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘
٭.٭.٭
قرآن مجید میں بڑی سخت تاکید وعیدوں کے ساتھ وارد ہوئی ہے.
ان لوگوں کے لئے جو ’’اسلام‘‘ کے اس حکم کو نہ سمجھیں.
اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے باہمی قلبی میلان و محبت کو ایک عظیم نعمت کے طور پر گنوایا.
اس کے فوائد ارشاد فرمائے.
فرمایا کہ یہ الفت اللہ تعالیٰ کے حکم سے پیدا ہوئی ہے ظاہری اسباب کا اس میں دخل نہیں.
اور اہل ایمان کو تاکید فرمائی کہ اس کی حفاظت کریں اور ایسا کوئی عمل اختیار نہ کریں جس سے اسلامی معاشرے کا یہ شعار عظیم خطرے میں پڑ جائے.
’’ واعتصِمُوا بِحبلِ اللّٰہ.الآیۃ‘‘﴿اٰل عمران﴾
’’ اور سب مل کر خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور یاد کرو اللہ کا احسان اپنے اوپر جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت پیدا کی پس اس کے فضل سے تم بھائی ہو گئے ‘‘
’’نعمت اللہ‘‘ کے الفاظ پر غور فرمائیے!.
باہمی الفت و محبت ، اخوت و مناصرت بہت بڑی نعمت ہے. دنیا کے اعتبار سے بھی اور آخرت کے اعتبار سے بھی.
دنیا میں نصیب ہو جائے تو معاشرہ ’’ جنت نظیر ‘‘ بن جاتا ہے.
نہ لڑائیاں نہ جھگڑے. نہ گالی نہ بہتان.
نہ قتل و غارت نہ چوری ڈکیتی.
نہ افلاس نہ فاقہ. نہ خود کشیاں نہ جرائم.
ان سب چیزوں کی بنیاد ہی نفس پرستی اور انا ہے.
اور جب ایسی قلبی الفت ہو کہ انسان سب مسلمانوں کے حقوق حقیقی بھائیوں جیسے سمجھے تو ان سب برائیوں کا وجود ہی کہاں رہے گا؟.
اور آخرت کے اعتبار سے کتنا بڑا فائدہ.
اللہ تعالیٰ کے بندوں سے محبت رکھنا اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والا عمل ہے.
اور جب ان کی رضا مل گئی تو اور کیا درکار.
اور ہاں. آخرت کو برباد کرنے والی کتنی روحانی بیماریوں سے نجات اس محبت و الفت میں ہے.
حسد، کینہ، بُغض، تکبر اور حقوق کی پامالی.
ان میں سے ہر آفت اوندھے منہ جہنم میں گرانے والی ہے.
اگلی ہی آیت میں دیکھیے.
’’اخوۃ‘‘کی نعمت جتلا کر ان لوگوں جیسا بننے سے منع فرمایا گیا جو اخوت سے محروم اور تفرقہ بازی اور اختلاف کے خوگر ہیں.
اور ساتھ وعید کہ ایسے لوگوں کے لئے ’’عذاب عظیم ‘‘ ہے.
سورۃ آل عمران کی آیت ۲۰۱ تا ۵۰۱ کا ترجمہ و تفسیر بغور مطالعہ کر لیں . ساری بات سمجھ میں آ جائے گی.
٭.٭.٭
’’اُخوت‘‘ قوت کا راز ہے اور جب کوئی معاشرہ اس سے خالی ہو جائے تو کمزور پڑ جاتا ہے.
ارشاد فرمایا.
’’ اور نزاع نہ کرو ورنہ کمزور پڑ جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی‘‘ ﴿الانفال﴾
مسلمان ایک ہوں اور ان کا معاشرہ اخوت کے شعار کو اپنائے ہوئے ہو.
ہر مسلمان دوسرے کی تکلیف کو اپنا سمجھتا ہو.
اور حدیث شریف کے مفہوم کے مطابق مسلمان ایک جسم کی مانند ہو چکے ہوں.
کہ ایک عضو دُکھنے سے دوسرا بے چین ہوتا ہو.
تو کفار کے دلوں پر رعب طاری ہو جاتا ہے.
مسلمانوں کی یہ صفت ان کی کمزوری کو طاقت میں بدل دیتی ہے.
اور ایسے مسلمان اگرچہ تعداد میں کم ہوں. ظاہری اسباب میں کمزور ہوں اور لاؤ لشکر میں قلیل. تب بھی کفار کی دسترس سے محفوظ رہتے ہیں.
کفار ایسے مسلمانوں کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے ہزاروں بار سوچتے ہیں اور ان پر ظلم کرنے کا حوصلہ اپنے اندر نہیں پاتے.
اس کے برعکس ’’ اخوۃ‘‘ سے محروم مسلمان جتنے بھی بڑھ جائیں . پامال و ذلیل رہتے ہیں.
مظلوم و مقہور ہوتے ہیں اور جس طرح کا معاملہ کفار چاہیں ان سے روا رکھتے ہیں.
مثال کی حاجت اسے ہو جو زمانۂ حال اور ماضی کے مسلمانوں کے احوال سے بے خبر ہو.
اس لئے قرآن مجید کی کثیر آیات میں اس صفت کے اپنانے کا حکم ہے.
اور اس کے ترک پر دنیا و آخرت کی وعیدیں.
اللہ تعالیٰ نے ’’ مالکم‘‘ کے جھنجھوڑنے والے الفاظ کے ساتھ مسلمان بھائیوں کی مدد کے لئے لڑنے کا حکم فرمایا.
’’ فعلیکم النصر ‘‘
کے سخت تاکیدی کلمات کے ساتھ فوری طور پر مظلوموں کی پکار پر لبیک کہنا لازم قرار دیا.
اور سورۃ انفال کے آخر میں اس حکم کے بعد اس کے ترک کا انجام بھی بتا دیا.
’’ الا تفعلوہ ‘‘﴿الآیۃ﴾
’’ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ ہو گا اور بڑا فساد برپا ہو گا ‘‘.
یعنی اگر مسلمان اخوۃ کے اس جذبے کے تحت دوسرے مسلمان بھائیوں کی نصرت کو بروقت نہ پہنچے تو زمین فتنے اور فساد سے بھر جائے گی.
مسلمانوں کی غلامی اور پامالی اور کافروں کے طاقتور ہو جانے سے بڑا فتنہ اور کیا ہوتا ہے؟
یہ چیز مسلمانوں کے ایمان کے لئے خطرہ بن جاتی ہے اور کافروں کے لئے ایمان لانے سے رکاوٹ.
مسلمان مظالم سے تنگ آ کر کفر کی طرف جھکنے لگتے ہیں اور کافر اپنی فتح دیکھ کر اپنے کفر پر پختہ ہو جاتے ہیں۔ یہ فتنہ ہے.
اور کفر کی حکومت ’’ فساد کبیر‘‘ ہے.
اور یہ سارے وبال پیدا کس چیز سے ہوئے؟. سبب کیا ہے؟.
اخوۃِ اسلامی سے محرومی.
٭.٭.٭
ہاں ایک اور بات اچھی طرح ذہن نشین کئے جانے کے قابل ہے.
وہ یہ کہ ’’اخوۃ ‘‘ کی بنیاد اسلام ہے نہ کہ کچھ اور.
اللہ تعالیٰ کی بندگی اور رسول اللہ کی امت سے ہونا ہے لا غیر.
’’ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ کا مضبوط رشتہ اور اللہ تعالیٰ کے دین کی رسی.
اگر بنیاد ان کے علاوہ کچھ اور ہو تو فائدہ نہیں نقصان ہی ہوتا ہے.
اسلام نے اپنے ماننے والوں کو تاکید کے ساتھ یہی سبق دیا کہ مسلمان کے لئے سب سے بڑی عزت و افتخار مسلمان ہونا ہے نہ کہ کچھ اور .
اس لئے جو لوگ اپنے لئے قوم و قبیلے کی بنیاد کو . زبان کی بنیاد کو. علاقے کی بنیاد کو مایۂ افتخار بناتے ہیں وہ اسلام کی بنیاد کو گراتے ہیں.
امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بات بالکل واضح فرما دی اور دو ٹوک الفاظ میں فرما دی.
’’ ہم پامال لوگ تھے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کے ذریعے عزت دے دی. اب اگر ہم اس کے علاوہ کسی اور بنیاد پر عزت چاہیں گے اللہ تعالیٰ ہمیں رسوا کر دے گا‘‘.
جی ہاں! بالکل حتمی بات ہے.
نبی کریم کے زمانے میں اسلام لانے والے لوگ قبیلوں ، علاقوں اور زبانوں کی بنیاد پر لڑنے والے اور اسی بنیاد پر ’’ اخوۃ‘‘ رکھنے والے تھے.
پھر اسلام کے آنے پر جنہوں نے باقی تمام بنیادیںگرا کر محض ’’ کلمہ‘‘ کے تعلق کو بنیاد بنا کر ’’اخوۃ ‘‘ قائم کی انہوں نے کیسی عزت پائی . قرآن پاک کی سینکڑوں آیات ان کی ’’عزت ‘‘ کا قصہ بیان کرتی ہیں.
اور آج سینکڑوں سال گزر جانے کے باوجود ان کی عزت اسی طرح ہے.
اور کچھ لوگ اس وقت بھی ان جھوٹی بنیادوں سے جڑے رہے.
اسی بنیاد پر نفرتیں پالیںا ور بُغض رکھا.
کسی نے مقامی اور مہاجر کی تفریق کی. کسی نے قریشی اور غیر قریشی کی.
اللہ تعالیٰ نے کیسا رسوا کیا کہ آج سینکڑوں سال گزر گئے۔ قرآن کا ہر قاری ان پر لعنت بھیجتا ہے.
اُس زمانے سے لے کر آج تک ان نعروں پر لوگوں کو تقسیم کرنے والے سوائے جھوٹے وعدوں اور لاشوں کے امت کو کچھ نہیں دے سکے.
جبکہ ان قیدوں سے آزاد مسلمان جب بھی اسلامی اخوۃ کا پرچم تھام کر ایک ہو کر نکلے انہوں نے زمانے کو خیریں ہی خیریں دیں.
ذرا سوچئے!
ہم میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے جو اپنی مرضی سے کسی قوم ، علاقے یا زبان کی شناخت لایا ہو؟.
ہر گز نہیں.
اللہ تعالیٰ نے ہمیں جس قوم کی نسبت چاہی عطائ فرما دی محض تعارف کے لئے.
تو پھر فخر کیسا؟ یہ ہمارا کسب ہوتا توپھر بھی بات تھی مگر ہم تو بے اختیار ان نسبتوں کے حامل ہوئے.
اور پھر اسلام جیسی نعمت اور سچی نسبت پر ان جھوٹی نسبتوں کو ترجیح. استغفر اللہ استغفر اللہ.
آپ کو پتا ہے کہ انسان کتنا گر جاتا ہے اپنے خالق و مالک کی نظر میں؟؟.
گوبر میں رہنے والے گندے کیڑے سے بھی کم تر.
یقین نہ آئے تو ترمذی شریف کی آخری روایت پڑھ لیجیے:
’’ باز آ جائیں اپنے مردہ آبائ کے نام پر فخر کرنے والے ورنہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں گوبر کے اس کیڑے سے بھی زیادہ حقیر ہو جائیں گے جو اپنی ناک پر گندگی اٹھائے پھرتا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کی ضد اور آبائ پر تفاخر کو دور کر دیا ہے۔ لوگ صرف ایمان دار متقی یا بد بخت نافرمان ہیں۔انسان تمام آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا کیے گئے‘‘.
٭.٭.٭
 
usama hammad
About the Author: usama hammad Read More Articles by usama hammad: 22 Articles with 49544 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.