بھائیو السلام علیکم ،
میرے بھائی نے ایک مضمون لکھا ہے جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حوالے
سے بیان کیا گیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم قبروں پر جا کر استمداد غیر
الله کیا کرتے تھے اس بات کی دلیل کے طور ٣ روایات نقل کی ہیں اور دیگر
علما کے حوالے سے بھی نقل کیا ہے کہ وہ اس کے قائل ہیں تو دیگر علما اگر
قرآن اور سنت کے مطابق بات بیان کریں گے تو سر آنکھوں پر وگرنہ ان کی کہی
کوئی بات میرے لئے حکم کا درجہ نہیں رکھتی کیونکہ قرآن میں الله نے حکم دیا
ہے " الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور تم میں جو حکم والے ہوں اگر کسی
بات میں اختلاف پاؤ تو اس کو الله اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم
الله اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہو (سوره النسا ٥٩ ) تو اگر ان کی کسی
بھی بات کو اگر قرآن اور فرمان رسول علیھ السلام کے خلاف پایا جائے تو اس
کو ماننا ہمارے اوپر فرض نہیں ہے صحابہ کرام رضی الله عنہم کے بارے میں جو
٣ روایات نقل کی ہیں تو میرا ایمان ہے کہ صحابہ کرام رضی الله عنھم قبر
پرست نہ تھے اور یہ ٣ روایات ان سے ثابت ہی نہیں ہیں کہ یہ عمل انھوں نے
کیا ہے اور اس کے دلائل درج ذیل ہیں .
روایات کی تحقیق
(١) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ
مَالِكِ الدَّارِ , قَالَ : وَكَانَ خَازِنَ عُمَرَ عَلَى الطَّعَامِ ,
قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ , فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى
قَبْرِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم , فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ ,
اسْتَسْقِ لأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا , فَأَتَى الرَّجُلَ فِي
الْمَنَامِ فَقِيلَ لَهُ : ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْهُ السَّلامَ ,
وَأَخْبِرْهُ أَنَّكُمْ مُسْتَقِيمُونَ وَقُلْ لَهُ : عَلَيْك الْكَيْسُ ,
عَلَيْك الْكَيْسُ , فَأَتَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ فَبَكَى عُمَرُ , ثُمَّ
قَالَ : يَا رَبِّ لاَ آلُو إلاَّ مَا عَجَزْت عَنْهُ. (مصنف ابن ابی شیبہ
رقم ٣٢٦٦٥)
عمر رضی الله عنھ کے زمانے میں لوگ قحط میں مبتلا ہوے پھر ایک شخص نبی علیھ
السلام کی قبر پر آیا اور عرض کیا یا رسول الله علیھ السلام اپ اپنی امت کے
لئے سیرابی مانگیں وہ ہلاک ہو رہی ہے پھر نبی علیھ السلام اس کے خواب میں
آئے اور فرمایا عمر کو میرا سلام کہو اور اس کو بتاؤ کہ تم سیراب کیے جاؤ
گے اور عمر سے کہو عقلمندی اختیار کرو عقلمندی اختیار کرو پھر وہ آدمی عمر
رضی الله عنھ کے پاس آیا اور خبر دی تو عمر رضی الله عنھ رو پڑے اور فرمایا
اے الله میں کوتاہی نہیں کرتا مگر عاجز ہو جاؤں.
تحقیق : اس روایت کی سند میں دو راویوں پر شدید کلام ہے جو ہم بیان کریں گے
مگر پہلے میں اپنے بھائی سے پوچھنا چاہتا ہوں کیا یہ صحابہ کرام رضی الله
عنہم کا عمل ہے جو شخص قبر پر گیا کیا وہ صحابی تھے میں نے آپ سے صحابہ کا
عمل مانگا تھا اپ ایک گمنام آدمی کی روایت پیش کر رہے ہو جس روایت سے یہ
ثابت ہوتا ہے کہ یہ صحابی رسول علیھ السلام ہیں اس کو محدثین نے قبول ہی
نہیں کیا ہے وہ روایت الفتوح الکبیر میں سیف بن عمر التمیمی سے نقل ہوئی ہے
اور اس کے بارے میں محدثین کیا فرماتے ہیں نوٹ کریں .
قال بن معين ضعيف الحديث وقال مرة فليس خير منه وقال أبو حاتم متروك الحديث
يشبه حديثه حديث الواقدي وقال أبو داود ليس بشيء وقال النسائي والدارقطني
ضعيف وقال بن عدي بعض أحاديثه مشهورة وعامتها منكرة لم يتابع عليها وقال بن
حبان يروي الموضوعات عن الاثبات قال وقالوا أنه كان يضع الحديث قلت بقية
كلام بن حبان اتهم بالزندقة وقال البرقاني عن الدارقطني متروك الحديث(تہذیب
التہذیب ترجمہ ٥١٧)
ابن معین کہتے ہیں ضعیف الحدیث ہے اور اس سے کوئی خیر نہیں ملی (یعنی مستند
حدیث ) ابو حاتم : متروک الحدیث ہے (اس سے حدیث لینی بند کردی گئی )
ابوداود : اس کی کوئی حثیت نہیں ہے . امام نسائی اور دارقطنی فرماتے ہیں
ضعیف ہے ،اس کی بعض احادیث مشہور ہیں مگر سب منکر ہیں ابن حبان : وہ ثقہ
راویوں سے من گھڑت روایت کرتا تھا اور (محدثین )کہتے ہیں وہ حدیث گھڑتا ہے
. اور میں (ابن حجر ) فرماتے ہیں اور ابن حبان اس کے بارے میں کہتے ہے کے
اس پر زندیق ہونے کا الزام تھا اور امام دارقطنی کہتے ہے متروک الحدیث ہے .
اور ابن حجر فرماتے ہیں :سيف بن عمر التميمي صاحب كتا ب الردة ويقال له
الضبي ويقال غير ذلك الكوفي ضعيف الحديث( تقریب التہذیب ترجمہ ٥١٧ )
تو ایسے آدمی کی بات کا اعتبار کس طرح کیا جا سکتا ہے جو اس قدر جھوٹ اور
کذب کا حامل ہو یہاں تک کے اس پر زندیق کا بھی حکم موجود ہے تو یہ روایت جس
سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ صحابی تھے اس کا یہ حال ہے تو اب میں پھر کہتا
ہوں میرے صحابہ سے ایک صحیح حدیث بھی نہیں پیش کر سکتے
اب اس روایت کی سند کی جانب چلتے ہیں اس میں دو راویوں پر کلام ہے جیسا میں
نے اس سے قبل عرض کیا تھا .(١) الأَعْمَشِ (٢) مالک دار
اس روایت میں الاعمش ہے جس کا نام سلیمان بن مہران ہے اور اس کی تدلیس کی
وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے اب میرے بعض بھائیوں کو تدلیس کے بارے میں معلوم
نہیں ہو گا کہ یہ کیا چیز ہوتی ہے تو ہمارے سامنے دو زانو تلمذ کریں پھر
اصول حدیث کی بات کریں گے تو الاعمش کی تدلیس (یعنی اس نے اس روایت میں
صیغہ عن سے روایت کی ہے )کی وجہ سے ضعیف ہے جب بھی کوئی مدلس راوی اپنی
بیان کی ہوئی روایت میں تدلیس (یعنی عن سے روایت بیان کرتا ہے ) تو وہ
روایت ضعیف ہوتی ہے. الاعمش کے مدلس ہونے کے اقوال یہ ہیں .
(١) سليمان بن مهران الأعمش محدث الكوفة وقارؤها وكان يدلس وصفه بذلك
الكرابيسي والنسائي والدارقطني وغيرهم (طبقات المدلسین طبقہ ثانیا) سلیمان
بن مهران الاعمش تدلیس کرتا تھا اور اس کے بارے میں کرآبسی نسائی اور
دارقطنی وغیرہ نے بیان کیا ہے .
سليمان بن مهران الأعمش الإمام مشهور بالتدليس مكثر منه ذكر الترمذي ( جامع
التحصیل فی احکام مراسیل ترجمہ ٢٥٨ )الأعمش تدلیس کرنے میں مشہور ہے اور یہ
بات امام ترمزی نے نقل کی ہے .
تو اس مدلس راوی کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے . اور اس کی دلیل یہ ہے
الأعمش مدلس والمدلس اذا قال "عن " لا یحتج بہ الا اذا سماعہ جھتہ آخری
(مقدمہ مسلم جلد ١ تحت باب النہی بکل ما سمع )
الأعمش مدلس ہے اور مدلس راوی جب اپنی روایت میں "عن " سے روایت کرتا ہے تو
وہ حججت نہیں ہے جب تک وہ دوسری سند سے نہ ثابت ہو جائے .
تو اب جو ابن کثیر نے اس روایت کی سند کو صحیح کہا ہے تو اس کا جواب یہ ہے
کہ ابن کثیر نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے حدیث کو نہیں اپ البدایه و
النہایہ ابن کثیر کا قول چیک کر سکتے ہیں وہ کہتے ہیں " هذا حدیث صحیح
اسناد " جب محدثین کسی حدیث کو صحیح کہتے ہے تو اس سے مراد اس میں وہ پانچ
شرائط جمع ہیں جو کسی حدیث کو صحیح کرتی ہے اور وہ شرائط یہ ہیں (١) راوی
کا عادل اور ثقہ ہونا (٢) راوی کا ضبط ہونا (یعنی حدیث بیان کرنے میں مضبوط
ہو )(٣) سند کا متصل ہونا (٤) روایت میں کوئی علت خفی نہ ہو (٥) روایت میں
شذوذ نہ ہو (یعنی کم ثقہ راوی نے زیادہ ثقہ کی مخالفت نہ کی ہو ) (مقدمہ
ابن صلاح ٢٠ ) اور جب محدثین کسی روایت کی سند کو صحیح کہتے ہیں تو اس سے
مراد ان میں سے شروع کی تین شرائط ہوتی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے " قولهم:
(هذا حديث صحيح الإسناد، أو حسن الإسناد) دون قولهم: (هذا حديث
صحيح أو حديث حسن) لأنه قد يقال: هذا حديث صحيح الإسناد، ولا يصح،
لكونه شاذاً أو معللاً.( مقدمہ ابن صلاح ص ١٧) جب (محدثین) کسی حدیث کے
بارے میں یہ کہتے ہے کہ اس کی سند صحيح ہے یا حسن ہے بجاتے اس کے وہ کہتے
کہ یہ حدیث صحيح ہے یا حسن ہے تو اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ اس کی سند صحيح
ہے مگر یہ حدیث صحيح نہیں اس میں علت خفی ہے یا یہ شاذ ہے . اور اسی طرح
ابن حجر نے بھی بیان کیا ہے .
لأنه لا يلزم من كون رجاله ثقات أن يكون صحيحا لأن الأعمش مدلس(تلخیص
الحبیر جلد ٣ رقم ١١٨١) ابن حجر فرماتے ہیں " یہ لازم نہیں کہ راوی ثقات
ہوں تو حدیث صحيح ہوگی ، ابن ہجر نے بھی یہی کہا ہے صرف راوی صحيح ہونے سے
حدیث صحيح نہیں ہوتی اس میں تین شرائط پوری ہوتی ہیں اور اس میں علت خفی
یہی ہے کہ اس میں الاعمش کی تدلیس ہے اسی لئے ابن کثیر نے اس کی سند کو
صحيح کہا ہے اس حدیث کو نہیں تو ابن کثیر کے مطابق بھی اس روایت کی سند
صحيح ہے نہ کہ یہ حدیث صحيح ہے .
(٢) مالک دار : یہ روایت مالک دار کی وجہ سے بھی ضعیف ہے کیوں کہ اس میں
مالک دار مجہول ہے اور اس سے صرف ابو صالح سمان نے روایت کی ہے اس وجہ سے
بھی یہ روایت ضعیف ہے . اور مجھول کے تعریف درج ذیل ہے .
إن روى عنه اثنان فصاعداً ولم يوثق فهو مجهول الحال وهو المستور.(فتح
المغیث جلد ١ ص ١٥٣)
جس راوی سے دو یہ اس سے زیادہ بھی روایت کریں مگر اس کی توثیق کسی نے نہ کی
ہو تو وہ مجہول الحال کہلاتا ہے اور اس کو مستور بھی کہتے ہیں .
مجہول کی روایت قبل قبول نہیں ہے ." المجهول العدالة من حيث الظاهر والباطن
جميعاً. وروايته غير مقبولة عند الجماهير، على ما نبهنا عليه أولاً.(
مقدمہ ابن صلاح ص ٤٧ باب المجھول ) مجہول کی روایت جمہور کے نزدیک قبل قبول
نہیں ہے .
تو مالک دار کی کسی نے توثیق نہیں کی ہے اس لئے یہ راوی مجہول ہے اور اس کی
روایت قبل قبول نہیں ہے .
میرے بھائی نے کہا کے اگر تسلی نہیں ہوئی تو ہم عثمان رضی الله عنھ کے دور
خلافت میں چلتے ہیں تو میرے بھائی ضعیف اور من گھڑت روایت سے اس ہی کو تسلی
ہو سکتی ہے جو صحابہ کرام رضی الله عنہم کو جان بوجھ کر اپنی ضعیف روایت سے
قبر پرست ثابت کرنا چاہتا ہو کم سے کم میں تو یہ بار اپنے سر نہیں لے سکتا
اگر اپ اس بار سے خوش ہیں تو مبارک .
اپ نے جو دوسری روایت نقل کی ہے وہ بھی ضعیف ہے اور اس کا ضعیف ہونا میں
ثابت کروں گا وتوفیق با للہ
(٢) حدثنا طاهر بن عيسى بن قيرس المصري التميمي حدثنا أصبغ بن الفرج حدثنا
عبد الله بن وهب عن شبيب بن سعيد المكي عن روح بن القاسم عن أبي جعفر
الخطمي المدني عن أبي أمامة بن سهل بن حنيف عن عمه عثمان بن حنيف أن رجلا
كان يختلف إلى عثمان بن عفان رضي الله عنه في حاجة له فكان عثمان لا يلتفت
إليه ولا ينظر في حاجته فلقي عثمان بن حنيف فشكا ذلك إليه فقال له عثمان بن
حنيف ائت الميضأة فتوضأ ثم ائت المسجد فصلي فيه ركعتين (طبرانی الصغیر جلد
١ رقم ٥٠٨ )
عثمان بن حنيف فرماتے ہیں ایک شخص عثمان رضی الله عنھ کے اپنی حاجت کے لئے
آتا تھا تووہ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے پھر وہ شخص عثمان بن حنیف رضی
الله عنھ سے ملا اور ان سے شکایت کی تو انھوں نے کہا اچھی طرح وضو کر اور
مسجد جاکر دو رکعت پڑھ ................آخر تک
یہ روایت بھی ضعیف ہے اور اس میں شبیب بن سعید سے عبدللہ بن وھب نے روایت
کی ہے اور شبیب کی ابن وھب سے بیان کردہ روایت ضعیف ہوتی ہے اور اس کے بارے
میں محدثین کے اقوال درج ذیل ہیں.
3658 - شبيب بن سعيد: صدوق يغرب . ذكره ابن عدى في كامله ، فقال : نسخة عن
يونس بن يزيد مستقيمة . حدث عنه ابن وهب بمناكير .(میزان اعتدال جلد٢ ترجمہ
٣٦٥٨)
سچا تھا مگر غریب روایت بیان کرتا تھا ابن عدی فرماتے ہیں اس کے پاسس یونس
بن یزید کا صحیح نسخہ ہے اور ابن وھب نے اس سے منکر روایت نقل کی ہیں.
شبيب بن سعيد التميمي الحبطي البصري أبو سعيد لا بأس بحديثه من رواية ابنه
أحمد عنه لا من رواية ابن وهب (تقریب التہذیب جلد ١ ترجمہ ٢٨١٤ )
شبیب بن سعيد کا بیٹا جب اس سے روایت کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور
ابن وھب سے اس کی روایت کی حثیت نہیں ہے .
تو آپ کی بیان کردہ یہ روایت بھی ضعیف ہے اور اب آپ کی بیان کردہ آخری
روایت کی جانب چلتے ہیں۔
(٣) کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اعرابی
نے آکر کہا: السلام علیک یا رسول اللہ، میں نے اللہ عزوجل کا یہ ارشاد سنا
ہے: ولو انھم اذظلمو اانفسھم جاء و ک۔ الآیہ۔ اور میں آپ کے پاس آگیا ہوں
اور اپنے گناہ پر
اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور اپنے رب کی بارگاہ میں آپ سے شفاعت طلب کرنے
والا ہوں، پھر اس نے دو اشعار پڑھے:
اے وہ جو زمین کے مدفونین میں سب سے بہتر ہیں.....................
جن کی خوشبو سے زمین اور ٹیلے خوشبودار ہوگئے
میری جان اس قبر پر فدا ہو جس میں آپ ساکن ہیں
اسی میں عفو ہے اس میں سخاوت ہے اور لطف وکرم ہے
پھر وہ اعرابی چلا گیا، عتبی بیان کرتے ہیں کہ مجھ پر نیند غالب آگئی، میں
نے خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اور آپ نے فرمایا: اے
عتبی! اس اعرابی کے پاس جاکر اس کو خوشخبری دو کہ اللہ نے اس کی مغفرت کردی
ہے۔
اب اپ کی یہ تیسری اور آخری روایت باقی دونوں روایات کی سند ضعیف تھی اس کی
روایت پر بحث کرنے سے قبل اپ کو یاد دلادوں کہ یہ قصہ اعرابی کا ہے وہ بھی
تقریبا ٢٠٠ ہجری کا ہے کیونکہ ابو حرب ٢٢٥ میں فوت ہوا ہے تو ٢٠٠ ہجری میں
کون سے صحابی حیات تھے یہ بتاؤ ؟ میں نے کہا ہے کہ میرے ایک صحابی سے بھی
نہیں ثابت کر سکتے کے انھوں نے قبر پر جا کر استمداد غیر الله کی ہے اور اپ
ایک ٢٠٠ ہجری کے اعرابی کا عمل میرے صحابہ کرام رضی الله عنھم پر لگا
رہےہو.
اور اب اس کی سند مگر اس روایت کی سند پر میں بات نہیں کر سکتا کیونکہ اس
کی سند ہی نہیں ہے ابن کثیر نے بلا سند اس کو نقل کیا ہے اور امام بیہقی نے
ابو حرب ھلالی کی سے جس سند سے نقل کیا ہے ان میں سے اکثر مجہول ہیں یا ان
کا کتب رجال میں ذکر ہی نہیں ہے چنانچہ امام جوہری فرماتے ہیں " ھذہ
الحکایت التی ذکرھا بعضھم یرویھا عن التبی بلا اسناد و بعضھم یرویھا عن
محمد بن حرب عن ابی الحسن الزعفرانی عن اعرابی و قد ذکر ھا البیہقی فی کتاب
شعب الایمان باسناد مظلم عن روح بن یزید البصری حدثنی ابو حرب الھلالی حج
اعرابی ثم ذکر نحو ھا ما تقدم و قد وضع بعض الکذبین اسناد الی علی رضی الله
عنھ " (الصارم المنکی ص ٢٤٥ )
اس حکایت جس کابعض نے بغیر اسناد کے ذکر کیا ہے اور بعض نے ابو حرب سے ابی
حسن سے اور اس نے اعرابی سے ذکر کیا ہے اور بہقی نے شعب الایمان میں تاریک
سند سے روح بن یزید نے ابو حرب اور اس نے کہ ایک اعرابی حج کرنے آیا آخر تک
. اور بعض گھڑنے والوں نے (اس سے ملتی جلتی روایت ) علی رضی الله عنھ سے
منسوب کی ہے .
تو یہ حکایت من گھڑت ہے اور خصوصا یہ صحابہ کرام رضی الله عنھ کا عمل نہیں
ہے اگر یہ کوئی شرعی حکم ہوتا کہ اپنی خطا کی معافی مانگنے نبی (علیھ
السلام ) کے وصال کے بعد ان کی قبر پر جا کر استغفار کرو تو سب سے پہلے
صحابہ کرام رضی الله عنھم اس پر عمل کر کرتے چنانچہ امام عبدالہادی فرماتے
ہیں " و ھی حکایتہ لا یثبت بھا حکم شرعی لا سیما فی مثل هذا الامر الذی لو
کان مشروعا او مندوبا لکان الصحابہ و التابعو ن اعلم بہ اعمل بہ من غیرھم و
توفیق با للہ " (الصارم المنکی ص ٣٢٤ باب الخامس فی تقری کون الزیاره قربه
)
اس حکایت سے کسی قسم کا کوئی شرعی حکم ثابت نہیں ہوتا ہے اور خاص طور اس
بارے میں (یعنی قبر پر جا کر استغفار کی درخواست کرنا ) اگر یہ کوئی شرعی
عمل ہوتا تو صحابہ اور تابعین اس کو لوگوں سے زیادہ جاننے والے اور عمل
کرنے والے ہوتے .
اور میں دعوے سے کہتا ہوں کے صحابہ اور تابعین سے ایسا کوئی عمل صحیح حدیث
سے ثابت ہی نہیں ہے آؤ میں بتاتا ہوں صحابہ کرام رضی الله عنھم سے کیا ثابت
ہے .
صحابہ کرام کا ثابت شدہ عمل
صحابہ کرام رضی الله عنھم پر جب عمر رضی الله عنھ کے دور میں جب قحط سالی
ائی تو انہوں نے نبی صلی الله علیھ وسلم کی قبر پر جانے کے بجاۓ عباس رضی
الله عنھ کے پاس استسقا کی دعا کی درخواست لے کر گئے دلیل حاضر ہے .
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ
إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ
اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا
وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا قَالَ
فَيُسْقَوْنَ(بخاری کتاب الاستسقا رقم ١٠١٠ )
انس رضی الله عنھ فرماتے ہیں جب کبھی عمر رضی الله عنھ کے دور میں قحط ہوتا
تو وہ دعا کے لئے عباس رضی اللھ عنھ کے پاس اور فرماتے اے الله بے شک ہم
تیری طرف اپنے نبی صلی الله علیھ وسلم کو وسیلہ بناتے تھے اور تو بارش دیتا
تھا اب ہم تیری طرف اپنے نبی صلی الله علیھ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہے
تو بارش دے تو خوب بارش ہوتی .
یہ میرے صحابہ کرام رضی الله عنھم کا عمل ہے کیا نبی صلی الله علیھ وسلم کی
حیات مبارکہ میں کبھی صحابہ کرام رضی الله عنھم عباس رضی الله عنھ سے دعا
کی درخواست کرنے گئے ؟ تو پھر عمر رضی الله عنھم کے دور میں کیوں گئے جبکہ
اپ کے بقول نبی صلی الله علیھ وسلم اپنی قبر میں حیات ہیں تو پھر نبی صلی
الله علیھ وسلم کے حیات ہوتے ہوے کیوں صحابہ کرام رضی الله عنھم عباس رضی
الله عنھ کے پاس گئے اس کا جواب اپ دے سکتے ہیں ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ
نبی صلی الله علیھ وسلم کے موجودگی میں صحابہ کرام رضی الله عنھم کسی اور
سے دعا کروائیں کیا صحابہ کرام کو معلوم نہیں تھا کہ نبی صلی الله علیھ
وسلم اپنی قبر میں حیات ہیں ؟
ان سب کا ایک ہی جواب ہے کہ صحابہ کرام رضی الله عنھم اچھی طرح جانتے تھے
کہ نبی صلی الله علیھ وسلم کے وصال کے بعد اب ان کی قبر پر جا کر مانگنا
جائز نہیں ہے اس لئے وہ عباس رضی الله عنھ کے پاس دعا کی درخواست لے کر گئے
اس کے سوا اس کی اور کوئی وجہ ہو ہی نہیں سکتی اگر ہے تو مجھے ضرور بتایا
جائے میں انتظار کروں گا اور آخر میں میرے بھائی نے جو یَدْعُوْنَ مِنْ
دُوْنِ اللہ کی تفسیر بیان کی ہے اس کا بھی جواب میں کل تک اپنے مضمون
"جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے ٢ " میں دوں گا و توفیق با للہ .
ہے نہیں قبر پرستی ان ہستیوں کا کام
رہتے ہیں جوسایہ مصطفیٰ میں صبح شام |