اسلام آباد سفارتخانے سے پشاور
آئی ہوئی سفارت کار”ونسنٹ کیپوڈکی“ (Vincent Capodicei) پاسپورٹ نمبر
910153561، ایڈمن ٹیکنیکل اسٹاف” ٹموتھی ڈینیل“ (Timothy Danial) پاسپورٹ
نمبر 910159397، نائب قونصل جنرل پشاور ”سٹیسی لیون کارٹر“ (Stacy Leon
Carter) پاسپورٹ نمبر 910179341، دو گاڑیوں پر ڈرائیور ”احسان خان “ اور
”آصف خان “ کے ساتھ سیکورٹی انچارج ”منظور علی “ کے ہمراہ پشاور سے مالاکنڈ
کی جانب نکلیں جہاں مالاکنڈ یونیورسٹی کے وائس چانسلرڈاکٹر رسول جان کے
ساتھ ایک تفصیلی ملاقات کی ، اس کے علاوہ سیکورٹی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ
امریکی سفارتی مشن کے اس وفد نے مزید لوگوں سے بھی ملاقاتیں کیں ہیں اور ان
ملاقاتوں کو حتی الامکان خفیہ رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
امریکی سفارت کاروں کا یہ کوئی پہلا اور انوکھا مشکوک دورہ نہیں بلکہ اس سے
قبل بھی کہیں غیر مطلع اور مشکوک دورے کیے گئے ، تاہم اس ضمن میں یہ بات
بھی غور طلب ہے کہ خصوصا ً ان خفیہ اور مشکوک دوروں کا حدف صوبہ خیبر
پختونخواہ ہی کو رکھا گیا ۔ کچھ عرصہ قبل بھی امریکی نے سفیر پشاور
یونیورسٹی جانے کا ایک اعلامیہ جاری کیا تھا لیکن امریکی سفیر کی پشاور
یونیورسٹی آمد سے ایک ماہ قبل اسلامی جمعیت طلبہ ، دیگر اساتذہ وطلبہ
تنظیموں کے شدید احتجاج ریکارڈ کروانے پر امریکی سفیر نے اپنا دورہ منسوخ
کردیا اور بعد ازاں یونیورسٹی انتظامیہ نے ایک بیان جاری کر کے عوام کو
گمراہ کرنے کی کوشش اس انداز میں کی کہ اسلامی جمعیت طلبہ اور دیگر تنظیموں
کے رد عمل کی وجہ سے یونیورسٹی خاطر خواہ گرانٹ اور امریکی تعاون وامداد سے
محروم ہوگئی ہے ۔لیکن امریکی حکام کے دورہ کا بھید گزشتہ دنوں اس وقت کھل
کر سامنے آیا جب پشاور یونیورسٹی کے انگلش ڈپارٹمنٹ نے ایم فل ، پی ایچ ڈی
اور پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کے آئندہ سیشن یعنی 2012ءاور 2013ءکے لیے30 جنوری
2012ءکو اکیڈمک کونسل کی جانب سے منظور کی گئی کتابوں کی لسٹ جاری کردی اور
16 مارچ کو اس تبدیلی کے حوالے سے اکیڈمک کونسل کی چیئر مین کی زیر صدارت
ایک اجلاس بھی طلب کیاگیا ۔ جن مصنفین کی کتابوں کو شامل نصاب کیا گیا ہے
ان کے نام درج ذیل ہیں۔
شاتم رسول ملعون سلمان رشدی ،بابری مسجد کے انہدام پر نعوذباﷲ A Creative
Passion (ایک تخلیقی جذبہ)کے عنوان سے مضمون لکھنے والا ” نائی پاؤل“ جس کا
تعلق بھارتی انتہاءپسند ہندو جماعت وشوا ہندو پریشد اور جنتا پارٹی سے بھی
رہا ہے ، بھارتی نژاد امریکن رائٹرکرن ڈسائی ، بھارتی مصنف روہنٹن اور
انہیں جیسے دیگر فتنہ پرور اشخاص کی 8متنازعہ کتابوںکو پشاور یونیورسٹی کے
انگلش ڈیپارٹمنٹ نے ایم فل ، پی ایچ ڈی اور پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کے لیے
آئندہ سیکشن یعنی 2012ءاور 2013 ءکے لیے 30جنوری 2012ءکو اکیڈمک کونسل کی
جانب سے شامل نصاب کرنے کی منظوری دے دی ہے ۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کے تعلیمی نصاب میں رد وبدل کا یہ کوئی پہلا اور
انوکھا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل بھی یہ آزمائشی تدابیر اختیار کی جاتی
رہی ہیں۔پشاور یونیورسٹی کی نصابی تبدیلی سے پہلے نویں اور دسویں جماعت کی
اسلامیات ، مطالعہ پاکستان ، اردو اور دیگر کتب سے تحریک پاکستان ، تحریک
خلافت ، جہاد اور قائد اعظم کے حوالے سے مضامین کو نکالنے کی بھر پور کو شش
کی گئی تھی ، لیکن عوامی رد عمل کے سامنے نہ صرف حکمران اپنے دعوؤں سے مکر
گئے بلکہ صوبہ خبیر پختونخواہ جیسے ایک غیرب صوبے کو 42کروڑ روپے سے زائد
کا نقصان دے بیٹھے ، کیونکہ پبلش کی گئی نصابی کتب کو نذر آتش کرنا
پڑا۔میٹرک کے نصاب میں یہ ردو بدل 27 ارب روپے کی برطانوی گرانٹ کے عوض
صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکو مت نے کیا۔
آمدم برسر مقصد ۔ دن بھر ملاقاتیں کرنے کے بعد پشاور آتے ہوئے تینوں امریکی
خاتون سفارت کاروں کی گاڑیاں نہ صرف مقررہ حد رفتار سے تیز تھیں ، بلکہ کئی
مقامات پر ان گاڑیوں کے سبب موٹروے پولیس پر غیر معمولی خوف و ہراس بھی
پایاگیا ، جس پر موٹر وے پولیس نے انہیں ایک سے زائد بارروکنے کی کوشش بھی
کی ، مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے ۔ اس پر موٹروے پولیس نے پشاور ٹول
پلازہ پر نوٹ کروایا کہ دو گاڑیاں جن کے نمبر QJ-679 اور ST-476 ہیں ،
مشکوک دکھائی دیتی ہیں اس لیے انہیں روکا جائے ۔ موٹر وے پولیس کے باخبر
کرنے پر ان دونوں گاڑیوں کو پشاور ٹول پلازہ پر روک لیا گیا، لیکن سفارت
کاروں نے ابتدائی طور پر تلاشی دینے سے انکار کردیاتھا ، جس پر موٹر وے
پولیس نے معاملے کی نزاکت کے پیش نظر موقع پر موجود پولیس، اسپیشل برانچ
اور دیگر انٹیلی جنس اہلکاروں کو مدد کے لیے بلایا، اور سفارت کاروں کی
گاڑیوں کو تھانے لے جانے کی دھمکی دی تو انہوں نے اسلام آباد اور پشاور میں
اپنے ذمہ داران سے بات کر کے پولیس کو گاڑیوں کی تلاشی لینے کی اجازت دے دی
۔ دوران ِ تلاشی دونوں گاڑیوں سے 4 سیمی مشین گنز(ایس ایم جی )کے ساتھ ان
کے 36میگزین ۔4نائن ایم ایم پستول ، ان کے 29میگزین ۔اور بڑی تعداد میں
مختلف بورزکے میگزین برآمد ہوئے اور یہ اسلحہ ان کے پاس موجود این او سی سے
کہیں زیادہ تھا ۔ اس موقع پر یہ سفارت کار اپنے سفارتی کارڈ کے علاوہ کوئی
بھی دستاویز پیش نہیں کرسکے ۔ نہ صرف یہ کے ان کے پاس اس اسلحے کے حوالے سے
کوئی این او سی تھا جو قانوناً ان کے پاس اس وقت ہونا ضروری تھا، بلکہ ان
سفارت کاروں نے سفر سے قبل حکومت سے اجازت نامہ بھی حاصل نہیں کیا تھا۔تاہم
معاملے کی نزاکت کے پیشِ نظر پشاور میں تعینات امریکی قونصلیٹ”میری رچرڈ“
پشاور ٹول پلازہ پہنچ گئی اور اس کے معذرت کرنے پر سفارت کاروں کو جانے کی
اجازت دے دی گئی لیکن پولیس نے اسلحہ ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں دی ۔
پاکستان کے کسی بھی صوبے میں موجود امریکی قونصلیٹ خانے میں امریکی انٹیلی
جنس کے لوگوں کا ہی تقرر کیا جاتا ہے جبکہ دنیا بھرمیں ٹیکنیکل ایڈوائز کے
عہدے پر سی آئی اے ایجنٹس کے انچارج کو رکھا جاتا ہے ۔اس سے قبل لاہور میں
پکڑا گیا ریمنڈ ڈیوس بھی ٹیکنیکل اسٹاف ایڈوائز ر ہی کی شناخت کے تحت نقل
حرکت کرتا تھا اور اس نے تھانے میں بھی اسی حوالے سے اپنی شناخت کروائی تھی
۔ اس کیس میں بھی ریمنڈڈیوس کی طرح تینوں خواتین مشکوک ہیں اور ان کی
مالاکنڈ میں نقل وحرکت پر بھی اعتراض کیا گیا ہے لہٰذا انہیں صرف تنبیہ کر
کے جانے کی اجازت دینا خیبر پختونخواہ حکومت اور وفاقی وزیر داخلہ کی
کمزوری ہے ۔ وگرنہ ان کے خلاف ناجائز اسلحہ رکھنے اور اس کی اسمگلنگ کا
مقدمہ بھی درج کیا جاسکتا ہے ۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ ۔۔۔! پاکستان اور امریکہ کے درمیان پہلے سے موجود
کشیدگی کے باوجود امریکی سفارتی اسٹاف بلا خوف و خطر روز کوئی نیا کارنامہ
کردکھاتا ہے۔ کیا ان سفارتی اہلکاروں کو یہ خطرہ نہیں کہ اس طرح کی حرکات
وسکنات سے امریکہ اور پاکستان کے مابین سفارتی تعلقات میں مزید کشیدگی اور
بگاڑ آسکتا ہے ؟ لیکن جناب یہ تو آپ کی سوچ ہے درحقیقت اس طرح کی کوئی
کہانی نہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ چاہے ہم جو بھی کریں ، سفارتی آداب کی
رو رعایت نہ کریں ، پاکستان کے قانون کی خلاف ورزی کریں ، ناجائز اسلحہ لے
کر سڑکوں پر گشت کر کے خوف ہراس پھیلائیں ، موٹر وے پر رفتار حد بندی کا
پاس نہ رکھیں ، بغیر اطلاع دیے خفیہ ملاقاتیں کرتے پھریں ۔ یا جو مذاح من
میں آئے پاکستانی قانون کے ساتھ کرتے پھریں صرت سفارت کار کے معذرت کی دیر
ہے بس پھر اس کے سامنے سارے پاکستانی قوانین ڈھیر ہوجاتے ہیں ۔ اور اگر
بالفرض تفتیشی افسر فرض شناس ٹھہرے تو اعلیٰ حکام کی جانب سے فون پر فون
آنا شروع ہوجاتے ہیں جس کے آگے وہ فرض شناس افسر بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور
ہوجاتا ہے۔ سفارتی ڈونگ کا یہ نسخہ کیمیا پاکستان کی کسی بھی قانون شکنی کے
لیے بہت ہی مفید اور موثر دوا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ یہ دوا صرف اور صرف
پاکستان ہی میں موثر اور کار آمد ہے کیونکہ امریکی ایئر پورٹ پر تو
پاکستانی سفارتی اہلکاروں کی بھی عام شہریوں کی طرح جامہ تلاشی لی جاتی ہے
اور انہیں گھنٹوں پوچھ گجھ کے لیے روکا بھی جاتا ہے۔ |