تحریر: حضرت مولانا طلحہ السیف
حفظہ اللہ تعالیٰ
’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص مومن
نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ، اولاد اور تمام لوگوں
سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ‘‘ ﴿صحیح بخاری ﴾
جی ہاں !
ایمان کی لازمی شرط ہے اور یہ شرط خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے
بیان فرمائی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت جب تک ہر دنیوی کی محبت
پر غالب نہ آ جائے اس وقت تک دعوی ایمان کامل کا معتبر نہیں ہوتا۔
’’ عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ
علیہ و سلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑے تشریف لا رہے تھے، حضرت
عمر(رض) نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! مجھے آپ میری جان
کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے
فرمایا : نہیں اے عمر! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے جب تک
میں تمہیں تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ﴿محبت کامل نہیں ہو
سکتی ﴾۔ حضرت عمر (رض) نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! اب تو آپ مجھے میری جان
سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ہاں اب
اے عمر ‘‘ ﴿ صحیح بخاری ﴾
الآن یا عمر.
ہاں اے عمر اب. یعنی بات اب پوری ہوئی۔ محبت اب کامل ہوئی، عشق اب سچا ہوا
اور ایمان اب پورا ہوا۔ جب یہ بات دل میں آ گئی کہ کوئی رشتہ، کوئی تعلق ،
کوئی رغبت، کوئی چاہت آقا مدنی کی محبت سے بڑھ کر نہیں رہی۔
بات اختیاری نہیں بلکہ لازمی ہے۔ یہ مقام حاصل نہ ہونے تک خطرہ ہی خطرہ ہے۔
قرآن مجید دیکھۓے۔ سورۃ توبہ میں کیا فرمایا گیا ہے:
’’ کہہ دیجیے اگر تمہارے باپ، تمہاری اولادیں، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں،
تمہارے خاندان ، تمہارے جمع شدہ اموال اور تمہاری تجارت جس کے گھاٹے کا
تمہیں خوف ہے اور تمہارے گھر جن میں رہنا تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک
اللہ، اللہ کے رسول ﴿صلی اللہ علیہ و سلم﴾اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنے
سے زیادہ محبوب ہو جائیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب
لے آئے، بے شک اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا ﴿ التوبۃ ﴾
جی ہاں! جب تک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت اور ان کے
نام پر جان دینے کی رغبت اوپر مذکور تمام رشتوں اور تعلقات سے زیادہ نہ ہو
جائے.
انسان کا اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جانا اور رضائے الہی کا مستحق تو کیا
بننا، عذاب کے خطرے سے دوچار رہتا ہے۔ اور قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے ’’
الشفائ ‘‘ میں یہاں تک لکھ دیا ہے کہ انہی لوگوں کو فاسق کہا گیا ہے۔ ’’
فاسق ‘‘ نافرمان کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف چلے اور اوامر
کو توڑے. اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو ہر تعلق پر غالب رکھنا اللہ
تعالیٰ کا حکم ہے. جو ایسا نہ کرے گا اور اس مقام کو پانے کی محنت نہ کرے
گا وہ نا فرمان ہوا اور فسق میں پڑا.
٭.٭.٭
پچھلے سبق میں ایک روایت لکھی تھی کہ حلاوت ایمان نصیب ہوتی ہے اس شخص کو
جس کے دل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت ہر تعلق پر
غالب آ جائے۔ کیا حلاوت ایمان پانے کا اس کے سوا بھی کوئی راستہ ہے؟.
نہیں ہے.
دوسری روایت میں نفی کے ساتھ الفاظ ہیں:
’’ کوئی شخص حلاوت ایمان کو نہیں پا سکتا جب تک کہ اللہ اور اس کے رسول صلی
اللہ علیہ و سلم کی محبت ہر دوسری محبت پر غالب نہ آ جائے‘‘ ﴿ الحدیث. شُعب
الایمان ﴾
دوسری اہم بات یہ کہ جب یہ بات اچھی طرح جان لی گئی کہ اللہ تعالیٰ کی محبت
ایمان کی لازمی شرط ہے.
اورا س کے بغیر دعوئے ایمان سچا نہیں ہوتا.
یہ بات شک سے بالاتر اور شبہے سے پاک ہے.
اور اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں ہونے کی لازمی علامت نبی کریم صلی اللہ
علیہ و سلم کی محبت اور اتباع کا نصیب ہونا ہے.
قرآن مجید نے یہود کے اس دعوے کو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب و مقرب ہیں
اسی دلیل کی بنیاد پر رد کر دیا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی محبت ان کے دلوں میں
ہوتی تو ان کی زندگیاں اتباع رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے اور ان کے قلوب
محبت رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے لبریز ہوتے.
’’ اے نبی ! ان سے فرما دیجیے: اگر اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میرا
اتباع کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا. ﴿ آل عمران ﴾
اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کی سچائی کا ثبوت. حبّ رسول صلی اللہ علیہ و سلم
اللہ تعالیٰ کی محبت اور قرب پانے کا ذریعہ بھی . حبّ رسول صلی اللہ علیہ و
سلم
گویا دنیا و آخرت کی ہر خیر، ہر بھلائی اور ہر راحت موقوف ہے نبی کریم صلی
اللہ علیہ و سلم کی محبت پر .
٭.٭.٭
حبّ رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا کیا ملتا ہے؟
کون کون سی بڑی نعمتیں اور سوغاتیں اس عمل سے متعلق ہیں؟.
آئیے وہ روایت پڑھتے ہیں جسے سن کر صحابہ کرام سب سے زیادہ خوش ہوئے تھے:
’’ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی
خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ قیامت کب آئے گی؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جواب دئیے بغیر نماز کے لئے کھڑے ہو گئے۔
نماز سے فراغت کے بعد فرمایا: قیامت کے بارے میں پوچھنے والا شخص کہاں ہے؟
اس شخص نے عرض کیا: میں ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : تم نے قیامت کے لئے کیا تیاری کر رکھی
ہے ؟
اس شخص نے عرض کیا ! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں نے اس کے لئے نہ
زیادہ نمازیں تیار کر رکھی ہیں اور نہ روزے سوائے اس کے کہ میں اللہ اور اس
کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت رکھتا ہوں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: انسان جس سے محبت رکھے گا آخرت
میں اسی کے ساتھ ہو گا۔
حضرت انس(رض) فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کو اسلام لانے کے بعد سب سے زیادہ
خوشی اسی دن یہ بات سن کر ہوئی ﴿ ترمذی ﴾
اسی سے ملتی جلتی ایک روایت ہے کہ ایک بلند آواز اعرابی نے نبی کریم صلی
اللہ علیہ و سلم کو آواز دے کر کہا:
ایک شخص ایک قوم سے محبت رکھتا ہے مگر ان جیسا عمل نہیں کر سکتا ﴿ اس کا
حشر اس قوم کے ساتھ ہو گا یا نہیں ؟﴾نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب
میں وہی بات ارشاد فرمائی۔ ﴿ترمذی ﴾
صحابہ کرام سب کے سب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت میں فنا تھے.
انہیں دنیا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت ملی جو انہیں ہر چیز
سے محبوب تھی.
مگر ان کے دلوں میں ایک خوف اور دھڑکا تھا.
تڑپتے تھے مگر اظہار نہ کر سکتے تھے.
انہیں علم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم انبیاء کے امام اور سردار
ہیں.
آخرت میں انبیائ کے مراتب سے بھی بلند ہونگے تو امتی ان کی صحبت کا لطف
اٹھا پائیں گے یا نہیں ؟.
ان کی دید سے فیض یاب ہو سکیں گے تو کیونکر؟.
عشق تڑپاتا تھا مگر بات زبانوں پر نہ آتی تھی.
اس سوال اور جواب نے انہیں وہ خوشخبری دے دی جس کی انہیں چاہت تھی.
اصول بیان ہو گیا کہ ہر انسان اپنے محبوبوں کے ساتھ ہو گا. انہیں مل سکے
گا. دیکھ سکے گا. اور صحبت سے فیضیاب ہو سکے گا.
اور یہ سوغات تو ان کے پاس موجود تھی. وہ صرف محب نہیں محبت کی مثال تھے.
عاشق نہیں عشق کا نشان تھے.
تب وہ خوش ہوگئے.
محبت رسول صلی اللہ علیہ و سلم خوشخبری ہے عظیم خوشخبری. اللہ کرے ہم سب کو
نصیب ہو جائے۔آمین
٭.٭.٭
حبّ اللہ کے حاصل ہونے کی کچھ علامات لکھی گئیں تھیں.
حبّ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی بھی کچھ علامات ہیں. چند ایک عرض کی جاتی
ہیں.
﴿۱﴾ اتباع. اور اس کی تشریح گزشتہ سبق میں ’’معارف الحدیث ‘‘والی عبارت میں
موجود ہے.
﴿۲﴾ حبّ فی الرسول صلی اللہ علیہ و سلم. نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے
محبوب افراد، محبوب اعمال اور محبوب اشیائ سے محبت رکھنا. کہ اصول قطعی ہے
محبوب کے محبوب کا محبوب ہو نا.
اہل بیت اطہار سے محبت. صحابہ کرام سے محبت. مدینہ طیبہ سے محبت وغیرہ
وغیرہ۔
’’ اللہ تعالیٰ سے محبت کرو کہ وہ تمہیں صبح وشام نعمتیں دیتا ہے اور مجھ
سے محبت کرو اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے اور میرے اہل بیت سے محبت کرو
میری وجہ سے ‘‘ ﴿ترمذی ﴾
اہل بیت کا گستاخ. صحابہ کرام کا دشمن یا مدینہ طیبہ سے لوگوں کو کاٹنے
والا.
کبھی محب نبی نہیں ہو سکتا. یہ بات دلوں پر لکھ لی جائے.
﴿۳﴾ غیرت. اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی حرمت و ناموس کے سوال پر
بھڑک اٹھنا. خون کا جوش مارنا اور رونگٹے کھڑے ہو جانا.
اس نام پر جان دینا اور جان لینا آسان ہو جانا.
محبت کا لازمی تقاضا ہے. جو اس سے محروم ہے یا اخلاق کے نام پر محروم کرتا
ہے وہ محبت سے عاری ہے.
وہ سنے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے عبد الرحمن کو کیا فرما رہے
ہیں:
’’ بیٹا تم ایک بار بھی میرے قابو میں آتے تو زندہ نہ چھوڑتا کیونکہ تم اس
وقت اللہ کے رسول سے لڑ رہے تھے‘‘.
وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق میں رنگے ہوئے صدیق اکبر کے اس
تھپٹر کی گونج مدینہ کی گلیوں سے سنے جو گستاخ رسول ابن صوریا یہودی کے
چہرے پر اپنا اثر چھوڑ گیا تھا.
وہ امین الامۃ ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کی تلوار اپنے والد کے سر
پر برستی اور دو ٹکڑے کرتی دیکھے.
یہ ابوعبیدہ وہ ہیں جو زمانہ جاہلیت میں بھی’’ مشہور بحب الوالدین ‘‘.
والدین سے محبت کرنے والے مشہور تھے.
کافر باپ گرفتار کر کے مدینہ کی طرف لے جایا جا رہا تھا. بیٹے کے سامنے آقا
مدنی صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں کچھ کہہ دیا اور ٹکڑے ہوا.
ویسے بھی دنیا میں ہی کسی سے پوچھ لیں.
غیرت سے خالی محبت کو کوئی بھی محبت نہیں کہتا.
اُسے کیا کہتے ہیں؟. یہ بات چھوڑ دیجیے.
﴿۴﴾ کثرت درود شریف: جس کے دل میں محبت ہو گی یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ نام نہ
لیا کرے.
اور درود شریف کیسی نعمت ہے؟ آج عرض کرنے کا موقع نہیں.
اور ہاں عشق اور سچی محبت کی ایک اور علامت. وہ حالت بھی تو ہے جو استوانہ
حنّانہ کو پیش آئی.
بے جان کھجور کا تنا. کسی کی محبت میں دھاڑیں مار کر روتا تھا.
قصوٰی اونٹنی کو بھی پیش آئی . بھوکی پیاسی مر گئی.
حجۃ الوداع کے دن ذبح کے لئے لائے جانے والے اونٹ بھی تو اسی سے گزرے.
کہ آگے بڑھ کر اپنی گردنیں پیش کرتے تھے.
ایک خلش. ایک جلن . ایک کڑھن . جس کی تشریح کوئی نہیں کرسکتا.
کوئی میرے دل سے پوچھے تیرے تیر نم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
اور وہ خالد بن زید بن عبد ربہ رضی اللہ عنہ.
باغ میں کام کر رہے تھے کہ کسی نے آ کر خبر دی. آقا مدنی صلی اللہ علیہ و
سلم نے انتقال فرمایا.
آنکھیں بند کر کے دست بدعا ہوئے:
’’یا اللہ! جن آنکھوں نے تیرے محبوب کا رخ انور دیکھا ہے وہ اب آپ صلی اللہ
علیہ و سلم کے جانے کے بعد کچھ نہ دیکھیں‘‘ .
دعا قبول ہوئی اور نابینا ہو گئے .
چھین لے مجھ سے نظر اے جلوہ خوش روئے دوست
میں کوئی محفل نہ دیکھوں اب تیری محفل کے بعد
جی ہاں ! یہی تو وہ خلش ہے جو حضرت نانوتوی(رح) سے لے کر فقیر عطاء اللہ
شہید تک عاشقوں کو یہ کہلواتی ہے کہ ان کی خاک کے ذرے آقا مدنی صلی اللہ
علیہ و سلم کے راستے پر نثار ہو جائیں.
اللھم ارزقنا حبک وحب رسولک صلی اللہ علیہ وسلم آمین
٭.٭.٭ |