تحریر: حافظ محمود حسن
﴿۲﴾توحید الٰہی پر فرشتوں کی شہادت:
آیت شہادت میں توحید پرجن تین عظیم الشان گواہیوں کا تذکرہ ہے،اُن میں سے
ایک اللہ تعالیٰ کی اپنی گواہی کا تذکرہ بھی تھا جو گزشتہ تحریر میں اختصار
کے ساتھ بیان کیا گیا تھا، اس گواہی کے بعد دوسرے درجے میں اللہ تعالیٰ نے
فرشتوں کی گواہی توحید کا تذکرہ کیا ہے ۔ اس گواہی کو قرآن مجید میں ایک
دوسرے مقام پر یوں بیان کیا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ینزل الملائکۃ بالروح من امرہ علیٰ من یشائ من عبادہ ان انذروا انہ لا الہ
الا انا فاتقون﴿النحل:۲﴾
ترجمہ: اللہ تعالیٰ روح﴿جبریل علیہ السلام﴾ کے ساتھ فرشتوں کو نازل کرتا
رہا اپنے بندوں پر جس پر چاہا کہ خبردار کردو کہ میرے سوا کئی الٰہ نہیں۔
یعنی فرشتوں کی ذمہ داری بھی یہی لگائی گئی ہے کہ تمام عالم میں اس بات کی
منادی کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، عبادت صرف
اسی کی کیا کرو، خوف اور ڈر بھی اسی ذات سے کیا کرو، کیونکہ نفع و نقصان کا
مالک اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔
﴿۳﴾توحید الٰہی پر انبیائ علیہم السلام
کی شہادت
آیت شہادت میں تیسرے نمبر پر اہل علم﴿اولوا العلم﴾ کی گواہی کا تذکرہ ہے
اور اس گواہی میں حضرات انبیائ علیہم السلام کی گواہی اور ان کے متبعین
تمام اہل علم کی گواہی بھی شامل ہے، قرآن مجید حضرات انبیائ علیہم السلام
کی گواہی کو یوں بیان کرتا ہے:
و ما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الٰہ الا انا
فاعبدون﴿القرآن﴾
ترجمہ: آپ سے پہلے ہم نے ہر رسول پر یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی معبود
نہیں ہے، میری عبادت کیا کرو۔
حضراتِ گرامی! یہی کلمہ تمام انبیائ علیہم السلام کی دعوت کا مرکزی نکتہ
ہے۔ حضراتِ انبیائ علیہم السلام نے بنیادی طور پر اسی کلمہ توحید کی تبلیغ
فرمائی۔ اسی پر محنت کی اور اسی کے لئے طرح طرح کے مصائب برداشت کیے، مگر
ان تمام مصائب و آلام کے باوجود کلمہ طیبہ کی اساسی دعوت کو نہیں چھوڑا۔
حضرت نوح علیہ السلام کی دعوتِ توحید
مثلاً حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا:
لقد ارسلنا نوحاً الیٰ قومہ یقوم اعبدوا اللّٰہ مالکم من الٰہ غیرہ ﴿سورۃ
الاعراف﴾
ترجمہ: ہم نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو آپ نے کہا
کہ اے میری قوم! صرف اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ
﴿معبود﴾ نہیں۔
حضرت ہود علیہ السلام کی دعوتِ توحید
و الیٰ قوم عاد اخاہم ہوداً قال یٰقوم اعبدوا اللّٰہ مالکم من الٰہ غیرہ
﴿سورۃ الاعراف﴾
ترجمہ: اور قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود علیہ السلام کو نبی بنا کر
بھیجا گیا تو آپ نے کہا کہ اے میری قوم اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا
تمہارا کوئی الٰہ﴿معبود﴾ نہیں ہے۔
حضرت صالح علیہ السلام کی دعوتِ توحید
والیٰ ثمود اخاہم صٰلحاً قال یٰقوم اعبدوا اللّٰہ مالکم من الٰہ غیرہ
﴿سورۂ ہود﴾
ترجمہ: ﴿اور بھیجا ہم نے﴾ قومِ ثمود کی طرف صالح علیہ السلام کو، کہا انہوں
نے اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔
حضرت شعیب علیہ السلام کی دعوتِ توحید
الیٰ مدین اخاہم شعیباً قال یٰقوم اعبدوا اللّٰہ مالکم من الٰہ غیرہ
ترجمہ: ﴿اور بھیجا ہم نے﴾ مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب علیہ السلام کو،
کہا انہوں نے اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود
نہیں۔
حضرت یعقوب علیہ السلام اور
ان کے بیٹوںکا اقرار توحید
ام کنتم شہدائ اذ حضر یعقوب الموت اذ قال لبنیہ ما تعبدون من بعدی قالو
نعبد الٰہک و الٰہ اٰبائک ابراہیم و اسمٰعیل و اسحٰق الہاً واحداً ﴿بقرہ﴾
ترجمہ: کیا تم حاضر تھے جس وقت یعقوب علیہ السلام کو موت آئی جب انہوں نے
اپنے بیٹوں سے کہا کہ میرے بعد کس کی عبادت کرو گے۔ انہوں نے کہا ہم تیرے
باپ داد ابراہیم و اسماعیل و اسحاق علیہ السلام کے ایک ہی معبود کی عبادت
کریں گے۔
سرکارِ دو عالم ö کی دعوتِ توحید
یا ایہا الناس قولوا لا الٰہ الا اللّٰہ تفلحو
ترجمہ: اے لوگو! لا الہ الا اللہ کہو، کامیاب ہوجائو گے۔
قل انما ہو الٰہ واحد ﴿انعام﴾
آپ کہہ دیجئے بس وہ ایک ہی معبود ہے۔
فاعلم انہ لا الہ الا اللّٰہ ﴿سورۂ محمد﴾
بس جان لیجئے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔
معلوم ہوا کہ تمام انبیائ علیہم السلام اسی کلمۂ توحید پر محنت فرماتے رہے
اور اسی بات کو نکھارتے رہے کہ:
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اللہ کے سوا کوئی مسجود نہیں، اللہ کے سوا
کوئی خالق نہیں، اللہ کے سوا کوئی مالک نہیں، اللہ کے سوا کوئی مشکل کشا
نہیں، اللہ کے سوا کوئی حاجت روا نہیں، اللہ کے سوا کوئی داتا نہیں، اللہ
کے سوا کوئی رزاق نہیں۔
اور عبادت کی جس قدر بھی قسمیں ہیں:
عبادت قولی، مثلاً اذکار، اوراد اور وظائف۔
عبادت بدنی، مثلاً نماز۔
عبادت مالی، مثلاً زکوٰۃ، صدقہ، قربانی۔
یہ سب کی سب لا الہ الا اللہ کے مفہوم میں آتی ہیں۔
لہٰذا زبان سے کوئی وظیفہ غیر اللہ کا نہیں پڑھا جا سکتا۔
اور پیغمبر، ولی کسی بھی جن، فرشتے، بزرگ سے دعا نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ
لا الہ الا اللہ۔
مال، نذر، نیاز، منت منوتی، چڑھاوے، یہ سب اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ
مخصوص ہوں گے۔ اگر کوئی شخص نذر، نیاز، منت منوتی، چڑھاوے غیر اللہ کے نام
پر دیتا ہے تو یہ سب کلمہ طیبہ اور توحید کے مخالف ہے۔
اسی طرح عبادت بدنی میں، سجدہ، قیام، رکوع، طواف یہ سب عبادات اللہ تعالیٰ
کے ساتھ مخصوص ہیں، اگر ان عبادات میں کسی غیر کو شریک کرتا ہے تو گویا کہ
اس نے کلمہ طیبہ سے کھلی بغاوت کی ہے اور کلمہ طیبہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
کلمہ طیبہ اپنے ساتھ سطحی تعلق نہیں قلبی اور یقینی تعلق چاہتا ہے۔
﴿۴﴾توحید پربزرگانِ دین کی گواہی
حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ نے لا الہ الا اللہ کا معنیٰ اپنی زبان میں
اس طرح فرمایا:
یقیں دانم دریں عالم کہ لا معبود الا ہو
ولا موجود فی الکونین و لا مقصود الا ہو
چوں تیغ لا بدست آری بیا تنہا چہ غم داری
مجو از غیر حق یاری کہ لا فتاح الا ہو
ترجمہ: میں یقین رکھتا ہوں کہ اس جہاں میں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور
دونوں جہانوں میں نہ کوئی مقصود ہے اور نہ کوئی ہر جگہ موجود۔
جب ’’لا‘‘ کی تلوار تیرے ہاتھ میں ہے تو اکیلا دشمن سے ٹکرا جا تجھے کیا غم
ہے؟ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے یار اور دوستی مت مانگ کیوں کہ مشکل کشا صرف
اللہ تعالیٰ ہے۔
شیخ عطار رحمۃ اللہ علیہ توحید الٰہی پر اپنی گواہی دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
بندگاں رانیست ناصر جز الٰہ
یاری از حق خواہ و از غیرش مخواہ
از خدا خواہ ہر چہ خواہی اے پسر
نیست در دست خلائق خیر و شر
در بلا یاری مخواہ از ہیچ کس
زانکہ نبود جز خدا فریاد رس
ترجمہ: اللہ کے سوا بندوں کا کوئی مددگار نہیں، قلبی یاری اللہ سے لگائو،
کسی اور سے دوستی مت چاہو۔
اے بیٹے! جو مانگنا ہو، اللہ سے مانگ، کیوں کہ نفع و نقصان مخلوق کے قبضے
میں نہیں ہے۔
مصیبت کے وقت اللہ کے سوا کسی سے مدد مت چاہو کیوں کہ اللہ کے سوا کوئی
فریاد رس نہیں ہے۔
مولانا جامی(رح) فرماتے ہیں:
یکے بیں و یکے داں ویکے گو
یکے خواہ و یکے خواں و یکے جو
ترجمہ: معبود کو ایک جانو، ایک دیکھو، ایک کہو، ایک اسی کو چاہو، ایک اسی
کا ذکر کرو اور ایک اسی کو چاہو۔
شیخ سعدی(رح) فرماتے ہیں:
مؤحد چہ برپائے ریزی زرش
چہ شمشیر ہندی نہی برسرش
امید و ہراسش نہ باشد زکس
ہمیں است بنیاد توحید و بس
ترجمہ: جانتے ہو مؤحد کون ہے؟ اگر اس کے پائوں میں سونا بہا دو یا اس کے
سر پر ہندی تلوار رکھ دو، وہ نہ کسی سے امید رکھے اور نہ کسی کا خوف دل میں
لائے، بس یہی توحید کی بنیاد ہے۔
٭.٭.٭
|