لاہور جاتے ہوئے جہلم کے قریب گاڑی اچانک
ٹریفک میں پھنس گئی ۔ گاڑی سے کچھ فاصلے پر لوگوں کا ہجوم تھا جسے دیکھ کر
میرے منہ سے ایک دم نکلا” یا اللہ خیر“ ۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں ہجوم کو
چیرتا ہوا آگے بڑھا،سامنے منظر دیکھ کر میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ
گئیں،چھ سال کے ایک انتہائی خوبصورت بچے کی لاش سڑک کے کنارے پر پڑی تھی اس
کے پاس سکول بیگ پھٹا پڑاتھا ۔ لوگ یہ دل خراش حادثہ دیکھ کر کانوں کو ہاتھ
لگاکر توبہ توبہ کررہے تھے ۔ان ہی میں سے کچھ فلاسفر حضرات جو دنیا کے کسی
بھی واقعے پر صرف بحث ہی کرتے دیکھائی دیتے ہیں چاہے کہیں ایٹم بم گرے ،دہشت
گردی ہو،پٹرول یا سبزی کی قیمتوں میں اضافہ ہو یہ فلاسفر حضرات اپنی
”ماہرانہ“رائے دئیے بغیر نہیں رہتے ۔میں ابھی بچے کی ناگہانی موت کے کرب
میں ہی مبتلا تھا کہ ایک فلاسفر کی آواز آئی ”جہاں تک میرا خیال ہے ،حادثہ
تیز رفتاری اور سڑک پر سپیڈ بریکر کے نہ ہونے کے سبب پیش آیا“ ساتھ ہی
دوسرا فلاسفر بولا”سکول کا مالک اس حادثے کا ذمہ دار ہے اسے سڑک کے قریب
سکول بنانا ہی نہیں چاہیے تھا“
اسی دوران بچے کی لاش اٹھالی گئی ،سڑک سے انسان نما رکاوٹیں بھی ہٹ گئیں
اور سب اپنی اپنی منزل کی طرف چل دئیے ۔ بظاہر تو میں گاڑی چلارہا تھا مگر
میری توجہ اس ننھی لاش پر اٹکی ہوئی تھی اور بار بار مجھے اپنے بچے یادآرہے
تھے اور دل سے دعائیں نکل رہی تھیں ۔اپنا دھیان کچھ اِدھر اُدھر کرنے کیلئے
میں نے ایف ایم ریڈیو پر خبریں سننے کا فیصلہ کیا ۔مگر یہ کیا ”آسمان سے
گراکھجورمیں اٹکا“ پہلی خبر ہی پشاور میں خودکش بم دھماکے کی سننے کو ملی ،سوچا
پیچھے تو ایک بچے کی لاش دیکھی نہیں جارہی تھی ،پشاور کے دھماکے میں کتنی
ہی لاشیں سڑک پر پڑیں ہوں گی۔ سفر میں یہ بم دھماکے ،لاشوں وغیرہ کی خبریں
انسان کو ہیبت زدہ کردیتی ہیں ۔ میں نے اس ہیبت کو اپنے اوپر طاری نہ ہونے
کی ایک اور کوشش کی اور خود کارریڈیو کو گانا ڈھونڈنے پے لگادیا ،گانا جو
سننے کو ملا وہ تھا!
”میں تو دیکھوں گا،تم بھی دیکھوگے جب روٹی سستی ہوگی اور مہنگی ہوگی جان“
گانا سنتے ہی سوچا کہ جس ملک کے تمام ادارے ابتری کا عملی نمونہ بن جائیں
اس معاشرے کے تمام شعبہ ہائے زندگی پر اس پسماندگی اور سیاسی ومعاشی بدحالی
کے نقوش نمایاں دیکھے جاسکتے ہیں ۔ یہ سوچتے ہوئے کہ کہیں میرا بھی ان
تنقید زدہ فلاسفروں میں شمار نہ ہوجائے ۔ میں نے ایک بار پھر ریڈیو پر اپنی
قسمت آزمائی ،دوسرے ہی لمحے استاد نصرت فتح علی کی آواز سنائی دی تو جناب
جہاں خاں صاحب کی آواز ہو وہاں پر ہر میوزک لوورکی چوائس ختم ہوجاتی ہے مگر
یہاں بھی کوئی نئی بات نہ ملی کیوں کہ گیت تھا
”جانے کب ہوں گے کم،اس دنیا کے غم“
موجودہ کرپٹ سیاستدانوں کی طرح مجھے ریڈیو نے بھی مایوس کیا تو میں نے
ریڈیو کو بندکرنا ہی غنیمت جانا۔ مگر ایک پاکستانی ہونے کے ناطے میں اپنی
سوچوں کو ریڈیو کی طرح آف نہ کرسکا اور اپنے پیارے وطن پاکستان کو لوٹنے
والے لیڈرنما لٹیر وں کے کارناموں کو سوچنے پر مجبور ہوگیا ۔ میرا باقی سفر
انہی سوچوں کی لہروں پربہتا چلاگیا۔
پاکستان جو دنیا کا ساتواں اور اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی صلاحیت رکھنے
والا ملک ہے کیا یہ لوڈشیڈنگ ،ٹارگٹ کلنگ، بھتاخوری،مہنگائی ،لاقانونیت اور
کرپشن جیسے کینسر سے نجات پاسکے گا ؟اور جس ملک میں مادیت کا جنون چڑیلیں
بن کر انسانیت کو چمٹ چکا ہو جہاں حکمرانوں کی ذہنی اور عوام کی معاشی
بدحالی اپنے عروج پر ہو اور حکمرانوں کی شاہ خرچیاں ختم ہونے کا نام ہی نہ
لیں جہاں سیاستدان بچوں کی طرح ”میں نہ مانوں“ والی پالیسی اپنائے ایک
دوسرے کو نیچا دکھارہے ہوں ،جہاں وزیر اعظم سزا یافتہ ہو،وزیر مذہبی امور
حامد سعید کاظمی کرپشن میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہو،وزیر اعظم کے
صاحبزادے حج اور ایفی ڈرین کے کیسوں میں اربوں کے گھپلے کرکے کیس بھگت رہے
ہوں ،وزیر اعظم کے میڈیا ایڈوائزر خرم رسول اربوں ہڑپ کرکے جیل کی
ہواکھارہا ہو اور 180ارب کے فراڈ پر ممبر اوگرا منصور مظفر کا نیب جسمانی
ریمانڈ لے رہی ہو،18سے 20گھنٹے بجلی کی لوشیڈنگ ہونے کے باوجود مہینے میں
دودوبار بجلی کے نرخوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ وفاقی سیکرٹری برائے پانی
وبجلی امتیاز قا ضی صاحب کی طرف سے عوام کو یہ خوشخبری دی جاتی ہے کہ
2018ءسے قبل لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہوسکتی ۔ جہاں کا وزیر اعظم انگلینڈ کے
میڈیا سے ”داد“ وصول کرکے اپنے ”نورا“ اینکروں کے ساتھ پروگرام کرکے بھونڈی
وضاحتیں پیش کرتا ہو،اس ملک کے کینسر لاعلاج ہوجاتے ہیں ۔
درددل رکھنے والے کروڑوں پاکستانیوں کی طرح میں بھی سوچوں میں غرق تھا کہ
اچانک ٹرک کے پریشر ہارن نے میری تمام کی تمام محب وطنی تتر بتر کردی اور
میں چند لمحوں کیلئے سیاستدان حضرات کے تاریخ ساز کارناموں سے ہونے والی
ٹینشن سے آزاد ہوگیا اور دل ہی دل میں ٹرک والے کو برا بھلاکہنے کے بجائے
دعائیں دینے لگا۔اس تلخ حقیقت سے آپ کچھ دیر کیلئے تو نجات پاسکتے ہیں مگر
آپ جب بھی اپنی گاڑی میں پٹرول یا گیس ڈلوائیں گے بجلی یا گیس کا بل ہاتھ
میں دیکھیں گے ،آپ یا آپ کا بچہ لوڈشیڈنگ میں گرمی کی شدت سے سوتے سوتے
اچانک اٹھے گا ،مہنگائی کے اس ہولناک اکھاڑے میں اصل قصور وار سے لڑنے کے
بجائے آپ دوکاندار سے لڑیں گے ،بے قصور شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ یا دہشت گردی
میں مرجانے والوں کی برہنہ لاشیں دیکھیں گے تو پھر آپ ان بے حس وبے رحم
ظالم وجبار،این آر او زدہ اور استثنیٰ زدہ سیاستدانوں کے ہاتھوں پاکستان کی
تباہی کا روناضرورروئیں گے ۔
ترقی وہی قومیں کرتی ہیں جو انسانیت کے فرائض کے احساس کو فروغ دیں اور سڑک
پر بنی چند لکیروں ”زبیرہ کراسنگ“ کو کے ٹو کا پہاڑسمجھ کر اپنی گاڑی کی
سپیڈ آہستہ کرلیں ۔اس کے برعکس ہمیں جب تک سپیڈ بریکر اچھا خاصا اچھال کر
بچوں کے سکول کے ہونے کا احساس نہ دلائے ،ہم معصوم بچو ں کو اپنی گاڑی کے
نیچے رونددیتے ہیں ۔ ہم جب تک سڑک کنارے لگے سائن بورڈز ،مائل اسٹون اور
سگنلز کا احترام نہیں کریں گے ہمیں امریکہ یا اپنے سیاستدانوں کو برا بھلا
کہنے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ ہم اپنے اندر سے ہی چھوٹے کرپٹ کو طاقتور
بناکر اس پر کیچڑ اچھالتے ہیں اور وہی طاقتور سیاستد ان جب اپنی بڑی بڑی
گاڑیوں کے نیچے ہمارے حقوق کو پامال کرتے ہوئے سپیڈ سے نکل جاتے ہیں تو
عوامی فلاسفر کہتے ہیں ،حکمرانی کے نشے میں اقتدار کی گاڑی چلانے والوں کے
راستے میں اگر”احساس ذمہ داری “ کا ایک سپیڈ بریکر ہوتا تو آج پاکستان کا
یہ حال نہ ہوتا۔ |