قومو ں کی بقا آئین و قانوں کی
عمل پیرائی میں مضمر ہوتی ہے ۔ صبر ہمت اور برداشت کے جذبے قوموں کی نشو
نما میں بنیادی کردار ادا کر تے ہیں ۔ کسی قوم کے افراد میں جب برداشت کا
مادہ مفقود ہوتا جا تا ہے تو پھر وہ قوم زوال کی جانب اپنا سفر شروع کر
دیتی ہے۔ ہمارے چند مخصوص سیاست دان ملک کو جس خاص سمت میں لے کر جا رہے
ہیں وہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا۔ وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے خلاف
مسلم لیگ (ن) کا احتجاج ساری اخلاقی حدود کو روندھتا جا رہا ہے۔ پارلیمنٹ
مچھلی بازار کا منظر پیش کر رہی ہے ۔گریبانوں میں ہاتھ ڈالنا، گالیوں ،
تھپڑوں اور گھونسوں کا آزادانہ استعمال کرنا ہماری پارلیمنٹ میں روزمرہ کے
معمول بن چکے ہیں۔ قومیں اپنے قائدین کے خیالات، نظریات، کردار اور اقدامات
کی پیروی کر کے اپنی روزمرہ کی زندگی کی راہو ں کو انکی سوچ اور اعمال سے
روشن کرتی ہیں لیکن مجھے نہیں معلوم کہ پارلیمنٹ میں ہمارے قائدین کے حالیہ
رویے کون سے نئے معیار قائم کرنے جا رہے ہیں؟ مجھے پارلیمنٹ کی حالیہ
کاروائی دیکھ کر شرم محسوس ہو رہی ہے۔ ہم کیا تھے اور ہم کون سی راہوں پر
نکل گئے ہیں اور ہم اپنی نوجوان نسل کو کیا پیغام دے رہے ہیں سمجھ سے با لا
تر ہے۔ کیا ہماری سیاسی قیادت عوام کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ جب بھی کوئی
اختلافی معاملہ درپیش ہو تو افہام و تفہیم کی بجائے تم بھی ہمارے نقشِ قدم
پر چلتے ہوئے اپنے مخا لفین کا گریبان پکڑ کر انھیں اسطرح سے ذلیل و رسوا
کرنا کے ا خلا قیات کا جنازہ نکل جائے۔ تحمل برد باری اور برداشت کا خون کر
کے انتقام اور شدت پسندی کا مظاہرہ کرنا اور اپنے افعال کے سا منے کسی کا
لحاظ مت کرنا؟ ۔ مجھے یاد ہے کہ جب غلام ا سحا ق خان پاکستان کے صدر تھے
اور پی پی پی کے لئے دن بدن سازشیں کر رہے تھے تو محتر بے نظیر بھٹو نے گو
با با گو کا نعرہ لگا یا تھا لیکن اس احتجاج میں کہیں بھی کوئی ہلڑ بازی
اور بد تمیزی کا عنصر شامل نہیں تھا ۔ اخلاقی اور پار لیمانی ضا بطوں کے
اندر یہ احتجاج تھا جس کا واحد مقصد پارلیمنٹ کے اندراپنی آواز بلند کرنی
تھی اور دنیا کو یہ بتا نا مقصود تھا کہ صدرِ پاکستان غلام ا سحا ق خان
تعصب کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کو اپنی سازش کا نشانہ
بنا رہے ہیں۔ اسے دیوار کے ساتھ لگانا چاہتے ہیں تا کہ پی پی پی اپنا سیاسی
کردار آزادانہ استعمال نہ کر سکے۔ سندھ کے وزیرِ اعلی جام صادق علی کے ساتھ
مل کر سندھ میں جو دھاندلی مچائی گئی وہ بیان سے باہر ہے۔ اسمبلی ممبران کی
وفا داریاں خریدی گئیں اور انھیں مقفل گیسٹ ہاﺅ سوں میں اسیر رکھا گیا تا
کہ وہ پی پی پی کے ساتھ اظہارِ یکجہتی نہ کر سکیں۔جام صادق علی تو برملا
کہا کرتے تھے کہ اگر مجھے صدرِ پاکستان غلام اسحا ق خان اجازت دیں تو میں
محترمہ بے نظیر بھٹو کو ان کے اپنے آبائی حلقے سے بھی ہرا سکتا ہوں ۔صدرِ
پاکستان غلام اسحا ق خان نے اگر جام صادق کو یہ اجازت مرحمت فرمائی ہو تی
تو وہ یہ معجزہ بھی سر زد کر سکتے تھے ۔ آج اس جام صادق علی کا کوئی بھی
نام لیوا باقی نہیں ہے کیونکہ اس کی سیاست انتقام اور غنڈہ گردی پر مبنی
تھی۔ میاں محمد نواز شریف کے ساتھ تو پی پی پی نے جام صا دق جیسا سلوک نہیں
کیا بلکہ پنجاب یں بڑی پارٹی ہو نے کی جہت سے اسے پنجاب کی حکومت دے دی گئی
حا لانکہ وہ پنجاب کی ا کثر یتی جماعت نہیں تھی ۔ پی پی پی کی جماعت اس
زمانے میں سندھ کی بڑی پارٹی تھی لیکن اس کی اکثریت پرنقب لگا کر اپنی
اکثریت ثا بت کر کے جام صادق علی دو سال حکومت کرتا رہا اور میاں محمد نواز
شریف بھی ایسے شخص کو سپورٹ کرتا رہا۔
ہمارے ہاں کچھ ممبران اپنی جماعت کے قائدکو خوش کرنے کےلئے حدودو قیود کو
پامال کر کے رکھ دیتے ہیں اور اتنا بھی سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ انکی
اسطر ح کی حرکات سے جمہوری کلچر کو کس قدر نقصان اٹھا نا پڑے گا ۔ مسلم لیگ
(ن ) کی غیر پارلیمانی حرکات کی وجہ سے پوری دنیا کے سامنے ہماری رسوائی ہو
رہی ہے اور ہم ہیں کہ اس کا احساس تک کرنے سے عاری ہیں۔ کوئی چوڑیاں
پھینکتا ہے تو کوئی اپنی چادرپھینکنے کا ڈرامہ رچاتا ہے، کو ئی ہے کہ
گریبان پر ہاتھ ڈالتا ہے اور کو ئی ہے کہ تھپڑوں سے پالیمنٹ کی راہداریوں
میں شورو غوغہ پیدا کر کے جمہوری کلچر کا خو ن کرتا ہے ۔ ادا کاری کےلئے
ایک سٹیج سجا ہوا ہے جس میں گنڈاسہ گروپ اپنا اپنا رول ادا کر نے کےلئے
بھڑکیں اور لاٹھیاں چلا رہا ہے ا ایسا کرنے والوں نے شائد کبھی یہ سوچنے کی
زحمت گوارا نہیں کی کہ وہ پارلیمنٹ کے اندر جسطرح کے رویوں کا اظہار کر رہے
ہیں وہ قوم کی اخلاقی اور معاشر تی تربیت کےلئے زہرِ قاتل ہے ۔ چند دن قبل
ہمارے ہاں تشریف لائے ہوئے ہمارے معزز ترک وزیرِ اعظم اردگان نے بھی
اپوزیشن کو سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اپوزیشن کا مطلب حکومت گرانا نہیں
بلکہ اس کی خامیوں کی نشاندہی کرنا ہو تا ہے تا کہ عوام اپوزیشن کے نکتہ
نظر کے ساتھ اپنی یک جہتی کا اظہارفر کر کے آئیندہ ہونے والے انتخابات میں
اپنے مینڈیٹ سے نواز کر اقتدار کی مسند پر انھیں بٹھا دیں لیکن ہمارے ہاں
تو معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہو تا ہے اور یہاں اپو زیشن کا مقصد حکومت کو
ہٹا نا اور اقتدار پر زبر دستی قبضہ کرنا ہو تا ہے۔ شرفاءکی پگڑیاں اچھا
لنا جب جرات مندی اور بہادری کے زمرے میں شامل ہو جائے اور بد تمیزی فخر کا
درجہ حا صل کر لے تو اصلاح کے سارے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور اپوزیشن
آجکل اسی راہ پر گامزن ہے۔ ایسے ممبران اپنے قائد کے سامنے بڑ ے فخر کے
ساتھ سر اٹھا کر چلتے ہیں کہ ہم نے حکومت کی بولتی بند کر دی تھی اور
پارلیمنٹ کو یر غمال بنا رکھا تھا۔ کاش ایسا کرنے والوں کو یہ احساس ہو
جاتا کہ پارلیمنٹ کو یرغمال بنانا پورے جمہوری نظام کا ستیا ناس کرنا ہے
۔کاش انھیں علم ہوتا کہ ان کی ایسی گھٹیا حرکتوں پر عوام ان پر لعن طعن
بھیج رہے ہیں ۔ ایسے شوریدہ سر ممبران توا س زعم میں اپنے پاﺅں زمین پر
نہیں لگاتے کہ انھوں نے پارلیمنٹ کو بے بس کر دیا تھا۔ کیا جمہوریت کے یہی
معنی ہیں کہ پار لیمنٹ کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے معذور کر دیا
جائے۔جمہوریت میں اپنی آواز اٹھانے کا حق سب کو حاصل ہو تا ہے لیکن اس کا
بھی کوئی طریقہ کار، ضا بطے اور اصول ہو تے ہیں۔ پارلیمنٹ میں دھینگا مشتی
اور بلوہ کرنے کا حق کسی کو نہیں ہو تا۔مسلم لیگ (ن) آج کل انتہائی گھٹیا
ھرکتوں پر اتر آئی ہے اور سارے جمہوری نظام کو تبا ہ برباد کرنے پر تلی ہو
ئی ہے جس کا نوٹس لیا جانا ضروری ہے ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایم ایم
اے نے بھی اسی طرح کی بے ہنگم حرکات کا مظاہرہ کیا تھا جس کا خمیازہ انھیں
آئیندہ انتخابات میں اٹھا نا پڑا تھا اور ان کا مکمل صفا یا ہو گیا تھا ۔
کاش میاں محمد نواز شریف تاریخ سے سبق سیکھیں اور اپنے ممبراں کو خلا قی
اور پارلیمانی حدود میں رہنے کا حکم صادر کریں تا کہ جمہوریت کی گاڑی پٹری
پر ہی چلتی رہے وگرنہ انھیں بھی ایم ایم اے کی طرح نقصانات کا سامنا کرنا
پڑ سکتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کو وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کا چہرہ اچھا نہیں لگتا تو
اس کا علاج تو کسی کے پاس نہیں ہے ھالانکہ وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی
انتہائی پر کشش شخصیت کے مالک ہیں۔ مسلم لیگ (ن ) کو اپنی حکمتِ عملی میں
تبدیلی لا کر پارلیمنٹ کی کاروائی کو پر امن طریقے سے آگے بڑھانے میں حکومت
کا ساتھ دینا چائیے اور جہاں پر حکومت غلطی کا ارتکاب کر رہی ہے اسے ا چھا
لنا چائیے تا کہ پاکستانی عوام حقائق سے با خبر ہو جائیں۔ توہینِ عدالت کیس
اب قصہ پارینہ بن چکا ہے لہذا مسلم لیگ (ن) اپنا احتجاج بند کرے اور
سنجیدگی کے ساتھ پاکستان کے جمہوری تشخص کو ابھارنے کی کوشش کرے۔ دہری
شہریت کے مقدمے میں رحمان ملک کے معاملے میں سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ اس
بات کی دلیل ہے کہ وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو سپریم کو رٹ نے نا
اہل قرار نہیں دیا وہ اس طرح کا فیصلہ بھی دے سکتی تھی جیسا فیصلہ اس نے
رحمان ملک کے مقدمے میں دیا ہے لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس بات کا
فیصلہ کرنے کےلئے قومی اسمبلی کی سپیکر فہمیدہ مرزا پر چھوڑ دیا کہ وہ اس
مقدمے کا جائزہ لے کر اپنی رولنگ دیں اور سپیکر قومی اسمبلی نے قانونی
ماہرین سے مشورہ کرنے کے بعد اپنی رولنگ دے دی ہے جس کے بعد یہ مقدمہ اپنے
منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے۔لہذا بہتر یہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنی ضد اور
ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر جمہوری رویہ اپنائے تا کہ ملک میں یک جہتی کی فضانظر
آئے۔ مسلم لیگ (ن) نے سپیکر کی رولنگ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے
لہذا مسلم لیگ (ن) کےلئے یہی بہتر ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کا
انتظار کرے
اور اس پارلیمانی غنڈہ گردی سے اجتناب کرے جس کا وہ آج کل مظا ہرہ کر رہی
ہے۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں جمہوریت اب بھی انتہائی کمزور ہے اور طالع آزما اس کی بساط
لپیٹ دینے کے لئے بڑے بے تاب ہیں اور اگر سیاسی جماعتوں نے پارلیمنٹ میں
اسی طرح کی روش جاری رہی تو کوئی بعید نہیں کہ فوجی بوٹوںکی آوازیں تیز ہو
جائیں اور جمہوریت ایک دفعہ پھر طاقِ نسیاں ہو جائے۔ بہت سے سیاسی
اداکاراسی کو شش میںہیں کہ فو جی بو ٹوں کی چاپیں اقتدار کی رہداریوںمیں
تیز تر ہو جائیں لہذا وہ اس طرح کی فضا تخلیق کرنے میں جٹے رہتے ہیں لیکن
جب عوامی نمائیندے بھی ان سیاسی ادا کاروں کی تیار کردہ وکٹ پر کھیلیں گئے
تو پھر جمہوری رویوں کی حفاظت کون کرے گا؟ ملک پہلے ہی کئی بحر انوں کی زد
میں ہے لیکن ہم ہیں کہ پا ر لیمنٹ کو مچھلی بازار بنا کر دنیا کے سامنے خود
کو رسوا کر رہے ہیں ۔ ملک کی ساری قابلِ ذکر سیاسی جماعتیں وزیرِ اعظم سید
یوسف رضا گیلانی کی آئینی حیثیت کو تسلیم کرتی ہیں اور اس طرح کے بے ہنگم
اور بے سرو پا احتجاج کا حصہ نہیں ہیں۔ وہ سارے معاملات کو مذا کرات مکالمے
اور باہمی افہام و تفہیم سے حل کرنے کی خواہش کا اظہار کرتی ہیں اور کسی
ایسے احتجاج میں شامل نہیں ہونا چا ہتیں جس کا مقصد جمہو ری سسٹم کو پٹری
سے اتاررنا مقصود ہو۔ جمہوریت میں اکثریت کو فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہو
تا ہے لہذا ا جمہوری اصولوں کی پاسدا ری کرتے ہو ئے مسلم لیگ (ن) کو حکومتی
اتحاد کو کام کرنے کا موقعہ دینا چائیے تا کی جمہوری نظام آگے بڑھتا رہے۔
342 کے ایوان میں مسلم لیگ (ن) کے پاس صرف (95) ارکانِ اسمبلی ہیں لیکن
اقلیت میں ہو نے کے باوجود مسلم لیگ (ن) یہی چاہتی ہے کہ سارے قوا نین اس
کی خو اہشوں کی روشنی میں کئے جائیں اور اگر حکومتی اتحاد ان کی خواہشوں کی
تکمیل نہیں کرتا تو وہ پھر غنڈہ گردی پر اتر آتے ہیں اور سارے جمہوری نظام
کو مفلوج کرنے پر تل جاتے ہیں حالانکہ جمہوریت انھیں اپوزیشن کی حد تک
کردار ادا کرنے کا اختیار دیتی ہے۔۔۔۔ |