عدلیہ،حکمران اور قوم کا امتحان
(Abdul Jabbar Nasir, Karachi)
9 سالہ آمریت کے بعد قائم ہونے
والی مبینہ جمہوری حکومت نے اپنا پانچواں اور آئینی مدت کا آخری بجٹ نہ نہ
کرتے ہوئے بھی بالآخر پیش کر ہی دیا، مگر گزشتہ 4برسوں کی طرح آخری برس کے
بجٹ کی پیشی کے بعد بھی ملک میں نئے اسکینڈل اور بحران سامنے آرہے ہیں۔
ماضی میں اگرچہ مختلف حوالوں سے عدالتی کردار پر سوالیہ نشان لگتے رہے لیکن
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری کے2007ءمیں مشرف کے سامنے
انکار اور2009ءمیں ا ن کی بحالی کے بعد عوام کی نظریں عدلیہ پر ہی لگی ہوئی
ہیں۔ کیوں کہ باقی تمام ادارے بے بس، مفلوج یا پھر کرپشن اور دیگر خرابیوں
کی نذرہوچکے ہیں۔غالباً یہی وجہ ہے کہ مذہبی اداروں، پارلیمنٹ، سیاستدانوں،
فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف پروپیگنڈے میں کامیابی کے بعد اب عدلیہ کو
نشانے پر لیا گیا ہے۔
موجودہ حکمرانوں کی کرپشن کی داستانیں نہ صرف روز اول سے زبان زدِ عام ہیں
بلکہ عدالتی فیصلے اور ناقابل تردید ثبوت بھی ہیں۔ اس کے باوجود صدر،
وزیراعظم، وزرا، اورقیادت” میں نہ مانوں“ کی پالیسی پر گامزن ہے۔ کرپشن کی
وجہ سے وزیراعظم نہ صرف مجرم ٹھرے بلکہ مستقبل میں انھیں نااہلی کا بھی
سامنا ہے۔گزشتہ پانچ سالوں کا جائزہ لیا جائے تو حکمرانوں کے سامنے عوام،
فوج،سمیت تمام ادارے اور قوتیں بے بس نظر آ تی ہیںجب کہ پارلیمنٹ نے
ربڑاسٹمپ کا کردار ادکیا، لیکن ایک ایسا ادارہ بھی ہے جو پاکستان کے بے بس
اور لاچار 18کروڑ عوام کے لیے امید کی کرن ثابت ہوا، وہ ادارہ ہے سپریم
کورٹ آف پاکستان، جس کے سربراہ افتخار محمد چودھری ہیں۔ اسی لیے بڑے
پراسرار طریقے سے انہیں بھی راہ کی رکاوٹ سمجھ کر ہٹانے کی کوشش کی گئی ہے۔
افتخار محمد چودھری کے صاحبزادے ڈاکٹر ارسلان افتخار کی جانب سے بحریہ ٹاﺅن
کے سربراہ ملک ریاض حسین سے مبینہ طور پر مقدمات میں ریلیف کے لیے کروڑوں
روپے لینے کا اسکینڈل منظر عام پر لانے کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ کسی
طرح چیف جسٹس کو راستے سے ہٹایا جائے یا پھر” بگڑے ہوئے آوے کے آوے میں“
انہیں بھی شریک کیا جائے۔ چیف جسٹس نے گزشتہ چار سال کے دوران اپنے تمام
فیصلوں کے ذریعے عملی طور پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ حقیقی معنوں
میں ایک منصف بننے کی نہ صرف اہلیت رکھتے ہیں بلکہ اسلامی احکام کے مطابق
انصاف کا حق بھی ادا کررہے ہیں۔
ڈاکٹر ارسلان اور ملک ریاض اسکینڈل پر ابتدا میں سوشل میڈیا اور بعد ازاں
الیکٹرانک میڈیا کے بعض اینکروں کے ذریعے بھرپور انداز میں سوالات اٹھائے
گئے اور ایک سینئر صحافی کو اپنے انٹرویو کو نشر کرنے کے لیے ”یوٹیوب“ کا
سہارا لینا پڑا۔ ان مشکل حالات میں بھی چیف جسٹس نے صبر وتحمل سے کام لیا
اور اپنے فرزند ڈاکٹر ارسلان افتخار اسکینڈل پر ازخود نوٹس لیا اور ابتدائی
سماعت کے موقع پر واضح کردیاکہ فیصلہ قرآن وسنت کے مطابق ہوگا اور قرآن پاک
کو سامنے رکھا۔ جس نظام (جمہوریت)کو بچانے کے لیے 4سال سے قوم رسوا ہورہی
ہے اس میں تو ایسی مثالیں نہیں ملتی ہیں، البتہ اسلامی تاریخ میں ایسی بے
شمار مثالیں ہیں اور چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اپنے بیٹے کو عدالت میں
طلب کرکے سنت محمدی اور طرزِ فاروقی کی پیروی کی کوشش کی ہے۔ افتخار محمد
چودھری کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے فاطمہ نامی خاتون کی سزا
کا معاملہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک فرمان، خلیفہ راشد حضرت
عمررضی اللہ عنہ کے سامنے اپنے بیٹے کا مقدمہ، سزا کے نتیجے میں موت اور
اندلس کے قاضی کے اپنے بیٹے کے خلاف سزائے موت کے فیصلے کے علاوہ، اسلامی
تاریخ میں متعدد روشن مثالیں مشعل راہ ہیں۔
جن لوگوں نے چیف جسٹس کے خلاف سازش تیار کی انہیں شاید یہ گمان تھا کہ
”اپنے بچوں، عزیزوں اور دوست احباب کو بچانے کے لیے افسران تبدیلی (بعضوں
کو گلگت بلتستان کی وادیوں میں بھیج دیا گیا)سمیت ہر حربہ استعمال کرنے
والوں “کی طرح چیف جسٹس افتخار محمد چودھری بھی انصاف کے مقابلے میں باپ کی
محبت کو ترجیح دیں گے۔ اور معاشرے میں سنائی دینے والی باز گشت کو نظر
انداز یا پھر سودے بازی کرنے پر مجبور ہوں گے، مگر چیف جسٹس کے ازخود نوٹس
نے سارے حربے ناکام بنادیئے۔ جس کے بعد چیف جسٹس کی بنچ میں موجودگی پر
پروپیگنڈا شروع ہوا، مگر یہاں بھی چیف جسٹس نے بنچ سے الگ ہوکرسازشی عناصر
کو بے نقاب کیا ہے، جو اب چیف جسٹس کے استعفے یا مقدمے کو 2013ء(چیف جسٹس
کی ریٹائرمنٹ )تک ملتوی کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، تاکہ اس کی بنیاد پر
عدالت ِعظمیٰ کے فیصلوںپر سوالیہ نشان لگائے جاتے رہیں۔مگرامید ہے کہ عدالت
میں نہ صرف انصاف ہوتا ہوا نظر آئے گا بلکہ سازشی عناصر بھی بے نقاب ہوں گے
اور ملک ریاض حسین کی حقیقت بھی قوم کے سامنے آئے گی۔ جن کے حوالے سے
دوستی، دریادلی اوراعلیٰ سطح پر تعلقات کی داستانیں اب زبان زدِ عام ہیں،
اس سے قبل ملک ریاض حسین کا ذکر اچھے الفاظ میں لیا جاتا رہا ہے۔ بحریہ
دستر خوان کے ذریعے روزانہ ایک لاکھ افراد کو دو وقت کھانے کی فراہمی،
ہاﺅسنگ کے شعبے میں ترقی ہو یا بعض اہم مواقع پر مصالحت، بظاہر کردار مثبت
رہا ہے۔ تاہم یہ سوالات اپنی جگہ موجود ہیں کہ چند سالوں میں ملک ریاض نے
یہ ترقی کس طرح اور کیسے کی اور اس کے پیچھے کون ہے ؟ اور وہ اپنی ترقی کے
لیے کہاں اور کس کو استعمال کرتے رہے ہیں؟ اگرچہ پیپلز پارٹی نے بظاہر یہ
فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس کیس سے دور اور غیر جانبدار رہے گی، لیکن ملک ریاض
حسین اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے مابین گہرے تعلقات سے یہ اندازہ لگانا
مشکل نہیں کہ اس کا فائدہ اور نقصان کس کس کو ہورہا ہے۔بظاہر ایسا لگتا ہے
کہ چیف جسٹس کو پھنسانے کے لیے بڑی باریک بینی سے کام کیا گیا اور اس ضمن
میں میڈیا کے بعض اداروں اور اینکروں کے کردار پر بھی سوالیہ نشان ہےں۔
لیکن لگتا ہے کہ مبینہ سازش کا ” شر خود چیف جسٹس کے لیے خیر “کا باعث بن
رہا ہے۔ ارسلان بے گناہ ثابت ہوں یا مجرم۔ دونوں صورتوں میں چیف جسٹس اور
عدالتی نظام سرخرو ہوگا، تاہم ایک باپ ہونے کے ناتے انہیں تکلیف ضرور ہوگی۔
چیف جسٹس آف پاکستان پر آنے والی آزمائش کے حوالے اسلام کے نظام عدل کے ایک
مثالی واقعہ کا ذکر ضروری ہے۔ سلطان غیاث الدین کا دور
حکمرانی(1366ءتا1377ئ) بنگال کی مسلم سلطنت کا سنہری دور تھا۔ سلطان غیاث
الدین اعلیٰ پایہ کا منتظم، عالم باعمل، زاہد بے ریااور جودوسخا کا پیکر
تھے اور سلطان دفاع سلطنت سے ہرگز غافل نہ تھے، جس کے لیے وہ موقع بہ موقع
جنگی مشقوں کا انعقاد بھی کیا کرتے تھے۔ ایک دن تیز اندازی کی مشق کے دوران
سلطان کے ایک تیر کا نشانہ خطا ہوگیا اور یہ تربیتی احاطے سے باہر جاگرا۔جو
ایک غریب عورت کے بچے کو لگا اور وہ موقع پر ہی خالق حقیقی سے جا ملا۔سلطان
کو اس حادثے کی خبر نہ ہوئی اور مشق مکمل ہونے کے بعد قصر شاہی کا رخ
کیا۔مگر قاضی شہر قاضی سراج الدین کی عدالت میں پھٹے پرانے کپڑے پہنے ایک
کمزور خاتون حاضر ہوگئی اور فریاد کی کہ ”قاضی صاحب! میں ایک بیوہ ہوں
بادشاہ کے تیر سے میرا لخت جگر ابدی نیند سوگیا، ازروئے قانونِ شریعت میری
داد رسی کیجئے “۔
قاضی نے کچھ دیر سوچا اور پھر ایک درہ(کوڑا) مسند قضا کے نیچے چھپا کررکھ
دیا۔ اور عدالت میں حاضر ی کے لیے سلطان کے نام سمن جاری کرتے ہوئے عدالت
کے حکم کی تعمیل کرانے کے لیے قاصد روانہ کیا، جس کو قصر بادشاہی میں
مصروفیات کی وجہ سے سلطان تک رسائی آسان نظر نہ آئی، اس مشکل کے حل کے لیے
اس نے اذان دینی شروع کر دی(آج کے زمانے ایوان صدر یا وزیر اعظم کے سامنے
اس طرح کی آذاں موت کا پروانہ ہے)۔ بے وقت اذان سن کر بادشاہ نے موذن کو
دربار میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ حاضری پر بادشاہ نے بے وقت اذان کی وجہ
معلوم کی، جس کے جواب میں قاصد نے عدالت کا حکم نامہ پیش کیا اور کہا
”سلطان کو محکمہ عدلیہ میں حاضر کرنے کا حکم ملاہے۔مجھے اندازہ ہواکہ قصر
شاہی کا عملہ اس وقت سلطان تک رسائی نہ دے گا، اس لیے میں نے بے وقت کی
اذان کا حیلہ اختیار کیا“۔ سلطان (استثنیٰ کی بحث میں پڑے بغیر)فوراً اٹھا
ایک چھوٹی سی تلوار بغل میں چھپا کر(اتحادیوں کے بغیر) عدالت کی طرف چل پڑا
اور قاضی سراج الدین کے سامنے پیش ہوا قاضی بیوہ خاتون اور بادشاہ وقت کے
درمیان مدعی اور مدعا علیہ والا رویہ اختیار کیا اورفریقین کے دلائل کے بعد
قاضی نے شر یعت کے مطابق سلطان کو قصاص میں قتل کرنے کی سزا سنائی اورسلطان
غیاث الدین نے(آج کے حکمرانوں کی طرح میں نا مانو ں کی بجائے )ملزموں کے
کٹہرے میں( عدالت کی بجائے پارٹی کے فیصلوں تسلیم کرنے کے اعلانات کی
بجائے) اپنے خلاف سزائے موت کو سر جھکاکر تسلیم کیا۔ سلطان غیاث الدین ایک
لاچار ملز م کی حیثیت سے عدالت میں بے یار ومددگارقیدی پرندے کی طرح عدالتی
کٹہرے میں کھڑا تھا جب کہ موقع پر موجود لوگوں کو لگاکہ سلطان اب تھوڑی دیر
کا مہمان ہے اور جر م کی پاداش میں اس پر حد شرعی لاگو ہونے والی ہے۔ جب کہ
قاضی صاحب فیصلہ سنانے کے بعد اس انتظار میں تھے کہ اگر فریقین کے بیچ
شریعت میں دی گئی رعایت کے پیش نظر کوئی سمجھوتہ ہوتا ہے تو ٹھیک، بصورت
دیگر سورج ڈوبنے سے پہلے سلطان کو جلاد کے حوالے کردیا جائے۔ سلطان کی
لاچاری اور کسمپرسی کو دیکھ کر مدعی خاتون کا دل بھرآیا اور اس نے خون بہا
کے عوض سلطان کو موت کے شکنجے سے چھڑانے کا فیصلہ کیا اور قاضی کو اطلاع دی
گئی کہ مدعی سلطان کو خون بہا کے عوض معاف کرنے کے لیے تیار ہوگئی ہے۔قاضی
سراج الدین نے مدعی سے پوچھا ” کیا توبخوشی راضی ہوگئی ؟“ جواب ملا ”سلطان
کی لاچاری دیکھ کر میں نے خون بہا کے عوض معاف کرنے کافیصلہ کرلیا ہے“۔
قاضی نے پوچھا”کیا عدالت میں تیرے ساتھ انصاف ہوا ؟“ خاتون نے جواب دیا ”
قاضی صاحب! آپ کی عدالت میں میرے ساتھ بھرپور انصاف ہوا “۔
مقدمے سے فراغت کے بعد قاضی سراج الدین نے خندہ پیشانی سے سلطان کی تعظیم
کی اور ان کو مسند پر بٹھایا۔ سلطان غیاث الدین نے بغل میں چھپائی ہوئی
تلوار نکالی اور بولا ”قاضی صاحب !میں شریعت کی پابندی کی خاطر آپ کے پاس
حاضر ہوا۔ اگر آپ قانونِ شریعت کی خلاف ورزی کرتے تو اس تلوار سے آپ کی
گردن اڑا دیتا۔ خدا کاشکر ہے کہ آپ نے منصب قضا کا پورا حق ادا کردیا“۔
دوسر ی جانب قاضی سراج الدین نے مسند قضاکے نیچے چھپایا ہوا درہ(کوڑا)
نکالا اورکہا” اے سلطان! اگر آج آپ شریعت کی حد سے ذرا بھی تجاوز کرتے تو
اس درے (کوڑے)سے آپ کی کھال اتار دیتا۔ آج ہم دونوں کے امتحان کا دن تھا“۔
ڈاکٹر ارسلان افتخار اسکینڈل بھی عدلیہ(بالخصوص چیف جسٹس آف پاکستان)
،موجودہ حکمرانوں اور18کروڈ عوام کا امتحان ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس
امتحان میں کون سرخرو ہوتا ہے اور کون قوم مٹاﺅ، مال کماﺅ ، اقتدار بچاﺅ
اور عدلیہ کا مذاق اڑاﺅ مہم پر گامزن رہتا ہے۔ |
|