یہ کہنا بے جا نہ ہو گاکہ
پاکستان میں حکومت،محکموں ،اداروں کو کرپشن کے بڑے ذرائع کے طور پر بلا کسی
خوف و خطر استعمال کیا جا رہا ہے ۔جہاں بھی دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتا
ہے کہ حکومتی عہدیداران کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ مفاد عامہ کو پس پشت
ڈالتے سرکاری اختیارات کو اپنے مفادات میں ناجائز طور پر استعمال کریں اور
ایسا کرنے کو ہی ” مفاد عامہ“ قرار دیا جاتا ہے۔رہی بات آزاد کشمیر کی تو
یہ علاقہ آزاد کشمیر کے سیاست کاروں،حکمرانوں کے کرتوتوں کے نتیجے میں
کرپشن کی سرسبز چراہ گاہ بن چکا ہے۔نہ اہم قومی و ملکی معاملات کا کوئی
شعور ہے نہ عوامی مفاد کا کوئی احساس۔کہا جاتا ہے کہ آزاد کشمیر پاکستان کے
حکمرانوں کی کرپشن کا ایسا میدان بن چکا ہے جہاں وہ اپنے ناجائز کاموں کو
اپنا جائز حق سمجھ بیٹھے ہیں۔ اس میں آزاد کشمیر کے ان سیاست کاروں کا پورا
پورا ہاتھ ہے جو آزاد کشمیر کو انحطاط پذیری کی راہ پہ گامزن کرتے ہوئے اسے
بدنام و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔جیسا کہ میں نے اپنے ایک کالم میں لکھا
تھا کہ جب آزاد کشمیر میں غربت وافلاس تھی،لیکن کردار نظر آتا تھا،آج آزاد
کشمیر کے ہر علاقے میں امراءکی ریل پیل ہے لیکن اضلاع کے اضلاع گھوم جاﺅ،کردار
ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔عوام کو جھوٹ ،فریب کے لالی پاپ چسائے جاتے ہیں
اور عوام بھی کسی افیمی کی طرح جھوٹ کے لالی پاپ چوستے ہوئے ” میرا لیڈر بے
مثال“ کے راگ الاپتے نظر آتے ہیں۔بقول شاعر
دل کے پھپولے جل اٹھے دل کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
اطلاعات کے مطابق آزاد جموں وکشمیر کونسل نے ڈیمانڈ کے بغیر کشمیر کونسل کے
فنڈز سے 80 ملین روپے کا ایک سوفٹ ویئر خرید کر آزادکشمیر بنک کو دیا۔
معلوم ہوا ہے کہ یہ سافٹ ویئر درست کام ہی نہیں کرتا اور نہ ہی آزادکشمیر
بنک نے اس سافٹ ویئر کی کوئی ڈیمانڈ کی تھی۔ اور نہ ہی یہ کشمیر کونسل کا
کام ہے کہ وہ کونسل کے فنڈز سے ارزاں سافٹ ویئر خرید کر بنک کو فراہم کرے۔
یہ معاملہ آزادکشمیر احتساب بیورو میں آنے پر کشمیر کونسل (اسلام آباد) نے
آزادکشمیر بنک کے حکام کو ”مجبور“ کیا کہ وہ ایک لیٹر میں اس بات کی تصدیق
کریں کہ سافٹ ویئر درست کام کررہا ہے۔ اس لیٹر کے حوالے سے بھی ایک کروڑ
روپے کی رقم استعمال ہونے کی اطلاع ہے۔
مزید معلوم ہوا ہے کہ آزادکشمیر بنک میں 30 سے 35 آسامیوں پر بھرتیاں غیر
قانونی/ خلاف ضابطہ/ناجائزطور پر کی گئی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ آزادکشمیر
بنک کی آسامیوں کا امتحان مئی 2012 ءمیں ہوا جبکہ منظور نظر افراد کی
تعیناتی اپریل میں ہی عمل میںلائی جا چکی ہے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ
حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والی ایک رکن اسمبلی کی کزن بنک کا امتحان دینے
والوں میں شامل تھی اور وہی اسی امتحان میں نگران بھی تھی۔ دلچسپ بات یہ کہ
”کزن صاحبہ“ نے مئی میں ہونے والے امتحان سے قبل 6,5 اپریل کو ہی بنک میں
”جائننگ “ دے دی تھی۔ آزادکشمیر بنک کا امتحان دینے والوں میں اکثر ایم بی
اے کی ڈگری کے حامل تھے جبکہ بنک میں بی اے پاس منظور نظر افراد کو بھرتی
کیا گیا ہے۔ آزادکشمیر بنک کے مئی 2012 ءمیں ہونے والے امتحان میں تقریباً
اٹھارہ سو امیدوار شریک ہوئے لیکن بنک میں نااہل سفارشی افراد کی تعیناتیاں
عمل میں آئیں۔مقبوضہ کشمیر کا بنک ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کرتا جا رہا
ہے اور ایک ہم ہیں کہ اپنی کرپشن سے ہر ادارے ،محکمے کو تباہ کرنے کو ہی
تحریک آزادی کشمیر سمجھ بیٹھے ہیں۔
آزاد کشمیر میں حکمران ایسے ہی معاملات میں مصروف ہیں اور اپوزیشن معنی خیز
خاموشی سے یہ سب دیکھتے ہوئے اپنی باری کے انتظار میں ہیں۔بدترین کرپشن اب
اداروں کی تباہی کے درپے ہے ۔تحریک آزادی کشمیر کے بیس کیمپ ،تمام ریاست کی
نمائندہ حکومت کے طور پر قائم ہونے والی آزادکشمیر حکومت،سیاست دانوں کی
نااہلی ، محدود دماغی ، چھوٹی سوچ،ہوس اقتدار و دولت،برادری و علاقائی ازم
اور اسی طرح کی دوسری خرابیوں نے آزادکشمیر کو کرپشن کا ایسا کاروبار بنا
دیا ہے جہاں صاحب اقتدار و اختیار اپنے زور کے مطابق کرپشن میں اپنا منہ
مارتا ہے۔ اس کالم میںپیش انکشافات کسی تادیبی کارروائی کیلئے پیش نہیں
کررہا بلکہ صرف عوام کو ”حقیقت حال“ سے آگاہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔ کیونکہ
بقول شاعر
برباد گلستاں کرنے کو ایک ہی اُلو کافی تھا
یہاں، ہرشاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا |