ریاض ملک کے لئے آصف زرداری کی خدمات

اکبر جمال گذشتہ 18سال سے امریکہ میں مقیم ہے وہ ہر سال دو سال بعد پاکستان آتا ہے اور پھر واپس امریکہ چلا جاتا ہے طویل عرصے سے امریکہ کو ” جائے ذریعہ معاش “ بنائے رکھنے کے باوجود اس نے نہ خود امریکن شہریت حاصل کی نہ ہی اپنی فیملی کے کسی ممبر کو امریکی شہری بنایا،کئی بار کی طرح آج بھی اس کا فون آنے پر میں نے اس سے یہ سوال دہرایاکہ آخر تم نے وہاں کی شہریت کیوں حاصل نہیں کی؟ ،اس نے ہر بارطرح اس مرتبہ بھی مجھے یہ ہی جواب دیا کہ میں پاکستانی ہوں اور صرف پاکستانی ہی رہنا چاہتا ہوں ، بس مجھے سٹیژن شپ مل گئی اوراگر پاکستان میں صحافیوں کواچھی تنخواہیں ملتی تو میں کبھی بھی یہاں آکر عام سی نوکری کرنے کے بجائے پاکستان میں ہی رہتا اور صحافت کرتا نہ کہ یہاں رہ کر مفت میں پاکستانی اخبارات کے لئے کام کرتا۔

ابھی میں اس سے مزید کچھ دریافت کرتا اس نے بے تکلفی سے پوچھا کہ ”انور یہ پاکستانی میڈیا میں کیا تماشہ چل رہا ہے ، ایک بلڈر کو چیف جسٹس کے بیٹے ڈاکٹر ارسلان افتخار کے ساتھ کھڑا کرکے کس کی تذلیل کی جارہی ہے ؟

یار انور چیف جسٹس افتخار چوہدری کی وجہ سے یہاں پاکستان کا نام اور وقار بہت بلند ہوا ہے جس کی وجہ ہماری بھی عزت بڑھی ہے ، اپنے ملک میں ایک یہ ہی تو شخصیت ہیں جن سے بہت سی مثبت اقدامات کی توقع ہے ورنہ تو سب کچھ اللہ توکل ہی چل رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔یار اس معاملے کو آخر اس قدر کیوں کوریج دی جارہی ہے؟اور یہ ملک ریاض کے طیارے کی لینڈنگ سمیت ہر شے کو آخر میڈیا کیوں کور کرہا ہے ؟ یا ر بھائی بتانا آخر باقاعدہ شکایت سے قبل میڈیا نے اس سارے معاملے کو کیوں اہمیت دی ہے ؟کیا یہ اخبارات اور ٹی وی کو بہت اشتہارات دینے والی پارٹی ہے؟ یا کچھ اور نوازشیں بھی یہ کرتا رہتا ہے؟

اکبر سوالات پر سوالات کئے جارہا تھا میرے کچھ کہنے سے قبل وہ دوبارہ بولنا شروع کردیتا اس کے لہجے میں پاکستان کے بارے میں فکرانگیزی واضع تھی۔

اس نے کہا کہ یار میں شاہین صہبائی صاحب سے بھی بات کرونگا کہ آخر ان کے ادارے نے یہ ایشو کیوں اور کن کی خواہشات پر اٹھایا؟اور اسے منظر عام پر لانے سے قبل کیا یہ بھی سوچا تھا کہ ملک اور قوم اورخصوصاََ عدلیہ کی ساکھ کا کیا ہوگا جو بڑی مشکل سے اب تو بہتر ہوئی تھی؟

اکبر کا غصہ بڑھتا جارہا تھا ایک لمبی سانس لیکر پھر اس نے سوالات شروع کردئیے کہ بھائی کوئی ہے جو یہ بتائے کہ یہ کونسی صحافت ہے کہ وہ خبرنشر کردو یا چھاپ دو جس میں عام لوگ زیادہ دلچسپی لیں چاہیں خبر کے دستاویزی ثبوت آپ کے ہاتھ میں ہوں یا نہ ہوں؟ کیاصرف کوئی چیز دیکھنے سے ہی اتنی بڑی خبریںچھاپنے اور نشر کرنے کا سلسلہ اپنے ملک میں شروع ہوچکا ہے؟

یار میرا دل چاہ رہا ہے کہ کامران خان کو فون کروں اوراس سے پوچھو کہ اگر صرف کچھ دیکھنے ہی سے خبر نشر کرنے اور چھاپنے کے تقاضے پورے ہوجاتے ہیں تو اپنے دفتر کےسے متصل گلیوں کو غیر قانونی طور پر رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کئے جانے کی خبر کیوں نہیں چلاتے؟ ان گلیوں کے تقریباََ بند ہوجانے سے ریلوے کالونی کے لوگوں کی مشکلات سے کیوں حکمرانوں اور عوام کو آگاہ نہیں کیا جاتا؟

اس کی زبان رکتے ہی میں نے کہا بھائی اکبر ! اس نے میری بات کاٹی اور کہا بھائی وائی مت بول یار ابھی غصہ آرہا ہے اور یہ جو کراچی میںکھلے عام ہوتا ہے کیا یہ ساری خبریں اور فوٹیجز میڈیا پر اب دکھائی جارہی ہیں؟

نہیں نہ اس نے پھر سوال کیا اور خود ہی بولنا شروع کردیا مجھے معلوم ہے ”تو“ کیا جواب دیگا ،تجھے تو فالج کے اٹیک کے بعد کوئی ٹی وی اور اخبار دفتر میں بھی گھسنے نہیں دیتا ہوگا ؟

میں نے کہا اکبر اب میری بھی سن لے میرا بھائی یہ ٹھیک ہے کہ تو سپر پاور ملک سے بات کررہا ہے اور تجھے اپنے ہی ملک کی فکر ہے ۔ مگر میرے دوست اب ہمارے ملک میں وہ صحافت جو الیکٹرونک میڈیا کے آنے سے پہلے ہوا کرتی تھی ایسے ہی نادر ہوگئی ہے جیسے دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء۔ ۔۔۔۔۔۔صحافتی اصول تو عامل صحافی جانتے ہیں لیکن بھاری تنخواہوں کے دباﺅ میں یہ صحافی بھی اب صرف وہ ہی کررہے ہیں جو مالکان کہتے ہیں اگر وہ ان کی نہ سنیں تو انہیں کوئی چپراسی آکر دفتر کے گیٹ سے باہر کردیتا ہے ۔

اب تو کہیں سے پٹاخے کی آواز آئی تو چینل مقابلے کے چکر میں اتنی ہی خبر چلادیتے ہیں کہ ” فلاں علاقے میں دھماکے کی آواز سنی گئی “ بعد میں چاہے یہ پتہ چلے کہ وہ گاڑی کا ٹائر برسٹ ہونے کی آوازتھی اور اس سے چاہے کتنا ہی خوف پھیلے ٹی وی چینلز کو اس بات سے کوئی غرص نہیں۔

میں نے کہا اکبر! ارسلان افتخار کا معاملا ایک منظم سازش لگتا ہے جو عدلیہ کے خلاف بلکہ ملک کے خلاف ہے ،لیکن اس کے اسکرپٹ رائٹرز کوئی اور نہیں ملک کے ہی خاص لوگ ہیں جو آئندہ الیکشن کی تیاری کے لیئے ضروری سمجھتے ہیں کہ این آر او کیس ،بلوچستان کے گمشدہ لوگوں کامقدمہ اور دوہری شہریت سمیت وہ تمام مقدمات کو “ حکم امتناعی “ مل جائے جو کسی بھی طرح ان کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیںتاکہ ملک پریوں ہی مسلط رہا جاسکے۔

لگتا یہ ہے کہ اس کام کے لیئے ریاض ملک نامی بزنس ٹائیکون اور میڈیا ٹائیکون کی خدمات خصوصی طور پر حاصل کی گئی ہے لیکن مایوسی کی بات نہیں اللہ سے ڈرنے والوں کی اللہ بھی مدد کرتا ہے اور اللہ جب اپنی چال چلتا ہے تو سب مفاد پرست ،ظالم جابر ڈھیر ہوجاتے ہیں۔

قوم دعاگو ہے کہ اللہ چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری کو اپنے دین پر رکھے ، انہیں ہمت عطا کرے اور ان کی ہر طرح حفاظت کرے آمین۔

رہی بات ریاض ملک کی تو انہیں ر استہ کلیئر دینے کے لیئے آصف زرداری اپنا شیڈول ہی آگے بڑھاد بڑھادیتے ہیںاور ان کی حفاظت کے لیئے خصوصی انتظامات بھی ،آخر وہ” دوستوں کے دوست ہیں “۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آصف زرداری اور ان کے ہمنوا دوستی میں ملک کو کہاں تک لے جاتے ہیں؟ لیکن مجھے خدشہ ہے کہ ریاض ملک کے اس ایشوکے دوران ملک میں خدانخواستہ کوئی بڑا واقعہ رونماءنہ ہوجائے اس لئے کم از کم متعلقہ حکام کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہئے۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 165792 views I'm Journalist. .. View More