سلالہ چیک پوسٹ پر 26نومبر
2011کو نیٹوفورسز کی جارحیت کا نشانہ بنے والے پاکستان آرمی کے 26شہیدوں کے
غم میں جہاں پوری قوم کو سوگوار تھی وہیں ہمارے حکمرانوں میں بھی شدید رنج
وغم اور غصہ دیکھنے کو ملا تھا اور اس درد ناک سانحہ نے حکمرانوں میں اتنی
ہمت ،جرات اور جذبہ پیدا کردیا کہ موجودہ حکومت نے نیٹو افواج سے شمسی
ائیربیس خالی کروادی اور پاکستان کے راستے سے افغانستان جانے والی نیٹو
سپلائی پر بھی پابندی عائد کردی تھی پوری قوم نے موجودہ حکومت کے اس غیرت
مندانہ فیصلے کی تعریف کی اور خوب سرہااس کے بعد سے امریکہ اور پاکستان کے
تعلقات میں دراڑ پیدا ہوگئی کیونکہ امریکہ شمسی ائیر بیس کو خالی کروانے
اور نیٹو سپلائی کی بندش پر خوش نہیںتھا جبکہ پاکستان یہ چاہتا تھا کہ
امریکہ سلالہ چیک پوسٹ پر کی گئی کاروائی پر پاکستان سے باضابطہ طور پر
معافی مانگے اور ڈرون حملے کرنا بھی بند کرے لیکن امریکہ نے پاکستان کے اس
مطالبے کو ماننے سے نہ ہی صر ف انکار کر دیا بلکہ اوبامہ نے ایک امریکی ٹی
وی پر انٹر ویو کے دوران یہ کہا کہ امریکہ سُپر پاور ہے اور میں اس سپر
پاور ملک کا بادشاہ ہوں تو پھر مجھے کسی سے معافی مانگنے کی کیا ضرورت ہے
اب اس سانحہ کو ہوئے چھے ماہ ہوچکے جہا ں امریکہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا
وہیں پر پاکستا ن بھی اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹا اور شاید موجودہ حکومت کے
دوراقتدار کے ان چار سالوں میں یہ واحد وہ کارنامہ تھا جس پر عوام کے ساتھ
ساتھ اپوزیشن اور تما م سیا سی جماعتیں بھی خوش تھیں لیکن ہر بار کی طرح اس
بار بھی موجودہ حکومت اپنے کیئے ہوئے فیصلے پرقائم نہ رہ سکی اور اپنے
26شہیدوں کے خون کا سودا کرنے 21مئی 2012ءکو بن بلائے مہمان کی طرح شکاگو
کانفرنس میں شرکت کے لیے امریکہ جا پہنچے حالانکہ پاکستان نیٹو ممالک کی
فہرست میں بھی شامل نہیں ہے اور وہاں پہنچ صدر پاکستان کی یہ عزت افزائی
ہوئی کہ امریکی صدر اوبامہ نے ان سے ملاقات تک نہ کی کیونکہ نیٹو ممالک کی
یہ خواہش تھی شکاگوکانفرنس کے دور ان پاکستانی صدر آصف علی زرداری نیٹو
سپلائی کی بحالی کا اعلان کریں گے لیکن جب زرداری صاحب کی طرف سے نیٹو
ممالک کو ایسی کوئی بھی خوشخبری سننے کو نہ ملی جس کی وجہ سے اوبامہ نے صدر
زداری سے ملاقت بھی نہ کی اور تعلقات میں بہتری آنے کی بجائے مزید دوریا ں
پیدا ہو گئیں اور زرداری صاحب جس خالی کشکول کو بھرنے شکاگو گئے تھے خلاف
توقع وہی خالی کشکول لیے واپس پاکستان آگئے لیکن شکاگو کانفرنس میں شرکت سے
پہلے پاکستان میں یہ چہ مگوئیاں ہو رہیں تھیں کہ حکومت پاکستان نے نیٹو
سپلائی کھولنے پر امریکہ سے فی کنٹینر پانچ ہزار ڈالرز کا مطالبہ کیا ہے
اور حکومت پاکستان کا وہ موئقف کہ امریکہ سلالہ حملے کی معافی مانگے اس سے
بھی پیچھے ہٹ گئی ہے کیو نکہ چند روز قبل ہی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی
طرف سے یہ بیان سامنے آیا کہ کیا امریکہ کے معافی مانگ لینے سے ہمارے
26شہید ہمیں واپس مل جائیں گے؟وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے اس بیان سے یہ
واضع ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران نیٹو سپلائی کھولنے پر پوری طرح سے تیا ر
ہوچکے ہیں اور صدر پاکستان کا شکاگو کانفرنس میں شرکت کرنے کا مقصد اسی ڈیل
کو فائنل کرنا تھا کیونکہ جب سے امریکہ کو یہ پتہ چلا ہے کہ پاکستان اب صر
ف ڈالرز کی بات کررہا ہے ناں کہ معافی نامے کی تب سے امریکہ نے بھی یو ٹرن
لیتے ہوئے یہ مطالبہ کیا ہے کہ سلالہ حملے کی امریکہ نہیں بلکہ پاکستان
معافی مانگنی چاہیے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان مسلل
دوغلا کردار ادا کرتا آرہا ہے پاکستان دہشت گرد جہادیوں کی فیکٹری بن چکا
ہے اور دنیا کے کئی ممالک کو جوہری ٹیکنالوجی کی غیر قانونی منتقلی کا بھی
ذمہ دارہے اور پاکستان نے اس بات پر آج تک عالمی برادری سے با ضابطہ معافی
نہیں مانگی اور ممبئی حملوں میں بھی پاکستانی ملوث تھے ،ستبر 2011کابل میں
امریکی سفارتخانے اور نیٹو دفاتر پر حملوں میں حقانی نیٹ ورک ملوث تھا جسے
آئی ایس آئی کی حمایت حاصل تھی۔ بدھ 30مئی 2012ءکو امریکی اخبار ،شکاگو
ٹربیون، نے پاک امریکہ تعقات کی موجودہ صورتحال پر اپنی رپورٹ میں پاکستان
کے اوپر شدید الزام تراشی کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے پاکستان کو القاعدہ
کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے پاکستان کی اٹھارہ ارب ڈالرز کی امداد کی لیکن اس
کے باوجود اسامہ بڑے سکون سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ایبٹ آباد چھاﺅنی کے
نزدیک زند گی گزارتا رہالیکن امریکوں نے دنیا کے مطلوب ترین فرد کا سُراغ
لگا کر اُسے ہلاک کردیاتو بجائے اس کے کہ پاکستان اپنی کوتاہی پر معافی
مانگتا اس نے الٹا امریکی فوجی اپریشن پر احتجاج کیا اس لیے تمام عالمی
برادری سے اور امریکی سے معافی پاکستان کو مانگنی چاہیے ناں کہ امریکہ
کو۔کتنی آسانی سے امریکہ نے خود کو بے قصور اور پاکستان کو قصور وارثابت
کردیاہے لیکن امریکہ کو یہ سب بکنے کی ہمت خود ہمارے حکمرانوں نے دی ہے
کیونکہ ا گر ہم اپنے موئقف سے پیچھے نہ ہٹتے اور بھیک مانگنے شکاگو نہ جاتے
تو یقینا امریکہ کو اتنی بات کرنے کی جرات نہ ہوتی اب ہمارے حکمرانو ں کا
یہ فرض بنتا ہے کہ وہ امریکہ کو منہ توڑ جواب دیں اور پاکستان کی غیور عوام
اور پاکستان کی خودمختیاری کے لیے کسی بھی فائدے یا نقصان سے بالا تر
ہوکرامریکہ کو یہ بتا دیں کہ پاکستان اس قت تک نیٹو سپلائی بحال کرے گا جب
امریکہ باظابطہ پاکستان سے اور سلالہ کے 26شہیدوں کے خاندان والوں سے معافی
مانگے اور ان کے ورثاءکی مالی امداد کرے اور دسری شرط میں فی کنٹینر جو اماﺅنٹ
بھی طے کر لیں عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں لیکن صرف اور صرف ڈالرز کے بدلے
اپنے 26شہید وں کے لہو کا سودا مت کریں کیونکہ اس سے خدا بھی ناراض ہوگا
اور عوام بھی اور روز قیامت ان شہیدوں کے ہاتھ آپ لوگوں کے گریبانوں پر
ہونگے اور آپ سے اپنے لہوکا قصاص مانگیں گے۔امریکہ اس خوش فہمی میں نہ رہے
کہ وہ طاقت ، آبادی اور ٹیکنالوجی میں ہم سے زیا دہ ہے تو اس لیے وہ جو
چاہے کر سکتا ہے تا ریخ گواہ ہے کہ جب بھی مقابلہ مسلمانوں اور کافر وں کے
درمیان ہوا ہے کافر تعداد اور طاقت میں زیادہ ہونے کے باوجود بھی مسلمانوں
سے کبھی جیت نہیں سکے وہ چاہے جنگ بدر ہو ، جنگ احد ،جنگ خندق ہو یہ پھر
کربلا کا میدان ہو کیونکہ مسلمان اﷲ کی راہ میں لڑنے کو جہاد سمجھتے ہیں
اور جب جذبہ ایمان سے وہ میدان میں اترتے ہیں تو ایک مسلمان بھی دس کافروں
پر بھاری ہوتا ہے ۔ اپنے آپ کو سپر پاور کہلوانے والا امریکہ سن لے اگر اس
جیسے کروڑوں اور امریکہ بھی مل جائیں تو سپر پاور نہیں بن سکتا کیونکہ اس
دنیا میں سپر پاور صر ف اور صر ف خدا کی ذات پاک ہے اس ذات کبریا سے بڑی
سپر پاور نہ کبھی تھی نہ ہے اور نہ ہی کبھی ہوگی کیونکہ آج کل اور ہمشہ کے
لیے سپرپاور!لا الہ الاﷲ ۔۔۔ہے |