فضائل شعبان

فضائل شعبان
اے رب کا ئنات ! ساری تعر يفيں تير ے لئے ہيں۔تووحدہ لاشريک ہے۔باغوں ميں کھلے ھو ئے پھولوں کا حسن دلفر يب،درياؤں کی روانی،آسمانوں کی وسعتيں،ليل ونہا ر کا بدلنا تير ے خالق ھونے پر دال ہے۔تيری کن کن نعمتوں کا شکر اداکيا جائے۔تو اپنی مخلوق پر کس قدر مہربان ھے۔توان کی تربيت صحيحہ کی خاطر کيسے کيسے سامان مہيا کرتا ہے۔اے رب جليل !تيری تعر يف ميں صبح و شام عند ليبان چمن کے نغموں سے فضا معمور رہتی ہے۔بے شمار فرشتے ہر وقت تيرے حضور سر سجود رہتے ہيں۔کوہ و دمن سے سبحان تيری قدرت کی آوازيں اٹھتی رہتی ھيں۔ليکن تيری تعريف کا حق پھر بھی ادا نہيں ھوتا۔ھو بھی کيسے؟جہان کے سمندر سيا ہی بن جائيں۔يہ خشک ھو سکتے ھيں ليکن تير ی تعر يف کا حق ادا نہيں ھو سکتا ھے۔اے رب عليم و خبير تو دلوں کی جا ننے والا ھے۔اپنے عا جز بندے کی طرف سے
اپنی تعر يف و ثنا ميں يہ حقير سا ہديہ قبول فرما۔الحمد للہ رب العا لمين۔
اے اللہ ! تيرے بعد تيرے حبيب صلی اللہ عليہ وسلم کی شان ھے ۔ہم تيری ہی تو فيق سے تيرے حبيب صلی اللہ عليہ وسلم کے حضور التجا کرتے ھيں۔اے آقا ! کروڑوں درود ہوں آپ پر کہ آپ کے بحر عظمت ميں بھی لا کھوں با کمال غواص غو طہ زن ہوئے ليکن اس بحرے پاياں
کا کنارہ نظر نہ آيا۔تھک ہا ر کر آخر يہی کہنا پڑا۔
" بعد ازخدا بزرگ توئی قصہ مختصر "
اے امت کے سہارے !ان رحمتوں سے ہمارا بھی کوئی حصہ ہو جائے جودن رات تيرے قبہ انور
پر برستی رہتی ہيں۔
صلی اللہ عليک يا رسول اللہ وسلم عليک يا حبيب اللہ
نا ظرين ! اپنے خالق کی نعمتوں کو ديکھو ! اس نے کھا نے پينے کے لئے ديا،پہننے کا بندوبست کيا،ہماری سہو لت کے لئے درياؤں اور ہواؤں کو مسخر کر ديا،ہميں شعور بخشا تاکہ ہم مسائل زيست کو خوش سلوبی سے حل کر سکيں۔اگر وہ ہماری ايک آنکھ لے ليتا ،ہميں لنگڑ ا بہر ہ کر ديتا ، تو ہم اس کا کيا بگاڑ سکتے تھے۔قطعاً نہيں،ہميں ہر حال ميں اللہ
کا شکر گزار رہنا چا ہيے۔
ستم ظريفی تو يہ کہ بجا ئے اللہ کو يا د کرنے کے لہو و لعب ميں پڑے ہو ئے ہيں۔احکام خداوندی پر عمل تو ايک جا نب آج ہم کھلم کھلا اسلام کی حدود سے تجاوز کر رہے ہيں۔اپنے معا شرے ميں نظر دوڑائيے آج ہم ميں کونسا عيب نہيں۔کيا آج شراب نہيں پی جاتی؟کيا رقص وسرور کی محفليں منعقد نہيں ہو تيں؟کيا آج سود کی دکا نيں بند ہو چکی ہيں ؟ کيا آج ہم ناموس مصطفٰی صلی اللہ عليہ وسلم کو داغدار کرنے کی کو شش نہيں کر رہے ؟ سو چئے ! خدارا سو چئے ! ! ! اپنے گريبان ميں جھا نک کر فيصلہ کيجئے کہ کہاں تک
اللہ کی رسی کو تھامے ہوئے ہيں۔
وائے نا کا می مسا ع کارواں جا تا رہا
کارواں کے دل سے احساس زياں جا تا رہا
کيا آج ہم خدائی گرفت کے قابل نہيں؟ہم عذاب الٰہی کے مستحق نہيں؟جواب نفی ميں نہيں
،اثبات ميں ملے گا۔
قطع نظر اپنے اعمال کے اللہ تعالٰی تو بڑا رحمان ہے۔غفورالرحيم ہے۔ھر وقت اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ھے۔اگر آج ہم خلوص نيت سے عہد کر ليں کہ غيبت،شراب نوشی،شرک،لواطت،زنا،سود خوری جيسی حرکات قبيح سے بچتے رہيں گے۔ہم کتمان حق کی طرف نہيں جا ئيں گے۔عيا شی،ظلم و تکبر ہمارا شيوہ نہ ہوگا۔ہماری عبادتوں ميں ريا کاری اورخود نمائی کار فرمانہ ہوگی۔ہماری بہنيں ناچ و رنگ،فحش گانوںاور شوھروں کی نافرما نی سے بچتی رہيں گی۔تو آپ ديکھيں جہاں اللہ تعا لٰی ہم پر سکون واطمينان اتارے گا،وہاں ہم میں ايک بار پھر وہ جذبہ عود آئے گا۔جس سے ہم دين محمد ي صلی اللہ عليہ وسلم کو تمام اديان پر غا لب کر سکيں گے۔عدل و انصاف کے پر چم گاڑے جائيں گے،اخوت و مساوات کا
دور دورہ ہوگا۔
قرآنی رو سے اگر انسان کی تخليق کا مقصد جا نا جا ئے تو صرف اللہ کی عبادت ہے۔جيسا کہ اللہ تعا لٰی نے فر ما يا۔ " نہيں پيدا کياميں نے انسان کو مگر اپنی عبادت کے لئے"۔
انسان فطر تاً کمزور واقع ہوا ہے ۔کما حقہ اس کی عبادت کا حق ادا نہيں ہو سکتا۔کيو نکہ اس سے اس معا ملہ ميں اکثر کو تا ہی ہو تی رہتی ھے۔رغبت ہميشہ گناہ کی طرف رہتی ہے۔کوئی شخص ايسا دعوے سے کہہ سکے کہ ميں اللہ کے حقوق پورے کرتا ہوں ۔ليکن اس کے مقا بلے ميں رحمت خداوندی بہت وسيع ہے۔اللہ تبارک و تعالٰی اپنے بندوں پر ابواب رحمت کھو لنے کی خا طر مختلف مواقع فراہم کرتا ہے۔جن کی بر کت کے طفيل گناہ گار انسان اپنےقلب کوگناہ کی آلودگيوں سے پاک کرسکتاہے۔مثلاًجمعہ شريف ميں ايک سا عت،
ليل البراة،ليل القدر،شب معراج،ليل العرفہ وغيرہ۔
اب ہم پر فرض عائد ہوتاہے کہ ہم ان سا عتوں سے فا ئدہ اٹھائيں۔جہاں تک ہوسکےان ايام ميں
گڑ گڑا کر رب کا ئنات سے مغفرت طلب کريں چونکہ ان صفحات ميں صرف فضائل شعبان کے
فضا ئل مطلوب ہيں۔اس لئے دوسرے با برکت ايام کےلئے صرف اشارہ ہی کا فی ہے۔
شعبان کی فضيلت
حضرت غوث پاک رحمتہ اللہ فرماتے ہيں۔
"اللہ تعالٰی نے چار چيزيں اختيار کيں اور ان ميں ايک کوچن ليا۔ملائکہ ميں جبرائيل کو ديگر
فرشتوں پر فضيلت دی، انبياميں موسٰی عليہ السلام،ابراہيم عليہ السلام،عيٰسی عليہ السلام اورحضور محمد مصطفٰی صلی اللہ عليہ وسلم کو چن کر محمد صلی اللہ عليہ وسلم کو سب پر فضيلت دی،خلفا ميںصديق اکبر رضی اللہ تعالٰی کو بلند مقام بخشا،مساجد ميں مسجد حرام،
مسجد اقصٰی،مسجد نبوی اور مسجد سينا کو چن کر مسجد حرام کو فضيلت دي۔اسی طرح مہينوں ميں چار ماہ چن لئے۔رجب،شعبان،رمضان،محرم اور ان ميں شعبان کو چن ليا۔۔۔۔۔۔۔۔"
غوث پاک رحمتہ اللہ شعبان کي فضيلت بيان کرتے ہوئے مزيدفر ماتے ہيں:۔
شعبان کی فضيلت کی وجہ يہ ہے کہ اس مہينہ کو حضور صلی اللہ عليہ وسلم نے اپنا مہينہ قرار ديا۔چونکہ حضور صلی اللہ عليہ وسلم تمام انبيا سے افضل ہيں اس ليے رب قدير نے آپ صلی اللہ عليہ وسلم کے مہينہ کو بھی افضل بنا ديااس ماہ کو کريم الطرفين بھی کہا جاتاہے۔کيونکہ اس سے پہلے بھی رجب شريف کامقدس مہينہ ہے اور بعد ميں بھی رمضان المبارک کا با برکت
ماہ جس ميں اللہ کی بے بہا رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔۔۔۔۔"
شب برات کے فضائل ميں شيخ عبد الحق رحمتہ اللہ محدث دہلوی نے اپنی مشہور و معروف تصنيف "ما ثبت با الستہ " ميں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ايک روايت نقل کی ۔
وجہ تسميہ
اس مہينہ کا نام شعبان اس لئے رکھا گيا کہ روزہ دار (نفلی روزہ رکھنے والا) کی نيکيوں کے ثواب ميں درخت کی شا خوں کی طرح اضا فہ ہوتا ہے۔يعنی جو شخص اس مقدس ماہ ميں نفلی روزے رکھتا ہے۔اللہ تعالٰی اسے اجر عظيم عطا فر ما تاہے۔لفظ شعبان پر غوث صمدانی،محبوب لامکانی،پير پيراں ميرمياں شيخ عبدالقادرجيلا نی رحمتہ اللہ نے"غنيتہ الطاليبن
" میں بڑی پياری بحث کی۔
آپ فر ماتے ہيں:۔
شعبان خمس احرف شين وعين وبا والف و نون قا لشين من الشرف و العين من العلو والبا من البر والا لف من الا لفتہ والنون من النور فھذہ العطا يا من اللہ تعالٰی للعبد فی ھذہ الشھرة
"شعبان کے پانچ حروف ہيں۔ش،ع،ب،ا،ن۔پس ش شرف سے ہے ۔ع علو سے،ب بر سے،الف الفت سےاور نون نور سے۔ پس يہ عطا ہے بندے کے لئے اللہ کی طرف سے اس ماہ ميں ۔"
يعنی شعبان کا مہينہ جب آتا ہے تو اپنے ساتھ شرافت،بلندی،نيکی،محبت اور اللہ کا نور لے کر آتا ہے۔اگر کوئی شخص خلوص نيت سے اپنے گناہوں سے تا ئب ہو کر اللہ کاقرب حاصل کرنا چاہے تو اس ماہ کی فضيلت کی وجہ سے اللہ تعالٰی اس کے گنا ہوں کو معاف فرما کر روحاني طور پر اس کے د رجات بلند فر مائے گا۔صرف يہی نہيں بلکہ اسے اللہ کے نور کي وہ
دولت ميسر آتی ہے جواصل ميں فقراکی روحاني غذا ہے۔
شعبان عبادت کا مہينہ
حضرت غوث الا عظم رحمتہ اللہ اس ماہ کی فضليت بيان کرتے ہوئے مزيد فرماتے ہيں کہ يہ ايک ايسا مہينہ ہے کہ اللہ تعالٰی رحمت کے تمام دروازے کھول ديتا ہے۔گناہ گاروں کے گناہ معاف کئے جاتے ہيں اور بديوں کا کفارہ ادا کيا جا تا ہے۔اس لئے اس مقدس ماہ ميں حضورعلی الصلوةوالسلام پر کثرت سے درود شريف پڑھنا چا ہيے۔کيونکہ زمانہ تين قسم کا ہوتا ہے۔ماضی،حال،مستقبل۔ماضی عبرت کا زمانہ ہوتا ہے اور حال عمل کا اور آنے والا زمانہ اميد کا دن ہوتا ہے۔لہذامسلمانوں کو ان تينوں مہينوں رجب،شعبان،رمضان کا خاص خيال رکھنا چاہيےاور شعبان کے مہينے ميں عبادت بہت زيادہ کرنی چاہيے۔کيونکہ رجب گزر چکا ہوتا ہے اور رمضان کے بارے ميں يہ نہيں کہا جا سکتا کہ تم اس ميں زندہ رہو گے۔يا قادر مطلق سے جا ملو گے ۔ اس لئے اس مہينہ کو غنيمت جان کراس ميں خوب گڑگڑا کر رب قد ير سے
اپنے گناہوں کی معا فی مانگنی چاہيے۔
شعبان ميں روزے رکھنا
يہ ايک ايسا ماہ ہے جس ميں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر روزے رکھا کرتے تھے
حضرت عائشہ صديقہ رضی اللہ تعا لی عنہ فر ماتی ہيں
کان يصوم شعبان کلہ وکان يصوم شعبان الا قليلا (مشکوة شريف)
يعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان ميں يا تو سارا ماہ ہی روزے رکھتے تھے يا زيادہ رکھتے اور کم چھوڑ ديتے تھے۔ايک اور حديث شريف ميں آيا ہے۔حضرت ام سلمہ رضی
اللہ تعا لی عنہ فرما تی ہيں:۔
مارا يت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شھرين متابعين الا شعبان و رمضان (مشکوة شريف١٧٤)" شعبان اور رمضان کے علاوہ ميں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پے در
پے روزے رکھتے ہوئے نہيں ديکھا"
يعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان ميں پے در پے روزے رکھتے ہوئے نہيں ديکھا" پے د ر پے ر و ز ے رکھتے ہو ئے يہا ں تک کہ حضرت عا ئشہ صديقہ رضی اللہ تعا لی عنہ
فر ما تی ہيں کہ ميں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کيا۔يارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آ لہ و سلم !ميں آپ کو ا کثر شعبان ميں روزہ دار پاتی ہوں۔تو آپ نے فرما يا عا ئشہ
صديقہ رضی اللہ تعا لی عنہ
انہ شھر ينسخ الملک الموت فيہ اسم من يغيض روحہ فی بقيتہ العام فانا احب ان لا ينسخ
اسمی الا واناصائم
يہ ايک ايسا مہينہ ہے کہ ملک الموت کے لئے لکھا جا تا ہے اس شخص کا نام جس کی روح باقی سال ميں قبض ہونا ہوتی ہے۔پس ميں پسند کر تا ہوں جب ميرا نام لکھا جائے تو ميں روزہ دار ہوں۔
حاصل مدعا يہ ہے کہ اس ماہ ميں لو گوں کو موت و حيات کے فيصلے ہو تے ہيں۔اس لئے يہ
باعث عبرت ہے اس ميں خوب خدا کو يا د کر نا چا ہيے جہاں تک شعبان کے روزوں کا تعلق ہے تو ہمارے لئے بہتر ہے کہ اس ماہ کے پہلے پندرہ دنوں ميں روزے رکھ کيا کريں اور آخری
پندرہ دن افطار ميں گزاريں۔کيو نکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مايا
اذا نتصف شعبان فلا تصوم (مشکوة شريف)
جب نصف شعبان گزر جائے تو روزے نہ رکھو۔۔۔۔۔
اگر چہ لگاتار روزے رکھنے ميں کو ئی حرج نہيں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول صرف اس وجہ سے ہے کہ کہيں مسلمان شعبان ميں لگا تار روزے رکھ کراتنے کمزور نہ پڑجا ئيں کہ ر مضا ن کے فرض روزے ان سے رہ جا ئيں ہاں ! اتنی بات ضرور ہے کہ رمضان سے دو چار
دن قبل روزہ نہ رکھنا بہتر ہے۔بعض بزرگوںکے نزديک تو شعبان کے پورے روزے رکھنے ميں کراہت ہے۔کيو نکہ رمضان سے مشا بہت ہوتی ہے۔بہر حال شعبان شريف ميں روزے رکھنے کی بہت فضيلت ہے۔اس لئے مسلمانوں کو چاہيے کہ شعبان ميں روزے رکھيں تا کہ ان کی
نيکياں زيادہ ہو سکيں۔اور بديوں کا کفارہ بن جائے۔
نسائی کی ايک اور حديث شريف ہے ۔کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا کہ شعبان ايک ايسا مہينہ ہے کہ اس ميں اللہ کے حضور لوگوں کے اعمال پيش کئے جا تے ہيں۔اس لئے
ميں چاہتا ہوں کہ جب ميرے اعمال پيش کئے جائيں تو ميں روزہ دار ہوں۔
احا ديث مختلفہ سے شعبان کی جو خصو صيات ملتی ہيں انہيں نمبر وار لکھا جا تا ہے:۔
١۔ شعبان عمل کا مہينہ ہے
٢۔ شعبان محبت کا مہينہ ہے
٣۔ شعبان خدمت کا مہينہ ہے
٤۔ شعبان کوشش کا مہينہ ہے
٥۔ شعبان بدی کو دور کرنے والا مہينہ ہے
٦۔ اس ميں لوگوں کے اعمال اللہ کے حضور پيش کيے جاتے ہيں۔
٧۔ شعبات عبادت کر نے کا مہينہ ہے
٨۔ لوگوں کی روزی کا حساب ہوتا ہے
٩۔ موت و حيات کے فيصلے ہوتے ہيں
ذوالنون مصری نے فر مايارجب کھيتی کا مہينہ ہے اور شعبان اس کو پا نی پلا نے کا۔بعضوں نے کہا کہ سال ايک درخت ہے۔اور رجب اس کے پتے ہيں اور شعبان کے دن اس کا پھل ہيں اور رمضان اس کا ميوہ۔
حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت ہے کہ اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہلال شعبان ديکھتے تو قرآن شريف کو پڑھنا لازم کر ليتے تھے۔
ان احا ديث سے شعبان کی فضيلت کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔شعبان کي فضيلت پر اور بھی بے شمار حديثيں ملتی ہيں۔ليکن طوالت کے خوف سے اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔اور شب برات جو اس ماہ کے نصف ميں آتی ہے ۔اس کے فضائل بيان کرنے کی سعی کر نے لگا ہوں۔
يوں تو اللہ تعالٰی نے ہر رات ميں ايک ايسی سا عت رکھی ہے جس ميں وہ پکا رتا ہے کہ ہے کو ئی بخشوانے والا؟ہے کوئی ميری طرف رجوع کرنے والا کہ ميں اس کے گناہ معاف کروں؟
اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مايا کہ رات کے تيسرے حصہ ميں تم ان لوگوں ميں سے ہو جاؤ۔جو اللہ کا ذکر کرتے ہيں۔کيونکہ يہ وقت اللہ سے نہايت قر بت کا ہوتا ہے۔ليکن سال ميں کچھ ايسی راتيں بھی ہيں ۔ جن ميں رحمت خداوندی کا نزول بہت زيادہ
ہوتا ہے ان راتوں کی تعداد چار بتا ئی گئی ہے۔
١۔ عيد الا ضحٰی کی شب
٢۔ عيد الفطر کی شب
٣۔ شعبان کی پندرھويں شب
٤۔ عرفہ کی شب
اس کے علاوہ يہ رايتں بھی بڑي اہميت کی حامل ہيں۔جمعہ کی شب اور ليلتہ القدر يعنی
رمضان کے آخري عشرہ کی ايک شب جس کو مختلف طريقوں سے روايت کيا گيا۔حاصل
کلام يہ ہے کہ شعبان کی پندرھويں شب بڑي ہی اہميت کی حامل ہے۔اس رات کے مندرجہ
ذيل نام بيان کئے جاتے ہيں
١۔ ليلتہ البراة
يعنی دوزخ سے بري کر دينے والی رات۔غوث الاعظم رحمتہ اللہ نےفرمايا اسے اس لئے ليلتہ البراة کہا جاتا ہے کہ اس ميں دو براتيں ہيں۔ايک بدبختوں کے لئے اور ايک خدا کے دوستوں
کے لئے
٢۔ ليلتہ المبارکہ
برکت والی رات۔يعنی اس ميں اللہ تعالٰی کی بے بہا رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔
حضرت عا ئشہ صديقہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فر ماتی ہيں
ايک رات ميں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے بستر پر نہ پايا۔تلاش کے لئے نکلی تو آپ بقيع(قبرستان مدينہ)ميں تھے۔جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ديکھا تو فرمايا۔کيا تجھے ڈر تھا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تجھ پر زيادتی کرے گا۔عا ئشہ صديقہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتی ہيں۔ميں نے کہا يارسول اللہ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ميں نے گمان کيا کہ شايد آپ ازواج مطہرات ميں سے کسی کے پاس تشريف لے گئے ہيں تب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مايا کہ مجھے جبرائيل عليہ السلام نے خبر دی تھی۔کہ آج شعبان کی پندرھويں ہے۔اس رات رب کائنات اتنے گناہ گاروں کوجہنم سے نجات ديتا ہے جتنے قبيلہ کلب کے بکريوں کے بال ہيں۔(مفہوم حديث)اس رات سال ميں تمام پيدا ہونے والوں اور مرنے والوں کے نام لکھ ديئے جاتے ہيں۔اعمال کے اٹھانے کا دن بھی يہی ہے۔اس لئے اے دوست سستی اور کاہلی سے کام نہ لينا يہ بھی ہوسکتا ہے کہ تيرا نام اس سال کے مرنے والوں ميں ہو۔توبہ کا کوئی وقت ہاتھ سے نہيں کھونا چاہيے۔يہ رات تو وہ رات ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فر ماتے ہيں کہ" جب يہ رات آتی ہے تو ايک منادی ندا کرتا ہے کہ ہے کوئی بخشش کا طلب گار؟ہے کوئی سوال کرنے والا؟کہ ميں اس کا
سوال پورا کروں"
بعض علماءنے لکھا ہے کہ قرآن مجيد کی سورہ دخان کی اس آيہ کريمہ
فيھا يفرق کل امر کيم امرامن عندنا
ميں بھی شب برات ہی کا تذکرہ ہے
رات کا قيام دن کا روزہ
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا۔شعبان کی پند رھويں تاريخ کورات کو قيام کرو،اور دن کو روزہ رکھو(ابن مسلم)
جو شخص پندرھويں کوروزہ رکھتا ہے آسمان سے ايک فر شتہ اسے پکارتا ہے۔اے فلاں تجھے مبارک ہو خدا نے تيرے تمام گناہ معاف کر دئيےہيں(مقصودالقا صدين)
شعبان ميں پڑھی جانے والی نفلی نمازيں اور ان کا ثواب
جس شخص نے شعبان کی پہلی رات کو بارہ رکعتيں اس طرح ادا کيں کہ ہر رکعت ميں فاتحہ کے بعد ٢٥ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھی اس کے لئے بارہ سالوں کا ثواب لکھ ديا جاتا ہے اور پيدائش کے دن کی طرح سا رے گناہوں سے پاک ہو جاتاہے۔جس نے شعبان کےآخری جمعہ کی
رات کو دورکعتيں اس طرح پڑھيں کہ ہر مرتبہ سورہ فاتحہ کے بعد تيس بار سورہ اخلاص پڑھی۔حج اکبر کا ثواب لکھ ديا جاتا ہے اور ايک روايت ميں ہے کہ جس نے شعبان کے آخری جمعہ کی رات کو مغرب اور عشاء کےدرميان دورکعت پڑھيں ہر رکعت ميں فاتحہ کے بعد آيتہ
الکرسی سورہ کافرون اوردس مرتبہ سورہ اخلاص پڑھی اگر اسی سال مر گيا تو شہيدمرے گا
شعبان کی پندرھويں تاريخ کی نماز
من صلی فی يوم الخامس العشر ثلثين رکعات يقرء فی کل رکعتہ بعدالفاتحہ الاالاخلاص سبع
مراة کتب اللہ لہ اجرالف شھيد والف غازی والف عنق رقبہ (مقصود القاصدين ص٢٤)
جس شخص نے پندرھويں کو تيس رکعات اس حالت ميں پڑھيں کہ ہر مر تبہ سورہ فاتحہ کے بعد سات مرتبہ سورہ اخلاص پڑھی اللہ تعالٰی اس کے لئے ہزار شہيد،ہزار غازی اور ہزار غلام
آزاد کر دينے کا ثواب لکھ ديتا ہے۔
پندرھويں رات کو قبرستان جانا
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی يہ عادت مبارکہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان کی پندرھويں تا ريخ ہوتی تورات کوقبرستان تشريف لےجاتے۔جيسا کہ حضرت عا ئشہ
صديقہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روايت سے ثابت ہے اس شب کو ہميں بھی اپنے قريبی قبرستان ميں جا کے اپنے گناہوں کی معافی اور مدفون بھائيوں کی مغفرت کی دعا کرنی چاہيے۔اس لئے کہ ايک تو ايسا کرنے سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت شريفہ پر عمل ہوتا ہے۔دوسرا مومن کی دعا سے رب کا ئنات ان قبروں والوں کو جو عذاب ميں مبتلا ہوتے ہيں معاف فر ما د يتے ہيں ۔ نيکوں کے درجات کو بھی بلند فرما تا ہے اور ايسا کرنے والے بھی اجر
عظيم کے مستحق ہوتے ہيں۔
جہاں تک ايصال ثواب کا تعلق ہے علماء کی اکثريت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مردے کو مرنے کے بعد بھی زندوں کی طرف سے ثواب پہنچتا رہتاہے۔جيسے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مرنے کے بعد آدمی کے تمام اعمال کا ثواب ختم ہو جاتا ہے مگر تين نيکيوں کاثواب مرنےکےبعدبھی ملتا رہتاہے۔صدقہ جاريہ،علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائيں،نيک
اولاد جو والدين کے حق ميں دعا کرتی ہو۔
"شرح الصدور" ميں علامہ سيوطی نے نقل کيا ہے کہ حضرت مالک بن دينار رضی اللہ تعالٰی عنہ فر ماتے ہيں کہ ميں جمعہ کی رات قبرستان گياميں نے ديکھاکہ وہاں نور چمک رہا ہے۔ذہن ميں خيال پيدا ہوا کہ شا يد اللہ نے قبرستان والوں کو بخش ديا ہے۔غيب سے آواز آتی ہے۔"اے مالک!يہ مسلمانوں کا تحفہ ہے۔جو انہوں نے اہل قبور کو بھيجا ہے"ميں نے پوچھا "مسلمانوں نے کيا تحفہ بھيجا ہے؟"آواز آئی!"ايک مرد مومن نے اس رات ميں اس قبرستان ميں قيام کيا اور دو رکعت نماز پڑھی۔اس طرح کہ فاتحہ کے بعد سورہ کافرون اور سورہ اخلاص پڑھی اور کہا کہ اے اللہ!اس کا ثواب ميں نے مومن اہل قبور کو بخشا۔اسکی وجہ سے اللہ تعالٰی نے يہ روشنی
اور نور بھيجا اورہماری قبروں ميں مشرق و مغرب کی وسعت پيداکر دی۔
مالک کہتے ہيں کہ اس کے بعد ہميشہ ميں جمعرات کو دونفل پڑھ کے اس کا ثواب مومنين کو بخشتا۔
ايصال ثواب پر فقہ کی مشہورومعروف کتاب ميں صاحب ہدايہ نے يوں تصريح کی ہے
ان الا نسان لہ ان يجعل ثواب عملہ لغيرہ صلوةاوصومااو غيرھا عند اھل السنتہ والجماعتہ
اہل سنت والجماعت کے نزديک انسان اپنے عمل کا ثواب دوسرے شخص کوپہنچا سکتا ہے ۔ ۔ خواہ نماز ہو خواہ روزہ ۔
ايصال ثواب کے سلسلے ميں بے شمار احاديث سند کے طور پر پيش کی جا سکتی ہيں۔ليکن طوالت کےخوف سے امام نودی ہی ايک اقتباس نقل کرتے ہيں "امام نودی نے مسلم شريف کی شرح ميں لکھا ہے کہ صدقہ کا ثواب ميت کو پہنچنےميں مسلمانوں ميں کوئی اختلاف نہيں ہے۔يہی مذہب حق ہے۔اوربعض لوگوں نے جو يہ لکھ ديا کہ ميت کو اس کے مرنے کے بعد ثواب نہيں پہنچتايہ قطعاًباطل ہے۔اور کھلی ہوئی خطاہےاس لئے ہر گز يہ قول قابل التفات
نہيں"
اس قول سے ثابت ہوگيا کہ ميت کو ہر نيک کام کا ثواب پہنچايا جا سکتاہے۔
اس رات ميں ديگر مفيد عبادتيں
صلوة التسبيح کا اہتمام کرنا:
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اس نماز کی تعليم ديتےہوئےفر ماياکہ"اے چچا!اس نماز کے پڑھنے سےخداتيرےاگلےپچھلے،نئے پرانے،
دانستہ نا دانستہ،چھوٹے بڑے،ظا ہر پوشيدہ سب گناہ بخش دے گا"
ترکيب
نيت باندھ کر ثناء کے بعد پندرہ مرتبہ پڑھے،
سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا للہ واللہ اکبر۔پھر فاتحہ کے بعد سورہ ملانے کے بعد دس مرتبہ،رکوع دس مرتبہ،قومہ ميں دس مرتبہ،سجدہ ميں دس مرتبہ،جلسہ ميں دس مرتبہ پھر دوسرے سجدہ ميں دس مرتبہ پڑھے۔ہر رکعت اسی طرح ادا کرنی ہے۔نماز کی رکعتيں چارہيں۔
اس نماز کے پڑھنے سےخدا تعالٰی ہر قسم کے گناہ معاف فر ما ديتا ہے۔
٢۔ درود شريف کی کثرت بر تنی چاہيے۔
٣۔ ذکرکی محفليں منعقد کی جائيں۔اسلئے کہ حضرت کعب الاخباررضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرماياکہ اس رات ميں جو شخص تين مرتبہ لا الہ الاللہ پڑھے تو اللہ تعالٰی پہلی مرتبہ اس کے گناہوں کو مٹا ديتے ہيں۔دوسری مرتبہ جہنم سے آزاد کرتے ہيں۔اور تيسری مرتبہ پڑھنے سے وہ جنت کا مستحق ہوجاتا ہے۔
مجلس ذ کر
ايک روايت ہے کہ فر شتے ذاکرين کی محفل کو تلاش کرتے رہتے ہيں۔جب انہيں کوئی ايسی محفل نظر آتی ہے ۔جہاں اللہ کا ذکر ہو رہا ہو۔توان کے سا تھ بيٹھ جاتے ہيں اور اپنے پروں سے ايک دوسرے کا حلقہ کر ليتے ہيں۔يہاں تک کہ آسمان دنيا اور ذاکرين کے درميان خلابھرجاتا ہے۔جب مجلس ذکر ختم ہوتی ہے تو فرشتےآسمان پر پہنچ جاتے ہيں پھر اللہ تعالٰی
ان فرشتوں سے پوچھتا ہے۔
"تم کہاں سے آئے ہو؟"
وہ کہتے ہيں
"ہم تيرے بندوں کے پاس سے آئے ہيں۔جو زمين پر تيری تسبيح و تہليل کرتے ہيں،تيری تکبر پڑھتے ہيں،تيری بزرگی بيان کرتے ہيں اور تجھ سے مانگتے ہيں"
اللہ تعالٰی فر ما تا ہے،
"کيا مانگتے ہيں؟"
فر شتے جواب ميں عرض کرتے ہيں،
"تجھ سے تيری جنت ما نگتے ہيں،
خدا فرماتا ہے
"کيا انہوں نے ميری جنت ديکھی ہے؟"
فر شتے کہتے ہيں
"اے رب ہمارے !نہيں ديکھی ہے"
خدا فرماتاہے
"اگر وہ ميری جنت ديکھ ليں توان کی طلب کا کياحال ہو"
اسی طرح دوزخ کے بارے ميں سوال و جواب ہونے کے بعد نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مايا۔
اللہ تعالٰی فرماتاہے اے فرشتو!گواہ رہنا ميں نے ان کی بخشش فرما دی۔جو چيز وہ مانگتے ہيں ميں نے دے دی اور جس چيز سے پناہ مانگتے ہيں ميں نے پناہ دے دی۔
پھر فر شتے کہتے ہيں،
"اے رب!فلاں آدمی تويوں ہی کسی غرض سے آيا تھا۔ان ميں بيٹھ گيا"
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فر ماتے ہيں۔اللہ تعالٰی کہتا ہے۔"ميں نے اسکو بھی بخش ديا ہے کيونکہ ذاکرين ايسی قوم ہيں جن کے پاس بيٹھنے والا محروم نہيں ہوتا"(مشکوة شريف)
ذکر صيقل دل
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا
"ہر چيز کی صفائی ہے اور دل کی صفائی اللہ کا ذکر ہے"(مشکوة شريف)
معمولات
١۔ قرآن مجيد کی کثرت سے تلاوت کرنی چاہيے
٢۔ نماز تہجد پڑھنی چاہيے
٣۔ بزرگوں کے بتلائے ہوئے معمولات کا اہتمام کر نا چاہيے
٤۔ درود و سلام ذوق و شوق سے پڑھنا چاہيے
٥۔ اجتماعی عبادات کے علاوہ انفرادی طور پر بھی اللہ کے حضور جھک کر اپنے گناہوں کی معافی ما نگنی چا ہيے
٦۔ ديگر معاملات کے حل کی دعا بھی کرني چاہيے
طوالت کے خوف سے وہ دعا ئيں نہيں نقل کی جا رہيں جواس رات نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمايا کرتے تھے۔
قا رئين کرام!
شعبان کے فضا ئل کے سلسلے ميں اسلاف کے بہت سے اقوال ملتے ہيں ليکن خيال ہے کہ جب سارے اسلامی سال کے فضا ئل مرتب کئے جائيں اس وقت اس مختصر سے مجموعہ کے سا تھ وہ قيمتی باتيں بھی شامل کر دی جائيں۔
ربنا تقبل منا انک انت السميع العليم بحرمت سيدالنبين صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
فضائل شعبان
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1285500 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.