جب میں نے راولپنڈی اور لاہور کے
بحریہ ٹاﺅن دیکھے ،میں ملک ریاض حسین کی خداداد صلاحیتوں کا معترف ہوگیا
تھا کہ کیسے انہوں نے جنگل میں منگل کا سماں پیدا کررکھا ہے، حقیقی بات ہے
کہ میں جب بھی بحریہ ٹاﺅن راولپنڈی گیا، اس کا لینڈ سکیپ دیکھ کر ،وہاں کا
خوبصورت ماحول اور انتظامات دیکھ کر دل عش عش کر اٹھا اور میراوہاں سے واپس
آنے کو دل نہیں چاہتا تھا، مختصراً یہ کہ بحریہ ٹاﺅن کی انتظامیہ نے ملک
ریاض کے خوابوں کی انتہائی خوبصورت تعبیر کی تھی، یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ
اگر ملک ریاض نے کسی کی جائیداد پر ناجائز قبضہ کیا ہے یا فائلوں کی صورت
میں مبینہ طور پر ”لوٹ مار“ کی ہے تو کیا بحریہ دسترخوان، آشیانہ ہاﺅسنگ
سکیمز، سیلاب زدگان کی مدد یا دیگر فلاحی منصوبوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان
کے گناہوں کو معاف کرکے جنت کا حقدار ٹھہراتا ہے یا کسی کی زمین پر ناجائز
قبضے کی وجہ سے جہنم کا....!
ارسلان افتخار کیس میں ابھی تک جو مواد سامنے آیا ہے اور جس طریقہ سے ملک
ریاض نے گذشتہ روز اپنے وکیل زاہد بخاری کی موجودگی میں پریس کانفرنس کی،
اس سے یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ ملک صاحب کسی اور کی ”گیم“ اپنے نام پر کھیل
رہے ہیں، وہ صرف ”بینامی کھلاڑی“ ہیں جبکہ اصل کھلاڑی کوئی اور ہی ہیں۔ اس
میں کوئی شک نہیں کہ بحریہ ٹاﺅن کا انتظام و انصرام بہت اچھا ہے لیکن جس
طریقے سے انہوں نے ارسلان افتخار کے خلاف ثبوتوں اور شواہد کے ڈھیر جمع کئے
ہیں وہ کسی کاروباری شخص کی ذہانت سے بہرحال اوپر کے معاملات ہیں۔ کوئی
کاروباری شخص نہ تو اتنا زیادہ بلیک میلنگ سٹف اکٹھا کرسکتا ہے نہ اتنی
مہارت سے اس طرح کی کہانیوں کے تانے بانے بن سکتا ہے، یقینا تمام کی تمام
دال کالی سیاہ ہے اور شائد سیاہ رو لوگوں نے اس بار ملک ریاض کی آڑ میں
تقریباً ویسا ہی اوچھا وار سپریم کورٹ اور خصوصاً چیف جسٹس پر کرنے کی کوشش
کی ہے جس طرح انہوں نے 2007 میں کیا تھا، فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت سیاہ
چہرے والوں کا سرغنہ ایک فوجی آمر تھا جس کو چند لوگوں کی آشیرباد حاصل تھی
جس میں نعیم بخاری جیسے لوگ پیش پیش تھے اور ایک آمر کے کہنے پر انہوں نے
چیف جسٹس کی ذات پر گند اچھالا تھا جو بالآخر انہی کے چہروں پر آلگا تھا
جبکہ اب بظاہر ملک ریاض کے پیچھے وہ تمام قومی و بین الاقوامی قوتیں موجود
ہیں جو نہ صرف چیف جسٹس کو ایک بار پھر ”فارغ“ کرنے کے چکر میں ہیں بلکہ
پوری سپریم کورٹ کو داغدار بھی کرنا چاہتی ہیں۔ سپریم کورٹ یا چیف جسٹس کے
فیصلوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور جب کوئی عدالت کوئی فیصلہ سنا دیتی ہے
تو وہ عوام کی ملکیت قرار پاتا ہے جس پر تنقید بھی کی جاتی ہے لیکن اس
تنقید میں یہ امر ملحوظ رکھا جاتا ہے کہ عدالت کی توہین نہ ہو، این آر او
عملدرامد کیس میں وزیر اعظم پر جو توہین عدالت کی کارروائی کی گئی اور جس
طرح انہیں صرف تیس سیکنڈ کی سزا سنا کر فارغ کردیا گیا، سپریم کورٹ نے اپنے
فیصلے میں وزیر اعظم کی اہلیت یا نااہلیت بارے کوئی ”سپیکنگ آرڈر“ پاس نہیں
کیا، اس پر مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو شدید تحفظات ہیں کیونکہ پاکستان کا
وہی کرپٹ شخص آج بھی وزیر اعظم ہے اور عوام کے سینوں پر مونگ دل رہا ہے
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں یا کوئی اور شہری سپریم کورٹ اور اس کے ججز
پر الزامات کی بوچھاڑ کردے۔
اس بار چیف جسٹس کے خلاف جو کہانی پیش کی جارہی ہے وہ پہلی کہانی سے زیادہ
خوفناک ہے، اس لئے کہ اب پاکستان کے سیاسی کرپٹ راہنما ، وہ راہنما جن کی
اولادیں بھی کرپشن کی گنگا میں دن رات اشنان کررہی ہیں اور وہ ایجنسیاں جو
لاپتہ افراد کے بارے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کو ایک خاموش تماشائی کا
کردار سونپنا چاہتی ہیں، وہ میڈیا مالکان اوریرقان زدہ صحافی جو یہ باور
کرانا چاہتے ہیں کہ ہم اس ملک کے ”گاڈ فادر“ ہیں اور جب چاہیں جس کو چاہیں
بھرے بازار میں ننگا کرسکتے ہیں، وہ سارے لوگ ایک ہی سوچ اور ایک ہی مقصد
رکھتے ہیں کہ کسی طرح چیف جسٹس کو اتنا بدنام کردیا جائے، ان کا کردار اتنا
مشکوک قرار دیدیا جائے ، ان کی ساکھ تباہ کردی جائے اور قوم جو اعتبار اور
اعتماد ان پر رکھتی ہے اس کو ملیا میٹ کردیا جائے کہ بغیر کوئی ریفرنس دائر
کئے چیف جسٹس صاحب خود ہی استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں لیکن ایسا سوچتے
ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان پر ان کے اہل خانہ پر اس سے بھی سنگین
الزامات ہیں ، ثبوت بھی موجود ہیں لیکن ان لوگوں نے مطالبے کے باوجود کبھی
استعفیٰ دینے کا حوصلہ نہیں کیا، جبکہ چیف جسٹس کی ایمانداری اور پاکدامنی
کا دعویٰ تو ملک ریاض بھی کررہا ہے۔اصل مسئلہ جس کو پاکستان کے عوام اب
سمجھ چکے ہیںوہ یہی ہے کہ چیف جسٹس نے ہر طرح کے دباﺅ اور دھونس کے باوجود
سیاستدانوں کو ان کی کرپشن اور ایجنسیوں کے مادر پدر آزاد اور پاکستانیوں
کو دن دیہاڑے غائب کرنے والے لوگوں کو بہت ”تنگ“ کیا ہے ، عوام کے علاوہ ان
سے خوش کوئی بھی نہیں لیکن ان قوتوں کو اب اس بات پر یقین کرلینا چاہئے کہ
ان سے بڑی قوت بلکہ سب سے بڑی قوت کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں، وہ ان چھوٹی
موٹی قوتوں سے بہت زیادہ طاقتور اور بالادست ہے، وہ انہی کی چالوں کو الٹا
کرنے کی مکمل قوت رکھتا ہے اور اس بار بھی انشاءاللہ ایسا ہی ہوگا، چیف
جسٹس پرانے شکاریوں کے نئے جال میں بھی نہیں آئیں گے، اللہ تعالیٰ انہیں اس
بار بھی سرخرو کرے گا، پورے ملک کے وکیل اور عوام اس بارے میں ہرگز دو رائے
نہیں رکھتے، بکاﺅ مال ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا، مجھے یقین ہے کہ اللہ
وحدہ لاشریک کی ذات افتخار چودھری سے آنے والے وقت میں کوئی اور بڑا کام
لینے کا ارادہ رکھتی ہے، مکر و فریب کی جتنی بھی چالیں ہوںاگر چیف جسٹس
اپنی ایمانداری کو قائم رکھ کر فیصلے کریں تو یہ قوتیں ان کا بال بھی بیکا
نہیں کرسکتیں۔ جہاں تک تعلق ہے ارسلان افتخار کا، اس نے اگر جرم کیا ہے اور
سپریم کورٹ کو ”بیچنے“ کی کوشش کی ہے تو جرم اور بھی سنگین ہوجاتا ہے، اس
کو اس کے کئے کی بھرپور سزا ملنی چاہئے اور جہاں تک تعلق ہے ریاض ملک کا،
اس نے تو برسرعام یہ قبول کرلیا ہے کہ اس نے سپریم کورٹ سے انصاف خریدنے کے
لئے ارسلان افتخار پر کثیر ”سرمایہ کاری“ کی لہٰذا اس بیان کی روشنی میں
ریاض ملک کا جرم تو ثابت ہوچکا ہے۔ بحریہ ٹاﺅن دوسرے لوگوں کی طرح مجھے اب
بھی بہت اچھا لگتا ہے، دوسرے لوگوں کی طرح میری بھی خواہش بھی ہے کہ میں
کبھی وہاں رہائش رکھوں لیکن سپریم کورٹ کی عزت و حرمت کی قیمت پر ہرگز
نہیں۔ قوم چیف جسٹس سے یہ امید رکھتی ہے کہ وہ اپنے پایہ استقلال میں کوئی
لغزش نہیں آنے دیں گے، ارسلان کیس میں بھی انصاف ہوگا اور ان لوگوں کے ساتھ
بھی سختی سے نمٹا جائے گا جنہوں نے سپریم کورٹ کی ساکھ کو تباہ کرنے کی
کوشش کی اور جن لوگوں نے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے خلاف ایسی گھناﺅنی
سازش تیار کی، قوم چیف جسٹس سے یہ توقع بھی رکھتی ہے کہ وہ اللہ کی شریعت
کے مطابق فیصلے کریں گے اور آئین کی ان شقوں کو بھی غیر اسلامی قرار دیں گے
جو واقعتا اسلامی شریعت کی روح کے منافی ہیں کیونکہ آئین کی تشریح کرنا
بہرحال سپریم کورٹ کا ہی کام ہے۔ اللہ کی ذات ہمارے گناہوں سے درگذرفرمائے
اور ہم سب کو صحیح راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.... آمین۔ |