توانائی بحران کے حوالے سے اب
کوئی دوسری رائے نہیں رہی۔ مشرف دور کے آخری برسوں تک یہ سوچ جاری رہی کہ
ملک میں بجلی اورگیس کی وافر مقدار موجود ہے اگر لائن لاسز اور چوری پر
قابو پا لیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم توانائی کی ضرورتوں کو پہلے سے
موجود ذرائع کے ذریعے پورا کرسکتے ہیں۔ لیکن آج چار برس مزید گزرنے کے بعد
یہ خوش فہمی بھی دور ہوگئی ہے۔بجلی چوروں کو لگام دینے کی بجائے آج کل ان
کے ناز اٹھائے جارہے ہیں۔کراچی میں کنڈا سسٹم کوئی ختم نہیں کراسکتا۔ جنوبی
پنجاب کے بعض حصوں میں بھی بجلی چوری کا رجحان تیزی سے پھیل رہا ہے۔ سندھ
کے اکثر دیہی علاقوں میں سال میں ایک بار بجلی کا بل آتا ہے جو ہزار دو
ہزار سے زیادہ نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے سرکاری ادارے‘وزیراعظم ہاﺅس ‘ ایوان صدر
سب بجلی کے بلوں کے نادہندہ ہیں۔بجلی کے صارفین کا چالیس فیصد حصہ باقی
ماندہ ساٹھ فیصد کا بھی بل ادا کرتا ہے۔ لائن لاسز کو بھی کنٹرول نہیں کیا
جاسکا۔ 20فیصد تک بڑھ جانے والے لائن لاسز کو کس طرح قابو کیا جاسکتا۔ اس
بارے آج تک کوئی قابل عمل حل پیش ہی نہیں کیا جاسکا۔لہٰذا اب یہ محض ایک
خوش کن خیال رہ گیا ہے کہ ملک کے اندر بجلی کی پہلے سے موجود پیداواری
صلاحیت کی بنیاد پر انرجی بحران پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ جس شرح کے ساتھ
آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اس حساب سے سپلائی اور ڈیمانڈ کا فرق چار ہزار
میگاواٹ سے بڑھ کر آٹھ ہزار ہوگیا ہے اور بہت ممکن ہے کہ آئندہ برس اس کو
مزید ضرب لگے اور یہ فرق دس بارہ ہزار میگاواٹ کو چھولے ۔گیس کا عالم بھی
نرالا ہے مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ یوں تو حال ہی میںصوبہ پختونخواہ
کے ایک سیاستدان نے خوشخبری دی ہے کہ صوبے کے اندر گیس کے نئے ذخائر دریافت
ہوئے ہیں لیکن ذخائر کی پہلے بھی شائد کمی نہیں ہے۔ اصل مسئلہ ان ذخائر سے
فائدہ اٹھانا ہے۔ صوبہ خیبرپختونخواہ میں حکمران جماعت کی دور اندیشی کا
ماتم کیا جانا چاہیے۔ محض ایک سیاسی نعرے اورضد کے سبب وہ کالا باغ ڈیم کو
مردہ گھوڑا قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ ملکی اور بین الاقوامی تحقیقی ادارے بار
بار یہ باور کراچکے کہ اس ڈیم کی تعمیر سے معمولی نقصان کے بدلے
خیبرپختونخواہ کو غیر معمولی نفع ہوسکتا ہے۔ لیکن میں نہ مانوں والی ضد ہے
اور اٹھارہویں ترمیم میں صوبائی خودمختاری کے حوالے سے صوبوں کو اختیار دیا
گیا ہے کہ وہ اپنے طور پر توانائی کے ذرائع پیدا کرسکتے ہیں۔ لیکن پنجاب
حکومت جو لوڈشیڈنگ کیخلاف مینار پاکستان میں ٹینٹ کیبنٹ اجلاس کر رہی ہے‘اس
حکومت نے صوبے پنجاب میں بننے والے مجوزہ کالاباغ ڈیم کے لئے اس سال بجٹ
میں صرف دس لاکھ روپے رکھے ہیں۔جب سنجیدگی کا یہ عالم ہو تو پھر بجلی بحران
پر کیونکر قابوپایا جاسکتا ہے!
جہاں تک سندھ کے ضلع تھرپارکر میں پائے جانے والے کوئلے کے ذخائر کے حوالے
سے جاری ہونے والے اعدادوشمار کا تعلق ہے تو ان میں ہوسکتا ہے مبالغہ آمیزی
کا عنصر بھی شامل ہو۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کے نامور سائنسدان ڈاکٹر
ثمرمبارک اور ان کی ٹیم نے کوئلے کوزیر زمین جلانے اور اس سے گیس اور بجلی
پیدا کرنے کا جو بیڑا اٹھایا تھا وہ اس میں تمام تر مالی صورتحال‘دفتری
رکاوٹوں اور حاسدوں کی پیدا کردہ مشکلات کے باوجود بڑی حد تک سرخرو ہوچکے
ہیں اور دسمبر 2011ءمیں ہی انہوں نے تھرکول کے ایک بلاک میں انڈرگراﺅنڈ
گیسی فیکیشن کا تجربہ کامیاب کر دکھایا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ آئل مافیا
اور پرائیویٹ پاور ہاﺅسز نے ان کی اس کامیابی کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی
مگر ذرائع ابلاغ میں ان لوگوں کی ایسی دھلائی ہوئی کہ وہ وقتی طور پر دبک
کر بیٹھ گئے ہیں۔
تھرکول پراجیکٹ میں بہت بڑی رکاوٹ اس پراجیکٹ کی ملکیت بھی تھی۔ اب یہ طے
ہوچکا ہے کہ یہ پراجیکٹ کلی طور پر سندھ حکومت کی ملکیت ہوگا اور وفاقی
حکومت اس کے لئے سرمایہ فراہم کرے گی۔سندھ کے بجٹ 2012-13ءمیں اس پراجیکٹ
کی ترقی اور تکمیل کے لئے ساڑھے تیرہ ارب روپے رکھے گئے ہیں اور حالیہ دورہ
چین کے دوران صدر آصف علی زرداری اور ان کی ٹیم نے ایک چینی فرم کو پھر سے
آمادہ کر لیا ہے کہ وہ تھرکول پراجیکٹ میں حصہ لے گی۔
تھرکول پراجیکٹ میں پہلے ہی بہت دیرہوچکی ہے اور اس دیر کی سب سے بڑی وجہ
سرمایہ کاری کا فقدان ہے ۔سرمایہ کاروں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اصل فیلڈ پر
پہنچ ہی نہیں پاتے اور نہ وہ پائیلٹ پراجیکٹ کو دیکھ پاتے ہیں۔ انفراسٹرکچر
نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ سرے سے ہے ہی نہیں۔اب اگر سندھ حکومت ایک سال کے
اندر اندر کراچی کے ساحل سے تھر تک بہتر سڑک تعمیر کر لیتی ہے پھر تھرکول
فیلڈ تک سڑک نکالنا ایک کام ہے۔ اسی طرح واٹرکیریئر سسٹم ترتیب دینا
ہے۔انفراسٹرکچر جس قدر جلد مکمل ہوگا اسی قدر پراجیکٹ میں سرمایہ کاروں کی
دلچسپی بڑھے گی۔پاکستان کی توانائی کی ضروریات اور خودانحصاری کی کنجی تھر
کے صحرا میں مدفون ہے جسے مرکزی اور صوبائی حکومتیں نظرانداز کر رہی تھیں
جو عوام کو بہتر مستقبل سے محروم کرنے کے مترادف ہے بھارت نے راجستھان سے
کوئلہ نکالنا شروع کردیا ہے مگر پاکستان میں صرف کاغذی کارروائی کی جارہی
ہے تھرکے کوئلے کے ذخائر قوم کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے جسے
نظرانداز کرنے کا آپشن ہے ہی نہیں فنڈز کی کمی‘ افسر شاہی کی سازشوں‘ بین
الاقوامی اداروں کی عدم دلچسپی سمیت تمام معاملات فوری طور پر حل کرنا ہوں
گے۔ بیوروکریسی نے ورلڈ بینک کے لئے بنائی گئی توانائی کے ذرائع کی رپورٹ
میں تھرکاذکرنہ کرکے قومی جرم کیا ہے۔پاکستان کے پڑوسی ممالک بھی ان ذخائر
کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں جس کے لئے انہیں
سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ ہمارے پاس سعودی عرب کے تیل کے ذخائر سے تقریباً
تین گنا زیادہ توانائی موجود ہے جسے استعمال کرنا وقت کا تقاضہ ہے جو
پاکستان کو آٹھ سو سال تک پچاس ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کرسکتا ہے حکومت
وقت ضائع کئے بغیر تمام کاغذی کارروائی مکمل کرے‘ سارے علاقہ کا سروے کیا
جائے‘کوئلہ کی قیمت کا تعین کرے‘ پانی ‘بجلی‘سڑک‘ ریلوے‘ ایئرپورٹ فضلہ کو
ٹھکانے لگانے اور مناسب سیکورٹی کا انتظام کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ تین سال
کے اندر لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات مل جائے اور ہمارے سرمایہ کار بنگلہ دیش
بھاگنے اور عوام سڑکوں پر ٹائر جلانے کی بجائے ملکی اور قومی ترقی میں پھر
سے جت جائیں۔ |