اینکر پرسن یا جمپنگ جیک

جمپنگ جیک کہہ لیں یا پھر پھدکنے والاہیرو۔ یہ ایسا شخص ہوتا ہے جو موسیقی کے آلات بجتے ہی بغیر سوچے سمجھے اچھل پڑتا ہے اورتھرکنے لگتا ہے اگر آپ ٹیلی ویژن دیکھنے کے عادی ہیں تو آپ نے غور کیا ہو گا کہ ہمارے کچھ دانشور اینکر پرسن ہر خبر پر تو نظر رکھتے ہی ہیں مگر ساتھ ہی پھدکنے بھی لگتے ہیں۔ ان پھدکنے والے اینکروں میںسے کچھ کے کرتوت تو سامنے آ گئے ہیں اور امید ہے باقی گندی مچھلیاں بھی جلد ہی کسی محب وطن دوست کی ریکارڈنگ کے زریعے یا سپریم کورٹ کی تحقیقات سے جھال میں ضرور پھنسیں گی۔

کہاوت ہے کہ ایک بھانڈ کو کسی طرح پتہ چل گیا کہ گاﺅں کے چوہدری نے دھوتی مانگ کر پہن رکھی ہے بس بھانڈ خبر بریک کرنے کے لیے چوہدری صاحب کے گھر جا پہنچا اور مجمع لگا کر چوہدری صاحب کی تعریفیں کرنے لگا کہ چوہدری صاحب انتہائی ایماندار ، ہمدرد اور رحم دل ہیں ،مگر۔۔۔ دھوتی کی کوئی بات نہیں ! بھانڈ کئیں گھنٹوں تک پپڑی پڑھتا رہا اور چوہدری صاحب کی تعریفوں کے پُل باندھتارہا اور آخر میں دھوتی کی کوئی بات نہیں بھی کہتا رہا ۔مجمع ختم ہو ا،بھانڈ نذرانہ لے کر چلا گیا اور گاﺅں میں دھوتی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ جتنے منہ اتنی باتیں ہر کسی نے اپنا اپنا تبصرہ اور تجزیہ پیش کرنا شروع کیا تو بات دھوتی سے آگے اور دھوتی کے اندر جا پہنچی ۔چوہدری صاحب پریشانی میں مبتلا ہوئے اور ہر شخص انہیں شک کی نگاہ سے دیکھنے لگا۔ دوست یار اور گھر والے بھی کنی کترانے لگے اورچوہدری صاحب نفسیاتی مریض بن گئے ۔ طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوئے اور دارفانی سے کوچ کر گے۔چوتھے کا ختم ہوا اور بھانڈ پھر آگیا ۔ پہلے رویا اور پھر کہنے لگاکہ چوہدری صاحب ایک نیک دل اورشریف آدمی تھے ۔مسجد میں نماز کے لیے گئے تو دیکھا کہ امام صاحب کی دھوتی پھٹی ہوئی ہے اور بے پردگی کا اندیشہ ہے۔ گھر آ کر اپنی نئی دھوتی اتارکر دھوئی اور پھر امام صاحب کو دے دی۔خود ڈیرے پر گئے اور بخشو کامے سے دھوتی ادھار مانگ لی ۔ بخشو سے کہا کہ بخشے تو ، توڈیرے پر ہی رہتا ہے پرانی دھوتی کا لنگوٹ مار لینا تمہیں کس نے دیکھنا ہے۔ایک ڈیڑھ ماہ کی بات ہے فصل اٹھ گئی تو میں تمہارے لیے اور اپنے لیے شہر سے نئی چادریں خرید لوں گا۔ہائے ۔۔لوگو۔ایسا ہمدرد، غمخوار اور عزت مند چوہدری اب کہاں ملے گا۔ دعا کرو اﷲ چوہدری کے درجات بلند کرے اور سب غریبوں کو نئی دھوتیاں اور چادریں دے ۔ اصل عزت تو دھوتی میں ہے دھوتی کی کیا بات ہے۔

ارسلان افتخار کے متعلق ان جمپنگ جیکس کے پہلے پہلے شو دھوتی شو سے کم نہ تھے ۔ ان کے گلے خشک ہو رہے تھے ، مہنہ سے جھاگ بہہ رہی تھی، الفاظ پھسل اور پھدک رہے تھے اور وہ ملک ریاض کے ثبوتوں کو کئی بار سچ اور صحیح کہنے کے بعد ایک بار بادی النظر کا اضافہ کرتے اور پھر کہتے اس میں چیف جسٹس کا کوئی ذکر نہیں دوسرے دن جب عدالت میں پہنچے تو معاملہ کچھ اور تھا۔اکثر عدلیہ کو سلیوٹ پیش کررہے تھے ، کچھ کا چہرہ بجھا بجھا تھا، مالک صاحب اور صافی صاحب ان کی حوصلہ افزائی کررہے تھے اور جاوید چوہدری الفاظ کو نئے معنی پہنا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ دھوتی ایک ضروری چیز ہے دھوتی کی کیا بات ہے۔چند ایک نے درمیانہ راستہ اختیار کیااور wait and seeکی پالیسی پر گامزن ہوئے جبکہ طلعت حسین نے سچائی کا ساتھ دیا اور کسی پیٹی بھرا کو بھی معاف نہ کیا۔ حکومت کہتی ہے کہ ہم ملوث نہیں،سونامی والے عمران نیازی ، شریف بردارن، چوہدری آف گجرات ، خانز آف پشاور، الطاف بھائی آف لندن اوردیگر انقلابی ، جمہوری اور عوامی لیڈر وں پر سکتہ طاری ہو گیاہے بلکہ کوبراسانپ سونگ گیا ہے۔ حکومت کا ملوث نہ ہونا بھی ایک مذاق ہے۔ اگر ملک ریاض نے جناب حامد میر کو کہا ہے کہ ارسلان کی ویڈیو ایک وزیر نے بنواکر دی ہیں تو سب جانتے ہیں کہ جس وزیر کا نام لیا گیا ہے وہ ان کا موں کا ماہر ہے اور اسی خوبی کی بناءپر پیپلز پارٹی میں گیاتھا اور آج نہ صرف وزیر ہے بلکہ پارٹی کی مجبوری بھی ہے۔کامران خان فرماتے ہیں کہ ارسلان کے سال بہ سال بنائے گئے فولڈرز پر پاسپورٹ کی کاپیاں لگی ہیں ۔ ارے جناب آپ کا اقبال بلند ہو ۔ آپ کتنے کاکے بلکہ آلے پولے ہیں ۔ جب کوئی آدمی ملک سے باہر جاتا ہے تو ائیر پورٹ پر اپنے پاسپورٹ کی دوفوٹو کاپیاں جمع کر واکر جاتا ہے۔ پاسپورٹ سیل بھی تو اسی وزیر کے زیر سائیہ چلتاہے۔ کاپی تو کیا وہ مکمل پاسپورٹ بھی کسی کو دے سکتا ہے۔

جہاں تک ویڈیو بنانے کا تعلق ہے تو کسی صحافی اور اینکر دانشور نے یہ نہیں بتایا کہ یہ ایک جرم ہے۔ جو لوگ یورپ کی سیر کے لیے جاتے ہیں وہ وہاں چلہ کشی کرنے نہیں جاتے بلکہ عیش موج کرنے جاتے ہیں ۔ اگر ویڈیو بنوانے کا رواج شروع ہو گیا تو پاکستان کی 90 فیصد اشرافیہ ننگی ہو جائے گی اور ان کے فیصلے کر نے کے لیے سو ججوں پر مشتمل ایک علیحدہ سپریم کورٹ بنانی پڑے گی۔ ہر شخص کی ایک پرائیویٹ لائف ہے اگر آپ نے ان ویڈیو ز پر انحصار کیا تو کل کلاں آپ کی ویڈیو بھی بن جائے گی اور پھر کوئی محفوظ نہیں رہے گا۔کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ چار سالوں میں ارسلان چوہدری کروڑپتی کیسے بن گیا۔ارے عقلمندوں یہ سوال بھی اٹھاﺅکہ پندرہ سالوں میں ملک ریاض کھرب پتی کیسے بن گیا۔ائیر کنڈیشنڈ سٹوڈیوزسے باہر نکلواور بحریہ ٹاﺅن کا چکر لگاﺅ ۔ دیکھو کہ یہاں کے قدیم رہائیشیوں کی کیا حالت ہے۔ دس دس گھروں پر مشتمل دیہاتوں کے اردگرد دودوسوفٹ گہری کھائیاں کھود دی گئی ہیں اور لوگ محصور ہو کر رہ گئے ہیں یہ سب اس لیے کیا گیا ہے تاکہ یہ لوگ گھر بار چھوڑ کر چلے جائیں۔ جنگلات غائب ہو گئے ہیں اور 50 کلو میٹر پر پھیلے بحریہ ٹاﺅن اور ڈی ایچ اے کا ریونیو ریکارڈ غائب کر دیا گیا ہے۔ گجر گڑی اور گلی گاﺅں کے محصورین کے مطابق ریکارڈجلا دیا گیا ہے۔ امید ہے کہ صحافت کے باوا آدم حضرت مالک جن کا فرمان ہے کہ کسی نہ کسی نے تو نیوز بریک کرنی ہی ہوتی ہے تو ہم کیوں نہ کر یں ۔ جناب عرض ہے کہ آپ ، جناب حامد میر ، سلیم صافی ، نجم سیٹھی ،کامران خان اینڈ ہمنواﺅں کو گلی گاﺅں لے جائیںاور ذراان مظلوموں کا انٹرویو بھی کریں چونکہ یہ لوگ آپ کے دفتروں تک نہیں آسکتے۔ اگر آپ بزور شمشیر پچاس ھزار سے لے کر ڈیڑھ لاکھ فی کنال کے حساب زمین خریدیں اور دو لاکھ ڈویلپمنٹ کے لگاکر 60لاکھ سے سواکروڑفی کنال کے حساب سے بیچیں تو آپ ایک سال میں ارب پتی بن سکتے ہیں۔ اس میں خالصہ سرکار اور شاملات شامل ہیں جو حکومتی کارندوں کی ایماءپر قبصہ کی گئی ۔ اس وقت بحریہ ٹاﺅن کی سرحد یں گوجرخان ، کلر سیداں اور چکوال سے ملتی ہیں۔ ذیادہ تر زمینیں جنگلات، شاملات اور خالصہ سرکار کی ہیں اورسرکار کا ہر بندہ ملک ریاض کا زرخریدغلام ہے۔ آج ملک ریاض کی ریاست پٹودی ، لوہارو، دجانہ ، ملیر کوٹلہ، پٹیالہ، نگر ، ھنزہ اور امب سے بڑی ہے۔بحریہ ٹاﺅن کے اپنے قوانین اور آئین ہے جن کے مطابق بحریہ ٹاﺅن میں بنی عالیشان کو ٹھیاں اور بنگلے ملک ریاض کے ذاتی ہیں ۔ آپ ارسلان چوہدری کی فائیلیں پڑھنے پر مغز کھپائی نہ کریں بلکہ بحریہ ٹاﺅن کے بائی لاز (by laws) پڑھیں جن کے مطابق بحریہ ٹاﺅن انتظامیہ کسی بھی شخص کا پلاٹ کینسل کر کے اسے بیدخل کر سکتی ہے اور ان لوگو ں کو کسی بھی عدالت میں جانے کا حق نہیں ۔ یہ بائی لاز انگریزی میں اور اتنی باریکی سے لکھے گے ہیں کہ عام کسٹمر اسے نہ توپڑھتا ہے اور نہ ہی اسطرف دھیان دیتا ہے۔ بحریہ ٹاﺅن ایک ہاﺅسنگ سکیم نہیں بلکہ ایک ریاست ہے جسکا سربراہ ملک ریاض اور ولی عہد علی ریاض ہے۔ اس کی پڑوسی ریاست کا نام ڈی ایچ اے ہے اور دونوں ریاستوں کے اچھے اور مثالی تعلقات ہیں ۔ دونوں ریاستوں کے درمیانی علاقے میں محکمہ جنگلات پنجاب کا کچھ حصہ تھا جو خادم اعلیٰ نے بحری ریاست کو دے دیا۔ بحریہ نے میدانی علاقوں پر قبصہ کر کے رفع بلاک کے نام سے تین چار سو پلاٹ بنا کر بیچ ڈالے اور اونچی چوٹیوں پر ملک کے مائیہ ناز جرنیلوں نے قبصہ کر کے محل تعمیر کر لیے ۔ امید ہے کہ جناب محمد مالک ، سلیم صافی ،نجم سیٹھی ، حامد میر اور دیگر دانشور جلد ہی اس علاقے کا بھی دورہ کرینگے ۔

ریاست پٹودی کا کل رقبہ 52میل تھا اور آبادی20لاکھ تھی ۔ اس لحاظ سے دیکھاجائے تو بحری ریاست کا رقبہ اور آبادی ذیادہ ہے۔ اسوقت اخبار ی اطلاعت کے مطابق بحری ریاست کی فوج میں ۹ جر نیل ، 20بریگیڈیئر کئی درجن کرنل اور میجر ہیں ۔ سپاہیوں کی تعداد پندرہ ہزار بتائی جاتی ہے جبکہ بوقت ضرورت پاکستان رینجر ز اور اسلام آباد پولیس بمعہ بکتر بند گاڑیوں کے اپنی خدمات پیش کرتی ہے۔ والی ریاست اور ولی عہدکا پرٹوکول وہی ہے جو سلطان آف برونائی اور عرب شیوخ کا ہے۔ کالے شیشوں والی کئی درجن گاڑیاں، موٹرسائیکل ، مشین گن فٹڈ جیپیں شاہی سواری کے ساتھ چلتی ہیں اور ہوٹر کی آواز ساری ریاست میں سنی جاتی ہے۔اس ریاست میں ایک جدید ہسپتال ہے جس کانام بیگم اختر ویلفئیر ٹرسٹ ہسپتال ہے مگر کمرے کا کرایہ فی رات 25ہزار روپے ہے۔ اینکر دانشوروں سے گزارش ہے کہ وہ ٹرسٹ اور ویلفئیرپر بھی تھوڑا دھیان دیں اور عوام کو بتائیں کے ٹرسٹ کیا ہوتا ہے۔

اب ایک نظر ارسلان چوہدری پر بھی ڈالتے ہیں ۔ ارسلان جناب چیف جسٹس کا بیٹا تو ہے مگر وہ میجر جرنل (ر)ضیاالحق کا داماد بھی بتایا جاتا ہے۔ جرنل ضیا کا تعلق برنالہ ضلع بھمبر کی گجر برادری سے ہے اور ملک بھر میں اثرورسوخ رکھنے والی شخصیت ہیں جرنل صاحب کا ایک بھائی اے جے کے سپریم کورٹ کا جج اور دوسرا کئی حکومتوں میں وزیر رہا ہے ۔ یہ لوگ علاقہ کوٹ جیمل کہ بڑے زمیندار اور پشتوں سے رئیس چلے آرہے ہیںاور یقینا ان کے کاروبار بھی ہونگے۔ جیسا کہ ملک ریاض سے منسوب ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ارسلان نے سیمنٹ بھی مہنگا فروخت کیا ہے ۔ اس سے لگتا ہے کہ وہ سیمنٹ کے کاروبار سے منسلک ہے۔ اگر ایسا ہے تو ارسلان کو ایک سال میں ہی کروڑ پتی بن جا نا چاہئے تھا کیونکہ جو لوگ چینی ،گندم، گوشت ، گھی ،سیمنٹ اور پھلوں کے کاروبار سے منسلک ہیں وہ ایک ہی سال میں کروڑ پتی بن گے ہیں ۔ چونکہ یہ اشیاءافغانستان میں پانچ گنااور سنٹرل ایشیاءمیں دس گنا مہنگی ہیں۔ پچھلے سال سرگودھاسے تاشقند پہنچنے والے کینو کی قیمت ایک ڈالر سے ذیادہ تھی جس کی وجہ سے پاکستان میں کینو صرف امیروں کا فروٹ تھا ۔آٹے کی ڈھائی من بوری کابل میں 8ہزار اور مزارشریف میں 12ہزار کی تھی جبکہ دالیں اور خردنی تیل بھی ڈالروں میں بکتا ہے۔ ایسا ہی قصہ لایﺅسٹاک کا ہے۔ اگر آپ چمن باڈر پر تشریف لے جائیں تو آپ حیران ہونگے کہ جتنے مویشی پاکستان سے افغانستان سمگل ہوتے ہیں اتنی افغانستان کی آبادی ہی نہیں ۔ظاہر ہے کہ یہ مویشی افغانستان میں ذبح کر کے گوشت سنٹرل ایشیاء، بھارت اور یورپ تک بھجوایا جاتا ہے۔ ارسلان چوہدری کوئٹہ کو پیدائشی اور رہائشی ہے اور یقینا اس کے بزنس لنک بھی ہونگے اور اگر وہ اوپر بیان کردہ کسی بھی کاروبار سے منسلک ہے تو چارسالوں میں اس کے پاس 50کروڑ ہونے چاہیے ۔

ارسلان چوہدری نہ کسی گدی نشین پیر ، مخدوم ، خودساختہ ولی اﷲیا نودولتیے قبصہ گروپ خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور نہ ہی کسی جرنیل اورسیکرٹری کا بیٹا ہے۔ جرنیلوں اور سیکرٹریوں کی اندرون ملک اور بیرون ملک جائیدادیں اور ان کے بچوں کے کاروبار اور عیاشیاں اگر فلمائی جائیں تو آپ حیران ہوں گے کہ یہ لوگ بیرون ملک جسقدر اخراجات کر تے ہیں اتنا خرچ تو عرب شیوخ بھی نہیں کر تے۔ آپ ڈی ایچ اے پنڈی، لاہور، اسلام آباد اور کراچی کا چکر لگائیں توحیران ہونگے کہ جرنیل اور ان کے بچے پلاٹوں کی خریدوفروخت سے کسقدر کما رہے ہیں ۔ یہی حال بحریہ کا بھی ہے۔ بحریہ میں بھی جرنیلوں کی بڑی بڑ ی انوسٹمنٹ ہیں اور ان کے گھروں میں دولت کے چشمیں ابل رہے ہیں۔

بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ارسلان چوہدری کنسلٹنسی بھی کرتا ہے اور غیر ملکی موبائل فون کمپنیوں سے منسلک ہے ۔ یہ کاروبار بھی تو پیسے والا ہے ۔ جناب رحمان ملک بھی تو انگلینڈمیں یہ ہی کاروبار کرتے تھے اور چند سالوں میں ارب پتی بن گے ۔ اگر کنسلٹنسی سے رحمان ملک ارب پتی بن سکتا ہے تو ارسلان چوہدری کیوں نہیں ۔ بحریہ ٹاﺅن میں ایک خاتون چند سال پہلے ریسپشنسٹ تھی اور آج کل پلازوں کی مالکہ ہے اور کروڑوں کی گاڑیوں میں گھومتی ہے۔ دور جانے کی بات نہیں چار سال پہلے ہمارے وزیراعظم ایک مقروض شخص تھے اور گاڑی بیچ کر بچوں کی فیسیںادا کرتے تھے ۔ کیا کوئی اینکر دانشور وزیراعظم سے یہ پوچھ سکتا ہے کہ وہ کونسی گیدڑ سنگی ہے جس نے آپ کو چار سالوں میں ارب پتی بنا دیا ۔ملک ریاض تو کھلے عام کہتا ہے کہ وہ اپنی فائیلوں کو پہیے لگاتا ہے تو یقینا یہ فائیلیں وزیراعظم ہاﺅس تک بھی جاتی ہوں گئی ورنہ عبدالقادر گیلانی اس فائیل ماسٹر کے لیے مضطرب نہ ہوتا ۔اگر اس ملک میں کوئی آئین اور قانون ہوتا تو جس دن ملک ریاض نے فائیلوں کو پہیے لگانے کی بات کی تھی اسی دن اسے دھر لیا جاتا اور ان تمام رشوت خوروں بمعہ صحافیوں کے جو ملک ریاض کے وظیفہ خور ہیں کو قانون کے شکنجے میں کس دیا جاتا۔مگر یہ کیسے ہو ؟کمانڈو صدر کا مالی ٹیلیویژن انٹرویو میں کہتا ہے کہ میں صدر ہاﺅس کا مالی ہوں میں نے جنرل پرویز مشرف سے عرض کی کہ جناب ہماری زمینوں پر ملک ریا ض زبردستی قبصہ کر رہا ہے آپ ہمیں انصاف دلائیں۔ صدر مشرف نے جواب دیا کہ جو کچھ دیتا ہے لے لو میں کچھ نہیں کر سکتا۔ مطلب یہ کہ ملک کا صدر بھی ملک ریاض کے سامنے بے بس ہے چونکہ وہ بھی رشوت خوروں میں شمار ہے۔کامران خان نے اپنے انٹرویو میں ملک ریاض سے پوچھا کہ اگر آپ ملک کے صدر بنا دیے جائیں تو؟۔

اس تو کے پیچھے بھی ایک خواہش اور پیغام تھا ۔ اگر ملک ریاض اپنے حامیوں کی مدد سے موجودہ عدلیہ کو گرانے میں کامیاب ہو گیا یا پھر عدلیہ نے اسے کسی بھی جرم پر سزا نہ دی تو وہ یقینا اس ملک کا اگلا صدر ہو گااور کسی بھی سیاستدان کو اس کی صدارت پر اعتراض بھی نہیں ہوگا۔ یادرکھیے جو کچھ موجودہ جمہوری جبراور کرپشن سے بچے گا وہ ملک ریاض اڑا لے جائے گا۔جہاں تک جمہوریت پسند اور باشعور عوام کا تعلق ہے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بھارت سے درآمد کردہ مردہ اور بیمار جانور کا گوشت ہو یا بھارتی گٹروںکے پانی سے پیدا کردہ سبزیا ں اور پھل وہ امن کی آشاکا تحفہ سمجھ کر سب کچھ کھانے کو تیار ہیں۔ چارسو روپیہ درجن بھارتی کیلا ہو یا دوسو روپیہ کلو گوبی انہیں کسی بات پر اعتراض نہیں۔ ملک کا صدر چوہدری شجاعت ہو یا ان کا فیملی فرینڈ ملک ریاض یا پھر ملک ریاض کا دوست نوازشریف ہو یا پھر ان کا چھوٹا بھائی جناب آصف علی ذرداری، عوام کی صحت پر کوئی فرق نہیںپڑتا۔جو لوگ عوام کو باشعور اور جمہوریت پسند کہتے ہیں در حقیقت وہ عوام کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ چونکہ اس ملک میں صرف دو طرح کے لوگ رہتے ہیں جنہیں متوالے اور جیالے کہا جاتا ہے اگر عوام باشعور ہوتے توآج اس ملک میں جمہوری آمریت نہ ہوتی اور نہ ہی کوئی ملک ریاض ملک کے آئین اور قانون سے مبراہوتا۔
asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 90713 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.