ارسلان افتخارکیس نے ملک میں ایک
بھونچال کی سی کیفیت پیداکردی ہے کیوں کہ اس کیس میں ملزم چیف جسٹس آف
پاکستان جناب افتخارمحمد چوہدری کے بیٹے ارسلان افتخار ہیں بلاشبہ چیف جسٹس
آف پاکستان نے اس معاملے پر ازخود نوٹس لے کر ملکی تاریخ میں ایک عدل
وانصاف کے حوالے سے ایک روشن مثال قائم کی ہے اس کیس میں جھوٹا اورسچاکون
ہے اس کا فیصلہ تو عدالت کرے گی اس لئے ہم اس پر کوئی رائے نہیں دے سکتے
لیکن یہ طے ہے کہ اس کیس نے بہت سے انکشافات کوجنم دیا ہے جن میں سے اہم
ترین یہ ہے کہ میڈیا کے وہ اینکرپرسنز جودن رات جودن رات ملکی کرپشن کا
رونا روتے نظرآتے تھے اورسیاستدانوں پر یہ الزامات لگاتے نظرآتے تھے کہ
انہیںعوام کی بجائے امریکی ڈالروں اور سوئس اکاؤنٹس سے زیادہ پیار ہے جن کی
خاطر وہ ملکی مفادات کو بیچ دیتے ہیں اب خود ہی عوام کے سامنے ننگے ہوگئے
ہیں اور عوام سے بکاؤ مال ہونے کے طعنے سن رہے ہیں عوام ان نام نہاد
دانشوروں کے اصل چہرے سامنے آنے پر سخت مایوس ہوئے ہیں کیوںکہ میں یہ
سمجھتاہوں کہ ایک صحافی کو بھی ایک جج کی طرح غیرجانبدار ہونا چاہئے تبھی
وہ حالات کی بہتر رپورٹنگ کرکے عوام کے سامنے اصل حقائق پہنچاسکتا ہے لیکن
یہ اس کیس کا کرشمہ ہے کہ کرپشن میں ڈوبے سیاستدانوں کا احتساب کرکے اُن کے
مکروہ چہروں کو عوام کے سامنے بے نقاب کرنے والا میڈیاخود بھی کرپشن کے اس
حمام میں ننگا نظرآرہا ہے ۔میں شروع سے ہی اپنے کالمز میں یہ کہتا آرہاہوں
کہ کرپشن نے ہمارے ملک کا بیڑاغرق کردیا ہے ،سیاستدانوں کی بڑی تعدادکا اس
میں بہت بڑا حصہ ہے جنہوں نے سیاست کو خدمت کی بجائے ایک منافع بخش کاروبار
بنارکھاہے اور اُن کو بے نقاب کرنے پر میں نے ہمیشہ میڈیا کو خراج تحسین
پیش کیا ہے اور ہم یہاں اپنے ملک سے ہزاروں میل دور بیٹھ کر بھی پاکستان کے
پروگرامز بڑے شوق سے دیکھتے آئے ہیں لیکن اب میڈیا کے چندنامور اینکرز کے
ملک ریاض سے فیضیاب ہونے کی اطلاعات نے میری طرح بے شمار اوور سیز
پاکستانیوں کو بری طرح مایوس کیا ہے اورآج کل پاکستان کے ساتھ ساتھ یہاں
امریکہ میں بھی پاکستانی میڈیا زیربحث ہے اوراس پرانگلیاں اٹھائی جارہی ہیں
اسی طرح گزشتہ دنوں اسی موضوع پر گفتگوکرتے ہوئے ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ
ملک ریاض نے تو ملک کو ایک منڈی بنارکھا تھا جس پر میں عرض کی کہ میں ملک
ریاض کی ذات کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ میری ذاتی طور پر اُن سے
کبھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اگر کسی کو خریدناجرم
ہے تو خود کو بیچنااس سے بھی بڑاجرم ہے یہ توایسے ہی ہوا کہ ایک طوائف کے
کوٹھے پر جاکر ایک صاحب نے دلال سے کہاکہ تم کتنے بے غیرت ہو کہ نوجوانوں
کوگمراہ کررہے ہو تواس پر اس دلال نے کہاکہ یہ بتاؤ تم ہمارے پاس آئے ہو یا
ہم تمھارے پاس گئے ہیں اس نے کہاکہ میں آیا ہوں تواس پر اس دلال نے کہا کہ
پھر اگرہم بے غیرت ہیں تو تم ہم سے بھی بڑے بے غیرت ہوکیوں کہ ہم تو اپنے
گھر میں بیٹھے ہیں جبکہ تم اس گناہ کے اڈے پر خودچل کرآئے ہو بہرحال اس
میڈیاگیٹ سکینڈل کے بعد میڈیا کی غیرجانبداری پرجس طرح سوال اٹھ رہے ہیں اس
کے بعد ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا کا بھی کڑا احتساب کیا جائے اور اُن
کالی بھیڑوں کو نکال باہرکیا جائے جو صحافت کے لبادے میں بڑی بڑی شخصیات کو
بلیک میل کرکے ذاتی فوائد حاصل کرتے رہتے ہیں اور اپنی دلکش لفاظی سے عوام
کو بیوقوف بناتے رہتے ہیں پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ان کی جگہ باآسانی
پر ہوجائے گی۔ |