آخرسپریم کورٹ کے 7رکنی بنچ نے
سید یوسف رضاگیلانی کو نااہل قرار دے دیا ہے اور کہاکہ وہ26اپریل سے وزیر
اعظم اور قومی اسمبلی کی رکنیت سے 5سال کے لیے نااہل ہو چکے ہیں ۔اس تمام
تناظر میں سید یوسف رضاگیلانی صاحب اگر 26اپریل کو اپنے آپ کو وزارت عظمیٰ
سے علیحدہ کر دیتے تو ان کی اتنی جگ ہنسائی نہ ہوتی جتنااب ان کی نااہلیت
کا مذاق اڑاجارہاہے۔اگرسید یوسف رضاگیلانی اس وقت جب انکے خلا ف قانونی
شوائد درست ثابت ہو چکے تھے توان کو چایئے تھا خاموشی سے وزارت کی سیٹ
چھوڑدیتے۔۔۔۔مگر اس بوتل کا مزاہی اور ہے یہ جس کو لگ جا تی ہے چھو ٹنے کا
نام ہی نہیں لیتی اس کرسی کا نشہ ہی کچھ اور جب کو ئی اس پر بیٹھنا ہے تو
اُترنے کا نام ہی نہیں لیتا چاہے عزت خاک میں مل جا ئے۔
26اپریل کے فیصلے پر پیپلز پارٹی کی مشاورتی کمیٹی کے چند ممبران نے اپنی
کا رنر میٹنگوں میں سید صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ شاہ صاحب چار سال وزارت
عظمیٰ کے مزے لے چکے ہو اب وسعت قلبی کا مظاہرہ کر تے ہوئے رخصت ہو جا ﺅ
اسی میں ہی آپ کی ہما ری اور پا رٹی کی خیر خواہی ہے۔ مگر اُس وقت سید یو
سف رضا گیلا نی نے اُن کو بڑے غصے کے عالم میں گھورا اور کہا کہ اس وقت ہم
جنگل کے شیر ہیں جو چاہیں کریںاگر پھر آپ نے ایسی غلطی کی تو آپ سے وفا قی
وزارت کا چمچہ چھین لیا جائے گا۔ بے چارے جیا لے صاحبو نے اسی میں اپنی
عاقبت تصور کی اور خاموشی اختیا ر کر لی۔ اب سپریم کو رٹ کے سات رکنی بنچ
کے فیصلے کے بعد صدر پاکستان آصف علی زرداری اور کمپنی نے بھی سید یو سف
رضا گیلانی کے ساتھ وفاﺅں کے ہا تھ کھینچ لئے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں
پیپلز پا رٹی کی مشاورتی کمیٹی اورپارٹی کے پارلمینٹرین اور تما م پا رٹی
عہدیداروں کا اجلاس ہوا۔ اور پیپلز پارٹی کے کے نئے وزیر اعظم کے لئے نامو
ں پر غور خوض جا ری ہے آخری اطلا عا ت آنے پر احمد مختار اور مخدوم شہا ب
الدین کے نا م لئے جا رہے ہیں۔
اگر ان دونوں حضرات میں سے کو ئی ایک وزیراعظم بنتا ہے۔ تو یہ PPPحکومت کا
پا نچ سالہ میں دوسرا وزیراعظم ہو گا۔ اور سید یو سف رضا صاحب کو اپنی
وزارت عظمیٰ میں کئی اعزازات ملے ہیں اُن سب میں بڑا عزاز اُن کو کو رٹ سے
سزاملی ہے۔ جو پاکستان کی تا ریخ میں لکھا گیا ہے ۔ اور سپریم کو رٹ کے
فیصلے کے مطابق وہ پانچ سال کیلئے الیکشن بھی نہیں لڑ سکتے ۔ اس وقت پیپلز
پا رٹی مظلو م کو اپنے دور حکو مت میں پارلیمنٹ سے منتخب ہو نے والا وزیر
اعظم عدالت کے ذریعے نا اہل ہو چکا ہے۔ اور قانون کی بالا دستی قائم ہوئی ۔
ہم سپریم کو رٹ سر براہ چیف جسٹس چو ہدری افتخار احمد کو داد دیتے ہیں کہ
نہ وہ بکے ہیں اور نہ ہی جھکے ہیںمستقل مزاجی سے قانو ن کی پگڈنڈی پر رواں
دواں رہے۔ اور ایک منتخب وزیراعظم نے غلطی کی اُس کو قانون کے کٹہرے میں لا
کھڑا کیا جرم ثابت ہو نے پر اُس کو انا اہل قراردے دیا۔
اور ایک مثال قائم کر دی کہ قانون سب کیلئے برابر ہے۔اگر پاکستان میں ایسے
فیصلے ہو تے رہے اور عمل درآمد ہو تا رہا تو جلد پاکستان ترقی کی راہ پر
گامزن ہو تا رہے گا۔ ہم چیف جسٹس صاحب سے مو دبانہ گزارش کر تے ہیں کہ ملک
میں اور بہت سی کا لی بھیڑوں جن کے خلا ف اعلیٰ عدالتوں میںکیس چل رہے
ہیںاُنہیں جلد نمٹا کر اُن کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔ اسی میں ہی قانون کی
با لا دستی اور انصاف کا بول با لا ہو گا۔ شاید اس کا لم کے شائع ہو نے تک
کو ئی نیا وزیر اعظم منتخب ہو جا ئے اور مذکو رہ ناموں میں کو ئی آﺅ ٹ ہو
جا ئے ۔ مو لا نا فضل الرحمٰن راجہ پرویز اشرف ، قمر الزمان کا ئرہ بھی
وزیر اعظم کے لئے اپنے پر تول رہے ہیں۔
پردہ پو شی ہزار ہو دانش
چہرہ غم کو چھپا نہیں سکتا
سید یو سف رضا گیلا نی اس وقت بہت غم زدہ ہیں ۔ مگر اپنے دوراقتدار میں جو
اُنہوں نے مزے لو ٹے اور ساتھیوں کو کھلی چھٹی دیکر ملکی خزانے پر ہا تھ
صاف کیے ۔ وہ اُنہیں اور اُنکے ساتھیوں کو خود معلوم ہے۔ جو لو گ اقتدار
میں آکر دولت کا انتخاب کرتے ہیں اُنکو آخر میں مصر کے با دشاہ حسنی مبا رک
اور پرویز مشر ف کی طرح ذلت و رسوائی کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔ آج یوسف رضا
گیلا نی کے اپنی ساتھی لفٹ نہیں کرواتے انکی وفائیں بھی تبدیل ہو چکی ہیں۔
آخر دولت اور دنیا کے بچاریوں کے ساتھ ایسا ہی ہو تا ہے۔
یا رآنکھیں ہی پھیر بیٹھے ہیں
وقت شاید یہ ہم پہ آنا تھا
کیوں ملے تھے تپاک سے جا نا ں
ہا تھ دانش سے گر چھڑانا تھا |