گیلانی کی سمجھداری اور اعتزاز کا بدلہ

سابق وزیر اعظم اور مبینہ طور پر ”کرپشن کنگ“ یوسف رضا گیلانی نے جب اپنی جانب سے عدلیہ بحالی تحریک کے نامور قائد بیرسٹر اعتزاز احسن کو وکیل مقرر کیا تو بہت سے لوگوں کو شدید قسم کی حیرانی سے دوچار ہونا پڑا۔ اعتزاز احسن یقینا ایسے وکیل ہیں جو لاکھوں میں فیس لیتے ہیں اور بعض اوقات تو ان کی فیس کروڑوں روپے سے بھی زائد ہوتی ہے۔ یوسف رضا گیلانی اور ان کے وکیل کے مابین جو فیس طے ہوئی وہ ان دونوں کا آپس کا معاملہ تھا لیکن جب اعتزاز احسن نے برملا اس امر کا اظہار کیا کہ انہوں نے صرف ایک سو روپے فیس کا چیک لیا ہے تو اس وقت حیرت دوچند ہوگئی کہ یقینا کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ یوسف رضا گیلانی نے یقینا وہ بات سن رکھی ہوگی کہ جب ایک گاﺅں کے چودھری کے بیٹے سے ایک قتل سرزد ہوگیا، اس نے اپنے علاقے کی بجائے ایک بڑے شہر کے بڑے وکیل کو ایک لاکھ روپے فیس پر اپنے بیٹے کا وکیل مقرر کیا۔ کیس چلا اور اس کے بیٹے کو پھانسی کی سزا ہوگئی۔ جب سزا کا فیصلہ سننے کے بعد وہ گاﺅں میں واپس آیا تو وہاں کے ایک مقامی وکیل نے اس سے کیس کی بابت استفسار کیا، چودھری نے جواب دیا کہ پھانسی کی سزا ہوگئی ہے، وکیل صاحب کہنے لگے کہ کتنی فیس دی تھی، چودھری نے جواب دیا کہ ایک لاکھ روپے۔ وکیل صاحب کہنے لگے ”یہی کام میں سو روپے میں کروا سکتا تھا“۔ چنانچہ توہین عدالت کیس کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے لگتا یہی تھا کہ گیلانی صاحب نے بہت سمجھداری کا ثبوت دیا کہ بیرسٹر اعتزاز احسن کو اپنا وکیل مقرر کیا اور فیس بھی سو روپے رکھی، ان کو یقینا ایسی ہی سزا کی امید تھی اس لئے ان کی یہ سوچ کہ لاکھوں یا کروڑوں میں فیس کیوں دی جائے قابل تحسین ہے۔ یوسف رضا گیلانی چاہتے تو کسی ایسے شخص کو بھی اپنا وکیل مقرر کرسکتے تھے جو عدلیہ بحالی کا مخالف ہوتا لیکن انہوں نے اگر اعتزاز احسن کو ترجیح دی تو اس میں یہ وجہ بھی شامل ہوسکتی ہے کہ چونکہ اعتزاز احسن کو بہت عرصہ پارٹی امور سے ”جبری“ لاتعلق رکھا گیا ہے اور اعتزاز احسن پارٹی پالیسی کے خلاف عدلیہ بحالی کے لئے سرگرم تھے اس لئے جو عزت وکلاءبرادری اور عوام الناس میں اعتزاز احسن کی بن چکی تھی اس کو اپنی وکالت کے ذریعے ملیا میٹ کرادیا جائے۔ اس طرح یوسف رضا گیلانی نے ایک تیر سے دو شکار کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ ایک تو اپنی تجوری ڈھیلی نہیں کی اور بھاری فیس بچا لی، دوسرے اعتزاز احسن کی کریڈیبلٹی کا ستیا ناس کردیا، وہی اعتزاز احسن جو کبھی وکلاءمیں ایسی پوزیشن پر پہنچ چکے تھے کہ بار کے الیکشن میں جس امیدوار کی طرف اشارہ کرتے تھے وہ جیت جایا کرتا تھا جبکہ اب حالات ایسے ہیں کہ جس کو شکست سے دوچار کروانا ہو اس کے ساتھ اعتزاز احسن کو کھڑا کردیں۔

دوسری طرف لوگ یہ بھی کہتے پائے جاتے ہیں کہ اعتزاز احسن کو چونکہ عدلیہ بحالی تحریک میں ان کے کردار کی وجہ سے پارٹی امور سے دور رکھا گیا، ان کی سی ای سی کی رکنیت بھی معطل رکھی گئی اور ان کو شوکاز نوٹس بھی جاری کیا گیا اس لئے اعتزاز احسن نے بھی اپنی ان ”بے عزتیوں“ کا بدلہ لے لیا کہ فیس لینے سے انکار کردیا اور اپنے سابقہ موقف کے بالکل برعکس سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کی وکالت شروع کردی حالانکہ اس سے پہلے وہ برملا اس بات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ حکومت کو سوئس حکام کو خط لکھنا ہی پڑے گا اور خط لکھنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ جب بیرسٹر اعتزاز احسن نے یوسف رضا گیلانی کا وکالت کا بیڑا اٹھایا تھا تو حیرانی بھی یہی تھی کہ اعتزاز اپنے سابقہ موقف کے برخلاف یہ کام کیسے کریں گے؟ لیکن بعد کے معاملات نے کسی حد تک دھند کو صاف کردیا جب اپیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جب کوئی وکیل کیس لڑ رہا ہوتا ہے اور عدالت سے فیصلہ خلاف آجائے تو موکل کا عمومی رویہ یہی ہوتا ہے کہ وکیل صاحب اگر اپیل کرنی ضروری ہو تو کردیں، یعنی اپیل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ عام طور پر وکیل کے مشورے کو حتمی سمجھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ یوسف رضا گیلانی نے بھی اپیل نہ کرنے کے فیصلے سے قبل یقینا بیرسٹر اعتزاز احسن سے بھی مشورہ طلب کیا گیا ہوگااور اعتزاز احسن بے شک ، ان کے بقول، اڑھائی سو صفحات کی اپیل تیار بھی کرچکے تھے، اگر ایسا ہی تھا تو اپیل دائر کیوں نہ کی گئی۔ اس سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ اعتزاز احسن نے پورے زور اور شدومد سے اپیل دائر کرنے کا مشورہ نہیں دیا ہوگا، ظاہر ہے سو روپے فیس لے کر کوئی وکیل کتنے مشورے دے سکتا ہے اور جب یہ امر بھی پیش نظر ہوکہ اپیل بھی اسی سوروپے میں بھگتائی جائے گی....! اب یہ تو وقت بتائے گا کہ گیلانی نے اعتزاز کو وکیل مقرر کرکے زیادہ سمجھداری اور ہوشیاری کا ثبوت دیایا واقعی اعتزاز نے حکومت کی سابقہ دشمنی کا بدلہ لیا! اس سارے معاملے میں گیلانی تو گھر چلے گئے، نئے وزیر اعظم کا انتخاب آج ہوجائے گا لیکن اعتزاز احسن کو ایک بات یقینا یاد رکھنی چاہئے کہ یوسف رضا گیلانی توصرف ایک مہرے تھے، اصل طاقتیں جنہوں نے اعتزاز کو زچ کیا تھا، ابھی بھی راج سنگھاسن پر براجمان ہیں، قوم یہ پوچھتی ہے کہ ان کی باری کب آئے گی؟ قوم کو یقینا اعتزاز احسن سے ایسی بہت سی توقعات ہیں....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222378 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.