افغانستان میں موجود بھارتی
سفارتخانے اور قونصل خانے ”را“ کا گڑھ بنے ہوئے ہیں اور یہ قونصل خانے
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں حالات خراب کرنے کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔
بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ بلوچستان میں پورے زور و شور سے خفیہ سرگرمیاں
جاری رکھی ہوئی ہے اور بعض نوجوانوں کو ملک کے خلاف بغاوت اور غداری کے لئے
نہ صرف اکسا رہی ہے بلکہ ان کو ہر طرح کا مواد اور اسلحہ بھی فراہم کیا
جارہا ہے۔ پاکستان کی حکومت نے ناراض بلوچوں کے ساتھ مذاکرات کی کوششیں
کرکے اچھا قدم اٹھایا ہے۔ ان کوششوں سے ”را“ کی سرگرمیاں محدود کرنے میں
مدد ملے گی۔ بلوچستان میں ترقیاتی پروجیکٹس کی اشد ضرورت ہے تاکہ ”را“ وہاں
کے عوام اور نوجوانوں کو غلط استعمال نہ کرسکے اور انہیں ملک کےخلاف اکسانے
میں کامیاب نہ ہوسکے۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت کو صوبے میں ہسپتال، سکول،
سڑکیں اور دیگر ضروری سہولیات کا فوراً بندوبست کرنا چاہئے۔ بلوچ نوجوانوں
کے لئے روز گار کے مواقع مہیا کیے جائیں۔ بلوچستان بے پناہ معدنیات اور
دیگر قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومت وہاں پر معدنیات
کو نکالنے کے پروجیکٹ لگا کر لوگوں کو روزگار مہیا کرسکتی ہے اور صوبے کو
ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرسکتی ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس
حوالے سے ٹھوس قدم اٹھائے۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد ککا معاملہ شدت اختیار
کرتا جارہا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ بہت زیردست کام کررہی
ہے اور کوشش کررہی ہے کہ لاپتہ افراد کا معاملہ حل ہو اور لاپتہ افراد اپنے
گھروں میں پہنچ جائیں تاکہ ان افراد کے لواحقین کی مشکلات میں کمی آئے اور
لوگوں کا اعتماد بحال ہو۔ بلاشبہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس حوالے سے
اقدامات قابل تحسین ہیں۔ یہ اقدامات صوبے میں غیر یقینی صورتحال میں کمی کا
بحث بھی بن جارہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے اقدامات کی عوام کی حمایت حاصل ہے
لیکن مقامی اور غیر ملکی میڈیا لاپتہ افراد کے کیس کو غیر ضروری اہمیت دے
رہا ہے اور ایسا پروجیکٹ کررہا جیسا کہ ان لاپتہ افراد کے پیچھے ملک کے اہم
اداروں کا ہاتھ ہے۔ حالانکہ میڈیا بلا تحقیق ایسی بداعتمادی پیدا کرنے کی
کوشش کررہا ہے جس کا واحد مقصد پاکستان کے اہم اور اعلیٰ اداروں کو بدنام
کرنا ہے۔ پاک فوج، آئی ایس آئی اور ایف سی پر بلوچ لوگوں کے اغوائ، تشدد
اور ان کے قتل کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔ پاک فوج اور آئی ایس آئی
کےخلاف میڈیا کا اس طرح پروپیگنڈہ کرنے کا مقصد لوگوں کے ذہنوں میں فوج اور
آئی ایس آئی کےخلاف نفرت پیدا کرنا ہے۔ میڈیا کے یہ عناصر حقیقت میں غیر
ملکی ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور حقائق کو نظر انداز کیے بغیر
ملک کی سرحدوں کے محافظ پاک فوج اور آئی ایس آئی کو ملوث کررہے ہیں۔ مقامی
میڈیا لاپتہ افراد کے معاملے کو اس طرح پروجیکٹ کررہا ہے جیسے پاک فوج ہی
اس کی واحد ذمہ داری ہے اور سپریم کورٹ پاک فوج کو روکنے کے لئے اقدامات
کررہی ہے حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ پاک فوج سپریم کورٹ کے فیصلوں کا
احترام کرتی ہے اور سپریم کورٹ کی طرف سے لاپتہ افراد کی بازیابی پاک فوج
کے لئے بھی خوش کن اقدام ہے۔ اسی طرح پریس کلبوں میں جیسا کہ کوئٹہ پریس
کلب میں سیمینار منعقد کرکے پاک فوج کو اس معاملے میں بدنام کرنے کی مہم
چلائی جارہی ہے تو یہ کسی صورت قابل فہم قرار نہیں دے سکتی کیونکہ فوج ہی
ایک ایسا ادارہ ہے جو ملک کی سلامتی اور امن و امان کے لئے چٹان کی طرح
کھڑی ہے۔ کوئٹہ پریس کلب میں گزشتہ دنوں ہونے والے سیمینار میں مقررین نے
الزام عائد کیا کہ صوبے میں 14 ہزار افراد لاپتہ ہیں اور اب ان لوگوں کی
لاشیں مل رہی ہیں۔ اس کا مورد الزام پاک فوج کو ٹھہرایا گیا۔ پاک فوج ایسی
سرگرمیوں میں ہر گز ملوث نہیں ہے۔ پاک فوج صرف اور صرف ملک کی نظریاتی اور
حقیقی سرحدوں کی محافظ اور اس ملک کےخلاف کی قسم کی ایسی سرگرمی جو ملک کے
مفاد کےخلاف ہے اس کو روکتی ہے اور اسی طرح اس شخص کو بھی روکتی ہے جوملک
کےخلاف کام کررہا ہو۔ ملک کےخلاف غیر ملکی ہاتھوں میں کھیلنے والے شخص کو
روکنا جرم نہیں ہے۔ اگر پاک فوج بھی اپنی ذمہ داریاں نہ نبھائے گی تو پھر
ان سرگرمیوں کو کون روکے گا۔ اطلاعات کے مطابق لاپتہ افراد میں سے بعض لوگ
ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث تھے اور بعض دہشت گردوں کے ساتھ مل کر صوبے
میں دہشت گردی پھیلا رہے تھے۔ ان دہشت گردوں نے معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا
اور اسی طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنایا۔ لاپتہ افراد میں
سے بعض لوگ کسی صورت معصوم اور بے گناہ نہیں ہیں۔ یہ لوگ کسی نہ طور ملک
مخالف سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ ان لاپتہ افراد میں سے بعض لوگ دہشت گرد کے
پاس چلے گئے اور خود ہی روپوش ہو گئے کیونکہ یہ لوگ قانون نافذ کرنے والے
اداروں سے چھپ گئے۔ ان تمام سرگرمیوں کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ مرکزی
اور صوبائی حکومت سیاسی سرگرمیاں شروع کرے۔ بلوچ ناراض رہنماﺅں سے مذاکرات
کرے اور صوبے میں ترقیاتی کام شروع کرائے جائیں۔ صوبے میں ارکان صوبائی
اسمبلی جنہوں نے ترقیاتی فنڈز میں کرپشن کی انہیں بے نقاب کیا جائے اور ان
سے لوٹی ہوئی دولت واپس لے کر صوبے کے عوام پر خرچ کی جائے۔ یہ کرپٹ حکمران
اور سیاستدان اپنی کرپشن چھپانے کے لئے پاک فوج کو مورد الزام ٹھہرانا آسان
سمجھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاک فوج، ایف سی اور آئی ایس آئی سب سے
مشکل اور کھٹن کام میں مصروف ہے اور وہ ترقیاتی کام جو ان منتخب ارکان
صوبائی اسمبلی اور سیاستدانوں کو کرنے چاہئے وہ فوج کررہی ہے کیونکہ یہ
کرپٹ ارکان اسمبلی صوبے میں کسی طرح کے ترقیاتی پروجیکٹس شروع نہیں کراتے
بلکہ لوٹ مار میں مصروف ہیں اور فوج ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ
صوبے میں ترقیاتی کام کرا رہی ہے، سڑکیں بنوا رہی ہے اور لوگوں کو روزگار
بھی دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود میڈیا اور کرپٹ عناصر فوج کو مورد الزام
ٹھہراتے ہیں کیونکہ یہ کرپٹ عناصر غیر ملکی ایجنسیوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں
اور اپنے ذاتی مفادات کی خاطر پاک فوج کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ
ان غیر ملکی ایجنسیوں کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مصروف ہیں۔ |