پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ
پاکستا ن ہے اس لیے تمام لیڈر جمہوریت کی باتیں کرتے ہیں۔ باتیں کرنا آسان
اور ان پر عمل کرنا بہت مشکل ہے۔ جمہوریت میں اظہار رائے کی آزادی ہر شخص
کو ہوتی ہے اور اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنابھی ایک جمہوری طریقہ ہے۔
ہمارے ہاں لوڈشیڈنگ نے جوملکی نظام درہم برہم کررکھا ہے اس سے کون واقف
نہیں؟ملک میں جب بھی کسی مسئلہ پر عدلیہ یا آرمی کی طرف سے بیان آجائے تو
سیاستدان فوراً کہتے ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ ہے ۔ جمہوریت کو ری ڈیل نہیں
ہونے دیں گے ۔ ملک کا نظام چلنے دیا جائے۔آمریت سے جمہوریت اچھی ہے وغیر ہ
وغیرہ۔ سب مانتے ہیں کہ آمریت سے جمہوریت اچھی ہے مگر جس جمہوری دور میں
عوام کوکوئی ریلیف نہیں ملے گا تووہ کیا کریں گے؟ سیاستدانوں نے جلسے کرنے
ہوں تو عوام کو دور دراز علاقوں سے جمع کرتے ہیں لیکن جب یہی عوام اپنے حق
کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں تو شرپسند کہلاتے ہیں۔ اگر عوام اپنے حقوق کے لیے
جمہوری دور میں آواز بلند نہیں کرسکتی تو کیا آمریت میں کرے گی؟ آج کل وطن
عزیز میں قریہ قریہ شہر شہر لوڈشیڈنگ کے خلاف آئے دن مظاہرے ہورہے ہیں ۔
لوگ اس عذاب سے چھٹکارے کے لیے پرامن رہ کر احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں مگر
انتظامیہ ان پر لاٹھی چارج ، آنسو گیس اور گرفتاریاں جیسے ہتھکنڈے استعمال
کرکے ان کو مشتعل کرتی ہے ۔ احتجاج کرنے والوں میں شاید کچھ شرپسند عناصر
بھی شامل ہوتے ہیں جو ملکی وسائل کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ امن ہ امان
کی صورتحال خراب کرنا چاہتے ہیں ۔اگر انتظامیہ احتجاج کرنے والوں کے ساتھ
تعاون کرے کیونکہ آخر انتظامیہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے اور ان کو اس
جمہوری دور میں اپنا پرامن احتجاج ریکارڈ کرانے میں مدد دے تو شاید ایسا
نقصان ہو۔ جب لوگ احتجاج کرتے ہیں تو ملکی املاک کا نقصان ہوتا ہے اور ہر
مظاہرے کے بعد لوگوں کی گرفتاریاں ہوتی ہیںاور مقدمے بھی درج ہوتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ ان کے خلاف تو مقدمے درج ہوگئے مگر جو اس لوڈشیڈنگ کے غیر
اعلانیہ اور ہر دس پندرہ منٹ کے بعد بجلی کا آنا اور ایک ”جھٹکا “ دے کر
چلے جانے سے عوام کے الیکٹرک مصنوعات کا نقصان ہوتا ہے اور لوگوں کوان کی
مرمت کرانے یا نئے خریدنے پر جو معاشی بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ اس نقصان
کے خلاف عوام کس کا پرچہ درج کرائے اور کس کو گرفتار کرایا جائے؟جمہوریت
عوام کے لیے ہوتی ہے لیڈر وں کے لیے نہیں۔جمہوریت ملک کا حسن ہوتا ہے مگر
جب حسن ہی بد نما ہوجائے تو پھر اس کا کیا فائدہ؟ سیاستدانوں نے ہر دور میں
اپنے اپنے مفاد کے لیے عوام سے جھوٹ بولا۔ ان سیاستدانوں نے کبھی بے نظیر
انکم سپورٹ ، لیپ ٹاپ ، گرین ٹریکٹر ، تندوراور ییلو کیب سکیم کے نام پر
اربوں کھربوں روپے لگا دیے ۔ (حکومت پنجاب نے تو پنجاب بینک کو خالی کرنے
کے بعد تمام سرکاری اداروں کو اپنے اکاو ¿نٹ پنجاب بنک میں منتقل کرنے کا
حکم دے دیا ۔ )اگر حکمران عوام کو بجلی دے دیتے تو آج جتنا نقصان ہم
اٹھارہے ہیں اتنا نہ اٹھا نا پڑتا۔ سیاستدان سینیٹ کے چیئرمین کا الیکشن ہو
یا وزیراعظم کا ، اس پر ایک ووٹ کے لیے کروڑں روپے تو دے سکتے ہیں مگر عوام
کے سکھ چین کے لیے بجلی گھروں کو فنڈ نہیں دے سکتے ۔بجلی کی پیدوار کے لیے
ڈاکٹر عبدالقدیر ، ڈاکٹر ثمر مبار ک کے فارمولے پر عمل کریں تو ہم بجلی میں
خودکفیل ہوسکتے ہیں۔ اگر یہ بھی ممکن نہیںتو ہمیں سستے داموں پڑوسی اور خیر
خواہ ملک چین بجلی دینے کے لیے تیار ہے تو پھر ہمیں کیوں اس بلا کی گرمی
میں لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں مروایا جارہا ہے؟اگر محب وطن سیاستدانوں کو جمہوریت
سے اتنا پیار ہے تو پھر عوام کوبھی اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کا
اختیار دیا جائے۔ اگریہ اپنے لیے تو جمہوریت کا نعرہ لگائیںاور عوام کی
آواز کو دبائیں گے تو پھر ملک کبھی ترقی نہیں کرسکتا کیونکہ یہ تو اسلام
بھی کہتا ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرو وہی اپنے دوسرے بھائی کے لیے پسند کرو۔
جمہوریت کے ٹھیکیداروںسے پوچھا جائے کہ جمہوریت پسند و ! آمریت کو آنے کا
موقع کون دیتا ہے ؟کیوں ایسے کام کیے جاتے ہیں جو آرمی کو مداخلت کرنی پڑے؟
عوام سے زیادہ لوٹ مار تو ہمارے بڑے بڑے برج جو اس ملک کے کرتا دھرتا بنے
بیٹھے ہیں وہ کرتے ہیں۔ جب عوام کو ان کا حق نہیں ملے گا تو وہ تومجبور
ہونگے کہ اپنی آواز حکام بالا تک پہنچائیں۔اگر اس میں کچھ شرپسند آکر نقصان
کر دیں تو اس میں غریب عوام کا کیا قصور؟ انتظامیہ ان پر نظر رکھے ۔پاکستان
کسی سیاستدان یا عوام کی وجہ قائم نہیں ہے بلکہ یہ تو ہمارے پیارے رب کی
طرف سے ایک تحفہ ہے جس میں رہ کر مسلما ن اسلام کے مطابق اپنی زندگی
بسرکرسکے۔جمہوریت پسند وں کو چاہیے کہ پہلے وہ خود اپنے آپ پر جمہوری قانون
اپنائیںپھر دوسروں کو اس کا درس دیںتب ہی پاکستان میں جمہوریت قائم رہ سکتی
ہے۔ |