ہمارے ملک میں وزیراعظموں کے آنے
جانے پر ایک پشتو شاعر “اکمل لیو“ نے جو پشتو نظم پیش کی ہے- اس کا ترجمہ
ملاحظہ کریں:- بشکریہ سلیم صافی کالم نگار
١۔ آج ایک وزیر اعظم ہوتا ہے تو کل کوئی دوسرا۔۔۔چند ماہ گزرے نہیں ہوتے کہ
وزیر اعظم بدل جاتا ہے۔
٢۔ ایک تو وہ وزیر اعظم ہوتا ہے جسے قوم منتخب کرلیتی ہے۔۔لیکن بعض تو
حادثاتی طور پر وزیر اعظم بن جاتے ہیں۔
٣۔ آج کے وزیر اعظم نہ ہماری جھولی میں کوئی اور خیر ڈالتا ہے نہ ہمیں
روٹی،کپڑا اور مکان دیتا ہے۔۔حالانکہ پہلے والا ہمیں یہ سب کچھ دیا کرتا
تھا۔
٤۔ جو بھی نیا وزیر اعظم آتا ہے وہ قوم سے کہتا ہے کہ خزانہ خالی ہے کیونکہ
سب کچھ سابقہ وزیر اعظم لوٹ چکے ہیں۔
٥۔ آج بہت معزز اورمحترم ہوتے ہیں اور قوم بھی اسے پسند کرتی ہے۔۔ لیکن
اگلے روز اچانک آواز بلند ہوجاتی ہے کہ چور ہے چور ہے وزیر اعظم چور ہے۔
٦۔ حمیت اور غیرت تو کیا محترم مولانا وزیر اعظم کی ہنسی پر دین اور ایمان
بھی قربان کرنے کو تیارتھے۔
٧۔ ایک وزیر سے میں نے پوچھا یار آپکا تو کوئی محکمہ ہی نہیں تو وہ بولے کہ
ان کا کام وزیر اعظم کی بھینسوں کے لئے چارہ لانا ہے۔
٨۔ ہمارے ملک میں ہمارا اپنا کوئی وزیر اعظم نہیں اور وہی وزیر اعظم ہوتا
ہے جو امریکہ کو پسند ہوتا ہے۔
٩۔ یہاں لوٹا وزیر اعظم ہو یا بوتل وزیر اعظم،امپورٹڈ ہویا دیسی،انہیں
ہماری نہیں بلکہ اپنی ہی فکر لاحق رہتی ہے۔
١٠یہ جو وزیر اعظم نے اپنی نئی کابینہ بنائی ہے حقیقت میں یہ وہی پرانے
گھوڑے ہیں لیکن صرف انکے کاٹھی بدل دی گئی ہے۔
١١یہ درست ہے کہ سابقہ وزیراعظم نے کوئی خاص کارنامہ سر انجام نہیں دیا
لیکن انکا یہ کارنامہ کیا کم ہے کہ انکی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کو کھانے لگ
گئے۔
١٢ہمارے ایک وزیر اعظم کو اگر کوئی مسئلہ درپیش ہوجاتاہے تو زرداری صاحب کے
پاس اس سے زیادہ اسپیشل وزیراعظم تیار رہتا ہے۔
١٣اے اکمل اگر ہم اس طرح سوئے رہے تو ایک نہ ایک دن ہمیں پاگل وزیراعظم سے
پالا پڑجائے گا۔۔ |
|