مصر کے صدارتی الیکشن کے سربراہ
فاروق سلطان اخوان المسلمون کے صدارتی امیدوار ڈاکٹر محمد مرسی کی کامیابی
کااعلان کررہے تھے او ر میری آنکھوں سے ایک سیل رواں تھا جو بہتا ہی چلا
جارہا تھا ....میری ہچکی بندھ گئی تھی ۔میر ے ذہن کے پردہ سکرین پردنیا کی
اسلامی تحریکوں کے لیے انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھنے والے بزرگ محترم حافظ
محمد ادریس کی تقریر اور تحریر کے الفاظ گونج رہے تھے ” جب 12فروری 1949ءکو
مصر کے بادشاہ فاروق کے حکم پر اخوان المسلمون کے بانی ومرشد عام امام حسن
البناؒ شہیدکو رات کی تاریکی میں مذاکرات کے بہانے دھوکے سے بلا کر اندھا
دھند فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا اس کے بعد اخبارات پرریاستی پابندیوں کایہ
عالم تھاکہ تمام اخبارات کو ہدایت کرد ی گئی کہ وہ اس واقعے کے متعلق کوئی
رپورٹ اور تصویر شائع نہ کریں سوائے اس پریس نوٹ کے جو وزارت اطلاعات کی
طرف سے جاری کیا جائے ۔دوسری طرف شہید کے رشتہ داروں اور اخوان سے تعلق
رکھنے والے تمام کارکنان کو پابند سلاسل کردیا گیا ۔عام لوگوں پر بھی گھروں
سے باہر نکلنے پر پابندی تھی۔امام کی گاڑی ا س واقعہ سے قبل ہی حکومت اپنی
تحویل میں لے چکی تھی پھر ان کا فون کاٹ دیا گیااور آخر میں ان کا لائسنس
یافتہ اسلحہ بھی واپس لے لیا گیا تھا ۔رات کے پچھلے پہر امام کی شہادت کی
خبر ان کے بوڑھے والد تک پہنچائی گئی اور صبح طلوع آفتاب کے بعد ان کا جسد
خاکی مسلح پہرے اور بندوقوں کے سائے میں ان کے گھر لایا گیا ان کے بوڑھے
والد گرامی شیخ احمد عبد الرحمن البناکی عمر 90برس سے متجاوز تھی اور ان کی
بینائی قریب قریب ختم ہو چکی ہے ۔امام کے رات بھر گھر نہ آنے کی وجہ سے وہ
اور اہل خانہ پریشان تھے ان کی زبان سے شہادت کی خبر سن کربے ساختہ یہ
الفاظ نکلے ”سبحانک وعدالتک یاربی لقد قتلواودلدی“(اے اللہ تو ہرعیب سے پاک
ہے تیرا عدل برحق ہے اے میر ے رب ظالموں نے میرے بیٹے کو قتل کردیا ہے )۔
شہید کا جسد خاکی لانے والے کارندوں نے حکم جاری کردیا کوئی رونے دھونے کی
آواز نہیں آنی چاہیے اس وقت اما م کے والد نے حضرت انس ؓبن مالک کی وہ حدیث
پڑھی جو انھوں نے نبی اقد س ﷺکے بیٹے کی وفات کے متعلق روایت کی ہے اور
آنحضور کے ہی الفاظ دہرائے ”آنکھ اشک بار ہوگئی ہے دل غمزدہ ہے مگر ہم اپنی
زبان سے وہی الفاظ اداکرتے ہیں جو ہمارے رب جلیل کو پسند ہیں ۔بخدا اے
ابراہیم ہم تیر ی جدائی سے بہت غمزدہ ہیں ۔اناللہ واناالیہ راجعون۔شہید کے
گھر تعزیت کے لئے جانا ممنو ع قرارپایا ۔معروف فلسطینی رہنما محمد علی
الطاہر اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں”اس ہولناک واقعے سے ہر صاحب ایمان کادل
دہل گیاغم کے طویل سائے چھا گئے ۔حکومت نے لوگوں کو تعزیت سے روک دیا میر
ادل پارہ پارہ تھا دن گزار آدھی رات بھی بیت گئی مگر کسی پل چین نہ آرہا
تھا آدھی رات کے قریب میں نے وزات تعلیم کے سیکرٹری محمد سعید العریان سے
جو میرے ساتھ غم کے ہچکولے کھارہے تھے اور باربار اپنے بچپن کے دوست اور ہم
جماعت کے مظلومانہ شہادت پرپھوٹ پھوٹ کرروتے تھے کہا کہ کیوں نہ اسوقت
مظلوم شہید کے گھر جاکر ان کے والد اور اہل خانہ سے تعزیت کی جائے ۔انھوں
نے کہاکہ ۔چلو ابھی چلو ۔جنا ب العریان نے اپنی گاڑی سٹارٹ کی اور ہم محلہ
حلیمہ کی جانب چل دئیے ۔جوں ہی ہم شہید کے گھر کے قریب پہنچے محسوس ہوا کہ
اندھیرے جنگل میں داخل ہو گئے ہیں ۔کہیں کوئی روشنی کی کرن ۔کوئی دیا بلب
یا ٹیو ب لائٹ نہیں تھی ۔تمام بازار دکانیں مقفل تھیں۔ہم نے گاڑی کی فل
بتیاں جلائیں تو سیاہ وردیوں میں ملبوس سیاہ آسیب جیسے سائے حرکت میں
آگئے۔یہ مسلح تھے اور ان کی بندوقوں کا رخ ہماری طرف تھا ۔انھوں نے سختی سے
ہمیں واپس پلٹ جانے کا حکم دیا ۔ہم نے دیگر راستوں سے بھی امام شہید کے گھر
پہنچنے کی کوشش کی لیکن مگر ناکام رہے “۔
سرکاری حکم کے مطابق صبح 9بجے تک تدفین کا عمل مکمل ہونا تھالوگوں کو جنازے
میں شرکت کی اجازت نہیں تھی ۔صبح 8بجے جسد خاکی کو کفن میں ملبو س کرکے
شہید کے والد گھر سے باہر نکلے ۔مسلح سرکاری اہلکاروں اور ان کی گاڑیوں کے
علاوہ سڑک پر کوئی چیز نظر نہیں آرہی تھی۔جنازہ تیار ہو گیا تو شہید کے
والد نے پولیس اہلکاروں سے کہاکچھ افراد کو بھیجوجنازہ اٹھا کرگاڑی میں رکھ
دیں ۔مگر انھوں نے انکار کردیا انھوں نے بتایا کہ گھر میں کوئی مرد نہیں ہے
۔تو سپاہیوں نے جواب دیا مرد نہیں ہے تو عورتیں جنازہ اٹھا ئیں ۔چنانچہ گھر
کی خواتین نے جنازہ اٹھایا جو جامع مسجد قیسو م تک لایا گیا ۔وہاں بندوقوں
کے سائے میں جنازہ پڑھا گیا پھر امام شافعی کے قبرستان میں تدفین کی گئی ۔
امام کا جنازہ اٹھانے والوں میں ان کی اہلیہ بہن اور 18سالہ بیٹی کے علاوہ
شہید کے والدشریک تھے ....بے بسی کے اس عالم میں ان کی بڑی بیٹی نے اپنی
ہمت مجتمع کرکے جو الفاظ کہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ حسن البنا شہید نے
اپنے بچوں کی تربیت کا حق اداکیا تھا ۔اخوان المسلون کے شاندار تربیتی نظام
پر پوری کتاب سے شاید اتنی روشنی نہیں پڑ سکتی جتنی صرف اس ایک واقعے سے
سامنے آتی ہے ۔منظر اور ماحول پر چھائے غم کے طویل سایوں کے درمیان اپنے
شہید باپ کی روح کو مخاطب کرکے بیٹی کہتی ہے ’ ’ باباجان آپ کے جنازے کے
ساتھ لوگوں کا ہجوم نہیں ہے ۔زمین والوں کو روک دیا گیا ہے مگر آسمان والوں
کوکون روک سکتا ہے ۔آپ کے جنازے کے ساتھ شہداءکی روحوں کاقافلہ چلا آرہا ہے
آپ اطمینان کے ساتھ اپنے رب اعلیٰ کے پاس جائیے آپ نے جو پیغام ہمیں دیا ہے
وہ زندہ رہے گا جو جھنڈا ہمیں تھمایا ہے وہ سربلند رہے گا “ ۔
24جون2012ءکی روشنی نے ثابت کردیا کہ قید وبند شہادتوں اور مصیبتوں کے بعد
فتح حق کی ہے .... بدرواحد کے بعد فتح مکہ حزب اللہ کا مقدر ہے حزب الشیطان
کتنی ہی سازشیں کرے رزلٹ کو تبدیل کرنے کےلئے اپنی پوری مشینری کو استعمال
کرلے ....عدالتوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے اہل حق کی راہ
کھوٹی کرنے کی کوشش کرے ....لیکن مصیبت تنگی اور آزمائش کے بعد اسلامی
انقلاب کی ٹھنڈی ہو ائیں امت مسلمہ ہی کا مقدر ہیں ....پاکستان کی اسلامی
تحریک بھی دھیمے دھیمے انداز میں انقلاب کے قریب تر ہورہی ہے ....انقلاب تو
برپا ہو جاناہے ....اسلام تو غالب ہو نے کےلئے آیا ....وہ غلبہ پاہی لے گا
لیکن مجھے سوچنا چاہیے کہ اس اہم موڑ پر میر ا کیا کردار ہے ....؟؟؟۔
ہم مصر کی اسلامی تحریک اخوان المسلمون کے تدبر٬صبر اور بہترین حکمت عملی
کے بعد ملنے والی عظیم کامیابی پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام کی جانب
سے انھیں مبارکباد پیش کرتے ہوئے اللہ رب العزت سے دعا گو ہیں کہ اللہ ان
کوآنے والے چیلنجز میں بھی اسی طرح کامیابی اور سرخروئی عطا کرے جو اس سے
قبل ان کا مقدر بنی (آمین ) |