سوچ رہا تھا آواز اٹھاﺅں گا
تو کہوں گا ڈھول بجانے بند کر دو ، خیال تھا کوئی سنے گا تو بتاﺅں گا
گیلانی کا جانا پہلے سے طے تھا،یقین تھا کہ نقار خانے میں کوئی چپ ہوا
تو صدا بلند کروں گا کہ حکومت جیت چکی ہے ۔ جی ہاں عوام کا خیال ہے
گیلانی ہار گیا اور صدر پاکستان کا ایک اہم مہرہ پٹ گیالیکن ایوان صدر
کی بھنک رکھنے والے جانتے ہیں کہ صدر پاکستان کو کامیابی حاصل ہو ئی ہے
۔ بتانا پسند نہ کریں تو اور بات لیکن اندر کی خبر رکھنے والوں کو
بخوبی علم ہے کہ منصوبہ یہی تھا ۔ پیپلز پارٹی نے سیاسی شہید بننے کی
طرف اپنا پہلا قدم کامیابی سے اٹھا لیا۔ ہمارے دانشور کہ رہے ہیں کہ
گیلانی سیاسی شہید بھی نہ بن سکے اور وزارت عظمی سے بھی ہاتھ دھونے پڑے
میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ گیلانی کو سیاسی شہید بنانے کا منصوبہ ہی نہ
تھا۔ سیاسی شہید پیپلز پارٹی نے بننا ہے ۔ ہمدردی کا ووٹ گیلانی کو
نہیں پیپلز پارٹی کو چاہیے لیکن افسوس اب پیپلز پارٹی میں کوئی بھٹو
اور بے نظیر نہیں ہے اور اگلے الیکشن میں کوئی ”شہید “ بننے کو تیار
نہیں البتہ سیاسی شہادت کے طلب گار ضرور ہیں۔پیپلز پارٹی مقتل کی بجائے
ایوانوں میں رہنا چاہتی ہے اسی لیے صفدر عباسی اور ناہید خان اپنے
ساتھیوں سمیت ”باغی“ بن گئے۔ یہ باغی لاہور آئے تو انہوں نے مجھے میسج
کیا اس سے پہلے اسلام آباد گئے تو تب بھی بلایا ۔ میں چاہتے ہوئے بھی
کچھ مصروفیات کی بنا پر ان باغیوں سے نہ مل سکا ۔اور باغی اگلے دن واپس
لوٹ گئے ۔ میں باغیوں کے اس ٹولے سے اس لیے نہیں مل سکا کہ ان دنوں میں
شطرنج کی اس بساط کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا جو آصف علی زرداری بچھا
چکے ہیں ۔ مجھے ڈر تھا کہ باغیوں سے ملنے کی صورت میں اس چال کو سمجھنا
مزیدمشکل ہو جائے گا کیونکہ باغی مصلحت کا شکار نہیں ہوتے۔ ان کی گفتگو
سیدھی اور دو ٹوک ہوتی ہے جس میں الجھنے والا سیدھی لائن پر غور کرتا
رہ جاتا ہے اور سجی سجائی بساط اس کے ذہن سے نکل جاتی ہے ۔ بہر حال
حقیقت یہ ہے کہ یوسف رضا گیلانی کو سیاسی شہید بنانا مقصود نہ تھا بلکہ
اصل مقصد پیپلز پارٹی کو سیاسی شہید بنانا ہے ۔عوام مانے یانہ مانے
لیکن جیالے کو منانا زیادہ مشکل نہ ہو گا اس لیے کہانی صرف اتنی سی ہے
کہ یوسف رضا گیلانی کے بعد اب موجودہ وزیر اعظم کو بھی نا اہل قرار
دلوایا جائے گا کیونکہ نئے وزیر ٓاعظم پاکستان سے وفاداری کا حلف
اٹھانے سے قبل یہ حلف اٹھا چکے تھے کہ وہ سوئس حکومت کو خط نہیں لکھیں
گے ۔ اب دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ اگر موجودہ وزیر آعظم بھی نا اہل ہو
گئے تو جیالوں کو سڑکوں پر لایا جائے گا اور نعرہ لگایا جائے گا کہ
پیپلز پارٹی کے خلاف منظم سازش ہوئی ہے اور جمہوریت کے خلاف قدم اٹھایا
گیا ہے اسی دوران معاملہ گرم دیکھ کر الیکشن کروا دیے جائیں گے دوسری
صورت یہ ہے کہ یہ سب تیسرے وزیر آعظم کی ”قربانی “پر کیا جائے گا ۔
پیپلز پارٹی سیاسی شہادت کی طرف پہلا قدم کامیابی سے اٹھا چکی ہے جبکہ
عوام مٹھائی بانٹ رہے ہیں ۔ میرا ارادہ تھا اس حوالے سے تفصیل سے لکھوں
گا لیکن ایک اور اہم خبر درمیان میں آگئی ۔ ریمنڈ ڈیوس امریکن خفیہ
ایجنسی سی آئی اے کا ٓپریشنل چیف تھا جس نے پاکستانیوں کو قتل کیا ۔اسی
طرح سربجیت سنگھ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کا جاسوس تھا جس نے پاکستان
میں سیریز دھماکے کیے اور پاکستانیوں کو شہید کیا ۔ بھارت اورامریکا کے
یہ خطرناک جاسوس اور پاکستانیوں کے قاتل پیپلز پارٹی کی ہی موجودہ
حکومت نے رہا کر دیے ۔ سوال یہ ہے کہ اس عمل سے حکومت کیا پیغام دینا
چاہتی ہے؟ کیا پاکستان دشمن ملکوں کے جاسوسوں کے لیے” فری لینڈ“ بنا
دیا گیا ہے؟ کیا جب کوئی جاسوس پاکستان تخریب کاری کے لیے آئے گا تو اس
سے قبل یہ مثالیں دیتے ہوئے اس کے چیف اس سے یہ نہیں کہیں گے کہ ”جاﺅ!
پاکستان میں کھل کر کارروائیاں کرنا ، بے فکر رہو اگر پکڑے گئے تو ہم
تمہیں چھڑوا لیں گے ۔ تم سے پہلے لوگ بھی رہا کروا لیے گئے تھے “۔ کیا
سربجیت سنگھ اور ریمنڈ ڈیوس کسی ٹریننگ سینٹر میں یہ نہیں کہا کریں گے
کہ” ہمیں دیکھو ! ہم وہی ہیں جنہوں نے قتل کیے، گرفتار ہوئے اور پھر
ہمارے دشمن نے یہ جانتے ہوئے کہ ہم جاسوس ہیں ،ہمیں چھوڑ دیا“ ۔
سربجہیت سنگھ کی بیٹی نے کہا ہے کہ پاکستان سے جو امید تھی وہ پوری ہو
گئی ۔ حکمرانوں کو فخر ہو گا کہ وہ ہمسایہ ممالک کی امیدوں پر پورے
اترے ہیں ویسے ان کی کارکردگی دیکھتے ہوئے پاکستانیوں کو بھی ان سے یہی
امید تھی ۔ بات شاید لمبی ہو جائے اس لیے صرف یہ یاد دہانی کروانا
چاہتا ہوں کہ پیپلز پارٹی کی لیڈر بے نظیر بھٹو جن کے نام پر پیپلز
پارٹی ووٹ لے گی انہی بے نظر بھٹو نے اپنے متوقع قاتلوں میں جن افراد
کا نام لکھا تھا ان میں سے ایک اس وقت نائب وزیر ٓعظم ہیں ۔ کیا پیپلز
پارٹی کی موجودہ حکومت بے نظیر بھٹو کے خون کا سودا کر چکی ہے؟ بی بی
قاتلوں کی گولیاں کھانے کے باوجود زندہ رہیں لیکن پیپلز پارٹی نے انہیں
مار دیا ۔ یہ الفاظ میرے نہیں بلکہ ایک جیالے کے ہیں ۔ اس کا کہنا تھا
اب سربجیت کو رہا کریں یاریمنڈ ڈیوس کو ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا
کیونکہ بی بی کو جن سے خطرہ تھا انہی کو اپنے اقتدار کی خاطر نائب وزیر
اعظم بنانے والے پارٹی لیڈراس ملک کے لیے کچھ نہیں کریں گے ۔ وہ جیالا
چلا رہا تھا کہ جو بی بی کے نہ ہو سکے وہ عوام یا ملک کے کیا ہوں گے
اور میںسوچ رہا تھاکہ الیکشن مین یہی جیالا ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی
کو ووٹ دے گا کیونکہ پیپلز پارٹی سیاسی شہادت کی طرف پہلا قدم کامیابی
سے اٹھا چکی ہے ۔ دوسرا قدم دھماکے دار ہو گا جو جیالوں کو کچھ سوچنے
کا موقع ہی نہیں دے گا ۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو آمین |