ارض تاریخ میں نو آبادیاتی نظام ابتداءہی
سے نظرآتا ہے کیونکہ جب دنیا میں حضرت آدم علیہ السلام نے قدم رکھا اور
رضائے الٰہی سے افزائش نسل کا عمل بڑھایا تو دنیا میں انسانوں کی تعداد
بڑھنے لگی، ہابیل و کابیل کا واقعہ آدم علیہ السلام کی نسل کو پھیلانے میں
سبب بنا یہ مشعیت الٰہی ہی تھی کہ اولاد آدم کو دنیا میں پھیلانا مقصود تھا،
وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ جوں جوں آبادیوں میں اضافہ ہوتا چلاگیا اسی قدر
ان میں انخلاءبھی کا بھی عمل جاری رہا، معاشرے میں تبدیلیاں واقع ہوتی رہیں
اور لوگ گروہ میں بٹتے چلے گئے ۔ خاندان قبیلوں میں اور قبیلے قوموں میں
منقسم ہوتے گئے۔ اس کی کئی وجوہات تھیں جن میں انسانی نفسیات، اخلاقیات،
دین اور طاقت کے اثرات شامل تھے کیونکہ فطرتاً ہر انسان مختلف مزاج میں
پیدا ہوتا ہے اور معاشرے کے اثرات اس کی ذہنی و جسمانی بدلاﺅ مین اہم کردار
ادا کرتے ہیں اسی لیئے گروہوں، قبیلوں اور قوموں میں تبدیلی ناگزیز ہوجاتی
ہیں ۔۔۔ کھبی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ذہنوں کے اختلاف قبیلوں اور قوموں کو
مزید تقسیم کرڈالے اور نئی شکلیں نمودارہوئیں ، اس تقسیم میں نہ صرف قومیں
منقسم ہوئیں بلکہ زمینی حقائق میں بھی تبدیلی رونما ہوئیں ۔ تحفظ اور سکون
کی تلاش میں افراد اور قبیلوں نے بنجر و بیابان کو آباد کیا اور کچھ نے
جنگلوں کی راہ لی اسی طرح پہاڑ ہوں یا ریگستان ، سرسبز میدان ہوں یا جزیرے
گو کہ انسان نے اپنی نئی آبادیاں بنانا شروع کردی ، انبیاءکرام آئے انسان
کو انسانیت سیکھانے کیلئے جنھوں نے انبیاءکرام کو تسلیم کیا اور ایک اللہ
کی عبادت کو اپنایا وہ با شعور ، با ادب اور مہذب کہلائے۔ بحرحال اگر زیادہ
دور نہ جائیں تو ہمیں دنیا میں ایسے بھی ممالک ملیں گے جو بیابان اور بنجر
تھے ان میں آج جدید ترین ملک امریکہ بھی شامل ہے ، امریکہ ہو یا کینیڈا یا
کوئی اور یہ تمام نو آبادیاتی نظام کے تحت دنیا میں آباد ہوئے ۔اس کے ساتھ
ساتھ ایسے بھی ممالک اور علاقہ جات ہیں جہاں فتوحات کے بعد قوموں میں
تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، ان میںبرصغیر پاک و ہند کا بھی خاص شمار ہوتا ہے ۔
اس خطے میں کئی بار حکومتیں وجود میں آئی اور کئی بار ختم ہوئیں ۔۱۲ اپریل
۶۲۵۱ءکو ظہیر الدین محمد بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست دیکر دہلی پر قبضہ
کرلیا یوں وقت کے ساتھ پورے بھارت کا حاکم بن گیاپھر اس کی نسل در نسل اس
خطے پر حکمرانی کرتی رہی۔ یہ بادشاہی سلسلہ مغل سلطنت کے نام سے مشہور ہے ،
مغل سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر تھے جن کے دور حکومت میں انگلستان
کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے تجارت کے بہانے سر زمین بھارت میں اپنا نیٹ ورک
پھیلا کر کئی املاک بنالیں اور مفاد پرست، خودغرض، لالچی اور مخالفین ریاست
کو بھاری رقم اور مراعات کے ساتھ اعزازات سے نوازا اور انہیں اپنے مشن کی
تکمیل کیلئے استعمال کیا پھر مغل سلطنت کے خلاف بغاوت پھیلا کر سلطنت کا
تختہ الٹ ڈالا۔ انگریزوں نے تقریباً دو سو برس برصغیر پاک و ہند پر حکومت
کی، اس خطے میں بجلی، ریل، موٹر گاڑیاں، توپ، پستول اور دیگر اشیاءمتعارف
کرائیں، سفر اور ترسیل کو آسان بنایا گیا اس کے ساتھ عسکری طاقت کو بھی
بڑھایا۔یہ حقیقت ہے کہ انگریزوں نے بر صغیر میں جو کام کیئے تھے وہ اُن سے
پہلے کسی بھی مہاراجہ یا بادشاہ کو ہرگز نہ سوجے۔ہاں البتہ مہاراجاﺅں اور
باداشاہوں نے اپنی عیش و تعائش کیلئے ہر ساماں تو کر رکھے تھے لیکن عوام
الناس کیلئے کوئی فلاح و بہبود کا عمل نظر نہیں آتا جبکہ عوام کا جینا محال
تھا۔۔ جب انگریز اس خطے سے جانے لگے تو دو قومی نظریہ نے جنم لیا یہ دو
قومی نظریہ سب سے پہلے مولانا شوکت علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر نے
پیش کیئے۔ ان سے قبل سر سید احمد خان نے مسلم امت کے مستقبل کو اچھی طرح
بھانپ لیاوہ جانتے تھے کہ آنے والا وقت انہیں بہت پیچھے دھکیل دے گا اسی
لیئے سر سید احمد خان نے مسلم امت میں علم کے چراغ کو روشن کیا مگر جاہلوں
اور فرسودہ ذہنوں کے مالکوں نے آپ کے مشن میں بہت رکاوٹیں حائل کی تھیں
لیکن آپ مضبوط ارادوں کے مالک تھے اسی لیئے آپ نے ہر مخالفت کا مقابلہ علم
و دلائل سے دیا ، علی گڑھ میں مسلم امت کیلئے ایک یونیورسٹی کا قیام کیا
جہاں سے لاکھوں کی تعداد میں ذہین، فطین، قابل اور ہونہار طالبعلم تیار
ہوئے ،آج بھی دنیا اُن طالبعلموں کو یاد رکھتی ہے اس کی بڑی وجہ تحریک
پاکستان کی کامیابی اور پاکستان کے انسٹریکچر کا بنانا تھا جو ہجرت کردہ
علی گڑھ یونیورسٹی کے طالبلموں نے یہ بیڑہ قائد اعظم محمد علی جناح اور خان
لیاقت علی خان کی رہنمائی میں اٹھایا یہ ایک کٹھن اور مشکل ترین مرحلہ تھا
جسے انتہائی خوبصورتی سے طے کیا۔ دو قومی نظریہ کے تحت پاکستان چودہ اگست
انیس سو سینتالیس کو معروض وجود میں آیا ۔ دو قومی نظریہ مذہب کی بنیاد تھا
ایک مسلم دوسرا ہندو۔ ۔۔ہندوستان میں ہندوﺅں کے بعد سب سے زیادہ آبادی مسلم
پر محیط تھی اسی بابت طے یہ پایا گیا کہ جہاں مسلم آبادیاں کثیر تعداد میں
ہیں ان علاقوں کو پاکستان قرار دیا جائے مگر یہاں بھی تقسیم میں خیانت برتی
گئی۔ ان دو قومی نظریہ میں سب سے زیادہ تحریک اور قربانیاں ہندوستان کے
مسلمانوں نے ادا کیں ، ان کی قربانیوں کے طفیل موجودہ پاکستان اور موجودہ
بنگلہ دیش جوکہ مشرقی اورمغربی پاکستان کے نام سے دو یونٹ پر قائم ہوا ۔
پاکستان تو بن گیا لیکن پاکستان کے مخالفین کو گوارا نہیں تھا کہ پاکستان
دنیا میں ایک سرخرو اور کامیاب ملک بن کر ابھرے۔ اسی لیئے مخالفین نے طے
کرلیا کہ پاکستان کوا ندرونی سطح پر کمزور کیا جائے۔ قائد اعظم محمد علی
جناح اور خان لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد مخالفین کو مکمل موقع میسر آیا
انھوں نے پاکستان میں انارکی پھیلا کر اس کے جمہوری نظام کو تہس و نہس
کرڈالیں ۔۔۔ ان کی سازشوں کا جہاں سیاستدان حصہ بننے وہیں عسکری قوتیں بھی
کم نہ تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ قادیانیوں نے تمام تر کوششیں رکھیں کہ
پاکستان کی سلامتی کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچے ، قادیانیوں نے بیرونی
سازشوں کا بھرپور ساتھ دیا اور اندرونی خلفشار کا باعث بنے۔۔ آخر کار وہی
ہوا جو دشمنانان پاکستان چاہتے تھے پاکستان کا ایک بازو مشرقی پاکستان جدا
ہوکر علیحدہ خودمختار ریاست بن گیا جو اب بنگلہ دیش ہے ۔۔۔ انیس سو ستر کی
سوچی سمجھی سازشی جنگ میں بھارت کے مسلم ایک بار پھر پاکستان کے ساتھ خلوص
و نیت کی بہت بڑی سزا میں گرفتار ہوگئے اور ہماری عسکری قوتیں دشمن بھارت
کے سامنے لاکھوں کی تعداد میں سرینڈر کرگئے جو رہتی دنیا تک یہ دا غ میں
مٹایا جاسکے گا ۔ مخلص ، سچے پاکستان سے لگاﺅ رکھنے والے لاکھوں کی تعداد
میں لوگ بیگار کیمپ کی نظر ہوگئے اور ایک تاریخ کا سیاہ واقعہ سقوط ڈھاکہ
پیش آیا۔اُس وقت کے سعود ی عرب کت ولی عہدشاہ فیصل نے انسانیت کے خاطر
وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پیشکش دی کہ ہم بنگلہ دیش میں پھنسے مہاجرین
کو سعودی عرب میں آباد کرتے ہیں آپ انہیں سعودی عرب بھیج دیں ،اس موقع سے
فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین اور پاکستان کے وزیر
اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سندھ کے مقامی لوگوں کے گروہ در گروہ سرکاری
اخراجات پر سعودی عرب روانہ شروع کردیئے ، غالباً یہ انیس سو تہتر اور
چوہتر کا دور تھا جب کراچی ایئر پورٹ پر لاکھوں کی تعداد میں مقامی سندھیوں
کو سعودی عرب کیلئے ہوٹل مڈ وے میں ٹہرایا، قافلے روز بروز کئی ہفتوں تک
اندرون سندھ سے آتے رہے اور سعودی عرب کیلئے روانہ ہوتے گئے ۔ یہاں اس
تاریخ کے حقائق کو بتانے کا مقصد یہی ہے کہ پاکستان بننے کے بعد بھی بھارت
سے تعلق رکھنے والی مسلم قوم کو ہمیشہ کی طرح نظر انداز کرکے ان کے حقوق
سلب کیئے گئے ۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں
ہی سب سے پہلا لسانی جھگڑا شروع ہوا تھا جو سندھیوں اور بھارت سے ہجرت کرنے
والے مہاجروں کے درمیان پیش آیا یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اُس وقت کے
حکمرانوں کو بھی مہاجر قوم برداشت نہ تھی ۔ بھٹو سے قبل ایوب نے تعصب میں
انتہا کردی ،اُس نے کراچی دارلخلافہ ختم کرکے اسلام آباد منتقل کردیا اور
کراچی میں سرحد کے لوگوں کو بری تعداد میںآباد کیا انہیں نہ صرف زمینیں
آلاٹ کی بلکہ سرکاری اخراجات سے مالی امداد کے دروازے کھول دیئے اسی سلسلے
کو بھٹو نے اور آج تک اپنایا جاتا رہا ہے ۔ پاکستان بننے کے بعد جنھوں نے
تمام تر قربانیاں دی وہی قوم آج اپنے بنیادی حقوق کیلئے سراپا احتجاج نظر
آتی ہے۔بھارت سے ہجرت یافتہ مہاجرین کیلئے کوٹے سسٹم کے باڑ متواتر لگائے
جاتے رہیں ہیں اور ان پر روزگار، تجارت اور کمیشن سروسس کے دروازوں پر قفل
موجود ہیں ، سوائے کراچی یونیورسٹی یا پرائیویٹ یونیورسٹیز کے اس قوم کیلئے
تعلیمی دروازے بند ہیں۔ یہ قوم پڑھے لکھے دانشور، مفکر، محقق، اسکالر، ادیب،
فنکار، شاعر، انجینئرز، ڈاکٹرز، سائنسدان، سیاستدانوں کی اولاد ہیں ان کے
بزرگوں میں شرافت، ایمانداری، سچائی، انکساری و عاجزی،خاندانی روایات پہناں
تھیں ، شائد ان کی ان اعلیٰ خصائص کی بناءپر کچھ قوم کو گوارہ نہ تھا کہ ان
کی واہ واہ کیوں ہو!! بحرحال اس قوم کے ساتھ دیگر قوموں کے لیڈران نے انصاف
قطعی نہیں رکھا اب جب مہاجرین نے اپنے شہروں کو آباد کیا اور ماحول پر سکون
بنایا تو منفی سوچ کے لیڈران اور قوم کے چند گروہوں نے اسے برباد کرنے لیئے
کئی سازشوں کے جال دیئے پہلے پہل کئی الزامات سے نوازا گیا پھر جب نا کام
ہوئی اور مہاجروں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت انہیں تکلیف دینے لگی گو کہ اس قوم
کو دیوار سے نگانے کیلئے ہر ایک نے زور آمازئی کی وہ کہتے ہیں نہ کہ جسے
اللہ رکھے اُسے کون چکھے!! بحرحال موجودہ دور میں دیگر قوموں کو بھی احساس
ہوگیا کہ اب انتظامی سطح پر نئے صوبے بننے چاہئیں تاکہ دیگر وہ قوم جن کے
پاس صوبے نہیں وہ اپنی شناخت اور حقوق کو حاصل کرنے کیلئے صوبے حاصل کریں
جیسے سرائیکیوں کیلئے بہاولپور اور ملتان کا صوبہ اور ہری پور ہزارہ کیلئے
ہزارہ صوبے کے ڈیمانڈ نہ صرف زور پکڑ گئے بلکہ اب حکومتی اور سیاسی ایوانوں
میں اس احتجاج پر بحث و مباحثہ جاری ہے صدر مملکت آصف علی زرداری نے
سرائیکیوں کیلئے صوبہ کی اجازت دے دی ہے جبکہ ہزارہ ابھی تعطل کا شکار ہے ،
اسی اثناءمیں سندھ میں آباد سب سے بڑی قوم مہاجروں کے ایک گروہ نے محسوس
کیا کہ اگر اب خاموشی اختیار کی تو ہمیشہ کیلئے مغلوب بن جائیں گے اسی بابت
مہاجرستان کا ایک اشو سامنے آیا ہے ۔ ایک برے مہاجر طبقہ نے محسوس کیا ہے
کہ اگر دیگر قوموں کو انتظامی امور پر صوبے منقسم کیئے جارہے ہیں تو وہ نسل
جو بانی ¿ پاکستان ہیں انہیں کیونکر صوبہ میسر نہیں؟؟ پاکستان کے وجود میں
آنے سے پہلے اس خطے میں رہنی والی اقوام انگریز کی غلام تھیں اور ان کے پاس
چند زمینیں انگریزوں کو خوش کرنے پر عطیہ پر ملی تھیں ، ماضی کو بھولنے سے
ماضی بدل نہیں جاتا ، حقائق کو چھپانے سے تاریخ نہیں بدلی جاسکتی بہتر تو
یہی ہے کہ سب کے ساتھ انصاف ہو اور تمام اقوام میں صوبوں کی تقسیم انصاف پر
یقینی بنانی چاہیئے تاکہ ہر قوم اپنے اپنے خطے میں رہ کر پاکستان کی بہتر
انداز میں خدمات پیش کرسکیں ۔ پاکستان اور بھارت کے وجود میں ایک دن کا فرق
ہے بھارت نے ضرورت وقت کو محسوس کرتے ہوئے کئی صوبے بنائے تاکہ انتظامی اور
سیاسی بگاڑ نہ ہوسکے اور جہموریت کو فائدہ ہو لیکن پاکستان میں جمہوری نظام
کے شیدائی جہموری اقدار کو جس طرح تہس نہس کررہے ہیں شائد ہی دنیا میں کہیں
اس کی کوئی مثال ملے، پاکستان میں مزید صوبے نہ صرف سر زمین پاک کیلئے بلکہ
جمہوریت کو تقویت پہچانے کیلئے بھی ناگزیر ہیں!! |