سربجیت یا سرجیت ” فرق صرف ب کا“

آپ نے یہ تو سنا ہی ہوگا کہ ایک نقطے کی وجہ سے انسان مجرم سے محرم ہوسکتا ہے اور محرم سے مجرم۔ لیکن گزشتہ روزحکومت ہاکستان کی جانب سے سربجیت سنگھ کی رہائی کے احکامات جاری ہوئے۔ سربجیت سنگھ کے گھر جشن کا سماں، مٹھائیاں تقسیم کی جارہی ہیں۔ انصار برنی میڈیا پر آکر اس کی رہائی کے گن گانے لگے۔ اس کے بعد وضاحتی بیان جاری ہونا اور پھر اس میں اس بات کا اظہار کرنا کہ وہ سربجیت سنگھ نہیں بلکہ سرجیت سنگھ کی رہائی کے احکامات جاری ہوئے ہیں۔ اس وضاحتی بیان کے بعد ایک چیز جو سیکھنے کو ملی ہے وہ یہ کہ ایک حرف کے ہونے نہ ہونے سے انسان آزاد اور قیدی بھی ہوسکتا ہے۔

بھارتی دہشت گرد سربجیت سنگھ پر عدالتی کارروائی کہ بعد یہ ثابت ہوچکا ہے کہ وہ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“کا ایجنٹ ہے اور1990میں لاہوراورملتان میں ہونے والے4 بم دھماکوں کا مرکزی کردار تھا اور اس نے اعتراف بھی کیاتھا ۔ ان بم دھماکومیں 14پاکستانی ہلاک ہوئے تھے اور 2006کو سپریم کورٹ نے سربجیت سنگھ کو سزائے موت کا حکم سنایا تھا جس پر عملدرآمد2008کو ہونا تھا۔ لیکن 4برس گزرجانے کے باجود عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ ہوا۔ پہلے اس فیصلے کو رکوانے میں سابق صدر پرویز مشرف کا ہاتھ تھااور اب باقی یہ کام صدر زرداری کی جانب سے ہورہا ہے۔اس وقت بھی پاکستان کی جانب سے یہی موقف اختیار کیا جاتا تھا کہ ایسے واقعات سے دونوں ممالک کے تعلقات میں پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہے لہذا معاملہ طول پکڑتا گیا اور غالباً اب بھی حکومت پاکستان کی جانب سے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ستم ظریفی تو یہ دیکھئے کہ ایک تو سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کو روک کر توہین عدالت کی جارہی ہے جبکہ دوسری طرف ایسے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں کہ کسی طرح بھارتی دہشتگردوں کو رہا کرکے آپسی تعلقات میں بہتری پیدا کی جائے۔

اسی لیے گزشتہ روز صدر پاکستان کی جانب سے وزارت قانون کو یہ ہدایت کی گئی کہ سربجیت سنگھ کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا جائے اور وزیر قانون فاروق ایچ نائق نے بادشاہ سلامت کے حکم کو بجا لاتے ہوئے وزارت داخلہ کو سمری ارسال کردی کہ سربجیت سنگھ کی رہائی کی تیاریاں کی جائیں۔اس کے بعد ہونا کیا تھا بھارت میں خوشیوں کے پروانے بجنے لگے اور بھارتی حکومت اور میڈیا نے اس اقدام کو سفارتی فتح قرار دے دیا۔جبکہ اس کے برعکس پاکستان میں تشویش کی لہر دوڑ پڑی کہ ایک دہشت گرد جس پر الزام ثابت ہوچکا ہے تو صدر پاکستان کیسے اپنی صوابدید پر رہائی کے احکامات جاری کرسکتے ہیں۔ابھی ملک میں اس معاملے پر بحث جاری ہی تھی کہ رات 12 بجے کے قریب صدارتی ترجمان کو وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا کہ آزادی کے احکامات سربجیت سنگھ کے نہیں بلکہ سرجیت سنگھ کے ہیں جس پر جاسوسی کا الزام تھا اور1989میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے اس کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا تھا۔ لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سرجیت سنگھ کی عمر قید کو سزائے موت میں غلام اسحاق خان نے تبدیل کر ہی دیا تھا تو پھر صدر زرداری کو کیوں یہ ضرورت پیش آئی کہ وہ دوبارہ سرجیت سنگھ کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کریں؟ ا سی لیے بار باریہ خیال پریشان کرتا ہے کہ کیا یہ معاملہ صرف ”ب“ کی غلطی کا ہی تھا یا اس کے پیچھے نیت کا فطور بھی ہے۔

ہمیں یہ بات ہر گزنہیں بھولنی چاہیے کہ پاکستان کی جانب سے 4 مارچ 2008 کو پاکستان نے کشمیر سنگھ کو رہا کرکے خیر سگالی کا پیغام پہنچایا تھا اور یہ محسوس ہورہا تھا کہ بھارت بھی انہیں روایات پر عمل پیرہ ہوکر پاکستانی قیدیوں کی رہائی ممکن بنائے گا۔لیکن بھارت نے اگلے روز اس خیرسگالی کا جواب 26 سالہ خالد محمود کی لاش کی شکل میں دیا۔ خالد محمود لاہور کا رہائشی تھا جو 2005ء میں پاک بھارت میچ دیکھنے کے لئے بھارت گیا تھا۔جس کے بعد بھارتی پولیس نے اسے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔اس خبر کی اطلاع خالد کے گھر والوں کو قریباً1سال بعد ملی اور خالد کے بھائی اور دیگر گھر کے افراد اس سے ملنے بھارت گئے۔خالد کے بھائی کے مطابق بھارتی پولیس نےخالد کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور 3 سال تک تشدد کا نشانہ بنا نے کے بعد 12 فروری کو اس کی ہلاکت واقع ہوئی۔ لیکن بھارت نے تقریباًایک ماہ تک اس دردناک خبر سے پاکستان اور خالد کے اہل خانہ کو آگاہ نہیں کیا اور کشمیر سنگھ کی رہائی کے اگلے روز ہی یہ اطلاع پہنچی۔

اگر ہم اتنے ہی رحم دل ہیں تو پھر بھارت ہمیں بدلے میں لاش کے تحفے کیوں دے رہا ہے؟ اگر ہماری اب بھی آنکھیں نہ کھلی اور اسی طرح ہم بھارت کے جاسوسوں کو رہا کرتے رہے تو ایک دن ہمیں پچھتانے کے ساتھ ساتھ اپنی بے وقوفی پر رونا پڑے گا۔
Aqeel Khan
About the Author: Aqeel Khan Read More Articles by Aqeel Khan: 147 Articles with 110763 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.