شدید ترین گرمی اور بیس بیس
گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کے ستائے ہوئے عوام ایک نئے انداز سے سڑکوں پر نکل آئے
۔پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ نواز پر الزام دھرا کہ سب کچھ پنجاب حکومت کی شہ
پر ہو رہا ہے ۔جب کہ میاں شہباز شریف صاحب نے ہاتھ جوڑ کر عوام سے املاک کو
نقصان نہ پہنچانے کی اپیل کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ احتجاج کرنے والوں
میں کچھ شر پسند بھی گھُس آئے ہیں ۔شاید حالات کی سنگینی کا ادراک نہ تو
مرکزی حکومت کو ہے اور نہ ہی پنجاب حکومت کو۔یہ تو اُس خانہ جنگی اور خونی
انقلاب کی دستک ہے جس کا متعدد بار خود میاں شہباز شریف بھی ذکر کر چُکے
ہیں ۔ لوڈ شیڈنگ کی بنا پر فیکٹریاں اور کارخانے بند ہو گئے، مزدور بھوکوں
مرنے لگے اور زندگی کا پہیہ جام ہو کے رہ گیا۔اسی بھوک کے ستائے ہوئے عوام
”مرتا کیا نہ کرتا “کے مصداق لوٹ مار پہ اُتر آئے ۔پچھلے تین دنوں میں
گوجرانوالہ ، فیصل آباد ، خانیوال اور کمالیہ میں جو کچھ ہوا وہ اُس خونی
انقلاب کا پیش خیمہ ہے جس کی دہائی گز شتہ چار سالوں سے اہلِ فکر و نظر
دیتے چلے آ رہے ہیں ۔ٹرینوں کو آگ لگانا ، بینک لوٹنا ،اے ٹی ایم توڑنا ،
تھانوں کو آگ لگانااور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے گھروں پر دھاوا
بولنا احتجاج نہیں بلکہ کسی اور جانب ہی اشارہ کر رہا ہے ۔کیا حکمران یہ
نہیں دیکھتے کہ احتجاج کرنے والوں کی لاشیں گِرتی چلی جا رہی ہیں لیکن پھر
بھی وہ پلٹ پلٹ کے حملہ آور ہو رہے ہیں ۔یہ خونی احتجاج یکے بعد دیگرے
مختلف شہروں کو اپنی لپیٹ میں لیتا چلا جا رہا ہے لیکن نتائج سے بے پرواہ
حکمران ا بھی تک اپنی کرپشن بچانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں ۔ایسے میں
سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ہے ۔
جو دانشور ، لکھاری اور سیاست دان ابھی تک یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ عوام میں
سیاسی شعور نہیں وہ جان لیں کہ محترم یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی کے
فوراََبعد لوڈ شیڈنگ ، کرپشن اور مہنگائی کے خلاف احتجاج کرنے والے عوام نے
احتجاج ختم کرکے بھنگڑے ڈالنے اور مٹھائیاں بانٹنی شروع کر دیں جو ان کی
بھر پور شعوری پختگی کا مظاہرہ ہے ۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ان کی
امیدوں کا چمن ایک بار پھر ہرا بھرا ہو گیا اورانہیں امید ہو چلی ہے کہ
شاید اب حالات میں کچھ بہتری کے آثار نظر آنے لگیں لیکن بد قسمتی سے ”ایں
خیال است و محال است و جنوں“۔وجہ یہ کہ عین اُس وقت جب سپریم کورٹ فیصلہ
سُنا رہی تھی ، ایوانِ صدر میں سی ای سی کا اجلاس جاری تھا جس میں یہ طے
کیا جا رہا تھا کہ جنابِ صدر ایک آرڈیننس کے ذ ریعے سپریم کورٹ کے فیصلے کو
کالعدم قرار دے کر معاملہ دوبارہ پارلیمنٹ میں بھیج دیں ۔جنابِ زرداری ایسا
ضرور کرتے لیکن تمام اتحادی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرنے
کا عندیہ دے دیا جس کی بنا پر حکومت کو چار و ناچار یہ تجویز واپس لینی پڑی
اور نئے وزیرِ اعظم کے انتخاب کے آپشن پر آنا پڑا ۔اس وقت وزارتِ عظمیٰ کے
لئے سب سے مضبوط اُمید وار جناب ِمخدوم شہاب الدین ہیں۔سوال مگر یہ ہے کہ
مخدوم صاحب ہوں یا کوئی اور ، اُن کی وزارتِ عظمیٰ کتنے دن چلے گی ؟۔سپریم
کورٹ کے مزاج سے تو واضح نظر آتا ہے کہ وہ حکومت کو مزید وقت دینے کو تیار
نہیں ۔جونہی نیا وزیرِ اعظم حلف اٹھائے گا سپریم کورٹ این آر او عمل درآمد
کیس میں اُسے سوئس حکومت کو خط لکھنے کا حکم دے گی۔ لیکن ہمہ مقتدر زرداری
صاحب نے تویہ اعلان فرما دیا ہے کہ”اگلا وزیرِ اعظم بھی سوئس حکومت کو خط
نہیں لکھے گا“۔گویا نئے وزیرِ اعظم پر بھی توہینِ عدالت کا اطلاق کرتے ہوئے
گھر بھیج دیا جائے گا؟ یہ سلسلہ آخر کب تک جاری رہ سکتا ہے ؟۔پھر سوال یہ
بھی ہے کہ کیا نو منتخب وزیرِ اعظم اور ان کی کابینہ اس کرپشن ، مہنگائی
اور لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر سکے گی؟۔میرے خیال میںہر ذی فہم کا ایک ہی قطعی
جواب ہو گا کہ نہیں ۔ایسی صورت میں کیا ہمارے سیاست دانوں نے حالات کی اس
ہولناکی کا ادراک کیا ہے جس کا آنے والے دنوں میں ان کو سامنا ہو گا ؟۔جب
حالات میں کوئی بہتری نہ پا کر پورا پاکستان مرنے مارنے پرتل جائے گا تو
کیا فوج سمیت کوئی ادارہ بھی انہیں روک پائے گا؟۔ہمارے دانشور انقلاب کی
باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن شاید انہیں اس کی دہشت ناکی کا ادراک نہیں یا
شایدوہ ادراک کرنا ہی نہیں چاہتے ۔عرض ہے کہ جب پسینے سے بھیگے ہوئے بد بو
دار کسانوں نے فرار ہوتے فرانسیسی شاہ لوئی کو گرفتار کرکے پیرس کے چوراہے
پر اس کا سر قلم کیا تو انقلابی ڈانٹون کے حکم پر شاہ لوئی کی کھوپڑی کے
ساتھ کسانوں نے پیرس کی گلیوں میں فُٹ بال کھیلا ۔ پھر ڈانٹون نے نفرت سے
کھوپڑی پر تھوکتے ہوئے یہ کہا ”اس سر کے ٹکڑے کرکے اس کے دوست ملکوں کو
بھیج دو “۔ پچھلے چند دنوں کے واقعات میں مجھے عوامی نفرت کی وہی بو محسوس
ہوئی جس کا شاہ لوئی اور اس کے حواری ادراک کر سکے اور نہ ہی ہمارے
حکمرانوں کو ادراک ہے۔ ایوانِ صدر کے بزرجمہر سیاسی چالوں کے بل بوتے پر
اپنا وزیرِ اعظم منتخب کروانے کی تگ و دو میں ہیں ۔شنید ہے کہ ق لیگ کے
مطالبے پر ایک آرڈیننس کے ذریعے ڈپٹی پرائم منسٹر کا عہدہ پیدا کیا جا رہا
ہے اور جنابِ پرویز الٰہی یہ عہدہ سنبھالنے کے لئے اپنا آپریشن ادھورا چھوڑ
کر انگلینڈ سے آج رات وطن واپس پہنچ رہے ہیں ۔ادھر ایم کیو ایم نے اپنے
مطالبات کی ایک طویل فہرست جنابِ زرداری کو تھما دی ہے اور اسی کی شہ پر
مہاجر صوبہ تحریک کے صدر نے اپنی جد و جہد تیز کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔مولانا
فضل ا لرحمٰن ”تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو“کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں اور
زرداری صاحب کے دل کے بہت قریب اے این پی بھی خاموش تماشائی ہر گز نہیں ۔
دوسری طرف نواز لیگ نے جنابِ مہتاب عباسی کو وزارتِ عظمیٰ کا امید وار
نامزد کرکے سیاسی جماعتوں سے رابطے شروع کر دیئے ہیں حالانکہ اکابرینِ نواز
لیگ خوب جانتے ہیں کہ یہ محض کارِ بیکار ہے۔میاں نواز شریف صاحب نے عدلیہ
کے فیصلے کے بعد فرمایا کہ اگر اس حکومت کو مزید چھ ماہ مل گئے تو پھر
تباہی ہی تباہی ہے ۔اسی دن جنابِ شہباز شریف سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ
کیا نواز لیگ اپنا امید وار لا رہی ہے تو میاں صاحب نے انتہائی تلخی سے
فرمایا ”آپ کو یہ خواب آیا کیسے؟۔لیکن چند گھنٹوں کے اندر ہی یہ خواب حقیقت
میں ڈھل گیا ۔سوال مگر یہ ہے کہ کیا نواز لیگ اپنا امید وار لا کر موجودہ
حکمرانوں کو گھر کی راہ دکھلانے میں کامیاب ہو جائے گی؟۔کیا یہ بہتر نہ
ہوتا کہ وہ اس” فضول پریکٹس “کی بجائے اپنی تمام تر توانائیاںفوری انتخابات
کے مطالبے پر صرف کر دیتی ؟۔ادھر عمران خاں صاحب کی ”سوئی“ ابھی تک نواز
لیگ پر ہی اٹکی ہوئی ہے ۔وہ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ جنابِ زرداری کی صدارت
میںشفاف انتخابات کا انعقاد نا ممکن ہے لیکن پھر بھی وہ اپنے ”تخیلاتی“
سونامی کو سڑکوں پر لانے کے لئے تیار نہیں ۔اس لئے فی الحال تو حالات میں
کسی بہتری کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا اور محسوس یوں ہوتا ہے کہ
اداروں کا بد ترین ٹکراؤ ہونے کو ہے لیکن عوام کو اس سے کچھ لینا دینا نہیں
۔ان کے مطالبات کچھ اور ہیں جن پر وہ اب قطعاََ کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار
نہیں اور نہ ہی موجودہ حکمرانوں سے عوامی مطالبات پورے ہونے کی کوئی توقع
ہے ۔پھراہلِ نظر خود ہی فیصلہ کر لیں کہ ہم کس راہ پہ گامزن ہیں ۔ |