کوئٹہ میں ایک اور افسوس ناک
واقعہ پیش آیا جس نے ملک پر چھائی سوگوار کیفیت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
ایران سے کوئٹہ آنے والی زائرین کی بس پر راکٹ حملے اور اس کے بعد خود کش
حملہ آور کے بارود سے بھری گاڑی ٹکرانے سے13 زائرین جاں بحق اور 24 سے زائد
زخمی ہوگئے۔تفصیلات کے مطابق بس پر پہلے ایک راکٹ فائرکیا گیا جو بس کولگا
جس کے بعد خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی ٹکرا دی جس کے باعث بس الٹ
کر 50 فٹ دورجا گری اوراس میں آگ لگ گئی فوری طور پر بارہ افراد جاں بحق
اور24کے زخمی ہوگئے۔ اس موقع پر قیامت خیز منظر تھا کئی زائرین کے جسموں کے
ٹکڑے بکھرے ہوئے تھے سامان جل رہا تھا اور زخمی افرادکی چیخ و پکار تھی
اورمدد مانگ رہے تھے جبکہ جاں بحق افراد میں سے کئی کے جسم کے ٹکڑے اردگرد
پھیل گئے ۔ اس سے قبل بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں تخریب کاری میں
اضافہ ہوا ہے۔
صوبہ بلوچستان میں امن عامہ کی بگڑتی صورتحال پراپنی تشویش اور برہمی کا
اظہار تو سبھی کرتے ہیں مگر اس کے حل کی جانب عملی اقدامات اٹھانے کی کوشش
کبھی کسی نے نہیں کی ۔ صوبہ بلوچستان کے ایوان اقتدار کے مزے تو بہت سی
حکومتوں نے لوٹے مگر وہاں کی اقتصادی اور سیاسی صورتحال میں بہتری لانے کے
وعدے اور دعوے کبھی حقیقت کا روپ نہ دھار سکے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے
اس سرد مہری پربعض بلوچ حلقوں میں بغاوت کے جذبات پیدا ہوئے جووقت کے ساتھ
ساتھ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔دنیا کے ماضی سے حال کی طرف آئیں تو کوئی ملک
یا قوم ایسی نہیں گزری جس کے دائرہ حکومت کے زیر اثر صوبوں، یونٹوں یا
ریاستوں کے مرکز سے اختلافات نہ ہوں۔ اختلافات اور مفاہمت سیاست، سفارت اور
ملکی امور کا حصہ ہوتے ہیں۔ ایک ہی قوم ، مذہب ، نسل یا صوبے سے تعلق رکھنے
والے مختلف بنیادوں پر اپنے حقوق کی آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ اس کا منطقی
اور پرامن حل مذاکرات ہوتے ہیں۔ ہاں اگر مذاکرات میں لیت ولعل اور ضد حائل
ہوجائے تو صورتحال آگ اور خون کا روپ دھار لیتی ہے۔ جس کا انجام انسانی
جانوں کے ضیاع، بدامنی اور خانہ جنگی کی صورت میں نکلتا ہے۔یہ اندرونی
معاملات اس وقت خطرناک رخ اختیار کرلیتے ہیں جب اس ملک کے دشمن بھی درپردہ
حکومت مخالف افراد یا گروہ کی پشت پناہی شروع کردیتے ہیں یا اپنے ایجنٹوں
کے ذریعے جلتی پر تیل کا کام لیتے ہیں۔
صوبہ بلوچستان بھی کچھ ایسا ہی منظر پیش کررہا ہے۔ وہاں غیرملکی عناصر نے
اسی محرومی کو بنیاد بنا کروہاں کے نوجوانوں کو وفاق کے خلاف بغاوت پر
آمادہ کیاہے۔ اس سلسلے میں را کافی متحرک ہے اور افغانستان کو بیس کیمپ بنا
کر اس کے ایجنٹ براہِ راست بد امنی پھیلانے کا موجب بن رہے ہیں۔ اطلاعات کے
مطابق پاک افغان سرحد کے ساتھ بھارت کے متعدد قونصل خانے صوبہ بلوچستان میں
دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ اس بات کا انکشاف حال ہی میں لاپتہ افراد کے بارے
میں بننے والے کمیشن کے سربراہ جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال اور آئی جی ایف
سی بھی کرچکے ہیں کہ بلوچستان میں بیرونی مداخلت ہورہی ہے اور یہاں 121
فراری کیمپ کام کررہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کیخلاف 30 کیمپ
افغانستان میں کام کررہے ہیں جبکہ یہاں 20 ممالک کی ایجنسیاں سرگرم عمل ہیں۔
انکے بقول گڑبڑ پھیلانے والوں کو اسلحہ اور ڈالر باہر سے مل رہے ہیں۔
صوبہ بلوچستان میں عالمی مداخلت ویسے تو بہت عرصے سے جاری ہے مگراس میں شدت
اس وقت آئی جب 2003ءمیں حکومت کی طرف سے وہاں ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا
گیا۔ حکومت کی کوشش تھی کہ وہاں کے پسماندہ علاقوں کی معاشرتی اور اقتصادی
حالت کو بہتر بنانے کے لئے براہِ راست اقدامات کئے جائیں اور اس سلسلے میں
کسی علاقے کے ساتھ امتیازی سلوک روا نہ رکھا جائے۔ یہ اقدام بھلا ان
سرداروں اور نوابوں کو کیسے ہضم ہوسکتا تھا جو عرصہ دراز سے ترقیاتی
منصوبوں کی مد میں وصول رقموں کواپنی ذاتی جیب میں ڈالنے کے عادی تھے۔
ردعمل کے طور پر انہوں نے اغیار سے مل کر ہتھیار اٹھا لئے اور حکومت کی طرف
سے شروع کئے جانے والی تمام ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ ڈالنا شروع کردی۔
جہاں کہیں بھی عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کے سلسلے میں عملی اقدامات کی
کوشش کی گئی،یہ عناصر ان کی راہ میں حائل ہوگئے۔ یہ منصوبے ہندو پالیسی
سازوں کی آنکھ کااس لئے کانٹا ہیں کیونکہ وہ پاکستان کو اقتصادی سرگرمیوں
کا مرکز بنتا دیکھ نہیں سکتے لہٰذانہوںنے بلوچ قوم پرستوں کے ذہنوں میں زہر
گھولنا شروع کیا کہ وفاقی حکومت بلوچوں کے وسائل پر قبضہ کرلینا چاہتی ہے۔
اس کے علاوہ لاپتہ افراد، سیاسی انتقام،بے گھر ہونے والے افراد کی مشکلات
اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا خوب پراپیگنڈہ کیا گیا۔ گوادر بندرگاہ کی
تعمیر میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ وہاں پنجابی افراد کی
تعداد بڑھنے سے بلوچی اقلیت میں چلے جائیں گے۔ اان کی طرف سے شدت پسندوں کو
بیرون ملک پناہ گاہیں فراہم کی گئیں۔ علاوہ ازیں وہاں قائم فوجی چھاﺅنیوں
کے خلاف بھی معاندانہ رویہ اختیار کرنے کے لئے انہیں ورغلایاگیا۔ صوبے میں
بدامنی پھیلانے اور علیحدگی پسند تحریک کے لئے را کے ایجنٹ افغانستان میں
اپنے قونصل خانوں کے علاوہ میڈیکل یا تعمیراتی مشن کے روپ میں موجود ہیں۔
جو شدت پسند عناصر کو اپنے ہاں بلاتے کر تخریب کاری کی تربیت اور ہدایات
دیتے ہیں۔
بھارت کی اس مداخلت کے بہت سے ثبوت خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے حکومت کے پاس
موجود ہیں۔جنہیں عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم پاکستان کے
وقار کے لئے قومی یکجہتی کو فروغ دیں اور اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے
اپنا اپنا کردار ادا کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ بھارت کی ان تمام ریشہ
دوانیوں کا توڑ کرسکیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انتظامیہ اور جمہوری حکومت
اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ صوبے میں بدامنی اسی وقت جڑ سے ختم ہوسکتی ہے
جب تمام قبائل بلا امتیاز مذاکرات کی راہ اپنائی جائے۔ ناراض بلوچیوں کو
بھی اس بات کا اداراک اور شعور ہونا چاہئے کہ وہ پاکستانی ہیں لہٰذا اپنے
معاملات میں غیروں بلکہ ازلی دشمن سے مدد کسی بھی طرح دانشمندی اور غیرت
مندی کے زمرے میں نہیں آتی۔ جس طرح بلوچ عوام آزادی سے پورے پاکستان میں
رہنے اور بسنے کا حق رکھتے ہیں اسی طرح دوسرے پاکستانی خواہ وہ کسی بھی
صوبے سے تعلق رکھتے ہوں صوبہ بلوچستان میں آزاد زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ کوئی
گروہ یا فرد ان کو اس حق سے محروم نہیں کرسکتا۔ اسی طرح صوبے کے وسائل پر
پہلا حق وہاں کے عوام کا ہے ۔ حکومت انہیں یہ حق فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ
وہاں کے عوام کے لئے ترقیاتی سکیموں کے لئے عملی اقدامات کرے۔نئے وزیر اعظم
راجہ پرویز اشرف نے بھی کابینہ کے پہلے اجلاس میں بلوچ عوام سے کئے گئے
وعدوں کو پورا کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے جو کہ ایک مثبت قدم ہے۔ |