احکام شریعت(مسائل اور جوابات) زکوۃ اول

اسلام نے اپنے ماننے والوں کو غریب لوگوں کی مدد کا درس اس انداز میں دیا ہے کہ دنیا کے کسی اور مذہب میں اس کی نظیر نہیں اسلام نے صاحب حیثیت افراد پر سال میں ایک مرتبہ زکوۃ کی صورت میں غریبوں تک اپنے مال کا چالیسواں حصہ پہنچانے کو فرض قرار دیا اورسال میں جتنی مرتبہ فصل کی کاشتکاری کی جائے ہر دفعہ بعض صورتوں میں فصل کا دسواں اور بعض صورتوں میں فصل کا بیسواں حصہ مستحقین تک پہنچانے کو لازم فرمایا تاکہ معاشرے میں موجود غریب مسلمانوں کی مالی اعانت ہوسکے اور اس طرح مسلمانوں میں آپس میں محبت اور اتحاد بھی قائم ہو اور یہ بھی کہ ایسا نہ ہو کہ مال صرف ایک طبقہ میں ہی گردش کرتا رہے جوکہ فساد کا داعی ہے کیونکہ جب غریب غربت سے تنگ آجائیں گے تو پھر مارا ماری ہوگی قتل و غارت گیری ہوگی اور پھر کسی مالدار کا مال محفوظ نہ رہے گا
تو اسی لئے فرمایا کہ
'اپنے مالوں کو زکوۃ دے کر مضبوط قلعوں میں کر لو اور اپنے بیماروں کا علاج خیرات سے کرو۔'' (مراسیل ابی داؤد مع سن ابی داؤد )

اوریہ حفاظت ہر اعتبار سے ہے روحانی بھی اور معاشرتی بھی رسول اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلّم فرماتے ہیں کہ
''جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردی بے شک اللہ تعالیٰ نے اس سے شر کو دور کردیا ۔''
(المعجم الاوسط،)
حدیث پاک
''خشکی وتری میں جو مال ضائع ہوا ہے وہ زکوٰۃ نہ دینے کی وجہ سے تلف ہوا ہے ۔''
(مجمع الزوائد،کتاب الزکوٰۃ)
لہذا زکوۃ یہ نظام زندگی کا ایک اہم حصہ ہے جس کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے

نیزاسلام نے اپنے ماننے والوں کوزکوۃ ادا کر نے پر ثواب اور جنت کی بشارت کی نوید بھی سنائی تاکہ اس نیک کام کوکرنے کا جذبہ پیدا ہوفرمان رب العالمین عزوجل
والذین ھم للزکوۃ فاعلون
فلاح پانے والے ہیں وہ جو زکوۃ ادا کرتے ہیں
سورۃ المومنون پ۱۸

وَ رَحْمَتِیۡ وَسِعَتْ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ فَسَاَکْتُبُہَا لِلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ وَ یُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ
اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہے تو عنقریب میں نعمتوں کو ان کے لئے لکھ دوں گا جو ڈرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں ۔(پ۹،الاعراف۱۵۶)

اور زکوۃ ادا نہ کرنے پر مذمت اور جہنم اور عذاب کی وعیدیں بھی سنائی تاکہ اس نیکی کو چھوڑا نہ جائے
حدیث پاک
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، ''جس مال کی زکاۃ نہیں دی گئی، قیامت کے دن وہ مال گنجا سانپ ہوگا، مالک کو دوڑائے گا، وہ بھاگے گا یہاں تک کہ اپنی انگلیاں اُس کے مونھ میں ڈال دے گا۔

حضرت بُریدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) فرماتے ہیں: ''جو قوم زکاۃ نہ دے گی، اﷲ تعالیٰ اسے قحط میں مبتلا فرمائے گا۔''
(المعجم الاوسط،)

رسول اللہ ﷺ نے ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
''زکوۃ کا مال جس میں ملا ہوگا اسے تباہ وبرباد کردے گا ۔''
(شعب الایمان،باب فی الزکوٰۃ)


مزید یہ کہ زکوۃ دینے والے کے دل میں یہ وسوسہ نہ آئے کہ میرا مال کم ہو رہا ہے اور وہ اللہ کی راہ میں مال دینے سے کترا ئےتو اللہ تبارک وتعالی نے قرآن مجید میں مال میں برکت و اضافہ کا طریقہ ارشاد فرمایا
وَ مَاۤ اَنۡفَقْتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَہُوَ یُخْلِفُہٗ ۚ وَ ہُوَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ
اور جو کچھ تم خرچ کرو گے، اﷲ تعالیٰ اُس کی جگہ اور دے گا اور وہ بہتر روزی دینے والا ہے۔

اور ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا
مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمْوَالَہُمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَاللہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۶۱﴾اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمْوَالَہُمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوۡنَ مَاۤ اَنۡفَقُوۡا مَنًّا وَّلَاۤ اَذًی ۙ لَّہُمْ اَجْرُہُمْ عِنۡدَ رَبِّہِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿۲۶۲﴾

ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں،ہربال میں سودانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے ، وہ جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ،پھر دیئے پیچھے نہ احسان رکھیں نہ تکلیف دیں ان کا نیگ (انعام)ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم۔ (پ۳،البقرۃ:۲۶۱،۲۶۲)

مُفسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں ،زکوٰۃ دینے والے کی زکوٰۃ ہر سال بڑھتی ہی رَہتی ہے۔ یہ تجرِبہ ہے۔ جو کسان کھیت میں بیج پھینک آتا ہے وہ بظاہِر بوریاں خالی کر لیتا ہے لیکن حقیقت میں مع اضافہ کے بھر لیتا ہے۔ گھر کی بوریاں چوہے، سُرسُری وغیرہ کی آفات سے ہلاک ہو جاتی ہیں یا یہ مطلب ہے کہ جس مال میں سے صَدَقہ نکلتا رہے اُس میں سے خرچ کرتے رہو ، اِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ بڑھتا ہی رہے گا،کُنویں کا پانی بھرے جاؤ ، تو بڑھے ہی جائے گا۔
( مرأۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح)

زکوۃ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں عبادات میں نماز کے بعد سب سے زیادہ زکوۃ کا ذکر ہے اور ان دونوں کو قرآن پاک میں ایک ساتھ ۸۲ مقام پر جمع فرمایا گیا اور زکوۃ کو دین اسلام کا رکن بھی فرمایا گیا ہے چنانچہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا کہ
اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے ،اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد( صلی اللہ تعا لیٰ علیہ واٰلہ وسلم) اس کے رسول ہیں ، نماز قائم کرنا،زکوٰۃ ادا کرنا ، حج کرنا اوررمضان کے روزے رکھنا۔
مذکورہ فرمانِ عظمت نشان میں نماز کے بعد جس عبادت کا ذکر کیا گیا ہے وہ زکوٰۃ ہے ۔زکوٰۃ اسلام کا تیسرارُکن اور مالی عبادت ہے ۔


زکوٰۃ کی ادائیگی کے فضائل پانے اور عدمِ ادائیگی کے نقصانات سے بچنے کے لئے زکوٰۃ کے شرعی مسائل کا سیکھنا بے حدضرور ی ہے ۔ مگر صدحیف کہ علمِ دین کی کمی کی وجہ سے مسلمانوں کی اکثریت احکام شریعت سے ناواقف ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات کسی پر زکوٰۃ فرض ہوچکی ہوتی ہے لیکن وہ اس سے لاعلم ہوتا ہے ۔ اسی طرح زکوۃ مستحق تک پہنچانے کے بجائے کسی ایسے شخص کودیدتےہیں کہ جو زکوۃ لینے کا مستحق ہی نہیں تھا پھر نتیجہ کیا نکلا کہ ایسے بے علم لوگوں کی زکوۃ بعض صورتوں میں ادا ہی نہیں ہوتی یاد رکھئے کہ مالکِ نصاب ہونے کی صورت میں زکوٰۃ کے مسائل سیکھنا فرض ِ عین ہے

زکوۃ کے مسا ئل
سوال :زکوۃ کب فرض ہو ئی
جواب: زکوٰۃ2ہجری میں روزوں سے قبل فرض ہوئی۔

سوال :زکوۃ کسے کہتے ہیں
جواب: زکوٰۃ شریعت کی جانب سے مقرر کردہ اس مال کو کہتے ہیں جس سے اپنا نفع ہر طرح سے ختم کرنے کے بعد رضائے الہٰی عَزَّوَجَلَّ کے لئے کسی ایسے مسلمان فقیر کی ملکیت میں دے دیا جائے جو نہ تو خود ہاشمی ہو اور نہ ہی کسی ہاشمی کا آزاد کردہ غلام ہو ۔


سوال:زکوۃ کس پر فرض ہے
جواب: زکوٰۃ دیناہر اُس عاقل، بالغ اور آزاد مسلمان پر فرض ہے جس میں یہ شرائط پائی جائیں:
(1) نصاب کا مالک ہو ۔
(2) یہ نصاب نامی ہو ۔
(3) نصاب اس کے قبضے میں ہو ۔
(4) نصاب اس کی حاجتِ اصلیہ(یعنی ضروریاتِ زندگی)سے زائد ہو۔
(5) نصاب دَین سے فارغ ہو(یعنی اس پر ایسا قرض نہ ہو جس کا مطالبہ بندوں کی جانب سے ہو ،کہ اگر وہ قرض ادا کرے تو اس کا نصاب باقی نہ رہے ۔)
(6) اس نصاب پر ایک سال گزر جائے ۔

شرائط کی تفصیل
نصاب کا مالک
مالک ِ نصاب ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس شخص کے پاس ساڑھے سات تولے سونا ،یا ساڑھے باون تولے چاندی ،یا اتنی مالیت کی رقم ، یا اتنی مالیت کا مال ِ تجارت یا اتنی مالیت کا حاجاتِ اصلیہ (یعنی ضروریاتِ زندگی) سے زائد سامان ہو ۔


مالِ نامی کا مطلب

مال ِنامی کے معنی ہیں بڑھنے والامال خواہ حقیقۃً بڑھے یا حکماً،اس کی 3 صورتیں ہیں:
(1) یہ بڑھناتجارت سے ہوگا ،یا
(2) اَفزائشِ نسل کے لئے جانوروں کو جنگل میں چھوڑ دینے سے ہوگا،یا
(3) وہ مال خَلْقِی (یعنی پیدائشی)طور پر نامی ہوگا جیسے سونا چاندی وغیرہ


حاجتِ اَصلیہ کسے کہتے ہیں؟

حاجتِ اصلیہ (یعنی ضروریاتِ زندگی) سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کی عموماً انسان کو ضرورت ہوتی ہے اور ان کے بغیر گزراوقات میں شدید تنگی ودشواری محسوس ہوتی ہے جیسے رہنے کا گھر ، پہننے کے کپڑے، سواری ، علمِ دین سے متعلق کتابیں، اور پیشے سے متعلق اوزار وغیرہ۔

مثلاً جنہیں مختلف لوگوں سے رابطہ کی حاجت ہوتی ہوان کے لیے ٹیلی فون یا موبائل ،جو لوگ کمپیوٹر پر کتابت کرتے ہو ں یا اس کے ذریعے روزگار کماتے ہوں ان کے لیے کمپیوٹر ، جن کی نظر کمزور ہو ان کے لیے عینک یا لینس جن لوگوں کو کم سنائی دیتا ہو ان کے لیے آلہ سماعت، اسی طرح سواری کے لیے سائیکل ' موٹر سائیکل یا کار یا دیگر گاڑیاں ' یا دیگر اشیاء کہ جن کے بغیر اہل حاجت کا گزارہ مشکل سے ہو،حاجتِ اصلیہ میں سے ہیں ۔



خلاصہ کلام یہ کہ زکوٰۃ تین قسم کے مال پر ہے۔
(۱) سونا چاندی۔(کرنسی نوٹ ، بونڈ وغیرہ بھی انہی کے حکم میں ہیں بشرطیکہ ان کارواج اور چلن ہو۔)
(۲) مالِ تجارت۔
مال ِ تجارت اُس مال کو کہتے ہیں جسے بیچنے کی نیت سے خریدا گیا ہے اور اگر خریدنے یا میراث میں ملنے کے بعد تجارت کی نیت کی تو اب وہ مالِ تجارت نہیں کہلائے گا ۔
مثلاً زید نے موٹرسائیکل اس نیت سے خریدی کہ اسے بیچ دوں گا اور نفع کماؤں گا تو یہ مالِ تجارت ہے اور اگر اپنے استعمال کے لیے خریدی تھی ،اُس وقت بیچنے کی نیت نہیں تھی صرف استعمال کی تھی مگر خریدنے کے بعد نیت کرلی کہ اچھے دام ملیں گے تو بیچ دوں گا یا پختہ نیت ہی کرلی کہ اب اس کو بیچ ڈالنا ہے تب بھی زکوٰۃ فرض نہیں ہوگی کیونکہ خریدتے وقت کی نیت پر زکوٰۃ کے احکام مرتب ہوں گے۔

(۳) سائمہ یعنی چرائی پر چھوڑے ہوئے جانور۔جو کہ سال کا اکثر حصہ جنگل وغیرہ میں چر کر گزارے اور جنہیں خود خرید کر چارہ کھلاتے ہوں وہ سائمہ جانور نہیں

لہذا ان تین اموال(یعنی سونا چاندی کرنسی نوٹ وغیرہ ،مال تجارت اور سا ئمہ جانور) میں سے کو ئی چیزہو اور وہ نصاب (یعنی سونا کا نصاب ساڑھے سات تولہ ،چاندی ساڑھے باون تولہ اور مال تجارت و کرنسی ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کا ہو)کو پہنچتی ہو پھر اس پر سال گزر جا ئے تو اب اس کی زکوۃ دینا لازم ہے بشرطیکہ جس کے پاس یہ مال ہے وہ اتنا مقروض نہ ہو کہ قرض اتارنے کے بعد اس کا نصاب زکوۃ باقی نہ رہے

اور اگر ان تین اموال کے علاوہ کوئی شئی لاکھوں روپے کی مالیت کی بھی ہو مگر وہ ان تین قسم کے اموال میں سے نہ ہو تو اس پر زکوۃ نہیں مثلا اگر کسی کے پا س دو گھر ہیں ایک میں خود رہتا ہے اور دوسرا کرایہ پر دیا ہوا ہے تو دوسرا گھر اگرچہ اس کی حاجت اصلیہ میں شامل نہیں مگر اس گھر پر زکوۃ بھی نہیں کیونکہ یہ گھر ان اموال(سونا چاندی کرنسی نوٹ، مال تجارت و سائمہ) میں سے نہیں کہ جن پر زکوۃ واجب ہوتی ہے ہاں اگر کسی گھر کو تجارت کی نیت سے خریدا ہو پھر اس پر ایک سال گزرجائے تو اب اس پر بھی زکوۃ ہوگی کیونکہ وہ تجارت کی غرض سے لیا ہے یا اس گھر کے کرایہ کو جمع کیا حتی کہ وہ کرایہ کی رقم نصاب زکوۃ کو پہنچ جائے تو اس رقم پر زکوۃ ہوگی۔



سوال : زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا نیز سال گزرنے سے کونسا سال مراد ہے شمسی یا قمری ؟
جواب: جس تاریخ اوروقت پر آدمی صاحبِ نصاب ہُوا جب تک نصا ب رہے وہی تاریخ اوروقت جب آئے گا اُسی منٹ سال مکمل ہوگا۔
سال گزرنے میں قَمری(یعنی چاند کے)مہینوں کا اعتبار ہوگا ۔شمسی مہینوں کا اعتبار حرام ہے ۔


سوال :سونے چاندی کرنسی نوٹ اور مال تجارت کا نِصاب کیا ہے
جواب: سونے کا نصاب ساڑھے سات تولے ہے
چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولے ہے
اور اگر کرنسی نوٹ ہو یا مال تجارت ہو تو فی زمانہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کو پہنچ جا ئے یا اس سے زائد مالیت ہو تو اس پر بھی زکوۃ ہوگی اور اگر ساڑھے باون تولہ کی رقم سے کم ہو تو پھر زکوۃ نہیں۔


سوال :صاحب استطاعت کوکتنی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی؟
جواب:جس پر زکوۃ فرض ہو اس کو نصاب کا چالیسواں حصہ (یعنی 2.5%) زکوٰۃ کے طور پر دینا ہوگا۔آسان طریقہ یہ ہے کہ کل مال کو چالیس (۴۰) سے تقسیم کردیں تو جو جواب آئے اتنی رقم نکالنے سے زکوۃ ادا ہوجائے گی
مثلاکسی کے پاس ۵لاکھ روپیہ رکھا ہے تو وہ ۵ لاکھ کو چالیس سے تقسیم کرئے گا تو جواب ۱۲۵۰۰
آئے گا تو اس پانچ لاکھ پر بارہ ہزار پانچ سو روپے دینے سے اس کی زکوۃ مع صدقہ ادا ہو جائے گی
اس طرح تھوڑی رقم زائد چلی جائے گی لیکن زکوٰۃ مکمل ادا ہونا یقینی ہے اور زائد رقم نفلی صدقہ شمار ہوگی۔

سوال: کسی کے پاس سونا سات تولہ سے کم ہے یا چاندی ساڑھے باون تولہ سے کم ہو تو کیا اس پر بھی زکوۃ ہوگی
جواب اگر صرف سونا ہے چاندی یا بونڈیانوٹ وغیرہ نہیں ہے تو اس صورت میں صرف سات تولہ سونا ہو تو اس کی زکوۃ نہیں اسی طرح چاندی وغیرہ کا حکم ہے کہ جب صرف ایک قسم کا مال ہو اور وہ اپنے نصاب کو نہ پہنچے تو اس کی زکوۃ نہیں


اوراگر مختلف مال ہوں اور کوئی بھی نصاب کو نہ پہنچتا ہو مثلاً سونا ساڑھے سات تولہ سے کم ہے ، چاندی ساڑھے باون تولہ سے کم ہے یا مالِ تجارت یاکرنسی ساڑھے باون تولہ چاندی کی رقم کو نہیں پہنچتا ہو
مگر اس کے پا س دو یا اس زا ئدقسم کے مال زکوۃ ہو اور وہ تمام ہی اپنے نصاب سے کم ہو تو تمام مال کو مِلا کر اس کی کل مالیت نکالی جائے گی اور پھر وہ کسی نصاب زکوۃکو پہنچ جا ئے تو اس کی زکوٰۃ ی جائے مثلا سات تولہ سونا ہے تو سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ ہے اور یہ نصاب سے کم ہے لہذاصرف سونا ہونے کی صورت میں زکوۃ نہیں دینگے اگرچہ کہ یہ لاکھوں کی مالیت کا ہے
اوردس تولہ چاندی ہے تو اس کابھی نصاب یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی پورا نہیں ہے لہذا صرف چاندی ہو تو اس پر بھی زکوۃ نہ ہو۔
اسی طرح کرنسی نوٹ جو کہ حاجت اصلیہ کے علاوہ ہوں مثلا کسی کو دس ہزار ادھار دے رکھے ہیں یا بینک میں ہیں وغیرہ وغیرہ تو یہ بھی اپنے نصاب یعنی فی زمانہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کو نہیں پہنچے تو صرف یہ ہی پونجی ہو تو اس پر بھی زکوۃ نہ ہوگی
لیکن اس شخص کے پاس یہ تینوں یا سونا اور چاندی ہو یعنی ایک سے زائد اموال زکوۃ ہو ں تو اگر یہ نصاب کو نہ پہنچتے ہوں تو تمام کو ملا لیں پھر اگر یہ مل کر کسی نصاب کو پہنچ جائیں تو ان کی زکوۃ دیں اور اگر پھر بھی نصاب زکوۃ کو نہ پہنچیں تو زکوۃ نہیں تو مذکورہ صورت میں سات تولہ سونے کی مالیت اوردس تولہ چاندی کی مالیت کو ملائیں گےتو یہ چاندی کے نصاب کی مالیت سے زائد ہو گا لہذا اب اگر چہ سونا سات تولہ اور چاندی دس تولہ الگ الگ اپنے اپنے نصاب کو نہیں پہنچتی تھی مگر ان دونوں کو ملانے پر یہ چاندی کے نصاب سے زائد مالیت کے ہوگےی ہیں لہذا اب اس کل رقم کی زکوۃ ادا کردیں یعنی کل مال کا چالیسواں حصہ زکوۃکسی شرعی فقیر کو دیدینے سے زکوۃ ادا ہو جائے گی۔


سوال : زکوۃ کس کو دیں شرعی فقیر کسے کہتے ہیں
جواب :زکوۃ کے مختلف مصارف ہیں ان میں سے ایک شرعی فقیر ہے لہذا شرعی فقیر کو زکوۃ دےدیں

شرعی فقير: وہ ہے کہ جس کے پاس کچھ نہ کچھ ہو مگر اتنا نہ ہوکہ نِصاب (فی زمانہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی رقم)کو پَہنچ جائے يانِصاب کی قَدَر توہو مگر اس کی حاجتِ اَصلِيہ (يعنی ضَرورياتِ زندَگی ) ميں مُسْتَغْرَق(گِھراہوا ) ہو ۔مَثَلاً رہنے کا مکان، خانہ داری کا سامان، سُواری کے جانور( یا اسکوٹر یا کار) کاریگروں کے اَوزار، پہننے کے کپڑے ،خِدمت کیلئے لونڈی ،غلام، عِلمی شُغْل رکھنے والے کے لیے اسلامی کتابيں جو اس کی ضَرورت سے زائد نہ ہوں اِسی طرح اگر مَديون ( مَقروض ) ہے اور دَین ( قَرضہ ) نکالنے کے بعد نِصاب باقی نہ رہے تو فقير ہے اگر چہِ اس کے پاس ايک تو کيا کئی نِصابيں ہوں ۔



والسلام مع الاکرام
ابو السعد مفتی محمد بلال رضا قادری
mufti muhammed bilal raza qadri
About the Author: mufti muhammed bilal raza qadri Read More Articles by mufti muhammed bilal raza qadri: 23 Articles with 74718 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.